میری غزل ۔ دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے

محمد وارث

لائبریرین
عزیزانِ بزم ایک تازہ غزل آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، امید ہے اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے۔


دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے

طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے وہ سلطان نہیں ہے

یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے

جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے

سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے


۔
 

زرقا مفتی

محفلین
بہت خوب
وارث صاحب
آپ نے غزل میں اچھے مضامین باندھے ہیں
میری جانب سے داد قبول کیجئے
البتہ پہلے دوسرے اور چوتھے شعر کے اولین مصرع جات بہتری چاہتے ہیں
والسلام
زرقامفتی
 
واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب بھئی بہت خوب۔ کمال کردیا آپ نے۔۔۔۔

یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے

جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے

لاجواب!

سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
اس کے وزن میں کچھ مسئلہ ہے یا میرے پڑھنے میں غلطی؟
 

الف عین

لائبریرین
نہیں عمار۔ وزن میں مسئلہ تو نہیں ہے۔ البتہ یہاں وارث نے ’کسی سے‘ میں کسی کی ی کو گرا دیا ہے، اور’ کِسَسے‘ تقطیع میں آتا ہے جو کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔ لیکن ’میں‘ کی ی اور نون غنہ گرانے میں کیا حرج تھا؟ یعنی مصرعہ یوں بہتر تھا۔
سوچا ہے اسد اب میں کسی سے نہ ملوں گا
البتہ آخری مصرعے میں
کہ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
’کہ ‘ کی ’ہ‘ مکمل ’ے‘ کے وزن میں آ رہی ہے، جسے محض اس مفرد صورت میں درست نہیں مانا جاتا۔ محض ’تابکے‘ جیسے الفاظ میں جائز مانا جا سکتا ہے۔
یہاں ’کہ‘ کی جگہ ’کچھ‘ کیا جا سکتا ہے۔
وارث، میرا اصلاح کا ًخیال تو نہیں تھا لیکن عمار نے بات اٹھائ تو لکھ رہا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب
وارث صاحب
آپ نے غزل میں اچھے مضامین باندھے ہیں
میری جانب سے داد قبول کیجئے
البتہ پہلے دوسرے اور چوتھے شعر کے اولین مصرع جات بہتری چاہتے ہیں
والسلام
زرقامفتی

محترمہ زرقا مفتی صاحبہ آپکی پسندیدگی اور داد کیلیے بہت شکریہ آپ کا۔

آپ کی مفید رائے کیلیے بھی میں آپ کا شکر گزار ہوں، اگر کبھی اس غزل پر نظرِ ثانی کی تو آپ کی رائے یقیناً پیشِ نظر و مقدم رہے گی۔

نوازش آپ کی۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب بھئی بہت خوب۔ کمال کردیا آپ نے۔۔۔۔

لاجواب!


بہت شکریہ عمار آپ کا، نوازش۔


اقتباس:
سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا


اس کے وزن میں کچھ مسئلہ ہے یا میرے پڑھنے میں غلطی؟

ہممم۔۔۔۔۔۔ یہی بات تھی۔ میرے ذہن میں "ی" کا گرنا نہیں آیا اس لیے الجھ گیا۔

وارث بھائی! معذرت۔:)


ارے بھائی معذرت کیسی بلکہ الٹا مجھے آپ کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ آپ کے اس سوال سے اعجاز صاحب بھی ادھر متوجہ ہوگئے، جیسا کہ انہوں نے تحریر فرمایا ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
نہیں عمار۔ وزن میں مسئلہ تو نہیں ہے۔ البتہ یہاں وارث نے ’کسی سے‘ میں کسی کی ی کو گرا دیا ہے، اور’ کِسَسے‘ تقطیع میں آتا ہے جو کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔ لیکن ’میں‘ کی ی اور نون غنہ گرانے میں کیا حرج تھا؟ یعنی مصرعہ یوں بہتر تھا۔
سوچا ہے اسد اب میں کسی سے نہ ملوں گا
البتہ آخری مصرعے میں
کہ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
’کہ ‘ کی ’ہ‘ مکمل ’ے‘ کے وزن میں آ رہی ہے، جسے محض اس مفرد صورت میں درست نہیں مانا جاتا۔ محض ’تابکے‘ جیسے الفاظ میں جائز مانا جا سکتا ہے۔
یہاں ’کہ‘ کی جگہ ’کچھ‘ کیا جا سکتا ہے۔
وارث، میرا اصلاح کا ًخیال تو نہیں تھا لیکن عمار نے بات اٹھائ تو لکھ رہا ہوں۔


