محفل چائے خانہ

شمشاد

لائبریرین
اردو کے حروف تہجی کی صحیح تعداد چوّن (54) ہے... ڈاکٹر عبدالرؤف پاریکھ

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے طے کیا کہ ہائیہ آوازوں (بھ، پھ، تھ وغیرہ) کو ظاہر کرنے والے حروف بھی حروف ِتہجی میں شامل ہیں- شان الحق حقی نے اردوکے حروف تہجی کی تعداد تریپن (۵۳) قرار دی اور مقتدرہ قومی زبان نے چون (۵۴)۔

اردو میں کتنے حروفِ تہجی ہیں ؟اس مسئلے پر مختلف آرا رہی ہیں اور آج بھی کچھ لوگ اس سوال کو اٹھاتے رہتے ہیں ۔ دراصل حروف تہجی کا مسئلہ لسانیات اور صوتیات سے جڑا ہوا ہے اور اسی کی روشنی میں اس مسئلے کا جائزہ لینا چاہیے۔ لسانیات اور صوتیات کے ماہرین کے مطابق حروف ِ تہجی دراصل آوازوں کی علامات ہیں اور ان کا مقصد کسی زبان میں موجود آوازوں کو ظاہر کرنا ہے۔

بیسویں صدی کے ابتدائی بیس پچیس برسوں تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ اردو میں پینتیس (۳۵) یا چھتیس (۳۶) حروف ِتہجی ہیں اور اس زمانے کے ابتدائی اردو قاعدوں اور بچوں کو اردو سکھانے والی کتابوں میں یہی تعداد لکھی جاتی تھی ۔ البتہ بعض کتابوں میں پہلے ’’مفرد‘‘ حروف ِ تہجی لکھ کر بعد میں ’’مرکب ‘‘ حروف ِ تہجی لکھے جاتے تھے اور یہ طریقہ بعض کتابوں میں آج بھی ملتا ہے۔ یہ مرکب حروف ِ تہجی کیا تھے ؟یہ دراصل ہائیہ یا ہکاری آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِ تہجی (یعنی بھ، پھ، تھ وغیرہ) تھے۔ ان آوازوں کو انگریزی میں aspirated sounds کہاجاتا ہے۔ مغرب میں جب جدید لسانیات کی بنیادیں سائنس پر استوار ہوئیں تو لسانیاتی اور صوتیاتی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ یہ ہائیہ آوازیں (بھ، پھ، تھ وغیرہ) دراصل باقاعدہ، الگ اور منفرد آوازیں ہیں ۔ گویا لسانیات کی زبان میں یہ الگ فونیم (phoneme) ہیں۔لسانیاتی تجربہ گاہوں میں مشینوں کے ذریعے کی گئی جانچ نے بھی اس نظریے کو آج تک درست ثابت کیا ہے کہ وہ آوازیں جوہوا کے ایک جھٹکے کے ساتھ مل کرہمارے منھ سے نکلتی ہیں (بھ ، پھ، تھ وغیرہ )وہ الگ آوازیں یا منفرد صوتیے ( فونیم) ہیں اور ان آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِ تہجی بھی الگ حروف سمجھے جانے چاہییں ۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اردو میں اوکسفورڈ کی عظیم لغت کی طرز پر ایک ایسی کثیر جلدوں پر مبنی لغت بنائی جائے جس میں اردوکا ہر لفظ ہو اور ہر لفظ کے استعمال کی سند بھی شعرو ادب سے دی گئی ہو۔ اس منصوبے پر ۱۹۳۰ء میں کام شروع ہوا تو پہلا مسئلہ حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب کا تھا کیونکہ اس کے بغیر کسی لغت میں الفاظ کی ترتیب طے نہیں کی جاسکتی۔اردو کی پرانی لغات میں عام حروف اور ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف (مثلاً ب اور بھ ) میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا اور ان میں بعض الفاظ (مثلاً بہانا اور بھانا ،بہر اور بھر، پہر اور پھر) ترتیب کے لحاظ سے ایک ساتھ ہی درج ہیں جو لسانیات کی رو سے غلط ہے اور قاری کے لیے بھی الجھن کا باعث ہے۔ لہٰذا باباے اردو نے طے کیا کہ اردو کی ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف ِتہجی کو بھی الگ حرف مانا جائے اور لغت میں ان کی الگ تقطیع قائم کرکے ان کی ترتیب غیر ہائیہ حروف کے بعد رکھی جائے ، مثال کے طور پر جب ’’ب ‘‘ سے شروع ہونے واے تمام الفاظ کا لغت میں اندراج ہوجائے تو ’’بھ‘‘ سے شروع ہونے والے الفاظ لکھے جائیں ، و علیٰ ہٰذا القیاس۔اس طرح مولوی عبدالحق وہ پہلے لغت نویس تھے جنھوں نے ان ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف (بھ ، پھ وغیرہ)کو باقاعدہ الگ حرف مان کر اردو کے حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب درست کی ۔اردو میں ان ہائیہ حروف کی تعداد پندرہ (۱۵) ہے اور یہ بھی اردو کے حروف تہجی میں شامل ہیں۔

