مغل سے مغزل تک

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
شیخ سعدی ؒ گلستان سعدی میں فرماتے ہیں کہ "میں نے سنا کہ ہندوستان میں سومناتھ شہر میں ایک بت ہے ، جو حرکت کرتا ہے اور اپنے پجاریوں کے سامنے دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔" سعدیؒ جیسی طبیعت اور مزاج رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اس بات سے مہم جوئی اور سیاحت کی حس کیسے جاگ اٹھتی ہے اور پھر سلیپنگ پلز کھا کے بھی نہیں سوتی ، جیسے غالبؔ کا رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہیں ہوتا۔ شیخ سعدیؒ کے مطابق، انہوں نے رخت سفر باندھ لیا، اور جا پہنچے ہندوستان میں سومناتھ ۔ (تفصیل گلستان سعدیؒ میں ملاحظہ ہو) مگر ہندوؤں کا متبرک ترین مقام ہو اور ایک مسلمان کو وہاں گھسنے دیا جائے، یہ ناممکن تھا ۔ مگریہ کوئی اور نہ تھا شیخ سعدیؒ تھے، جنہوں نے ایک سنی سنائی بات پر یقین کرنے کی بجائے تحقیق کیلئے خود اتنا مشکلوں بھرا سفر کیا ۔ اب بھلا وہ کیسے لب ِ بام سے واپس جا سکتے تھے ۔شیخ سعدیؒ اگر پاکستان میں پیدا ہوئے ہوتے تو یقیناً حاجیوں کی طرح گھر سے حج کا کہہ کے نکلتے اور کراچی تک جا کر کسی نلکے سے آبِ زم زم بھر تے ، 5 ، 7 کلو کھجوریں خریدتے ، دس ، بارہ تسبیح ، ایک ادھ درجن مصلے خریدتے اور کچھ عرصے بعد لال رومال کندھے پہ ڈالے حاجی صاحبوں والی میسنی شکل بنائے واپس آ جاتے ۔ اور پھر ساری زندگی اپنا نام حاجی شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کہلوانا اور سننا پسند کرتے ۔ مگر آفرین ہے اس عظیم درویش کی شانِ استغنا پر کہ 14 حج پیدل کیے ہوئے ہیں ، مگر حاجی شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کبھی نہیں لکھا ، خیر۔۔۔۔۔ بات ہو رہی تھی سعدیؒ کے سومناتھ میں ہونے کی ۔ مختصر یہ کہ سعدی ؒ نے ٹنڈ کرائی اور گیروے رنگ کا لباس پہنا اور پنڈت کا بہروپ دھار کے مندر میں گھس گئے ، اور اپنی آنکھوں سے بت کو حرکت کرتے دیکھا، مگر نیا مشن اس وقت شروع ہو گیا جب شیخ سعدیؒ نے اس کا راز جاننے کی ٹھان لی، اور پھر وہ راز جان کر ہی دم لیا ۔اور میں مسکین چھوٹا غالبؔ شیخ سعدیؒ کی ان درویشانہ اداؤں پر مر مٹا ہوں۔اور اب یہی میرا سٹینڈرڈ ہے تحقیق میں۔

