نسخ کی حمایت میں۔۔۔

زیک

مسافر
ریفارم کرنا اور رسم الخط ہی بدل لینا دو مختلف چیزیں ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ زبانوں کے رسم الخط بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ اور کم از کم مجھے یہاں ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ :)
اردو کا رسم الخط بدلنے کے حق میں نہیں ہوں۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ ترکی کا رسم الخط عربی سے لاطینی کرنے کے نقصان کے ساتھ فائدے بھی ہوئے۔
 

طالب سحر

محفلین
اور آخر میں محض آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ زیک کے علاوہ ایک اور دوست محترم حسان خان صاحب نسخ کے بہت بڑے حامی ہیں۔ اور زیک اور حسان میں شاید یہی ایک قدر مشترک ہے۔

حسان خان کے علم اور فارسی دانی کی قدر کرتا ہوں، اور یہ توقع بھی کہ وہ تفصیل سے لکھیں کہ ایران میں چھاپے خانے کی آمد کے بعد مشینی ٹائپ سے جو اشاعت ہوئی اُس کو وہاں کے لوگوں نے کیسے قبول کیا۔ پھر جب لیتھوگرافی نے یہ سہولت مہیا کی کہ خطاطوں اور کاتبوں کے ہاتھ سے لکھی ہوئی نستعلیق کو چھاپا جاسکے، تب بھی ایران میں نسخ کیوں چھایا رہا- اب جب کہ کمپیوٹر کے ذریعے سے نستعلیق باآسانی کمپوز ہو جاتی ہے، پھر بھی ایران میں اخبارات، رسائل، اور بیشتر کتابوں میں نستعلیق by and large صرف سُرخیوں تک کیوں محدود ہے؟
 

زیک

مسافر
ابھی بھی کوئی اردو دان کیریکٹر نستعلیق استعمال کرنا پسند نہیں کرتا اور صرف لکیچر فونٹ ہی پسند کرتا ہے۔ نسخ تو دور کی بات ہے۔

آ ماڈیسٹ پروپوزل: پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ بہتر یہی ہو گا کہ سب کو پڑھا لکھا کر کاتب بنا دیا جائے کہ مشینی بھدے رسم الخط سے دور رہا جا سکے۔
 

زیک

مسافر
جہاں تک خوبصورتی کی بات ہے تو کیلیگرافی اور رسم الخط میں فرق ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔
 

عدنان عمر

محفلین
میں ماہرِ لسانیات تو نہیں البتہ کمال ابدالی صاحب کے مضمون میں پیش کیے گئے ایک نکتے کا جواب پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

اُنھوں نےنسخ اور نستعلیق کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’پانچ حروفِ علّت کی آوازوں یعنی آ، ای، او، اُو کے لیے تین حروف ہیں، یعنی ’ا‘، ’و‘ اور ’ی‘۔ اردو میں حرف ’ی‘ کی مجہول آواز کے لیے ’ے‘ ہے، مگر یہ صرف لفظ کے آخر میں آتا ہے۔ اس لیے جب حرف ’ی‘ لفظ کے بیچ میں آئے تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کی آواز معروف ہے یا مجہول۔ اور ’و‘ کے معروف یا مجہول ہونے کا اندازہ صرف لفظ کی شکل دیکھ کر کبھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اس حوالے سے عرض ہے کہ بھارت میں اس حوالے سے کافی عرصے سے کاوشیں جاری ہیں۔ اُنھوں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ لفظ کے بیچ میں آنے والے یائے معروف میں ’ی‘ کے نیچے کھڑا زیر لگا دیا ہے، مثلاً لفظ ریٖت (بروزن جیت)۔ جبکہ واؤ معروف کو واؤ مجہول یا واؤ لین سے ممتاز کرنے کے لیے اس کے اوپر اُلٹا پیش لگا دیا ہے مثلاً چوٗڑی (بروزن نوری)۔ یوں ’ریت‘ اور ’ریٖت‘ اور ’چوڑی‘ اور ’چوٗڑی‘ کے تلفظ کا فرق بالکل واضح ہوگیا۔ راقم الحروف نے حال ہی میں جب اپنے ادارے کے لیے کے۔جی اُردو کی کتاب تیار کی تو ان علامات کو بھی باقاعدہ طور پر متعارف کروایا۔ اس حوالے سے کتاب کے آغاز میں دیے گئے اردو مصوّتوں کے چارٹ کا عکس منسلک کررہا ہوں۔
view
 