قیام ِپاکستان سے قبل اردو لغت کا یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا ۔اس عظیم لغت کے منصوبے کو حکومت پاکستان نے اردو لغت بورڈ کے تحت ازسرِ نوشروع کیا ۔ شان الحق حقی نے بطور معتمد (سیکریٹری) بورڈ کی لغت کے منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا تو علم ِ لسانیات سے واقفیت کی بنا پر باباے اردو کی طے کردہ اردو حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب سے اتفاق کرتے ہوئے اردو کے ہائیہ حروف کو بھی اس میں شامل کیا ۔ اس طرح عربی کے اٹھائیس (۲۸) حروف ،فارسی کے مزید چار (۴) حروف (یعنی پ۔چ۔ژ۔گ)، اردو کی معکوسی آوازوں (یعنی ٹ۔ ڈ ۔ ڑ ) کو ظاہر کرنے والے تین (۳)حروف، اردو کی ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے پندرہ (۱۵) حروف ، الف ممدودہ (یعنی الف مد آ)اور ہمزہ (ء) کے علاوہ بڑی ’’ے‘‘ کو بھی الگ سے حرف ِتہجی شمار کیا کیونکہ اردو میں یاے مجہول (یعنی بڑی ’’ے ‘‘) کا الگ استعمال ہے۔ اس طرح اردو کے حروف تہجی کی کل تعداد’’الف ‘‘سے لے کر ’’ے ‘‘تک تریپن (۵۳) ہوگئی جن کو ترتیب سے یہاں لکھا جاتا ہے :

ا۔ آ۔ ب۔ بھ ۔ پ۔ پھ ۔ ت ۔ تھ ۔ ٹ۔ ٹھ ۔ ث۔ ج۔ جھ ۔ چ۔ چھ ۔ ح۔ خ۔ د۔ دھ ۔
ڈ۔ ڈھ ۔ ذ۔ ر۔ رھ ۔ ڑ۔ ڑھ ۔ ز ۔ ژ۔ س ۔ ش۔ ص۔ ض۔ ط ۔ ظ ۔ ع ۔ غ ۔ ف۔
ق ۔ ک ۔ کھ ۔ گ ۔ گھ ۔ ل ۔ لھ ۔ م ۔ مھ ۔ ن ۔ نھ ۔ و ۔ ہ ۔ ء ۔ ی ۔ ے

ان میں شامل حروف لھ، مھ ، نھ وغیرہ باقاعدہ حروف ِ تہجی ہیں کیونکہ وہ اردو کی بعض آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے ننھا، تمھارا ، جنھیں اور چولھا جیسے الفاظ میں دو چشمی ھ لکھنی چاہیے ورنہ ان کا املا غلط ہوجائے گا۔