جب میں نے سنا کہ
مغل بچے عجیب ہوتے ہیں
جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں
میں سنتے ہی آمنا صدقنا نہیں کہہ دیا۔ اندھے کا دکھ ایک اندھا ہی سمجھ سکتا ہے ، میں نے سوچا کہ جس طرح میرے بارے میں بے بنیاد پراپیگنڈے اور افواہیں اتنی کثرت سے کی گئیں کہ اب یونیورسل ٹروتھ درجہ پا چکی ہیں ، کہیں یہ بھی کسی نے مغلوں سے مار کھاکے جلے دل کے پھپھولے نہ پھوڑے ہوں اس شعر میں ۔ بھلا میں کیونکر مانوں ۔ لیکن اپنا سٹینڈرڈ یاد آیا کہ جب تک اس کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق نہ کر لوں چین سے کیسے بیٹھ سکتا ہوں ۔
بس پھر دماغ کے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور تاریخ کے بحر ظلمات میں گھوڑا دوڑا دیا ، ( اسی بہانے اقبال ؒ کی روح کو خوش ہو گئی ہوگی۔) دن رات منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا آخر میں میسو پوٹیمیا کے میدانوں میں جا پہنچا۔ سوچا کہ پہلے ایشیائے کوچک سے کُھرا اٹھاتے ہیں ۔یہ وہ وقت تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کو وفات پائے کئی سو سال گزر چکے تھے ، ان کی اولاد میں جیسا کہ زمانے کا دستور ہے پھوٹ پڑ چکی تھی ، اور وہ اکٹھے آباد رہنے پر مزید آمادہ نہ تھے ۔ ان گنہگار آنکھوں نے (تصور میں) یافث (نوح علیہ السلام کا بیٹا)کی آل اولاد میں سے ایک قبیلے کو شمال کی جانب ہجرت کرتے دیکھا۔پھر میں نے اس قبیلے کی اولاد کو روس ، کاکیشیا ، منگولیا میں پھیلتے دیکھا ۔ اور جوں جوں آبادی بڑھتی گئی ، قبیلے بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے رہے اور دنیا میں پھیلتے رہے ۔ علمائے تاریخ اس بات پر متفق ہیں ، کہ اقوام و قبائل کی اس کثرت میں صرف دو علاقے ایسے ہیں جن سے انسانی سیلاب نکلے اور پھر پوری دنیا میں پھیلتے گئے اور فتح کرتے گئے ۔ (1) سرزمین حجاز (2) منگولیا کا شمال مشرقی علاقہ ۔مسلمان عرب سے نکلے اور پوری دنیا پر چھا گئے ، اور تاریخ میں روم و ایران کی عظیم فتوحات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد یہ منگولیا سے نکلنے والا سیلاب ، کہ اپنے سامنے آنے والی ہر سلطنت کو خس و خاشاک کی طرح روند کے رکھ دیا۔
منگولیا کے صحرائے گوبی میں بسنے والے یہ قبائل تاتار کہلاتے تھے، خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے ، اور آپس میں قتل و غارت بھی عام تھی، جنگل کا قانون تھا ، طاقتور قبیلہ ، کمزور قبیلوں کے جانور اور عورتیں ہانک کے لے جاتا ، پھر ان میں تموجن کی پیدائش ہوئی ، بچپن میں ہی اس کے قبیلے کو کسی طاقتور قبیلے کی طالع آزمائی کا سامنا کرنا پڑا ، تموجن بھی غلام بنا لیا گیا ۔ بالاخر اس نے نہ صرف آزادی پائی بلکہ اجڈ اور غیر مہذب ، قانون اور سلطنت سے ناواقف قبائل کو یکجا کر کے ایک سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ اور چنگیز خان لقب اختیار کیا۔ تموجن نے چین کی عظیم سلطنت اور اس کے بادشاہوں کی شان و شوکت ، اور عوام کی خوشحالی دیکھی تھی ۔ اس نے اپنی جانوروں کے سوکھے گوشت اور دودھ پر گزارہ کرتی قوم کو بھی یہ سب میسر کرنے کی ٹھان لی ۔ اور یوں دنیا میں تاتاریوں کی لوٹ مار اور فتوحات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آسائش پسند مہذب دنیا بھلا کب تک ان جفاکشوں کے سیلاب کے آگے بند باندھتی، جو کہ میدان جنگ میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے ، پیاس لگنے پر خنجر گھوڑے کی پیٹھ میں چبھو کر خون پی کر پیاس بجھا لیتے تھے۔ چنگیز خان نے فتوحات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کی موت کے بعد اس کے پوتے ہلاکو خان نے عروج پر پہنچا دیا۔ عباسی سلطنت اور بغداد کا انجام اسی کے ہاتھوں ہوا۔ جب مسلمانوں کے ساتھ رہ کر ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی ہوئی تو اسلام پھیلنے لگا ۔شاہی خاندان بھی پھیلتا گیا اور سلطنت کے بھی حصے بخرے ہوتے گئے ، جس کو جو ہاتھ آیا، وہ اس پہ قابض ہوتا گیا، کئی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئیں تو وہیں ، ایلخانی سلطنت ، اور سلجوقی سلطنت جیسی عظیم حکومتیں بھی ان میں موجود رہیں ، تقسیم در تقسیم سےالگ الگ نام ہوتے گئے ، کچھ نے صحرائے گوبی میں ہی طریقہ قدیم پر زندگی گزاری ، اور شہر آباد کرنے والے ، منگول ، اور پھر مغل ہوتے چلے گئے ۔
ایسی ہی ایک چھوٹی سی ریاست وادی فرغانہ بھی تھی ، حکمران صاحب ایک دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرتے چھت سے گرے اور دوزخ کو پیارے ہو گئے ۔ ریاست کا واحد وارث ظہیر الدین، ابھی بمشکل 14 سال کا تھا جب حکمرانی کا بارِ گراں اس کے کندھوں پر آن پڑا ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ ہمسایہ ریاستوں کے حکمران حملہ آور ہو گئے ، ایک سگا ماموں تھا ، ایک سگا چچا ، دونوں نے ریاست کی آدھی آدھی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق کر کے فرغانہ پر حملہ کر دیا ۔ 14 سالہ ظہیر الدین کے سر پر صرف نانی کا ہاتھ تھا ۔ مقابلہ بھی کیا مگر دو اتحادیوں کی بڑی فوج کے سامنے بھلا اس چھوٹی سی ریاست کی چھوٹی سی فوج کی کیا چلتی ۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ظہیر الدین کو نانی نے فرار کرادیا ، وہ پہاڑوں میں جا چھپا ، زندگی کے انتہائی مشکل دن گزارے اور کچھ قبائلیوں کی مدد سے اپنی باقی ماندہ فوج اکٹھی کی ، چچا اور ماموں کو 15 سال کی عمر میں عبرت ناک شکست دی، اور اپنی سلطنت واپس پائی ۔نانی نے نواسے کا لقب بابر رکھا ، جس کا مطلب ہے نر ببر شیر۔ مہم جو بابر کو چھوٹی سی ریاست میں چین نہ آیا تو اس نے ہندوستان پر حملے شروع کر دئیے ۔ اور آخر ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر 21 سال کے اس باہمت جوان نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
جتنا باہمت اور لائق باپ تھا بیٹا اتنا ہی نکما ثابت ہوا ۔ نتیجے میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔ شکست کھا کر ہمایوں ایران میں پناہ گزین ہوا ، اور شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اس کے بیٹے سلیم شاہ سوری کو ایران کے بادشاہ طہماسپ کی مدد سے شکست دے کر اپنی سلطنت واپس پائی ۔البتہ ہمایوں کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر نے خوب پر پرزے نکالے اور مغلیہ سلطنت کو بام عروج پر پہنچادیا ، اور مغل اعظم کہلایا۔ اکبر کے بعد اس کا بیٹا نور الدین جہانگیر تخت آرا ہوا ، اور اسی کے دور میں پہلی بار انگریزوں نے انڈونیشیا میں ولندیزیوں سے شکست کھا کر ہندوستان میں اپنے قدم رکھے ۔اور مغل شہزادی کا کامیاب علاج کرنے انعام میں انگریز ڈاکٹر نے اپنی قوم کی تجارت کیلئے مراعات اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت پائی ۔ اور پھر اورنگ زیب کے مرتے ہی مغلوں کا ہندوستان میں زوال شروع ہو گیا۔ حتیٰ کہ مغل بادشاہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی حکومت دلی کے لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئی ۔ بادشاہ کی حیثیت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پنشن خوار کی ہوگئی ۔ 1857 ء کی جنگ آزادی اور پھر شکست کے بعد ہمایوں کے مقبرےمیں پناہ گزین بادشاہ گرفتار ہوا ، مقدمہ چلا ، غداری کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور جو بعد میں رعایت کر کے جلا وطنی میں تبدیل کر دی گئی ۔ مغلیہ سلطنت کا یہ آخری چراغ رنگون میں کسمپرسی کے دن گزار کے راہی عدم ہوا۔ہندوستان پر مغلیہ خاندان نے کم و بیش ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی ۔ دلی کی تباہی سے جہاں سلطنت کے والی وارث اور شہزادے شہزادیاں در بدر ہو گئے اور غربت کے دن دیکھے ، وہیں کچھ ننگِ وطن غداران بد نسل لوگ انگریزوں کی مدد کے صلے میں جاگیریں پا کر نواب اور خان بن بیٹھے۔ پھر پاکستان بن گیا اورتاریخ کے بحر ظلمات سے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے ۔

