مسجد میں مزاح

جُنید

محفلین
یہ واقعہ میں نے اپنے دادا جان سے سنا تھا۔ انکے کسی چک میں‌پیش آیا تھا۔

ایک اور واقعہ جو جمعہ کے روز امی جان کیساتھ 90ء کی دہائی میں پیش آیا:
عید الفطر قریب تھی اور مسجد نمازیوں سےبھری ہوئی تھی۔منتظمین نے مزید جگہ بنانے کیلئے وہاں عورتوں اور مردوں کے درمیان عارضی پردے لگادئے۔ نمازکے معاً بعد خواتین روایتی چغلیوں میں‌مشغول ہو گئیں۔ کچھ دیر تک تو مرد حضرات برداشت کرتے رہے۔ مگر جب شور زیادہ بڑھ گیا تو کسی نے اٹھ کر آواز لگائی:
’’براہ کرم، خواتین خاموشی اختیار کریں۔ مردوں کی سنتیں ہو رہی ہیں۔ :rollingonthefloor:
اسکے بعد جو ہوا، وہ بتانے کے لائق نہیں ہے!

یہ پچھلے لطیفے کا کفارہ ہے کیا؟

اگر ہے تو ادا ہو گیا ہے.
:rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

مغزل

محفلین
ہم ایک بار اپنے استاد نصیر کوٹی صاحب کے ہمراہ ڈیفنس میں ایڈمرل ایم آئی ارشد سے ملنے گئے۔
دوران ِ ملاقات عصر کا وقت ہوا ، تو اڈمرل صاحب کے ڈر سے سبھی چل پڑے ،

نماز میں ہمارے استاد نے نیت باندھی:

چار رکعت نماز فرض، پیچھے ا س امام کے ، ڈر سے ایم آئی ارشد کے ، اللہ اکبر
 

نبیل

تکنیکی معاون
مساجد میں کئی مرتبہ گفتنی ناگفتنی پیش آتی رہتی ہے۔ ہما شما پر فرض نمازیں ہی بھاری ہوتی ہیں، اوپر سے رمضان میں تراویح کی طویل رکعتوں میں کھڑا ہونا پڑ جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ تراویح کے بعد وتر کی جماعت بھی کرائی جاتی ہے جس میں امام صاحب جب دعائے قنوت کے لیے اللہ اکبر پڑھتے ہیں تو کئی تھکے ماندے نمازی بھول کر رکوع میں چلے جاتے ہیں۔

میرے ایک دوست ماشاءاللہ حافظ قران ہیں اور تراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ بھول کر تراویح کی دوسری رکعت میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہو گئے۔ یہ سہو عام نماز میں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن جب حاضرین کو مزید ربع سپارہ کھڑے ہو کر سننا پڑا ہوگا تو یقیناً انہوں نے امام صاحب کو دل سے دعائیں دی ہوں گی۔

میں ایک مرتبہ اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا تھا۔ میری دیکھا دیکھی کچھ اور لڑکے بھی اعتکاف میں بیٹھ گئے۔ دس دن گھر والوں سے خاطر مدارت کروانا کس کو برا لگتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے رات کے وقت تجسس کے مارے ان کے حجرے میں جھانکا کہ آخر ساری کیا عبادت کرتے رہتے ہیں۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ سارے ایک حجرے میں محفل جما کر ایک دوسرے کو ہارر سٹوریز سنا رہے تھے۔
 

علی ذاکر

محفلین
ہمارے ادھر گجرانوالہ میں ایک آدمی جو نبینہ تھا وہ یہ صدا لگاتا تھا

ایک باپ کے دو بیٹے قسمت جدا جدا ہے ایک شہنشاہ دنیا دوسرا در بدر پھرا ہے !

میں نہیں جانتا وہ آدمی سچا تھا جھوٹا تھا لیکن اس کے ان الفاظ میں اس کی پوری داستاں چھپی ہوئ تھی !