اردو کے حروف تہجی کی صحیح تعداد اردو لغت بورڈ میں شان الحق حقی نے تریپن (۵۳) طے کی اور اسی ترتیب اور تعداد کی بنیاد پر اردو کی بائیس(۲۲) جلدوں پر مبنی لغت باون (۵۲) سال کی محنت شاقہ کے بعد مرتب اور شائع کی گئی۔ البتہ دور جدید میں کمپیوٹر آنے کے بعد جب مشینی کتابت میں نون غنے (ں) کی وجہ سے مسئلہ ہونے لگا تو مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام اب ادارہ ٔ فروغ ِ قومی زبان ہوگیا ہے) نے اپنے صدر نشین افتخار عارف صاحب کی نگرانی میں ایک مجلس(کمیٹی) بنائی جس نے یہ طے کیا کہ نون غنے (ں) کو بھی ایک حرف تسلیم کیا جائے تاکہ ایک معیاری (اسٹینڈرڈ) کلیدی تختے (یعنی key بورڈ) کی مدد سے جب عالمی سطح پر اردو کو فون اور کمپیوٹر میں استعمال کیا جائے تو کوئی الجھن نہ ہو۔ اس طرح اردو کے حروف ِتہجی میں ترتیب کے لحاظ سے نون (ن) کے بعد نون غنے (ں) کا اضافہ کرنا پڑا۔اس اضافے سے ان حروف کی کُل تعداد چو ّن (۵۴) ہوگئی ہے اور اب اسی کو سرکاری طور پر درست تسلیم کیاجاتا ہے۔ گویا اردو کے حروف تہجی کی صحیح تعداد چو ّن (۵۴) ہے۔

(منقول)
 

شمشاد

لائبریرین
اردو زبان کا ایک قاعدہ ہے کہ جب "خ" کے فوراً بعد "و" آتا ہے تو "و" سائلنٹ ہو جاتا ہے.

جیسے:

خواہش، خواندہ، خواہ مخواہ، خواب، خاطرخواہ، خویش، خواجہ وغیرہ۔‏لیکن یہی "و" جب "خ" کے بعد "خواتین" میں آیا تو قطعاً خاموش نہیں رہ سکا.
 

عثمان

محفلین
ان میں شامل حروف لھ، مھ ، نھ وغیرہ باقاعدہ حروف ِ تہجی ہیں کیونکہ وہ اردو کی بعض آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے ننھا، تمھارا ، جنھیں اور چولھا جیسے الفاظ میں دو چشمی ھ لکھنی چاہیے ورنہ ان کا املا غلط ہوجائے گا۔
کیا حروف کا حاصل مرکب بھی حرف کہلاتا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو کوئی اردو دان ہی بتا سکتا ہے۔

وارث بھائی یا پھر استاد محترم اعجاز عبید کی رائے جاننی چاہیے۔
 
لوگ بھی کیسے ہیں مہمان سے پوچھتے ہیں کہ چائے لائیں بھائی لانی ہے تو لے آئیں مہمان تھوڑی نا بولے گا کہ ہاں میں چائے پیوں گا
 

سیما علی

لائبریرین
’’ چاہ ‘‘بمعنی کنواں سے قطع نظر )لیکن اس میں اردو والوں نے ’’ت ‘‘ لگا کر اپنا ایک لفظ بنالیا ہے اور اسے بڑے شعرا و ادبا نے استعمال بھی کیا ہے ، مثلاًاردو لغت بورڈ نے ’’باغ ِ اردو ‘‘نامی کتاب (۱۸۰۲ء) سے اس کی قدیم ترین سند دی ہے۔ اس کے بعد سند کے لیے میر انیس کا یہ شعردیا ہے :

اے بیت ِ مقدس تری عظمت کے دن آئے
اے چشمہ ٔ زمزم تری چاہت کے دن آئے

جبکہ انیس سے پہلے ناسخ نے کہا تھا :

میری چاہت نے کیا آگاہ اس طنّاز کو
ہے بجا سمجھوں وکیل اپنا اگر غمّاز کو

بہرحال ، عرض یہ کرنا ہے کہ لفظ ’’چاہت ‘‘ کا استعمال اردو کے ان استاد شعرا کے ہاں ملتا ہے جو سند سمجھے جاتے ہیں لہٰذا اس کی ثقاہت پر سوال اٹھانا مناسب نہیں۔ چاہ کے ساتھ چاہت بھی بالکل درست ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
میر تقی میر کی عادت تھی کہ جب گھر سے باہر جاتے تو تمام دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے اور جب گھر واپس آتے تو تمام دروازے بند کر لیتے تھے۔ ایک دن کسی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا۔