افففف بہت خوفناک اور تھکا دینے والا سفر تھا ، لگتا ہے آپ بھی بور ہو رہے ہیں ، چلیے آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں ۔۔۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
دو دفعہ کا ذکر ہے کسی دور دراز علاقےمیں ایک جوگی رہتا تھا ۔ایک دن نہ جانے اس کے جی میں آئی کہ اٹھا اور اپنے برقی گھوڑے پر بیٹھا اور کہیں نکل گیا، پھرتا پھراتا ، ایک خوبصورت وادی میں جا پہنچا، وہاں کے لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ جوگی کا وہاں دل لگ گیا ، وہ سارا دن وادی میں گھومتا پھرتا رہتا تھا ، اور رات کو الو کی طرح اپنی بولی میں اودھم مچاتا رہتاتھا۔ ایک دن وہ ایک خوبصورت جھیل کے کنارے جا نکلا ، جھیل بے حد خوبصورت اور صاف ستھرے تازہ پانی سے بھری تھی ، کناروں پر رنگا رنگ پھول عجب بہار دکھلا رہے تھے ، اچانک اس کی نظر جھیل میں تیرتے ہنسوں کے جوڑے پر پڑی ،جھیل میں دو سفید سفید نہایت خوبصورت راج ہنس تیر رہے تھے اور اردگرد سے بے نیاز ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ جوگی ان کی محبت سے بہت متاثر ہوا ، اور اسے ان دونوں سے انس سا ہو گیا ۔ اب وہ روزانہ وہاں آتا ، اور سارا دن بیٹھ کے ان کی خرمستیاں اور اٹکھیلیاں دیکھتا ۔ کچھ عرصہ بعد راج ہنس بھی جوگی سے مانوس ہو گئے ، اور نر کی جوگی سے دوستی ہوگئی ، اور مادہ کو جوگی نے بہن بنا لیا ۔ جوگی نے ان کے نام رانجھا اور ہیر رکھ دئیے۔دن یونہی گزرتے رہے، ایک دن ایسا ہوا کہ راج ہنس جھیل میں تیرنے نہ آئے۔جوگی نے سوچا کوئی مصروفیت ہوگی، مگر رانجھا اور ہیر لوٹ کر نہ آئے ۔اس نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، لیکن وہ تو جیسے واپسی کا رستہ ہی بھول گئے ۔ اب جوگی کا وہاں پہ دل نہ لگتا تھا، وہ اداس اداس سا رہنے لگا ، پھر ایک دن اس کے دماغ میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ رانجھا ور ہیر کو تلاش کیا جائے، کیا خبر وہ کس حال میں ہوں ۔ اللہ کا نام لے کر جوگی ان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ مگرچونکہ ان کا مقام اور پتہ نہ جانتا تھا، اس لیے شہروں شہروں ان کی تلاش میں بھٹکتا پھرا ، ایک دفعہ جب وہ ایک گھنے جنگل سے گزرہا تھا کہ رات نے آ لیا ،اس نے رات گزارنے کیلئے کسی محفوظ جگہ کی تلاش شروع کر دی ۔ اچانک اسے ایک طرف روشنی دکھائی دی ، وہ اس سمت چل پڑا، چلتے چلتے ایک جھونپڑی کے سامنے پہنچ گیا ، یہ روشنی جھونپڑی میں جلتے دیے کی تھی ، اس نے اطمینان کی سانس لی اور دروازے پہ آواز دی" کوئی ہے ؟"​
اندر سے آواز آئی " اندھے ہو کیا ، نظر نہیں آتا کہ دیا جل رہا ہے ، تو ظاہر ہے کوئی ہوگا ہی۔"​
جوگی نے کہا :۔ "دیے کا جلنا کوئی ثبوت تو نہیں کسی کے زندہ موجود ہونے کا۔ دیے تو قبروں اور مزاروں پر بھی جل رہے ہوتے ہیں۔"​
اندر سے آواز آئی :۔ "بکو مت، سیدھی طرح بتاؤ کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟ نہیں تو دفع ہو جاؤ،میں بہت مصروف ہوں۔"​
جوگی:۔" میں ایک مسافر ہوں ، اس جنگل سے گزر رہا تھا کہ رات ہو گئی ، رات گزارنے کا ٹھکانہ ڈھونڈ رہا تھا"​
اندر سے آواز آئی :۔ "اب اندر بھی آؤ گے یا باہر ہی کھڑے سر کھاتے رہو گے؟"​
جوگی جھونپڑی کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک پونے 63 سال کے بزرگ موٹے موٹے عدسے آنکھوں پہ چڑھائے، بیٹھے دیوانِ غالبؔ کی تلاوت کر رہے ہیں ۔جوگی نے آگے بڑھ کے ادب سے سلام کیا ، اور دیوانِ غالبؔ کو ہاتھ لگا کر آنکھوں کو لگائے۔ یہ دیکھ کر بزرگ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ، اور ماتھے کی تیوریوں میں بھی کچھ کمی ہوئی ۔​
بزرگ:۔ " کہاں سے آ رہے ہو بالک؟ اور کدھر کا ارادہ ہے ۔"​
جوگی:۔ " میں ایک دور دراز ملک اردو محفل سے آ رہا ہوں، اور منزل کا کوئی پتہ نہیں ، قسمت نے پاؤں میں راستے بچھا دیے ہیں اور میں چلتا جا رہا ہوں ۔نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ۔آپ بتائیے یہ کونسا ملک ہے ؟"​
بزرگ :۔ " میرا نام اعجاز عبید اخترؔ ہے، اور تم اس وقت سر زمین ہندوستان پر ہو، اور یہ گھنا جنگل سندر بن کے نام سے مشہور ہے ۔ تم بتاؤ کہ تم کس کی تلاش میں نکلے ہو۔؟"​
جواب میں جوگی نے رانجھے اور ہیر کے ملنے سے لیکر ان سے بچھڑنے تک کا سارا قصہ تفصیل سے سنا دیا، یہ سن کر بزرگ بہت متاثرہوئے، اور کہا:۔ " ٹھیک ہے تم یہاں رات گزار سکتے ہو، مگر میری مانو تو تم اس لاحاصل تلاش کو ترک کر دو، یہ دنیا بہت بڑی ہے ، جو ایک بار کھو جائے وہ دوبارہ نہیں ملتا ۔"​
جوگی:۔ " میں اس لاحاصل کی تلاش میں ہی مرنا پسند کروں گا ، تا آنکہ میں انہیں ڈھونڈ نہ لوں ، آپ نہیں جانتے کہ وہ دونوں میرے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ۔میں ایک تنہا اور اکیلا جوگی تھا، جس کا کوئی بھی دوست کوئی بھی رشتے دار، کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے میں اپنا کہہ سکتا ۔ خوش قسمتی سے مجھے بہن بھائی ملے ، ابھی میں ان کے ملنے کا ٹھیک سے شکر بھی ادا نہیں کر پایا تھا کہ وہ بچھڑ گئے۔ اس رشتے کی قدروقیمت کوئی میرے جیسا ہی کر سکتا ہے جس کی ساری زندگی اکیلے ہی گزری ہو۔ میں نہ تو ان کی تلاش ترک کر سکتا ہوں ، نہ ہی انہیں بھولنے کا حوصلہ ہے مجھ میں ۔"​
