کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
مری جان جاتی ہے یارو سنبھالو
کلیجے میں کانٹا لگا ہے نکالو


نہ بھائی مجھے زندگانی نہ بھائی
مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو

خدا کے لیئے اے مرے ہم نشینو
یہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلالو

نہ آوے اگر وہ تمہارے کہے سے
تو منت کرو گھیرے گھیرے بلالو

اگر کچھ خفا ہو کے گالیاں دے
تو دم کھا رہو کچھ نہ بولو نہ چالو

کہو ایک بندہ تمہارا مرے ہے
اسے جان کندن سے چل کر بچالو

جلوں کی بُری آہ ہوتی ہے پیارے
تم اس سوز کی اپنے حق میں دعا لو
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
دیوانِ میر سوز ۔ دو قلمی نسخوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔۔
1 - نسخہء کتب خانہ انجمنِ ترقی اُردو - علی گڑھ
2 - نسخہء رضا لائبریری - رام پور
نسخہء علی گڑھ ناقص الاآخر ہے۔ اس کا کاتب غلط نویس ہے۔ بیشتر اشعار غلط نویسی کا شکار ہوئے ہیں۔۔جن میں سے کچھ کو صحیح پڑھنا مشکل ہے۔۔۔
نسخہء رام پور کی کتابت واضح ہے۔ اس کا کاتب اُتنا غلط نویس نہیں ہے۔
مطلع لکھتے ہوئے اس وقت شاید کاتب ضربِ عضب کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ اور ان سے نادانستہ طور پر قلمِ غضب سرزد ہوگیا ہو۔ اللہ بہتر جانتا ہے کیا ہوا ہوگا۔۔
 
Top