فیسبک سے ایک تحریر اچھی لگی، سوچا شریک محفل کی جائے۔
ماسٹر صاحب کی عادت تھی کہ بچے کا کام چیک کرنے کے لیے کاپی ایک ہاتھ میں پکڑتے اور دوسرے سے اس کا کان پکڑ کر اسے حسب خواہش کھینچے رہتے..... اس دوران اگر کوئی قصہ یاد آ جاتا تو وہ سنانے لگتے. لیکن بھول جاتے کہ ان کی گرفت میں ایک کان بھی ہے. وہ بدستور اسے مڑوڑتے رہتے.. بچے کی دلدوز چیخ "مر گیا ماسٹر جی" کے ساتھ پورے سکول میں گونجتی...
ان ماسٹر صاحب کی ایک اور نہایت دل پذیر عادت تھی. اردو املاء کی کاپی چیک کرتے تو اس میں مثال کے طور پر دل پذیر کو" پظیر" لکھا گیا تو وہ قابل فہم طور پر گوشمالی کرتے..... دو فقروں کے بعد ظاہر ہے وہی لفظ دوبارہ آئے گا تو" دل پظیر " ہی لکھا ہو گا. تو غضب ناک ہو جاتے کہ "اُلو کے کان ابھی ابھی تو بتایا ہے کہ یہ دل پذیر ہوتا ہے تم نے دوبارہ دل پظیر" لکھا ہے. گوشمالی مزید اور تادیر ہوتی.
اور جب وہی لفظ ایک مرتبہ پھر غلط لکھا ہوا سامنے آتا تو بید کی مدد لیتے. کہ اس نالائق کو ابھی ابھی دوبارہ بتایا ہے کہ یہ دل پذیر ہے اور یہ اسے پھر سے دل پظیر لکھتا جاتا ہے...... ظاہر ہم میں اتنی ہمت نہ تھی کہ انہیں بتاتے کہ ماسٹر صاحب یہ املاء ایک ہی نشست میں لکھی گئی ہے..... تو دل پظیر ہی چلتا جائے گا.