اعجاز صاحب آپ کی انتہائی پر خلوص رائے اور توجہ کیلیے میں آپ کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ ہم جیسے مبتدیوں کیلیے یہ باتیں مشعلِ راہ ہیں۔

جہاں تک "کہ" کا تعلق ہے تو گو عروض میں میرا درک واجبی بھی نہیں ہے کہ اس سال کے شروع میں میں عروض کی سنگین چٹانوں کے ساتھ سر ٹکرا رہا تھا۔

'کہ' ہے تو در اصل ایک سبب ہی (ک + ہ) لیکن اساتذہ اسے اخفا کے تحت ہمیشہ 'کِ' ہی باندھتے ہیں۔ لیکن 'کہ' کو سبب باندھنا خلافِ اصول بھی نہیں ہے (جیسے کہ صریحاً یہی مسئلہ 'نہ' کے ساتھ بھی ہے)۔ میری اسناد اصل میں مندرجہ ذیل ماہرینِ عروض ہیں۔

1-پروفیسر محمد یعقوب آسی کا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، عروض پر انکی کتاب "فاعلات" ایک اتنہائی جامع اور مفید کتاب ہے۔ انہوں نے "کہ" اور "نہ" کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

مندرجہ ذیل ربط دیکھئے گا۔

http://www.urducl.com/Urdu-Books/969-416-206-005/p0158.php

اس میں انہوں نے صریحاً تحریر کیا ہے کہ "کہ" اور "نہ" کو باندھنا شاعر کی صوابدید پر ہے کہ وہ اسے ایک سبب باندھتا ہے یا کہ وتد کا ایک جزو۔ (کتاب میں انہوں نے سببِ خفیف کو "ہجائے بلند" لکھا ہے اور ایک وتد کے جزو ہونے کو "ہجائے کوتاہ")


دوسرا نام Prof. Francis W Pritchett کا ہے، اردو، غالب اور میر کے حوالے سے انکا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے ساتھ مل کر انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ اور ہندوستان و پاکستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔

انہوں نے خالق احمد خالق کے ساتھ مل کر عروض پر ایک کتاب لکھی تھی A Practical Handbook of Urdu Meter. اس کتاب میں انہوں نے ایسے الفاظ کی ایک فہرست دی ہے جو مختلف طریقوں سے باندھے جا سکتے ہیں جیسے خاموشی، خموشی، خامشی اور گلستاں بروزنِ فعولن اور گلسِتاں بروزنِ فاعلن۔ اس کتاب میں انہوں نے اوزان کو ناموں کی بجائے علامتوں سے دیا ہے یعنی سبب کو برابر کے نشان (=) اور ایک ہجائے کوتاہ کو ڈیش (-) کی علامت سے اور وہ الفاظ جن کا اخفا یا اشباع ممکن ہے ان کو (x) کے نشان سے۔

یہ ربط دیکھیئے گا۔

http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/meterbk/12_glossary.html?urdu

اس میں انہوں نے 'کہ' کو ایک سبب ہی شمار کیا ہے جو کہ ہجائے کوتاہ یعنی 'کِ' کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

دراصل میں نے عروض غلطی سے مولوی نجم الغنی صاحب کی 'بحر الفصاحت' سے شروع کردیا تھا جس کو سمجھنا بغیر استاد کے قریب قریب میرے لیے نا ممکن تھا لیکن بہرحال نیٹ پر بہت ہاتھ پاؤں مارے تو غنی صاحب کی سخاوت ہاتھ لگی۔

