میری ایک تازہ غزل ۔تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب عاطف بھائی ! کیا بات ہے !!! کیا رنگ جمایا ہے!

لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرد
طُرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے

ہے خون ِ تمنّا سے مزین مرا نامہ
گوحاشیہ زیبائیِ قرطاس نہیں ہے

کیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ و مقیاس نہیں ہے

واہ واہ! سلامت رہیں آپ !
 

تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے

لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے

ہے خون ِ تمنّا سے مزیّن مرا نامہ
گوحاشیہ زیبائی ءِ قرطاس نہیں ہے

کیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ ؤ مقیاس نہیں ہے

اک خواب میں مستور ہے دنیا کی حقیقت
اس بات کا ہم کو مگر احساس نہیں ہے

نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے

کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے

ہر شب ہے شب ِ قدر تجھے قدر اگر ہو

" ہر دم دمِ عیسی ہے تجھے پاس نہیں ہے "
۔۔۔
سید عاطف علی
×××××××××××××××××××××××××××××​
زنقص ِتشنہ لبی داں بعقل ِ خویش مناز
دلت فریب گر از جلوہ ءِ سراب نخورد-عرفی
نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے-ماخوذ
خوبصورت خوبصورت۔ کیا بات ہے۔
معافی کے خواستگار ہیں کہ داد دینے میں پانچ سال لیٹ ہوگئے۔ جانے کیسے نظروں سے چوک گئی حالانکہ زبردست کا ٹیگ اسی وقت دے دیا تھا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت ہی لاجواب غزل ہے عاطف بھائی۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ اعلی
لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے
کیا کہنے۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔ لیکن ایسی لڑکی کہاں سے لائیں جس کو یہ شعر سنائیں اور وہ سمجھ بھی جائے۔۔۔ یعنی سنانے کا لطف آئے۔۔۔

نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے
آہا۔۔۔۔ کیا بات ہے سیدی۔۔۔ اعلی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لیکن ایسی لڑکی کہاں سے لائیں جس کو یہ شعر سنائیں اور وہ سمجھ بھی جائے
نین جی۔ از حد ممنون ہوں مع اس مشورے کے کہ۔ ایسی لڑکیاں اب تک نانیاں دادیاں بن چکی ہوں گی۔ اس کام کے لیے کوئی اور غزل تلاش کیجیے۔ مثلا ۔ میں کان کا بندا یا ہاتھ کا کنگن ہوتا وغیرہ۔ :)
جیسا بازار ویسا سکہ ۔۔۔ ورنہ کسی ادبی شعری ایکسچینج کا رخ کرنا پڑے گا ۔
 
۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔


تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے

لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے

ہے خون ِ تمنّا سے مزیّن مرا نامہ
گوحاشیہ زیبائی ءِ قرطاس نہیں ہے

کیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ ؤ مقیاس نہیں ہے

اک خواب میں مستور ہے دنیا کی حقیقت
اس بات کا ہم کو مگر احساس نہیں ہے

نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے

کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے



ادراک کی سرحد سے میں خود لوٹ کے آیا
اب یوں نہ کہو حد کا مجھے پاس نہیں ہے

امید اجابت ہے جو یہ ہاتھ جڑے ہیں
کاسہ مرا مجبورئ افلاس نہیں ہے

ہر شب ہے شب ِ قدر تجھے قدر اگر ہو
" ہر دم دمِ عیسی ہے تجھے پاس نہیں ہے "


۔۔۔
سید عاطف علی


بہت خوب ، عاطف صاحب ! ماشاء اللہ ! نہایت نفیس غزل ہے . مبارک ہو .
 
Top