یہ کہتے کہتے جوگی کی آواز بھرا گئی، اور بزرگ کی بھی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے ۔رندھی ہوئی آواز میں بولے:۔" بس کرو بیٹا ، مجھے یقین آ گیا ہے تمہاری لگن کی سچائی پر، میں دعا کرتا ہوں، کہ تمہاری تلاش کامیاب رہے ، اور تمہیں تمہارے دوست مل جائیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ تم ان کا نام و مقام تک نہیں جانتے ، پھر انہیں ڈھونڈو گے کیسے؟"​
جوگی:۔ " نہیں جانتا، کیسے ڈھونڈوں گا، مگر پھر بھی دل میں ایک آس ہے کہ کبھی نہ کبھی ان سے ایک بار پھر ضرور مل پاؤں گا۔ آپ مجھے اللہ کے نیک بندے اور بزرگ لگتے ہیں ، خدا کیلئے آپ ہی میری کچھ مدد کیجئے۔"​
بزرگ :۔ " ارے کیسی باتیں کرتے ہو ، میں نے تو ساری زندگی فاعلاتن ،فعلان، فاعلات کرتے گزاری ہے ، اس کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ میں تو خود اللہ سے امید لگائے جنگل میں بیٹھا ہوں۔میں بھلا کیسے نیک اور بزرگ ہو گیا ،"​
جوگی:۔ " بزرگو!! کیا اب آپ منتیں کروانا چاہتے ہیں؟ ، اگر آپ بزرگ نہیں ہیں تو یہ بال کیا دھوپ میں لیٹے لیٹے سفید کیے ہیں؟۔ میری کچھ مدد کریں۔"​
بزرگ :۔ "نالائق ، بد اخلاق ، کسی نے بزرگوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی کیا ، پتا نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں منہ اٹھا کے، چلو دفع ہو جاؤ ابھی اور اسی وقت یہاں سے ۔"​
جوگی بزرگ کے پاؤں پر گر پڑا اور گھگھیا کے بولا:۔ "معاف کر دیں عالی جاہ! ، ساری زندگی انسانوں سے دور ویرانوں میں گزری ہے ، اور کچھ زندگی کی صعوبتوں نے زبان تلخ کر دی ہے ، اس لیے نادانستگی میں غلطی ہو گئی ۔ آپ کو غالبؔ کا واسطہ مجھے معاف کر دیں اور میری کچھ مدد کریں۔"​
غالبؔ کا نام سنتے ہی بزرگ کچھ نرم پڑ گئے اور بولے:۔ "اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے، اب تم آرام سے سو جاؤ، صبح اللہ کچھ نہ کچھ سبب بنا دے گا۔"​
مگر نیند کیا خاک آنی تھی، سونے کیلئے لیٹا تو بزرگ نے دوبارہ دیوانِ غالبؔ کھول کر اس کی تلاوت شروع کر دی ، نتیجتاً جوگی ساری رات بیٹھ کے سر دھنتا رہا۔​
جب صبح کا اجالا پھیل گیا اوربلبلیں سن کر یہ نالے غزل خواں ہو گئیں تو جوگی نے بزرگ کو ان کا وعدہ یاد دلایا ۔ بزرگ نے اثبات میں سر ہلایا ، جوگی کو خاموش رہنے کی ہدایت کر کے سر جھکا کر مراقبے میں ڈبکیاں لگانے لگے ۔ کافی دیر بعد مراقبے سے سر اٹھا یا اور بولے:۔ " تمہارے لیے ایک عجیب و غریب خبر ہے "​
جوگی بے تابی سے بولا :۔ "جی جناب میں جانتا ہوں غریب ہی ہوگی ، زرداری کی صدارت میں جہاں انسان ِ خطِ غربت سے نیچے سسک رہے ہیں ، وہاں خبر کی کیا مجال کہ امیر ہوتی پھرے ، بہرحال عجیب ہو یا غریب ، جلدی بتائیے کیا خبر ہے؟"​
بزرگ:۔ "وہ جنہیں تم ہنس راج سمجھتے رہے اور انہیں بہن بھائی بنا لیا ، وہ سچ مچ کےراج ہنس نہیں تھے۔"​
یہ سن کر جوگی ہنس پڑا اور بولا:۔ " بابا جی، مخول نہ کرو، اگر وہ سچ مچ کے راج ہنس نہیں تھے تو کیا پلاسٹک کے تھے؟ "​
بزرگ:۔ " ناہنجار ! دھیان سے پہلے پوری بات تو سن لیا کرو، بیچ میں ٹانگ اڑا دیتے ہو۔ وہ جسے تم نے بہن بنایا تھا اور اس کا نام ہیر رکھا تھا ، وہ کوئی راج ہنسنی نہیں بلکہ پریوں کی شہزادی ہے ، اور وہ جو تمہارا دوست بنا تھا ، وہ راج ہنس نہیں بلکہ اصل میں ایک انسان ہے۔"​
جوگی:۔ " بابا جی ! میں آپ سے آخری بار کہتا ہوں ہوں ، کہ یہ بچوں کی کہانیاں کسی اور کو سنائیے گا ، مجھ سے ڈرامے بازی نہ کریں ، اور اصل بات بتائیں۔"​
یہ سن کر بزرگ غصے سے لا ل نیلے پیلے اور زرد ہو گئے اور جلال میں آ کر جوگی کو دفع ہو جانے کا آرڈر دیا۔ مگر جوگی بھی اپنی صفت میں ایک ڈھیٹ تھا، بھلا کہاں ماننے والا تھا۔​
آخر کار تنگ آ کر بزرگ نے دیوانِ غالبؔ پر ہاتھ رکھ کے کہا ، کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں ، سچ کے سوا کچھ نہیں کہہ رہا ۔ تب جوگی کو یقین آیا ، مگر حیران ہو کر بولا:۔" اگر ہیر ایک پری ہے اور رانجھا انسان ، تو پھر وہ راج ہنس کیسے بنے ہوئے تھے؟؟اور ایک دوسرے کو ملے کیسے؟؟"​
بزرگ اپنا ماتھا پیٹ کر بولے:۔ "نجانے کس الو کی دم سے پالا پڑ گیا ہے میرا بھی۔ ارے او عقل کے دشمن ! کانوں کی بوہے باریاں کھول کے سنو! اس پری کا نام ہیر نہیں ، بلکہ اس کا نام شہزادی بدر منیر ہے ۔ وہ پرستان کی شہزادی ہے ۔ اور رانجھے کا نام رانجھا نہیں بلکہ گلفام ہے ۔ اور وہ ایک عام انسان ہے ۔ دونوں ہی مرزا غالبؔ کے دیوانے اور مرید ہیں ۔ تمہیں تو پتا ہوگا کہ یومِ غالبؔ کے موقع پر ہر سال مشاعرہ منعقد ہوتا ہے ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ شہزادی بدر منیر انسانی صورت میں مشاعرے میں شریک ہوئی ، اسی مشاعرے میں گلفام بھی موجود تھا ،اور مرزا غالبؔ بھی تیر کمان ہاتھ میں سنبھالے تاک میں بیٹھے تھے۔"​
جوگی:۔ "خدا کا خوف کریں بابا جی ۔ سپہ گری مرزا غالبؔ کے آبا کا پیشہ تھا ، ان کا نہیں ۔ ان کا پیشہ تو قرض لینا تھا۔کیا وفات کے بعد انہیں اس خاندانی پیشے کا خیال آیا، جواب تیر کمان ہاتھ میں پکڑ کے بیٹھے رہتے ہیں؟"​