مع السلام
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم!
یہ تقریر دلپذیر میں‌نے خود اپنے کانوں سے سنی ہے پنجابی میں تھی ردھم اور الفاظ تو وہ نہیں لیکن پھر بھی آپ سب کی خدمت میں
صبح کی سیر کے لیے گیا تو آواز آرہی تھی
کہ پیر صاحب جنگل میں‌اپنے مرشد کے ساتھ ٹھرے ہوئے تھے سردیوں کے دن تھے رات کو پیر صاحب سوچ رہے ہیں کہ صبح اٹھ کر تہجد کے لیے پانی کا انتظام کرنا ہے اسی فکر میں پیر صاحب ساری رات سو نہیں سکے رات کے پچھلے پہر پیر صاحب جنگل میں پانی کی تلاش کے لیے چل نکلے دو ر تک کوئی آدم زاد نہیں نظر نہیں آتا لیکن پیر صاحب نے مرشد کے وضو کے لیے پانی تو لانا ہی تھا سو تلاش جاری رہی ایک جگہ انہیں روشنی نظر آئی پیر صاحب روشنی والی جگہ پہنچے پتہ چلا کہ یہاں ایک اماں جی رہتی ہیں پیر صاحب نے منت سماجت کر کے پانی لیا اور واپسی کی راہ لی راستے میں خیال آیا کہ مرشد تو بوڑھے آدمی ہیں اور پانی ٹھنڈا ہے ۔ اسے گرم کروا لینا چاہیے ۔
یہ سوچ کر پیر صاحب واپس پلٹے اور بوڑھی خاتون کے پاس دوبارہ پہنچے اس سے پانی گرم کرنے کی درخواست کی خاتون پہلے ہی تنگ کرنے کی وجہ سے غصے میں تھیں اب تو وہ پھٹ پڑیں کہ میں نے تمہیں پانی دے دیا بغیر کسی معاوضے کے اب پانی گرم کرنے کا معاوضہ ہوگا ۔
پیر صاحب نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی چیز نہیں ہے ۔
خاتون نے کہا اپنی ایک آنکھ مجھے نکال دو
پیر صاحب نے اپنی آنکھ نکال کر دے دی
پیر صاحب نے پانی گرم کرنے کے بدلے اپنی آنکھ دے دی تاکہ میرے مرشد کو تکلیف نہ محلے والو تم اللہ کے راستے میں 5 روپے بھی نہیں دے سکتے ۔
 

arifkarim

معطل
اگر پانچ روپے اللہ کی راہ میں دینے کے بعد بینکر حضرات روپے کی قدر نہ کم کر دیتے تو یقیناً دے دیتا:grin:
 

طالوت

محفلین
کیا کیا کہانیاں چھپا رکھی ہیں ۔ میرے ایک ہی بار کے اعتکاف میں تین واقعات پیش آئے ، ایک سنانے کے قابل نہیں دوسرے سے کچھ فرقے ناراض ہوں گے اور کچھ بغل میں منہ دے کر کھی کھی کریں گے ۔ تیسرا البتہ مذاحیہ تو نہیں قابل توجہ ضرور ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ اس سال حکومت اور مولویوں میں ٹھن گئی اور حکومت اور مولویوں میں ایک دن کا فرق آ گیا ہے ۔ میں جب بیسویں روزے عصر کے بعد اپنا سامان اٹھا کر مسجد پہنچا تو وہاں صاحبان ایک دن پہلے سے ہی معتکف ہو چکے تھے ۔ ٹیڑھی ٹیڑھی نظر وں سے دیکھتے رہے اور ایک آدھ نے فقرے بھی اچھالے کہ ان کے نزدیک میں مشرفی تھی اور وہ بایئسواں روزہ تھا ۔ خیر دن گزرتے رہے ان دنوں حالات کے باعث رات میں ایک مسلح سپاہی معتکفین کی حفاظت کی ذمہ داری انجام دیتا تھا ۔ ایک دن اسے آنے میں دیر ہو گئی اور وہ بےچارہ باہر سے آوازیں دیتا رہا اور جب میں نے دروازہ کھولنے کا ارادہ کیا تو دیوار کے جیسے سامنے کہ اعتکاف توٹ جائے گا حالانکہ مسجد کے صحن اور دروازے میں پانچ چھ فٹ کا فاصلہ ہے اور وہاں جوتے اتارے جاتے ہیں ۔
شاید اس سے اگلے روز محلے کے کوئی صاحب سعودی عربیہ سے آئے تو کچھ کجھوریں ساتھ لائے اور مسجد میں بھی دے گئے ۔ اتنے میں وہ ہمارے محافظ موصوف بھی ا گئے اور عشاء کی نماز پڑھنے لگے ۔ امام مسجد نے سب کو دو دو کجھوریں دیں ۔ اب صرف وہ موصوف بچ رہے ۔ ایک ساتھی نے اشارہ کیا کہ ان کو بلا کر بھی دیں تو امام موصوف فرمانے لگے چھوڑو رہنے دو ۔ حا لانکہ کجھوریں ابھی خاصی مقدار میں موجود تھیں ۔ بس صاحب وہ دن اور یہ دن شاید ہی کبھی اس امام کے پیچھے نماز پڑھی ہو ۔ نفرت سی ہوگئی ہے اس شخص سے ۔ خدا کے گھر میں کسی کو کوئی حقیر جانے برداشت سے باہر ہے ۔
وسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
جناب آپ نے مزاح کی بجائے طنز کرنا شروع کر دیا ہے۔ :(