" میں ہی تو اس گھر کی واحد دولت ہوں۔" ٭…ایک دن سید انشاء اللہ خان انشاء نواب صاحب کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ گرمی کی وجہ سے دستار سر سے اتار کر رکھ لی۔ انشاء کی منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب صاحب کو شرارت سوجھی اور ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ٹھونگ ماری۔ جس پر انشاء نے جلدی سے دستار سر پر رکھ لی اور کہنے لگے کہ سبحان اللہ! بچپن میں بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ جو لوگ ننگے سر کھانا کھاتے ہیں شیطان ان کے ٹھونگیں مارتا ہے۔

آج معلوم ہوا کہ وہ بات سچی تھی۔٭…ریل کے سفر کے دوران دو مسافر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک نے کہا، عبدالعزیز خالد کے شعر کسی کو یاد نہیں رہتے، اگر آپ ان کے پانچ شعر سنا دیں تو میں آپ کو پانچ سو روپے دوں گا۔دوسرے شخص نے فوراً خالد کے پانچ شعر سنا دئیے۔ پہلا بہت متعجب ہوا۔ اس نے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور شرط جیتنے والے کے حوالے کرتے ہوئے کہا، اپنا تعارف تو کرایئے۔

شرط جیتنے والے نے نوٹ اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا، میں ہی عبدالعزیز خالد ہوں۔
منقول
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہنس پڑی شام کی اداس فضا
اس طرح چائے کی پیالی ہنسی
بشیر بدر
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے تو بھلا اس آئینے سے چائے کیسے چھپ سکتی تھی یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں اس کا اہم مقام رہا ہے چاہے وہ ادیب و شاعر کی نجی زندگی ہو یا قلمی!!!!!!!!!!!چائے نے دونوں ہی زندگیوں پر اپنے اثر انداز ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔کچھ شاعر حضرات تو ایسے بھی ہیں جن کی رومانی شاعری میں بھی چائے کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔۔۔
اس نے کہا میں یا چائے ؟
میں نے چائے کا کپ اٹھا لیا
منقول
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
یہاں صرف چائے ملتی ہے؟ مجھے تو کافی پینی ہے؟
کافی کولڈ چاہیے ہے یا گرم دونوں ملیں گی آپکے قدم رنجہ فرمانے کا انتظار ہے چائے خانے میں ۔۔۔۔۔۔
جیہ بٹیا ۔۔۔۔۔
ہزار رنگ یہ وحشت قدم قدم پہ کھلی
کہ زندگی کی حقیقت قدم قدم پہ کھلی
 

سیما علی

لائبریرین
ساغر صدیقی اپنی تخلیقات چائے کی پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شعراء مفتیا ن اور زاہدانِ تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ چائے انہیں خود مرغوب ہوتی۔ آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری اور بے کیف ہے۔ اب یہ بات طے ہے کہ چائے اظہارِ محبت اور چاہت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ناراضگیاں اور گلے شکوے ایک کپ چائے سے دور ہو سکتے ہیں اور دوست چائے کے ساتھ ساتھ غصہ بھی پی سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
منقول
 
آخری تدوین:

شرمین ناز

محفلین
زندگی کی کتاب میں ہر قسم کا chapter شامل ہوتا ہے، ہر صفحہ نئی داستان سُناتا ہے...!
کسی صفحے پر خُوشیاں بِکھری ہوتی ہیں تو کسی صفحے پر غم...!

اگر آج آپ کو کسی ایسے chapter کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں آپ کے پاس صرف غم ہی غم ہیں تو یقین رکھیں یہ حالات صرف وقتی ہیں...!
آپ آج کے غم پر رونے میں اِتنا وقت نہ لگائیے کہ صفحہ پلٹا ہی بُھول جائیں...!

یقین کریں!
اگلے صفحے پر خوشیاں ہاتھ پھیلائے آپ کی منتظر ہیں...!
بس آپ کے Move on کرنے کی دیر ہے...!