بزرگ کا چہرہ اس بات پر فلیش لائٹ کی طرح پھر رنگ برنگ ہو گیا ۔ یہ دیکھ کر جوگی کی رگ ِ خرافت پھر پھڑکی:۔​
"بابا جی ! چھوٹی سی بات ہی تو پوچھی ہے ، کوئی دیپک راگ تو نہیں سنایا جو آپ بار بار یوں دیے کی طرح جلنے بجھنے لگ جاتے ہیں ۔ ویسے بھی میرا اعتراض کوئی غلط تو نہیں تھا۔آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے مرزا غالبؔ کے بارے میں ۔"​
اب تو بزرگ کا غصہ جے ایف تھنڈر کی رفتار سے آسمان کو ہاتھ لگانے چل پڑا۔ آگ بگولہ ہو کر بولے :۔ "اچھا تو اب مجھے تم جیسے بچے آ کے غالبؔ پڑھائیں گے۔؟ جب تم الف انار بے بکری والا قاعدہ پڑھتے تھے ، تب میں نے دیوانِ غالبؔ نسخہ اردو ویب ترتیب دیا تھا۔ اور تم کیا ہو کہ غالبؔ کے بارے میں میری غلط فہمی درست کرنے چلے ہو۔؟​
جوگی:۔ " میں سوا سات جماعتیں پاس ہوں ،اور ڈائریکٹ قبلہ غالبؔ کا شاگرد ہوں، کوئی مذاق نہیں ہوں ۔"​
یہ سن کر بزرگ اٹھے اور کونے میں پڑے ایک سالخوردہ سے لکڑی کے صندوق کی طرف بڑھ گئے۔ جوگی ذرا گھبرا گیا کہ کہیں AK47 نکال کر مجھ پر گولی ہی نہ چلا دیں، دل ہی دل میں جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو کا ورد کرنے لگا۔ مگر بزرگ صندوق کھول کر اس میں کچھ ڈھونڈنے لگے۔ پھر کچھ دیر بعد ایک پرانا سا کاغذ ہاتھ میں لیے آ گئے ، اور تپائی پر کاغذ کھول کے پھیلا دیا۔ بولے :۔​
" یہ دیکھو ! یہ ہے میرا شجرہ نسب ، اس میں میرے نام سے چار نام اوپر جو پانچواں نام ہے یہ میرے پڑدادا کے دادا تھے، اور یہ گلی قاسم جان سے اکثر گزرتے تھے، کئی بار گزرتے ہوئے مرزا غالبؔ سے سامنا ہوا تو سلام بھی کیا ، اور مرزا غالبؔ نے کمال مہربانی سے نہایت خندہ پیشانی سے وعلیکم السلام بھی کہا تھا۔ اب معلوم ہوا؟ کہ کس طرح یہ روایات مجھ تک سینہ بسینہ پہنچی ہیں ، وہ کیا خوب کہا ہے ، مرزا غالبؔ سرکار نے :۔​
سلطنت دست بدست آئی ہے​
جام ِ مے ، خاتم جمشید نہیں "​
پھر دونوں ہی بے اختیاری کے عالم میں اس شعر پر سر دھننے لگے۔ جب ذرا نشہ کم ہوا توجوگی کا پرنالہ ابھی تک وہیں تھا:۔ " دیوان غالبؔ ترتیب دینے کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کا ہر مفروضہ درست مان لیا جائے ، آپ کے پڑدادا نواب مصطفے خان شیفتہ اور پڑنانا مولانا الطاف حسین حالی بھی ہوتے تب بھی میں تیر کمان کا مرزا غالبؔ کے ہاتھ میں ہونا کیونکر مانوں ۔؟"​
بزرگ :۔ (طنزیہ لہجے میں)"کبھی یونانی دیومالا پڑھنی نصیب ہوئی ہو تی تو تمہیں پتا ہوتا کہ اس میں ایک دیوتاہے جس نے ایک چڈی پہنی ہوتی ہے اور ہاتھ میں تیر کمان لیے ہوتا ہے ۔"​
جوگی:۔(بات کاٹ کر) " آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نہ صرف یونانی ، مصری اور ہندی دیومالا بلکہ کوہ قاف کی جن مالا سے بھی اچھی خاصی سلام دعا ہے خاکسار کی ، اور وہ جو دیوتا پیمپر باندھے اور تیر کمان ہاتھ میں لیے ساری دنیا کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو خجل خوار کرتا پھرتا ہے ، اس کا نام کیو پڈ ہے اور وہ محبت کا دیوتا کہلاتا ہے۔ مگر سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہے ۔ کہ اس تیر کمان کا مرزا غالبؔ کے ہاتھ میں آنا کیا معاملہ ہے۔؟؟"​
بزرگ:۔" افوہ ! میں بھی کس پاگل سے مغز ماری کر رہا ہوں۔ خیر سنو! یہ دلی شہر کی بات ہو رہی ہے ، خواجہ نظام الدین اولیا ؒ کا دلی ، جنہوں نے ہندوستان کے بادشاہ محمد شاہ تغلق کو بھی اس کے دارلحکومت میں"ہنوز دلی دور است" کہہ کر نہیں گھسنے دیا تھا ، وہ کہاں اس کیوپڈ شیوپڈ کو دلی کے پاس پھٹکنے دیتے ہیں بھلا ۔ اس لیے دلی کیلئے اس تیر کمان کو سنبھالنے کی ذمہ داری انہوں نے مرزا غالبؔ کو سونپی ہوئی ہے ، نہ صرف دلی بلکہ ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی قتیلانِ غالبؔ ، دیوانگانِ غالبؔ، مریدانِ غالبؔ ، اور شاگردانِ غالبؔ بستے ہیں ، ان کے دلی معاملات ، اور محبتوں کی دیکھ بھال بھی مرزا غالبؔ بنفس ِ نفیس خود کرتے ہیں۔ "​
یہ سن کر جوگی خوشی سے اچھل پڑا:۔ " اوہ ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ ۔ واقعی ۔۔۔۔ اب میں سمجھا ۔۔۔۔کہ قتیلانِ غالبؔ کی محبتوں میں کامیابی کا تناسب اتنا زیادہ کیوں ہے ۔ واہ ۔۔۔۔واہ ۔۔۔۔۔ کیا بات ہے میرے استاد محترم کی ۔"​
بزرگ:۔" کامیاب ہو یا ناکام ، یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ قتیلانِ غالبؔ ایک ہی محبت کرتے ہیں ، اور پھر تا زندگی اسےنبھاتے ہیں ، شادی کے بعد اچھے زن مرید ثابت ہوتے ہیں ، کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
جوگی نے بیچ میں بات کاٹ دی:۔ " اچھا اب یہ بات تو واضح ہو گئی، اب آگے بتائیں۔"​
