لکھاری کی مؤنث

انتہا

محفلین
لکھاری سے لکھارن
جیسے بھکاری سے بھکارن

وہ الگ بات کہ یہ لفظ مستعمل نہیں ہے۔
بہت بہت شکریہ یعقوب صاحب، بندے کے ذہن میں بھی یہی بات آ رہی تھی کہ یہ سنسکرت کا لفظ ہے اور اس میں مؤنث اسی طرح بنائی جاتی ہے، لیکن کیوں کہ لغت میں نہیں مل رہا تھا اس لیے اہل علم کی رہ نمائی مطلوب تھی۔ جزاک اللہ خیرا فی الدارین
 
اس سے ملتے جلتے الفاظ دیکھ لیجئے:
لیکھ (تحریر) لیکھک (لکھنے والا) اس میں معمول کی شرط نہیں ہے۔ لیکھیکا (لیکھک کی مؤنث)
لکھاری (لکھنا جس کے معمول میں شامل ہو) ہمارے ہاں ادیب یا قلم کار۔ مؤنث: لکھارن
کوی (شاعر) کویتا (شاعری) شاعرہ کو کیا کہیں گے، مجھے نہیں معلوم
قلم کار (کار ۔۔ فارسی ہے فاعل: کرنے والا) ادا کار، صدا کار، پیش کار، ہدایت کار، فن کار؛ وغیرہ۔ اس میں مذکر مؤنث دونوں شامل ہیں۔
لہٰذا
ادا کارہ، فن کارہ، اداکارائیں، فن کارائیں غلط ہیں۔ ہ کے ساتھ تانیث کا صیغہ عربی (مؤنث حقیقی) سے خاص ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ سنسکرت لفظ نہیں، محض پاکستانی پنجابی میں مصنف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ہندی یا سنسکرت لفظ ’لیکھک‘ ہے
 

یوسف-2

محفلین
اس سے ملتے جلتے الفاظ دیکھ لیجئے:
لیکھ (تحریر) لیکھک (لکھنے والا) اس میں معمول کی شرط نہیں ہے۔ لیکھیکا (لیکھک کی مؤنث)
لکھاری (لکھنا جس کے معمول میں شامل ہو) ہمارے ہاں ادیب یا قلم کار۔ مؤنث: لکھارن
کوی (شاعر) کویتا (شاعری) شاعرہ کو کیا کہیں گے، مجھے نہیں معلوم
قلم کار (کار ۔۔ فارسی ہے فاعل: کرنے والا) ادا کار، صدا کار، پیش کار، ہدایت کار، فن کار؛ وغیرہ۔ اس میں مذکر مؤنث دونوں شامل ہیں۔
لہٰذا
ادا کارہ، فن کارہ، اداکارائیں، فن کارائیں غلط ہیں۔ ہ کے ساتھ تانیث کا صیغہ عربی (مؤنث حقیقی) سے خاص ہے۔
یعقوب بھائی! لسانی اُصول کے مطابق تو آپ کی یہ بات تو سو فیصد درست ہے۔ لیکن اب تو اردو ادب میں بھی ان الفاظ کا استعمال ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔ تو کیا اب انہیں ’غلط العام‘ کے درجہ میں شامل سمجھا جائے یا انہیں ہنوز ‘غلط العوام‘ ہی کہا جائے گا۔
 

محمد امین

لائبریرین
لکھاری کی مؤنث لکھاریہ ہوسکتی ہے۔ یعقوب آسی انکل تائے تانیث اگرچہ عربی الاصل ہے مگر اردو میں فاعلِ مؤنث کے لیے کثرت سے مستعمل ہے، لہٰذا قرینِ قیاس لکھاریہ ہی ہوگا۔

شمشاد بھائی۔۔۔ راجپوتائن؟


میں نے کہیں پڑھا تھا ، کویتا شاعری کی کسی خاص صنف کو کہتے ہیں ، کیا یہ بات درست ہے ؟

کویتا ہندی میں شاید نظم کو کہتے ہیں۔۔۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
یعقوب بھائی! لسانی اُصول کے مطابق تو آپ کی یہ بات تو سو فیصد درست ہے۔ لیکن اب تو اردو ادب میں بھی ان الفاظ کا استعمال ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔ تو کیا اب انہیں ’غلط العام‘ کے درجہ میں شامل سمجھا جائے یا انہیں ہنوز ‘غلط العوام‘ ہی کہا جائے گا۔
بجا فرمایا آپ نے،
بے شک اب انہیں ’غلط العام فصیح‘ کے درجہ میں شامل سمجھا جانے لگا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے:
اوکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری
صفحہ نمبر17 کالم نمبر:1، سطر نمبر:29
اداکارہ :actress
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بجا فرمایا آپ نے،
بے شک اب انہیں ’غلط العام فصیح‘ کے درجہ میں شامل سمجھا جانے لگا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے:
اوکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری
صفحہ نمبر17 کالم نمبر:1، سطر نمبر:29
اداکارہ :actress
لکھاری لکھارن لیکھک وغیرہ۔غالبا" تمام الفاظ مصدر لکھنا کے اردو مشتقات ہیں ۔ اردو کے ترقی یافتہ اور جدید اسلوب میں لفظ " لکھنا " محض مصدر اور افعال کی شکل تک محدود ہے ۔۔۔۔ لکھاری لکھارن کے الفاظ اگر چہ کچھ علاقائی لہجات ( colloquialیا slangs ) تک مستعمل کہے جاسکتے ہیں اور علمی اسلوب میں تقریبا " ناپید ہیں ۔۔۔۔۔مزید برآں علمی ادبی اورتمام تر معیاری اسالیب میں ان کی جگہ۔ مصنف ۔مؤلف اور نویسی لاحقی تراکیب نے لے لی ہے جو کہ کثرت سے عوام و خواص میں مستعمل ہیں مثلا" مضمون نویس ۔کالم نویس ۔۔کالم نویس۔۔
انہیں غلط العام کہنا بھی درست نہیں ہو گا۔۔۔ کیوں کہ ان میں کوئی غلط ترکیب نہیں اوراپنی اصل سے متعارض شکل میں کسی طرح مستعمل نہیں ۔۔۔۔ افصح الفاظ کے عام استعمال کی موجودگی میں انہیں فصیح بھی نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔۔
مؤنث بنانے میں البتہ جو قاعدہ لفظ کےقریب النوع ہو وہی اختیار کیا جانا چاہئے ( دھوبی دھوبن ) یعنی لکھارن ۔۔جیسے کہ محترم آسی صاحب نے لکھا بھکاری بھکارن ۔۔۔۔۔لکھاریہ کا عربی قاعدہ (مثلا" قاری سے قاریۃ ) اپلائی کرنا شاید مضحکہ خیز ہو ۔۔۔ اس ذاتی رائے پر احباب کو اختلاف اور تنقید کا مکمل حق ہے
 