اعتکاف سے یاد آیا کہ ایک ہمارے محلے کے ایک نوجوان نے اعتکاف کے دن شرارتوں میں گزارے لیکن آخری دن انہیں غیرت آئی اور وہ خشوع و خضوع سے نوافل پڑھنے لگے۔ ان سے غلطی صرف اتنی ہوئی کہ وہ عصر کی نماز کے بعد نوافل پڑھ رہے تھے۔ :)
 

arifkarim

معطل
ہمارے محلہ میں بھی اعتکاف کی آخری رات ہر سال کوئی نہ کوئی ڈرامہ ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ابو جان کی اکثر ڈیٹوی لگتی تھی کہ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو چائے پانی بروقت پہنچایا جائے۔ البتہ آخری رات چائے پانی کی بجائے عید کے بارہ میں متضاد خبریں زیادہ پہنچائی جاتی تھیں۔ جتنے چکر ابو پی ٹی وی اور مسجد تک کے درمیان لگاتے تھے اتنے شاید پورا رمضان نہیں لگائے ہوں گے! :)
 

طالوت

محفلین
جناب آپ نے مزاح کی بجائے طنز کرنا شروع کر دیا ہے۔ :(

اعتکاف سے یاد آیا کہ ایک ہمارے محلے کے ایک نوجوان نے اعتکاف کے دن شرارتوں میں گزارے لیکن آخری دن انہیں غیرت آئی اور وہ خشوع و خضوع سے نوافل پڑھنے لگے۔ ان سے غلطی صرف اتنی ہوئی کہ وہ عصر کی نماز کے بعد نوافل پڑھ رہے تھے۔ :)
غلطی ہو گئی لکھنا نہیں چاہ رہا تھا کہ کچھ مزاحیہ تھا نہیں مگر عادت سے مجبور !
یعنی خدا کے گھر کے باہر اگر کوئی کسی کو حقیر جانے تو برداشت ممکن ہے :biggrin:
روانی میں لکھ گیا باہر بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا مگر خدا کے گھر میں ذرا زیادہ پاس رکھا جاتا ہے ۔
-------------------------------------------------
جب اعتکاف ختم کیا تو گھر پر سب کو سختی سے منع کیا کہ خبردار جو کوئی ہار اٹھائے مسجد کے باہر کھڑا ہوا ۔ اب جب سب جانے لگے تو ہر ایک کے ساتھ ایک پورا ٹولہ کہ کسی نے برتن تھام رکھیں ہیں کوئی کمبل اٹھائے ہوئے کوئی کتابیں اور خود ہاروں میں لدے پھندے ۔ اور میں اکیلا ایک بغل میں بستر دوسرے ہاتھ میں تھیلے میں بقیہ سامان اور جانب منزل ۔ ۔ ۔ ۔:)
------------------------------------------------
اب بھی کچھ مزاحیہ نہ ہو تو :notworthy:
وسلام
 

ابوشامل

محفلین
رمضان کے آخری دنوں میں 27 ویں شب گزرتے ہی گویا کئی لوگوں کا رمضان ختم ہو جاتا ہے۔ بازاروں میں رونقیں خوب جمنے لگتی ہیں اور زیادہ تر لوگ عید کی تیاریوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جب آتش جوان تھا ان دنوں 29 ویں شب کو محلے کی مسجد میں دوستوں کے ساتھ جاگنے کا پروگرام بنایا۔ رات کو 2 بجے کے بعد ترتیل قرآن طے کیا گیا۔ ایک سورہ منتخب کر کے باری باری اس کی تلاوت کرتے، اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ تلاوت میں عام غلطیوں کی تصحیح ہو جاتی۔ اسی دوران ایک حجرے سے ایک معتکف نے باہر جھانکا اور کہا بھائی ذرا آہستہ تلاوت کریں۔ ہم نے آواز اور آہستہ کر لی کہ اندر نجانے کون سا چلہ کاٹا جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ قطار کے تمام معتکفین درمیانی "پردے" ہٹا کر ایک حجرے میں جمع ہو کر لوڈو کھیل رہے تھے۔
 