منقول
 

سیما علی

لائبریرین
اردو ادب میں رومانویت کا عرصہ 1900 سے 1935 تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اگرچہ اس تحریک کا عرصہ بہت کم ہے اس کے باوجود اس نے تخلیق ادب، اجتماعی شعور و ادراک اور اسالیب شعر پر جو اثرات مرتب کیے وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔رومانیت کے علم برداروں نے ہر قسم کے جبر اور نا روا پا بندیوں کے خلاف کھل کر لکھا۔ رومانویت نے عالمی ادبیات پر دوررس اثرات مرتب کیے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ صدی کی روشن خیالی، خشک اور بیزار کن سائنسی انداز فکر، یکسانیت کی شکار اکتا دینے والی مقصدیت اور ہوس کے خلاف رومانویت نے صدائے احتجاج بلند کی۔ سائنسی انداز فکر نے لطیف جذبات، قلبی احساسات اور بے لوث محبت کو بالعموم نظر انداز کر دیا تھا۔ رومانویت نے انہی دل کش اور حسین جذبوں کے احیا پر پوری توجہ مر کوز کر دی۔ ان کا اصرار تھا کہ لوک ادب، لوک داستانوں اور ما بعد الطبیعاتی عناصر در اصل ادب کی جمالیات کی تفہیم میں چراغ راہ ثابت ہوتے ہیں۔
رومانیت کا لفظ رومان سے نکلا ہے اور لفظ رومانس رومن زبان سے مشتق ہے۔ اس لفظ کا استعمال متعلقہ زبانوں میں سے کسی ایک زبان کی کہانیوں ، خیالی افسانہ ، ناول یا نظم کے لیے ہوتا ہے جن میں خیالی اور تصوراتی زندگی کو بنیاد بنایا گیا ہو اور ایسی تحریروں کو بھی رومانس کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے جن میں مبالغہ آرائی، عشق و محبت کا معاملہ اور تخیل پرستی کی رنگ آمیزی ہو۔ عربی زبان میں رومان سے مراد کوئی مقبول عام قدیم رزمیہ داستان ہے ، کوئی محیر العقول جذباتی افسانہ یا ناول جس میں معاشرے کی محض خیالی اور حیرت ناک تصویر پیش کی گئی ہو رومان کے دائرے میں آتا ہے۔فارسی زبان میں رومان کے معنی ناول، افسانہ یا قصہ کے ہیں ۔دراصل”رومان” جو کبھی محض ایک لفظ تھا رفتہ رفتہ ایک ادبی اصطلاح بن گیا اور اس سے وابستہ تصورات و افکار نے اس وقت کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اٹھارویں صدی کے اختتام پر پہنچتے پہنچتے رومانیت ایک ادبی تحریک میں تبدیل ہو گئی جسے ادب میں رومانی تحریک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے رومانیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے”رومانیت کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو، رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کوسیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو، آزادی سے بہنے دیا جائے “(عبداللہ ڈاکٹر سید :مباحث، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع اول1965، صفحہ 392)۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں”رومانوی ذہن اپنی مثالی دنیا کے تصور میں سرشار گرد و پیش کی ٹھوس حقیقتوں سے قطع نظر کرنا چاہتا ہے”(سجاد باقر رضوی ڈاکٹر :مغرب کے تنقیدی اصول، کتابیات، لاہور، طبع اول 1966، صفحہ31۔رومانیت کا تصور اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے ۔ ہمارے نثری ادب میں رومانیت کی توانا روایت کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہی ہے۔ قدیم داستانوں میں رومانی انداز موجود تھا نیز قدیم ناولوں میں بھی رومانیت کا عنصر موجود رہا ہے۔ اردو ادب میں رومانیت ایک ایسے طرز احساس کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس میں محبت، آزادی اور انسان دوستی کے خیالات و تصورات کو پروان چڑھایا گیا ۔رومانی ادیب فطرت پرستی ، ماضی سے وابستگی ، وطن پرستی ، انقلاب کی خواہش ، قدیم تاریخ سے دلچسپی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتا ہے۔رومانیت کے علم بردار حسن ، فراغت ، غموں سے دوری کے متلاشی تھے اور اپنی تحریروں میں بھی ایسے ہی نظریات کی ترجمانی کرتے تھے۔اردو میں رومانی تحریک کا پہلا دور”مخزن” سے شروع ہوا جس میں آسکر وائلڈ سے متاثر ہونے والے جذباتی رویوں کو ادب میں اظہار کا موقع ملا۔ سجاد حیدر یلدرم اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے رومانی تحریک نے ایک خاص شکل اختیار کی۔ جس میں انگلستان کی رومانی تحریک کے اثرات نمایاں محسوس ہوتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو میں رومانیت کی اصطلاح انگریزی سے آئی ۔