بزرگ:۔ " ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مرزا غالبؔ بھی تیر کمان ہاتھ میں سنبھالے تاک میں بیٹھے تھے۔ جب شہزادی بدرمنیر کی غزل پڑھنے کی باری آئی تو گلفام کے دل پر جیسےپن، تھرمل، شمسی اور ایٹمی بجلی گھر گر پڑے ، بدر منیر نے جیسے ہی کہا :۔" عرض کیا ہے" مرزا غالبؔ نے اس کے کندھے پر کمان رکھ کے چلہ کھینچا اور گلفام کو تیر تاک مارا ۔ وہ خود بھی مغل شہزادہ تھا ، اور حسن ووجاہت میں کسی سے کم نہیں تھا، اس نے زندگی میں ایک سےبڑھ کر ایک حسین دیکھے تھے ، مگر کبھی کسی کو گھاس ڈالنے کے قابل نہ سمجھا تھا ، لیکن شہزادی بدر منیر کا ملکوتی حسن نظر انداز کرنا کسی دل گردے ، جگر ، پھیپھڑے، معدے ، مثانے والے کے بس کی بات نہ تھی ،یوں یہ حور شمائل پہلی نظر میں ہی گلفام کے دل پر قابض ہو گئی ۔ جتنی دیر بدرمنیر غزل پڑھتی رہی ، گلفام کو دنیا و مافیہا کی خبر نہ تھی ۔ وہ غزل کیا سنتا وہ تو اس سراپا غزل کو پڑھنے اور دل میں اتارنے میں محو تھا ، جسے مرزا غالبؔ نے کبھی شائع ہی نہ کیا تھا ۔ غزل ختم ہوئی اور داد و تحسین کا غلغلہ اٹھا تو گلفام کو حقیقت کی دنیا میں ناچار لوٹنا پڑا ، اس کے دماغ میں شیطانی چرخے گھومنے لگے اور وہ بدرمنیر سے بات کرنے کیلئے بہانے اور ترکیبیں سوچنے لگا۔​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
اتنا بتانے کے بعد بزرگ ذرا سانس لینے کو رکے ، تو جوگی سے رہا نہ گیا ۔ :۔ "با با جی ! آگے بھی تو بتائیں کہ پھر کیا ہوا ، جلدی بتائیں ۔"​
بزرگ :۔ " اوہو ! بتاتا ہوں بھئی بتاتا ہوں ذرا دم تو لینے دو۔"​
جوگی :۔ "آپ کے دم لینے کے چکر میں میرا دم نکلا جا رہا ہے ۔ "​
بزرگ نے ایک پیالہ عرق گلاب پیا ، ایک چمچ شہد چاٹا اور پھر گویا ہوئے:۔" آخر گلفام کے دماغ میں ایک ترکیب آئی ، اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اس پر عمل بھی کر ڈالا ۔ جانتے ہو اس نے کیا کیا؟"​
پھر خود ہی بولے​
"اس نے بدر منیر کی غزل پر تنقید کر دی ، اور اس میں سے دو چار امریکن سنڈیاں ، اور ایک دو گلابی سنڈیاں نکال کے رکھ دیں ۔"​
جوگی ہڑبڑا گیا :۔ "یہ امریکن اور گلابی سنڈیاں کہاں سے نکل آئیں ؟ غزل تھی یا کپاس کا کھیت؟"​
بزرگ اس دخل در نامعقولات پر چیں بجبیں ہوئے ، اور بولے :۔ "میرا بھی کس عقل کے دشمن سے پالا پڑ گیا ہے ، دیوانِ غالبؔ کو تو ایسے ہاتھ لگا رہے تھے جیسے میر مہدی مجروح ؔ تم ہو، مگر اتنی سی بات نہیں سمجھ پائے ۔ میرا مطلب تھا کہ گلفام نے بدرمنیر کی غزل میں کیڑے نکالے ۔"​
جوگی (کھسیا کر):۔ "ہی ہی ہی ۔اوہ اچھا ۔۔۔۔۔ اب سمجھا۔"​
بزرگ:۔ ( کسی قدر چونک کر ) تمہاری یہ کھسیانی ہنسی سن کر مجھے مقدس بٹیا یاد آ گئی ، تم شاید جانتے ہو گے اسے؟ ، فرنگستان میں رہتی ہے ، بہت ہی نیک بخت بچی ہے ، بچپناتو اس کا ابھی تک نہیں گیا، بچوں کے ساتھ مل کر چھلانگیں اور کدکڑے لگاتی پھرتی ہے ،کل مجھے طلسمی الو نے خبر دی کہ امرود توڑنے کیلئے درخت پہ چڑھ رہی تھی ، پیر پھسلا اور نیچے آ گری ، ٹخنے نے اس کی حرکتوں سے تنگ آ کراپنی جگہ چھوڑ دی ، اب پیروں پر کرچز لگے ہیں ، مگر شیطان کی نانی پھر بھی شرارتوں سے باز نہیں آتی ۔"​
جوگی :۔ (سر پکڑ کے) اوہو !! بابا جی آپ پٹری پر آئیں سیدھی طرح ، اور یہ مقدس نامہ پھر کبھی سہی ، ابھی مجھے شہزادی بدرمنیر اور گلفام کا قصہ سنائیں ۔"​
بزرگ:۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرطرف سے اٹھتی واہ واہ کی دے دنا دن میں اچانک جو ایک جانب سے یہ تنقید کا ڈونگا آ لگا تو بدرمنیر کو بہت غصہ آیا ، جی میں آیا کہ اس کمبخت کو تو جلا کے راکھ کر دے یا مکھی بنا کے اڑا دے ، جو خوامخواہ مولانا حالی کا گدی نشین بننے کی کوششوں میں ہے ، ا ُدھر مرزا غالبؔ نے بھی کمان میں ایک تیر چڑھایا ، اور چلہ کھینچنے لگے۔ ۔۔۔ مگر پھر شاید یہ سوچ کر رک گئے کہ عورت ذات ہے ، اور ہے بھی اپنی بیٹی جیسی اور خاص مریدنی، اس لیے وہ کوئی اور طریقہ سوچنے لگے۔​
اتنی دیر میں بدر منیر نے جدھر سے تنقید نازل ہوئی تھی اس طرف جو سر کو گھمایا ، تو ایک خوبصورت گھبرو جوان پر نظر پڑی ، دل نے فورا ً مکھی بنانے کے ارادے کو کینسل کر دیا ، مگر دماغ ڈٹ گیا کہ اسے سبق سکھانا ضروری ہے۔بدر منیر نے اسےکچھ کھوٹی کھوٹی اور کچھ کھری کھری سنائیں ، مگر گلفام بھلا کہاں یہ ہمکلام ہونے کا نادر موقع ہاتھ سے جانے دیتا، اس نے بھی جی کڑا کر کے دو بدو جواب دیا۔مگر اس کی دفاعی حیثیت شہزادی بدرمنیر کے سامنے ایسے تھی جیسے نادر شاہ درانی کے سامنے محمد شاہ رنگیلا کی افواج کی تھی ۔ ہر چند کہ گلفام کی رگوں میں بھی مغل خون دوڑتا پھرتا تھا ، مگر بد قسمتی سے بدرمنیر اس کی قائل نہ تھی ۔ اس لیے ناچار آنکھ سے دو چار قطرے بغیر "سر زیر بارِ منتِ ڈراپرکیے " ٹپکا نے پڑے ۔ یہ دیکھ کر شہزادی بدرمنیر بھی کچھ پسیج سی گئی ۔ چونکہ غالبؔ کی پیش گوئی کو 186 سال گزر چکے تھے اس لیے جدید زمانے کی تقاضوں کے مطابق حسن سادگی و پرکاری ، بے خودی و ہشیاری میں یکتا ہونے کے ساتھ ساتھ سب کچھ جانتے ہوئے جرات آزما تھا ۔بدرمنیر نے اب تک بدصورت جن اور بے ڈھنگے دیو ہی دیکھے تھے ، گلفام کی مردانہ وجاہت آسانی سے نظر انداز کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔اب معاملہ ایک طرف غرور عزو ناز ، اور دوسری طرف حجابِ پاس ِ وضع والا ہو چکا تھا۔​
مرزا غالب ؔ تیر ترکش میں رکھ کے کمان کندھے پر واپس لٹکا کے کوئی اہنسائی طریقہ سوچنے میں لگ گئے ۔کہ ان کو بیٹی پر تیر بھی نہ چلانا پڑے اور کام بھی تیر والا ہو جائے ۔​
