میں تو ہوں آواز کرنے کے لئے --- ظفر اقبال

نوید صادق

محفلین
میں تو ہوں آواز کرنے کے لئے
تم نظر انداز کرنے کے لئے

کیا کوئی ہمزاد کرنا ہے ضرور
کیا کوئی دمساز کرنے کے لئے

سوچنے ہی کے لئے ہوتے ہیں کچھ
کام، لیکن بعض کرنے کے لئے

خود تو وہ رکتا کسی صورت نہیں
چلئے اس کو باز کرنے کے لئے

اک نئ ترکیب سوجھی ہے ابھی
جسم کو پشواز کرنے کے لئے

خود کو رسوا کر رہا ہوں شہر میں
اک ذرا ممتاز کرنے کے لئے

ڈھونڈتے پھرتے ہیں فرصت کی گھڑی
کچھ نیاز و راز کرنے کے لئے

اک پنیری سی لگا رکھتا ہوں میں
لفظ کو الفاظ کرنے کے لئے

جا رہا ہوں کس قدر خوش خوش ، ظفر
میں اسے ناراض کرنے کے لئے

شاعر: ظفر اقبال
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نوید صاحب، خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

ظفر اقبال اس غزل میں دو صوتی قافیے (بعض اور ناراض) لائے ہیں اور نہ صرف یہ صوتی قافیے ہیں بلکہ بعض میں 'عین' کو 'الف' تلفظ کیا ہے، روایتی شاعری میں تو یہ یقیناً غلط ہیں لیکن جدید شعرا ایسے قافیے باندھتے بھی ہیں، غلط بہرحال غلط ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ نوید صاحب، خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

ظفر اقبال اس غزل میں دو صوتی قافیے (بعض اور ناراض) لائے ہیں اور نہ صرف یہ صوتی قافیے ہیں بلکہ بعض میں 'عین' کو 'الف' تلفظ کیا ہے، روایتی شاعری میں تو یہ یقیناً غلط ہیں لیکن جدید شعرا ایسے قافیے باندھتے بھی ہیں، غلط بہرحال غلط ہے۔

کچھ لوگ ظفر اقبال کو ڈفر اقبال بھی کہتے ہیں - اور ایک صاحب جن کا نام یاد نہیں‌ آرہا 3 دن میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں‌ ظفر اقبال کی غزلوں پر ہزلیں یعنی ہرزہ سرائی کی گئی اور اس کتاب کا نام رکھا "تین دن کا ہزیان"
 

الف عین

لائبریرین
لیکن اس سے ظفر اقبال کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی فرخ۔ ظفر اقبال اپنی رطب و یابس کے با وجود اہم شاعر ہیں۔ اگر چہ یہ غزل ان کی کچھ ہلکی پھلکی غزلوں میں ہی شمار ہو گی۔ ’آبِ رواں‘ کی غزلوں کے معیار کی نہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
کچھ لوگ ظفر اقبال کو ڈفر اقبال بھی کہتے ہیں - اور ایک صاحب جن کا نام یاد نہیں‌ آرہا 3 دن میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں‌ ظفر اقبال کی غزلوں پر ہزلیں یعنی ہرزہ سرائی کی گئی اور اس کتاب کا نام رکھا "تین دن کا ہزیان"

"سہ روزہ ہذیان"، شائع ہوئی، تقسیم ہوئی اور بُھلا دی گئی۔ لیکن ظفر اقبال ظفر مند ہی رہے، دراصل ظفر اقبال کا نظریہ شعر ذرا وکھری ٹائپ کا ہے۔ اور اردو غزل کو اپنے ظاہر و باطن میں تبدیلی کے لئے ایسے ہی کسی جِن کی ضرورت تھی۔ اور بلا شبہ ظفر اقبال ہمارے عہد کے اہم ترین شاعر ہیں۔
یقین نہ آئے تو ذرا اس کی کلیات دیکھ لیں۔
 

نوید صادق

محفلین
لیجئے ایک اور غزل

ضد ہی کام آئی نہ اصرار بہت کام آیا
صبر تھا ایک جو ہر بار بہت کام آیا

خود کو ترتیب دیا آخرِِ کار ازسرِ نَو
زندگی میں ترا انکار بہت کام آیا

عمر اندھیروں میں بھی ویسے تو بسر ہو جاتی
وہ چراغِ لب و رخسار بہت کام آیا

مستقل اس نے تغافل ہی رکھا اپنا شعار
یوں ہمارے وہ لگاتار بہت کام آیا

دل نے بہلائے رکھا قصہ طرازی سے ہمیں
اور، تمہارا یہ طرف دار بہت کام آیا

راستے ہو گئے ہموار ہمیشہ کے لئے
سفرِ وادئ دشوار بہت کام آیا

فائدہ کوئ مجھے تو نہیں پہنچا، لیکن
دوسروں کے، مرا معیار بہت کام آیا

دیکھتے دیکھتے غائب ہوئ خوشبو ساری
ورنہ کچھ دن گلِ گفتار بہت کام آیا

آپ بھی آ کے ظفر سے جو پکڑتے عبرت
آپ جیسوں کے یہ بیکار بہت کام آیا

(ظفر اقبال)
 

فاتح

لائبریرین
خود کو رسوا کر رہا ہوں شہر میں
اک ذرا ممتاز کرنے کے لئے

واہ واہ واہ۔۔۔ کتنا سچا شعر ہے;)
 

عین عین

لائبریرین
دوسری غزل اچھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی والی میں ایک شعر ہے

خود تو وہ رکتا کسی صورت نہیں
چلئے اس کو باز کرنے کے لئے

اس میں‌’’باز کرنے‘‘ کی جگہ ’’باز رکھنا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ کسی کو روکنے کے لیے باز رکھنا تو سنا ہے باز کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظفر بھائی کا ہنر ہے۔۔۔۔۔۔۔ صاحبانَ فن اس پر بھی کچھ کہیں۔
 
Top