اردو کی رومانی شاعری میں یہی اصول کار فرما دکھائی دیتا ہے کہ خواہ ہجر ہو یا وصال ہر صورت میں مسرت و انبساط کی توقع رکھنی چاہیے۔ اردو کے رومانی شعر ا نے حسن فطرت پر بھی کھل کر لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے بالعموم آبادیوں سے بڑھ کر ویرانے پسند ہیں۔ پہاڑوں ، صحراؤں ، ریگستانوں ، جنگلوں بیابانوں ، کھنڈرات، شہر خموشاں ، سمندروں ، دریاؤں ، وادیوں ، مرغزاروں ، چشموں اور آبشاروں کے مناظر دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ اس کی قدرت کاملہ کے یہ حسین و دلکش مناظر دیکھ کر حسن و رومان کی بالادستی کا یقین ہو جاتا ہے۔ رومانی شعرا کے اسلوب میں جو گہرا نفسیاتی شعور مو جود ہے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ان شعرا نے حسن و رومان کے بیان سے معاشرے میں پائی جانے والی بیزاری اور جمود کا خاتمہ کیا اور صبر و استقامت ، حوصلے اور امید کی راہ دکھائی۔ آخر کچھ ذکر اختر شیرانی کا کہ جن کو اردو شاعری میں رومانی تحریک کے سرخیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ محمد داؤد خان اختر شیرانی رومانی تحریک کے اہم ترین شعرا میں شامل ہیں۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے اور انھیں اردو کے شاعر رومان کی حیثیت سے بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان کی مشہور رومانی نظمیں ’’اے عشق کہیں لے چل ‘‘ ، ’’آج کی رات ‘‘’’او دیس سے آنے والے بتا ‘‘ ، ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر ‘‘ان کے کمال فن کی دلیل ہیں۔ اختر شیرانی کی شاعری میں بیزار کن ماحول سے نجات کی تمنا، اخوت، امن و آشتی اور سکون قلب کی آرزو اور حسن فطرت کی جستجو کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اختر شیرانی نے اپنے اشہب قلم کی جولانیاں اس انداز سے دکھائی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ایک الگ دنیا آباد کرنے کے آرزومند تو ہیں لیکن اس کے لیے وہ سخت کوشی کے بجائے محض تخیل کی شادابی پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ نظام کہنہ کو سخت نا پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ مسموم ماحول سے گلو خلاصی کی کوئی صورت پیدا ہو۔ ان کے اسلوب میں حالات کی تبدیلی کی تمنا تو موجود ہے مگر آلام روزگار کے مہیب طوفان میں وہ اپنی خیالی دنیا کی جستجو کرتے کرتے سرابوں میں بھٹک جاتے ہیں۔ ان کی زندگی بہاروں کی جستجو میں کٹ گئی اس کے بعد وہ یہ تمنا کرتے ہیں کہ ممکن ہے انھیں اس زندگی کے بعد سکون نصیب ہو جائے۔رومانی تحریک نے جہاں اردو ادب کی تمام اصناف کو متاثر کیا وہاں اردو افسانے پر بھی اپنے دیرپا اثرات مرتب کیے۔سجاد حیدر یلدرم اردو افسانہ میں رومانیت کے علمبردار ہیں ۔یلدرم سے متاثر ہونے والے دیگر معروف افسانہ نگاروں میں نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری، حجاب امتیاز علی ، سلطان حیدر جوش ، قاضی عبدالغفار وغیرہ بہت نمایاں ہیں۔۔۔۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
ظفری بھیا، چائے خانہ وارث صاحب کا ورثہ ہے ، جب سے وہ منتظم کیا ہوئے ہم منتظر ہی رہتے ہیں آمد کے ۔ ویسے ایک گڈ نیوز ہے کہ منشایاد صاحب کو ہم نے محفل میں آنے پر آمادہ کرلیا ہے ، انشا اللہ جلد ہی وہ ہماری رہنمائی کرتے نظر آئیں گے۔والسلام
چائے خانہ وارث میاں کا ورثہ ہے اور آباد رکھیے اس چاہ خانے کو ۔۔۔
ایک پیالی کڑک چائے بغیر شکر کے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
🖋️ *اردو لکھنے میں کی جانے والی 11 غلطیاں* ۔