اب گلفام ہر جمعرات کو مزار غالبؔ پہنچ جاتا ، اور بدرمنیربھی اکثر مزار غالبؔ پر آتی جاتی رہتی ، گلفام کو دیکھ کر یوں انجان بن جاتی گویا وہ لوح جہاں پہ حرفِ مکرر ہو،چار سال تک گلفام بے چارا جوتیاں چٹخاتا رہا ، اتنی تو اسے نوکری کی تلاش میں بھی جوتیاں نہیں چٹخانی پڑی تھیں ،اب بھلا دل کو دل سے کیسے راہ نہ ہوتی ، بدر منیر کے سینے میں چائینہ کا نہیں بلکہ اصلی دل لگا ہوا تھا۔ محبت نفوذ کر ہی گئی ۔ اسی بات پر محترمہ شلپا سیٹھی اپنی کتاب "دھڑکن" میں کیا خوب فرماتی ہیں :۔ نہ ، نہ کرتے پیار، ہائے میں کر گئی ، کر گئی، کر گئی ۔ تو نے کیا اعتبار ررررر ہائے میں مر گئی مر گئی مر گئی ۔​
مرزا غالبؔ نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور اپنے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے بدرمنیر کے دل پر سرخ روشنائی سے میم لکھ دیا۔​
شہزادی بدرمنیر دل کے ہاتھوں ہار گئی ، اور اقرار کر ہی لیا ۔ پھر وہی ہوا جو اکثر ہوتا ہے ، یعنی نامہ و پیام ہونے لگے ،دونوں طرف یہ حال تھا کہ :۔​
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں​
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔​
اور میں کیا تمہیں ان کی نجی باتیں بتاؤں،قصہ مختصر یہ کہ 2006 ء کا موسم خزاں تو جیسے تیسے گزر ہی گیا ، مگر دسمبر آتے ہی گلفام ابرار الحق بن گیا :۔ بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہے ، بھیگی بھیگی سی تنہائی ہے ۔۔۔۔ ان کتابوں میں جی نہیں لگتا ، ہم کو سجنی کی یاد آئی ہے ۔ ایک دن رشید صاحب نے جو جوان بیٹے کو یوں گنگناتے سنا ، تو سمجھ گئے ۔ مگر باپ والی وضع داری آڑے آتی تھی، اس لیے براہ راست کچھ نہ پوچھا کہ بیٹا سجنی کا پتہ ہی بتا دو تاکہ ہم سلسلہ جنبانی شروع کریں ۔ دسمبر بھی گزر گیا، اور 2007 ء آن پہنچا ، جنوری کے چھوٹے چھوٹے دن اور لمبی لمبی راتیں ، گلفام کا وضع احتیاط سے دم رکنے لگا کہ برسوں سے چاک گریباں نہ کیا تھا ۔ آخر جی کڑا کر کے ابا جان سے کہہ ہی دیا :۔ راتاں ہویاں وڈیاں ، سجن بن۔۔ برہوں تڑانواں گڈیاں سجن بن۔ مگر باپ آخر باپ ہوتے ہیں ، اگر باپوں سے ہی کام چل جاتا تو بھلا اللہ تعالیٰ ماں جیسا اوتار زمین پر کیوں اتارتا۔ ادھر سے شہزادی صاحبہ کو بھی ہجرگراں تھا ، اور شبہائے فراق میں اکثر اپنی گہری سہیلی وزیر زادی کو مخاطب کر کے گنگنایا کرتیں :۔ "سہیلی رے سہیلی ، کیا ہے یہ پہیلی۔۔۔۔ ایسا ویسا کچھ کیوں ہوتا ہے سہیلی ۔ میری انگڑائیاں ، میری تنہائیاں ، کتنی اکیلی ۔۔۔۔ سہیلی ری سہیلی۔۔۔۔۔" سہیلی بھلا کونسا علامہ اقبال تھی ، کیا جواب دیتی، البتہ دونوں سر جوڑ کر اس بات پہ گھنٹوں کھی کھی کھی کھی کیا کرتیں ۔ اللہ جانے کیا ماجرا تھا۔​
اسی شرما شرمی میں فروری اور مارچ بھی گزر گئے ،میں ہوتا تو اتنے عرصے میں کے ٹو ، ماؤنٹ ایورسٹ، اور کنچن چنگا کو کئی بار سر کر چکا ہوتامگراس سے یہ زلف نہ سر ہونی تھی نہ ہوئی ، آخر گلفام میاں نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر ہی دی:۔ "مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال ۔"​
اماں جان نے کمال تمکنت سے فرمایا :۔ "دکھاں دی روٹی، سولاں داسالن آہیں دا بالن بال ۔"​
گلفام :۔ " لو ہم مریض عشق کے بیمار دار ہیں​
اچھا اگر نہ ہوتو مسیحا کا کیا علاج؟"​
اماں جان نے پوچھا :۔" بے تابیوں کا کیا سبب؟ کیا علاج؟"​
فریادی بولا :۔ "کہے حسین ؒ فقیر نمانڑا ۔۔۔۔ شوہ ملے تاں تھیواں نہال ۔"​
چیف جسٹس صاحب نے اس بات کا فوری نوٹس لیا ، اور فرمایا :۔ "انصاف ہوگا، ضرور ہوگا۔"​
اپریل جنبانیندن میں گزر گیا ۔ ظالم سماج کی مجال نہیں تھی کہ بیچ میں ٹانگ اڑاتا، 17 مئی وصل ڈے مقرر ہوا۔مئی کا مہینہ آتے ہی لڑکیوں ، بالیوں نے ڈھولک رکھ لی اور حلوائیوں نے مٹھائیاں تیار کرنا شروع کر دیں، ٹینٹ اور لائٹنگ والوں کو بھی آرڈر بک کرا دئیے گئے ۔ 17 مئی 2007ء کا دن آن پہنچا اور یوں گلفام کا بھی بینڈ بج گیا ۔​
مگر جیسا کہ اب تک ہر کہانی میں ہوتا آیا ہے کہ کہانی کے آخر میں "ان کی دھوم دھام سے شادی ہو گئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے"اس کہانی کا اختتام یہاں نہیں ہوتا۔ بدرمنیر اور گلفام کی شادی ہو گئی، اور وہ ہنسی خوشی بھی رہنے لگے، ماشاءاللہ اب ان کے آنگن میں 2 ننھی پریوں کی چہکاریں ، اور قلقاریاں گونجتی ہیں ۔ (اللہ ان کی خوشیوں کو سدا قائم و دائم رکھے، اور ان کی آپسی محبت دن دوگنی رات چوگنی ہوتی رہے ، ان کے پیار کو کسی بد نظر کی نظر نہ لگے)۔ اب وہ جنت نظیر ملک پاکستان میں رہتے ہیں۔​
بزرگ سناتے سناتے رک گئے ، مگر جوگی تو ویسے ہی منہ کھولے محویت سے بیٹھا تھا ، جیسے شہزادی بدرمنیر اور گلفام کے ولیمہ میں بریانی اڑانے میں مصروف ہو۔ بزرگ نے جوگی کو جھنجھوڑا مگر جوگی کی محویت نہ ٹوٹی ، ناچار بزرگ نے پانی سے بھرا لوٹا جوگی پر انڈیل دیا ۔​
مگر یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟​
بجائے جوگی کی آنکھ کھلنے کے میری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔​
اور میں نے اماں کو پانی کا خالی جگ لیے اپنے سر پر کھڑا دیکھا ۔​
ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کہ۔۔۔۔۔۔۔۔​
مغل بچے عجیب ہوتے ہیں ،​
جس پہ مرتے ہیں ، اسے مار رکھتے ہیں​
 