زیک

مسافر
لاطینی رسم الخط اپنانے کے مخالفین سے ایک سوال: کیا آج بھی انٹرنیٹ پر اردو کی اکثریت رومن اردو نہیں ہے؟
 

متلاشی

محفلین
آپ کی طرح میں بھی اردو کے فارسی-عربی رسم الخط کا شیدائی ہوں- یہ درست ہے کہ مضمون نگار نے مضمون کے آغاز میں دیوناگری اور لاطینی (رومن) کا ذکر کیا ہے- 13 صفحوں کے اس مضمون میں دو ڈھائی صفحوں کے بعد بات نستعلیق کے مسائل کی گئی ہے اور نسخ کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔ بنیادی طور پر اس مضمون کا فوکس رسم الخط کی تبدیلی کے بجائے اس کے اسلوب پر ہے- میری ذاتی رائے میں بات نستعلیق بمقابلہ نسخ کی ہونی چاہیئے- کم از کم میرے مراسلے کا تو یہی مقصد ہے-
مضمون میں مضمون نگارنے زیادہ ترنستعلیق بمقابلہ نسخ فونٹ کو ہدفِ تنقید بنایا ہے نہ کہ نستعلیق بمقابلہ نسخ خطاطی کو ۔۔۔۔ خطاطی اور فونٹ کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔۔۔
 
لاطینی رسم الخط اپنانے کے مخالفین سے ایک سوال: کیا آج بھی انٹرنیٹ پر اردو کی اکثریت رومن اردو نہیں ہے؟
میرا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پوسٹنگ کو نکال دیں اور مواد کی بات کریں تو تقریباً تمام اخبارات اردو رسم الخط میں ہیں. اور کتب و رسائل بھی اردو رسم الخط میں ہی زیادہ موجود ہیں.
 

متلاشی

محفلین
بنیادی طور پر اس مضمون کا فوکس رسم الخط کی تبدیلی کے بجائے اس کے اسلوب پر ہے- میری ذاتی رائے میں بات نستعلیق بمقابلہ نسخ کی ہونی چاہیئے- کم از کم میرے مراسلے کا تو یہی مقصد ہے-
باقی جہاں تک نستعلیق اور نسخ فونٹس کا سوال ہے تو نستعلیق ایک بہت ہی پیچیدہ مگر خوبصورت ترین اسکرپٹ ہے ۔۔۔ نسخ اسکرپٹ دراصل عربک اسکرپٹ ہے مگر اسے بھی فونٹ کی صورت میں ڈھالنے کے بعد کافی مسائل آتے ہیں ۔۔۔ اگر کبھی فرصت ملی تو نسخ کے مسائل میں بیان کروں گا۔۔۔
 

arifkarim

معطل
ابھی بھی کوئی اردو دان کیریکٹر نستعلیق استعمال کرنا پسند نہیں کرتا اور صرف لکیچر فونٹ ہی پسند کرتا ہے۔ نسخ تو دور کی بات ہے۔
اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کوئی نستعلیق رینڈرنگ انجن موجود نہیں جسے ہر جگہ استعمال کیا جا سکے۔ پھر خوبصورتی لگیچرز سے ہی آتی ہے اور کیریکٹر کے بھدے پن جیسے مسائل سے جان چھوٹ جاتی ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
نسخ اپنایا ہوتا تو پرنٹنگ اور کمپیوٹنگ کے مسائل سے جان چھوٹنے کے نتیجے میں آج کافی آگے ہوتے

گو کہ مجھے نسخ کے مقابلے میں نستعلیق بہت پسند ہے -- اور اس کا تعلق بنیادی طور پر ثقافتی جمالیات اور milieu سے ہے -- لیکن مجھے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ نسخ کو پرنٹنگ کے لئے بہت پہلے اپنانے میں فائدہ ہوتا- مانتا ہوں کہ ٹائپ والا نستعلیق خوبصورت نہیں تھا، لیکن ٹائپ والے نسخ کو مسترد کرنے کے نتیجے میں رنگ برنگی -- the good, the bad and the ugly -- اور اغلاط سے بھر پور کتابت کو فروغ ملا؛ اور پرنٹنگ کا شعبہ عملاً کاتبوں کے work ethics کے زیرِنگوں رہا، جب کہ بیشترملکوں میں پرنٹنگ اپنے تیز میکانکی عمل سے علم کی تیز ترسیل کا باعث بنی- لیکن ہمارے ہاں تو نستعلیق نہیں تو کچھ بھی نہیں کا دور دورہ رہا-