*# پہلی*

اردو کے مرکب الفاظ الگ الگ کر کے لکھنا چاہئیں، کیوں کہ عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفظ کے بعد ایک وقفہ ( اسپیس ) چھوڑا جاتا ہے، اس لیے یہ خود بخود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔

دراصل تحریری اردو طویل عرصے تک ’کاتبوں‘ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر اور کچھ اپنی بے علمی کے سبب بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے۔ جس کی انتہائی شکل ہم ’آجشبکو‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب یہ اردو کے الگ الگ الفاظ ہیں، تو مرکب الفاظ کی صورت میں جب انہیں ملا کر لکھا جاتا ہے، تو نہ صرف پڑھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ ان کی ’شکل‘ بھی بگڑ جاتی ہے۔

مندرجہ ذیل میں ان الفاظ کی 12 اقسام یا ’ طرز ‘ الگ الگ کر کے بتائی جا رہی ہیں، جو دو الگ الگ الفاظ ہیں یا ان کی صوتیات/ آواز کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں الگ الگ کرکے لکھنا ضروری ہے۔

* جب کہ، چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، حالاں کہ

* کے لیے، اس لیے، اس کو، آپ کو، آپ کی، ان کو، ان کی

* طاقت وَر، دانش وَر، نام وَر

* کام یاب، کم یاب، فتح یاب، صحت یاب

* گم نام، گم شدہ

* خوش گوار، خوش شکل

* الم ناک، وحشت ناک، خوف ناک، دہشت ناک، کرب ناک

* صحت مند، عقل مند، دانش مند،

* شان دار، جان دار، کاٹ دار،

* اَن مول، اَن جانا، اَن مٹ، اَن دیکھا، اَن چُھوا

* بے وقوف، بے جان، بے کار، بے خیال، بے فکر، بے ہودہ، بے دل، بے شرم، بے نام،

* امرت سر، کتاب چہ

* خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ

*# دوسری*

اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے، جیسے کہ ’کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں وغیرہ

*# تیسری*

اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے، جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’ی‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیراعلیٰ، رحمٰن اور اسحٰق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں ’ل‘ ساکت ہوتا ہے جیسے ’السلام علیکم‘ اسے ’ل‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہے۔

*# چوتھی*

زیر والے مرکب الفاظ جیسے جانِِ من (نہ کہ جانے من) جانِ جاں (نہ کہ جانے جاں) شانِ کراچی (نہ کہ شانے کراچی) فخرِ پنجاب (نہ کہ فخرے پنجاب) اہلِ محلہ ( نہ کہ اہلے محلہ) وغیرہ کی غلطی بھی درست کرنا ضروری ہے۔

*# پانچویں*

اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’کر دینا ہے‘ نہیں بلکہ ’کردیں گے‘ لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کر دو گے (نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کر دو گے (نہ کہ کردینی ہے) لکھنا چاہیے۔

*# چھٹی*

اردو کے ’مہمل الفاظ‘ میں’ش‘ کا نہیں بلکہ ’و‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کتاب وتاب، کلاس ولاس، اسکول وسکول، پڑھائی وڑھائی، عادت وادت وغیرہ۔ انہیں کتاب شتاب، کلاس شلاس لکھنا غلط کہلاتا ہے۔

*# ساتویں*

اردو میں دو زبر یعنی‘ تنوین‘ والے لفظوں کو درست لکھنا چاہیے، اس میں دو زبر مل کر ’ن‘ کی آواز دیتے ہیں جیسے تقریباً، اندازاً، عادتاً، اصلاً، نسلاً، ظاہراً، مزاجاً وغیرہ۔

*# آٹھویں*

کسی بھی لفظ کے املا میں ’ن‘ اور ’ب‘ جہاں ملتے ہیں وہاں ’م‘ کی آواز آتی ہے، اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہے ’ن‘ اور ’ب‘ ہی لکھا جائے ’م‘ نہ لکھا جائے، جیسے انبار، منبر، انبوہ، انبالہ، استنبول، انبیا، سنبھل، سنبھال، اچنبھا، عنبرین، سنبل وغیرہ

*# نویں*

اردو کے ان الفاظ کی درستی ملحوظ رکھنا چاہیے جو "الف" کی آواز دیتے ہیں، لیکن کسی کے آخر میں ’ہ‘ ہے اور کسی کے آخر میں الف۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے، تو اس کے معانی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پِیسا، زن اور ظن، دانہْ اور دانا وغیرہ وغیرہ۔