نایاب

لائبریرین
ویلکم بیک
" کتھے ٹر گئے سی سرکار "
لگدا " جہانیاں جہاں گشت " دے فیض نیں پیراں نوں پر لا دتے ۔
بہت خوب لکھا ہے قصہ مغل ۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
اسے کہتے ہیں دھانسو انٹری ۔ ۔ ۔ کیا طلسم ہوش ربا کا اکیسویں صدی کا ورژن پیش کیا ہے ماشا اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ عمدہ تحریر ہے
 

مہ جبین

محفلین
واہ واہ چھوٹاغالبؔ ۔۔۔۔!
بقول سید زبیر بھائی کے " دھانسو انٹری " ہے
واقعی میں اس بات سے متفق ہوں

زبردست طریقے سے "ہیر رانجھا " میرا مطلب ہے کہ" شہزادی بدر منیر اور شہزادہ گلفام " کے عشق کی داستان
کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑحنے والے اس میں گم ہی ہوگئے تھے
بلاشبہ داستانِ ہیر رانجھا بہت دلچسپ پیرائے میں لکھی ہے

ایک بات بتاؤ اویس۔۔۔!

یہ داستان دھنوٹ کے سرکاری مہمان خانے میں تو نہیں لکھی تھی :heehee:

ویسے جہاں بھی لکھی ہے بہت زبردست ہے ماشاءاللہ

اتنے دنوں سے لوگ تم کو ایسے ہی تو نہیں مس کر رہے تھے نا:)

اللہ تمہاری تحریروں میں ایسی ہی شگفتگی اور روانی عطا فرمائے
اور تم یونہی الف لیلوی داستانیں ہم کو سناتے رہو :applause::prince::princess:

:zabardast1:

ویسے ابھی تک سب ہی نے اس کو زبردست سے کم ریٹنگ دی ہی نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ واقعی بہترین اور عمدہ تحریر ہے :thumbsup:
 

اشتیاق علی

لائبریرین
بہت زبردست @چھوٹاغالبؔ۔
ما شا اللہ۔ بہت خوب تحریر کیا۔ پڑھنے لگا تو مکمل پڑھے بنا رکا نہیں گیا۔
شریک محفل کرنے کا بہت شکریہ۔
:):):):)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میڈا بھرا۔۔۔ کمال نئیں کر چھوڑیا۔۔ قسمیں:zabardast1: جیویں کئی دیہاڑیاں بعد آمد تھی لگدی اے ایہہ جے خاکہ واسطے تاں ڈاڈھی محنت تھی ہو سی:warzish:۔ مغلاں دا حال ڈے ول جل گئے او۔ پر شک ایا ائ کہ مغل ھالے ڈٹھا کائی نئیں
 

مغزل

محفلین
پیارے چھوٹے غالب۔۔ جیوہزاروں سال۔۔
تحریر ہم نے آج ہی پڑھی ہے ۔۔ میری اور غزل کی طرف سے اس خوبصورت باقارحسنِ ظن پر سراپا سپاسی اور تشکرانہ ٹوٹے پھوٹے جملے قبول کرو۔ (ورنہ تیری بدرمنیر بھابی کہہ رہی ہے کہ آج چھوٹے کو ننھا منا غالب بنا ہی دو محمود ۔۔ ہاہاہا) یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی بھی رکنِ محفل خاکہ بوجھ نہیں پایا کہ یہ مجھ ناچیز فاتر العقل اور میری بیگم غزل ناز غزل کی بابت ہے شاید اراکینِ محفل آنکھ اوجھل پہاڑاوجھل کے محاورے پر۔۔عمل پیرا ہیں۔۔ ہاں یہ خوشی بھی بہت ہے کہ ہمیں ہمارے ’’دوستوں‘‘ نے خوب یادرکھا ۔۔ بہر کیف زندگی طےشدہ ڈگر پر چل رہی ہے یہ مراسلہ محض ’’جگہ گھیرنے ‘‘ کو شامل کررہا ہوں۔۔حواس کی بحالی اور وقت کی دستیابی کے ساتھ میں اور میری جان اسی مراسلے پر مدون کی چھری چلائیں گے اور کوشش کریں گے کم از کم تحریر کا تو حق ادا کرہی دیں وگرنہ محبتوں کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔۔۔’’ پولیس کی لترول والے عرصے ‘‘ میں جس جانفشانی سے تم نے ہم دونوں کے تاریخی کھوجی ہونے کا ثبوت دیا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔۔ خدا کی قسم تم چھوٹے نہیں اب منجھلے غالب ہوگئے ہو۔
تمھاری صحت سلامتی کے لیے دعا گو۔۔اور تمھاری محبتوں کو سنبھالنے میں مصروف۔۔۔
تمھارا بھائی ’’شہزادہ گلفام ’’ اور تمھاری بھابھی ’’شہزادی بدر منیر ‘‘
images

(ایک کام اگر ہوسکے تو ۔۔ دھاگے کاعنوان ’’مغزل‘‘ بچے عجیب ہوتے ہیں کروا لو۔)
 
Top