لیکن اب تو کمپیوٹر پر نستعلیق لکھنے کا خاصا اچھا انتظام ہے۔ اب بحث یہ ہے کہ کیا اردو متن کا ابلاغ -- اپنی تمام تر جمالیاتی ضروریات کے ساتھ -- نسخ میں بہتر ہو سکتا ہے یا نستعلیق میں؟
 

arifkarim

معطل
لاطینی رسم الخط اپنانے کے مخالفین سے ایک سوال: کیا آج بھی انٹرنیٹ پر اردو کی اکثریت رومن اردو نہیں ہے؟
سوشل میڈیا پر تو اب الحمدللہ اردو رسم الخط بہت عام ہو چکا ہے۔ رومن تب عام تھا جب اردو کیبورڈ عوام کو نہیں ملتا تھا۔
 

متلاشی

محفلین
مضمون میں ایک جگہ کرسی کا ذکر کیا گیا کہ نستعلیق خط میں الفاظ ترچھی صورت میں لکھے جاتے ہیں جبکہ نسخ میں افقی لائن پر ہی لکھے جاتے ہیں ۔۔۔ سو اس سلسلے میں عرض ہے کہ جدید عریبک نسخ میں بھی الفاظ کی کرسی بدلتی ہے ۔۔۔
images
 

طالب سحر

محفلین
راقم الحروف نے حال ہی میں جب اپنے ادارے کے لیے کے۔جی اُردو کی کتاب تیار کی تو ان علامات کو بھی باقاعدہ طور پر متعارف کروایا۔ اس حوالے سے کتاب کے آغاز میں دیے گئے اردو مصوّتوں کے چارٹ کا عکس منسلک کررہا ہوں۔

کسی وجہ سے عکس مراسلے میں شامل نہیں ہو سکا ہے- کیا آپ دوبارہ کوشش کر سکتے ہیں؟
 
اس کا جواب بھی عارف نے دیا ہے. لوگ بہت تیزی سے آ رہے ہیں اردو رسم الخط کی طرف.
اردو بلاگرز تقریباً تمام ہی اب اردو رسم الخط میں لکھ رہے ہیں. فیس بک پر بھی لمبی پوسٹس کرنے والے افراد اب اردو رسم الخط کو فوقیت دے رہے ہیں.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سوشل میڈیا پر تو اب الحمدللہ اردو رسم الخط بہت عام ہو چکا ہے۔ رومن تب عام تھا جب اردو کیبورڈ عوام کو نہیں ملتا تھا۔
رومن اردو کےاستعمال کے محدود ہونے کی وجہ اس " رومن "انداز کی مقبولیت نہیں بلکہ اردو کیبورڈ اور ٹائپنگ میں مہارت کی کمی کہی جا سکتی ہے( اور اسی نوعیت کے دوسرے ممکنہ اسباب بھی )۔ اور ہاں ، یہ بات ماضی قریب اور حال دونوں پر صادق آتی ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
باقی جہاں تک نستعلیق اور نسخ فونٹس کا سوال ہے تو نستعلیق ایک بہت ہی پیچیدہ مگر خوبصورت ترین اسکرپٹ ہے ۔۔۔ نسخ اسکرپٹ دراصل عربک اسکرپٹ ہے مگر اسے بھی فونٹ کی صورت میں ڈھالنے کے بعد کافی مسائل آتے ہیں ۔۔۔ اگر کبھی فرصت ملی تو نسخ کے مسائل میں بیان کروں گا۔۔۔

نسخ کو کمپیوٹر فونٹ بنانے کے مسائل اور انکے کچھ خوبصورت، عملی حل دیکھنے ہوں تو باسکل زغبی کا کام اُن کے ادارے کے بلاگ پر دیکھئے-
 
Top