ابو کاشان

محفلین
لا حول و لا قوۃ
میں نے ایک برگر علاقے کی جامع مسجد میں ایک نو عمر لڑکے کو عین جمعہ کے خطبے میں psp پر گیم کھیل کر وقت گزارتے دیکھا ہے۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
مولوی صاحب کو نہ معلوم بچوں سے کوئی پرخاش تھی بچے مسجد میں آتے تو انہیں بھگا دیتے ایک دن درس دیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بیان کیا کہ ایک دن آقا علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک بکری سامنے سے گزرنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آگے آگئے تاکہ وہ بکری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے نہ گزر سکے بکری تھوڑا اور آگے بڑھ کر گزرنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آگے ہوگئے حتی کہ دیوار کے ساتھ لگ گئے لیکن بکری کو نہ گزرنے دیا
پھر حالات نے پلٹا کھا یا اور مولوی صاحب کی شادی ہوگئی اور اللہ نے بچے بھی دئیے
اب ان کے بچے مسجد آنے لگے ایک دن ایک نمازی نے ان سے ان کے بچوں سے سابقہ رویہ اور جو واقعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سنایا تھا بیان کیا۔
مولوی صاحب نے کہا کہ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں‌ سجدہ کرتے تو اوپر بیٹھ جاتے تھے۔
 

فخرنوید

محفلین
ایک مولوی صاحب کو کسی نے پیغام بھیجا کہ ہمارے گھر میں دال بنی ہے۔ اپنے شاگرد(غفورا) کو بھیج کر منگوا لیں۔ نماز سے پہلے اسکو پیغام دینا بھول گئے اور نماز شروع کرتے ہی یاد آیا تو تلاوت کچھ یوں‌کی:
دال ہے لذیذاً، کھانی ہے ضروراً، دوڑ وے غفورا، اللہ اکبر! اور غفورا نماز چھوڑ کر دال لینے چلا گیا!:grin:

یہ تو آپ نے جناب گپ ہی ماری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا بھی لالچ نہیں دیکھا ہے میں نے کبھی
 

الف عین

لائبریرین
ہماری مسجد میں اکثر ہندو عورتیں اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بچے کی بیماری نمازی کی دعا سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔
ایک دن میں مسجد سے نکلا تو ایک عورت بولی
’ذرا بچے پہ اللہ میاں پھونک دو‘
(نعوذ باللہ
 
ایک مولوی صاحب کو کسی نے پیغام بھیجا کہ ہمارے گھر میں دال بنی ہے۔ اپنے شاگرد(غفورا) کو بھیج کر منگوا لیں۔ نماز سے پہلے اسکو پیغام دینا بھول گئے اور نماز شروع کرتے ہی یاد آیا تو تلاوت کچھ یوں‌کی:
دال ہے لذیذاً، کھانی ہے ضروراً، دوڑ وے غفورا، اللہ اکبر! اور غفورا نماز چھوڑ کر دال لینے چلا گیا!:grin:

یہ قصہ بطور لطیفہ پورے پنجاب میں مشہور ہے اور واضع ہے کہ کسی مسخرے نے یا لڑکوں بالوں نے گپ ہانکی اور قصہ عوامی لطیفہ کی شکل اختیار کردگیا، کسی کو اسکا الزام اس لئے نہیں دوں گا کہ اس طرح کے لطائف تقریباُ ہر معاشرہ میں پائے جاتے ہی؛
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم!
خطباء حضرات بھی بڑی یادیں چھوڑ جاتے ہیں
میں‌ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک مولانا آئے کہ اشتہار کی عبارت لکھوانی کمپیوٹر میں
اب خطیبوں کے ناموں کے ساتھ القابات میں‌ان کے مشورے سے لگاتا رہا
چوتھے خطیب کے نام کے ساتھ انہیں‌کوئی خطاب نہیں سوچھ رہا تھا کہنے لگے یار کوئی بتاؤ
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا
"خطیب بے لگام"
 
Top