*# دسویں*

الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ چاہے وہ گول ’ہ‘ پر ختم ہوں یا ’الف‘ پر، انہیں جملے میں استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات جملے کی ضرورت کے تحت ’جمع‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے، حالاں کہ وہ واحد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جملے کا پچھلا حصہ یا اس سے پہلے والا جملہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ دراصل ’ایک‘ ہی چیز کا ذکر ہے۔ جیسے:_

_میرے پاس ایک ’بکرا‘ تھا، اس ’بکرے‘ کا رنگ کالا تھا۔

_میرے پاس ایک ’چوزا‘ تھا، ’چوزے‘ کے پر بہت خوب صورت تھے۔

_ہمارا ’نظریہ‘ امن ہے اور اس ’نظریے‘ کے تحت ہم محبتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔

_جلسے میں ایک پرجوش ’نعرہ‘ لگایا گیا اور اس ’نعرے‘ کے بعد لوگوں میں جوش و خروش بڑھ گیا۔

_ایک ’کوا‘ پیاسا تھا، اس ’کوے‘ نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کیا۔

*# گیارہویں*

انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہو چکی ہیں، یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ’ایس‘ سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں ’الف‘ کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طورپر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹوری، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ’ایس‘ سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ، سیمسٹر، سائن اوپسس وغیرہ۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
ادب عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں یہ مادہ عمدہ تربیت، شائستگی، تہذیب، اخلاق، تواضع اور تعلیم کے معانی رکھتا ہے۔ الفاظ کا برتاؤ چونکہ کسی فرد کی شخصیت میں پائی جانے والی ان تمام خوبیوں کا سب سے زیادہ عکاس ہوتا ہے اس لیے نظم و نثر پر بھی اس کا اطلاق ہوا۔ ادب کو انگریزی میں لٹریچر (literature) کہتے ہیں۔ یہ لفظ لاطینی کے litera یا littera سے نکلا ہے جس کے معانی حرف کے ہیں۔ حرف چونکہ لکھا جاتا ہے اس لیے لکھی ہوئی عبارات پر ادب کا قیاس کیا گیا۔ اہلِ مغرب کی روایت رہی ہے کہ وہ کسی بھی موضوع پر لکھی ہوئی چیزوں کو اس موضوع کا ادب (literature) کہتے ہیں۔ مثلاً سائنسی یا تکنیکی لٹریچر۔ وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں لکھا ہوا ہونا ادب کی بنیاد ہے۔ جبکہ ہماری روایت میں ادب کا تصور ایک خاص قسم کی تربیت، ذوق اور مزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک انسان کا کلام فصاحت، بلاغت اور طلاقت کی ایک خاص سطح کو نہ پہنچ جائے، ہم اسے ادب نہیں کہتے۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
پطرس بخاری کو لوگ زیادہ تر انھیں ایک مزاح نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ مگر وہ ایک دنیا تھے۔ اقوامِ متحدہ میں خدمات سے لے کر یونیسیف کی بقا کے لیے لڑنے تک اور ایک صدی پہلے "دنیا کا شہری" ہونے کا خطاب حاصل کرنے سے لے کر ہوا کے دوش پر انقلاب لانے تک بہت کچھ ایسا ہے جس کا کسی ایک شخص میں جمع ہو جانا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ مگر پطرس پطرس تھے۔ پھر ان کی فہم و دانش فنکارانہ کمالات سے الگ ایک چیز تھی۔ ان کے تنقیدی مضامین پڑھیے۔ بڑے بڑوں کو بھول جائیں گے۔ مزاح کے بارے میں مشہور فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں کے ایک مقالے کا ترجمہ بھی کیا۔ بعض نگارشات میں کہیں کہیں ایسے عارفانہ نکات بیان کر گئے ہیں کہ اوروں کے قلم کانپ جائیں۔ طوالت کا خوف مانع ہے۔ بس یہی کہتا ہوں کہ اقبالؔ کی نظم "ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام" پڑھیے۔ حکیم الامت کی ناک میں دم ہو سکتا ہے تو ہما شما کیا چیز ہیں؟؟؟؟؟؟

منقول
 
آخری تدوین:
Top