بہرحال میں آپ کی مشفقانہ رائے کیلیے آپ کا انتہائی ممنون ہوں، نوازش آپکی۔
 

الف عین

لائبریرین
اصل شکریہ وارث کولمبیا وال؛ی سائٹ کے ربط کا دے رہا ہوں۔ بہت پہلے اکثر یہ سائٹ دیکھی تھی۔ لیکن اب اردو تحریر میں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ نفیس نستعلیق استعمال کیا گیا ہے لیکن صفحے کی رینڈرنگ اتنی سست بھی نہیں۔
رہا سوال کہ اور نہ کا۔ تو میں ذرا Puritan واقع ہوا ہوں۔ آسی ساحب کی بات زیادہ دل کو لگتی ہے۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ مصرعے کے شروع میں ’کے‘ کے وزن پرجائز مانا جا سکتا ہے لیکن جو مثال انھوں نے میر کی دی ہے، ’آ کے سجادہ نشیں‘ میں ’کے‘ ’کہ‘ نہیں ہے، ’آ کر‘ کے معنی میں ہے۔
اس کے علاوہ یہاں تمھارے شعر میں ’کچھ‘ سے مطلب اور زیادہ بہتر ہو جاتا ہے۔
باقی تمھاری مرضی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز صاحب آپ کی محبت کا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب واقعی کمال کام کر رہے ہیں۔

اور آسی صاحب نے تقریباً پانچ صفحوں پر اس بحث کو بیان کیا ہے، جس میں 'کہ' کا استعمال بیان کیا گیا ہے اور اسے شاعر پر چھوڑ دیا ہے اور میر کے جس شعر کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ انہوں نے 'کہ' کی بجائے 'نہ' کے استعمال میں بیان کیا ہے۔

اور رہی بات آپ کی رائے تو قبلہ میں نے کوئی کافر ہو مرنا ہے جو آپ سے استاد اور کہنہ مشق شاعر کی کی بات نہ مانوں :)۔ مصرع میں 'کہ' کی جگہ 'کچھ' کر رہا ہوں۔

ایک بار پھر آپ کی محبت اور توجہ کیلیے بہت شکریہ آپ کا، نوازش۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ اعجاز صاحب، حضور آپ کسرِ نفسی سے جتنا بھی کام لیں جو بھی لکھیں ہم تو جانتے ہیں آپ کا مقام اور قتیل بھی ہیں آپ کے۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
تع۔۔ری۔ف م۔یں تاخ۔۔ی۔ر کا کیا ع۔۔ذر ک۔روں م۔یں
ہے "نیٹ" تو یہاں اس میں مگر جان نہیں ہے​

عمدہ کلام ہے جناب وارث صاحب۔ بہت خوب۔۔۔
اور مطلع تو قیامت کا ہے۔
دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے

صاحب! یہ تو بتائیے کہ یہ غزل سابقہ مجموعہ میں سے ہے یا تازہ کلام ہے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب محترم محمد وارث صاحب آپ کی غزل پڑھی بہت اچھی لگی پہلے تو میرے طرف سے اتنی اچھی غزل پیش کرنے پر مبارک باد قبول کرے اور اس کے بعد
آپ اور محترم جناب اعجاز اختر صاحب کا بہت شکریہ آپ دونوں کی باتوں سے مجھ جیسے نا علموں کو آپ کی علٰی اور مفید پوسٹ پڑھنے کو ملی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا بہت شکریہ مجھے امید ہے آپ مجھ جیسے نئے لکھنے والو کی اسطرح مدد کرتے رہے گے شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اعجاز صاحب آپ کی انتہائی پر خلوص رائے اور توجہ کیلیے میں آپ کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ ہم جیسے مبتدیوں کیلیے یہ باتیں مشعلِ راہ ہیں۔

جہاں تک "کہ" کا تعلق ہے تو گو عروض میں میرا درک واجبی بھی نہیں ہے کہ اس سال کے شروع میں میں عروض کی سنگین چٹانوں کے ساتھ سر ٹکرا رہا تھا۔

'کہ' ہے تو در اصل ایک سبب ہی (ک + ہ) لیکن اساتذہ اسے اخفا کے تحت ہمیشہ 'کِ' ہی باندھتے ہیں۔ لیکن 'کہ' کو سبب باندھنا خلافِ اصول بھی نہیں ہے (جیسے کہ صریحاً یہی مسئلہ 'نہ' کے ساتھ بھی ہے)۔ میری اسناد اصل میں مندرجہ ذیل ماہرینِ عروض ہیں۔

1-پروفیسر محمد یعقوب آسی کا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، عروض پر انکی کتاب "فاعلات" ایک اتنہائی جامع اور مفید کتاب ہے۔ انہوں نے "کہ" اور "نہ" کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

مندرجہ ذیل ربط دیکھئے گا۔

http://www.urducl.com/Urdu-Books/969-416-206-005/p0158.php

اس میں انہوں نے صریحاً تحریر کیا ہے کہ "کہ" اور "نہ" کو باندھنا شاعر کی صوابدید پر ہے کہ وہ اسے ایک سبب باندھتا ہے یا کہ وتد کا ایک جزو۔ (کتاب میں انہوں نے سببِ خفیف کو "ہجائے بلند" لکھا ہے اور ایک وتد کے جزو ہونے کو "ہجائے کوتاہ")


دوسرا نام Prof. Francis W Pritchett کا ہے، اردو، غالب اور میر کے حوالے سے انکا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے ساتھ مل کر انہوں نے بہت کام کیا ہے۔ اور ہندوستان و پاکستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔

انہوں نے خالق احمد خالق کے ساتھ مل کر عروض پر ایک کتاب لکھی تھی A Practical Handbook of Urdu Meter. اس کتاب میں انہوں نے ایسے الفاظ کی ایک فہرست دی ہے جو مختلف طریقوں سے باندھے جا سکتے ہیں جیسے خاموشی، خموشی، خامشی اور گلستاں بروزنِ فعولن اور گلسِتاں بروزنِ فاعلن۔ اس کتاب میں انہوں نے اوزان کو ناموں کی بجائے علامتوں سے دیا ہے یعنی سبب کو برابر کے نشان (=) اور ایک ہجائے کوتاہ کو ڈیش (-) کی علامت سے اور وہ الفاظ جن کا اخفا یا اشباع ممکن ہے ان کو (x) کے نشان سے۔

یہ ربط دیکھیئے گا۔

http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/meterbk/12_glossary.html?urdu

اس میں انہوں نے 'کہ' کو ایک سبب ہی شمار کیا ہے جو کہ ہجائے کوتاہ یعنی 'کِ' کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

دراصل میں نے عروض غلطی سے مولوی نجم الغنی صاحب کی 'بحر الفصاحت' سے شروع کردیا تھا جس کو سمجھنا بغیر استاد کے قریب قریب میرے لیے نا ممکن تھا لیکن بہرحال نیٹ پر بہت ہاتھ پاؤں مارے تو غنی صاحب کی سخاوت ہاتھ لگی۔

بہرحال میں آپ کی مشفقانہ رائے کیلیے آپ کا انتہائی ممنون ہوں، نوازش آپکی۔


آپ نے جو ایک لینک میں غالب صاحب کے شعر سے مثال دی ہے

کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا

اس شعر کو میں نے کچھ جگہ پر "نہ" کی جگہ فارسی والی "نے" کے ساتھ بھی پڑھا ہے
اس طرح
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نے ہوا

اس کے بارے میں مہربانی کر کے کچھ بتاے
 

محمد وارث

لائبریرین
تع۔۔ری۔ف م۔یں تاخ۔۔ی۔ر کا کیا ع۔۔ذر ک۔روں م۔یں

ہے "نیٹ" تو یہاں اس میں مگر جان نہیں ہے​

عمدہ کلام ہے جناب وارث صاحب۔ بہت خوب۔۔۔
اور مطلع تو قیامت کا ہے۔


صاحب! یہ تو بتائیے کہ یہ غزل سابقہ مجموعہ میں سے ہے یا تازہ کلام ہے؟


بہت شکریہ فاتح صاحب آپ کا، آپ کی داد نے سیروں خون بڑھا دیا۔

اگر "مجموعہ" سے مراد میری پچھلی آٹھ غزلیں ہیں تو حضور یہ بالکل تازہ غزل ہے۔
 
Top