راجپوتانی کی بات بھی ہو گئی، بہت شکریہ جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
کویتری کی بات بھی ہو گئی، کویتا کلامِ منظوم کو کہتے ہیں۔ غزل کے لئے بھی یہی لفظ مستعمل ہے۔
لکھاریہ والی بات تو حلق سے نہیں اترتی جناب محمد امین صاحب، کہ مؤنث کے لئے ہ کا اضافہ عربی کا اصول ہے، اور عربی اسماء پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم مالن کو مالیہ نہیں کہتے، گوالن کو گوالائن یا گوالیہ نہیں کہتے۔
فارسی میں تذکیر و تانیث کا ساخیاتی قاعدہ مختلف ہے: خیاط زن (درزن)، بُز مادہ (بَکری)، شاہ زادِہ (شہزادہ، اور شہزادی دونوں کے لئے)۔ جہاں تذکیر و تانیث لازم ہو جائے وہاں زن اور مرد یا نَر اور مادہ کے الفاظ شامل کر دیتے ہیں۔
ہم خاتون وزیرِ اعظم کو وزیرۂ عُظمیٰ نہیں کہتے۔ مزدور کی مؤنث مزدورہ دیکھنے سننے میں نہیں آتی، خاکسار سے خاکسارہ، اور اس نہج پر ہدایت کارہ، درزیہ، نائیہ وغیرہ کو بالاصل غلط کہا جاتا ہے۔
ایک لفظ ’’مستحِق‘‘ ایک معروف لغات میں فاعلی حالت لکھا ہوا ہے، دوسری میں ’’مستحَق‘‘ فاعلی حالت میں لکھا ہے بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ’’مستحِق‘‘ کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اردو سے انگریزی ڈکشنریوں کا ہے۔
موٹی سی بات یہ ہے کہ محاورہ، روزمرہ، مقامی اسماء کی تذکیر و تانیث وغیرہ میں اہلِ زبان کا تتبع کیا جائے گا اور جہاں کوئی مسئلہ پیدا ہو رہا ہو وہاں بات قواعد کے مطابق ہو گی۔ رہی بات غلط العام کی تو اس کا زیادہ دیسی اور نسبتاً زیادہ قابلِ قبول طریقہ موجود ہے۔ نمبردار سے نمبردارنی، جمعدار سے جمعدارنی کے قیاس پر جہاں بہت ضروری ہو، فنکارنی، گلوکارنی، صداکارنی کہہ لیجئے۔ قاعدہ وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکا۔

یہ فقیر خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ کسی لفظ کے غلط العام یا غلط العوام فصیح یا غیر فصیح ہونے پر فیصلہ صادر کر سکے۔


جناب الف عین ، جناب شمشاد ، محترمہ @ام نور العين ، جناب یوسف-2 ، جناب انتہا ، اور دیگر اہلِ نظر
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
راجپوتانی کی بات بھی ہو گئی، بہت شکریہ جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
یہ فقیر خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ کسی لفظ کے غلط العام یا غلط العوام فصیح یا غیر فصیح ہونے پر فیصلہ صادر کر سکے۔
جناب الف عین ، جناب شمشاد ، محترمہ @ام نور العين ، جناب یوسف-2 ، جناب انتہا ، اور دیگر اہلِ نظر
بس ! صاحب !
آپ کے اسی جملے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔
کسرنفسی اور انکساری کا شمار اوصافِ حمیدہ اور خصائل محمودہ میں ہوتا ہے۔
لیکن اس قدر انکساری بھی اچھی نہیں۔ آپ کے جملہ دلائل سے ہمیں اتفاق ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ اردو سے انگریزی ڈکشنریوں کا ہے۔​
حضور والا ! اختلاف برائے اختلاف سے قطع نظر حقائق کا سامنا کیجیے۔
اداکار سے اداکارہ اور فن کار سے فن کارہ
والے مسئلے پر از سرِ نو غور کر لیجیے۔
یہ بتا دیجیے کہ فی زمانہ آپ اہل زبان کسے کہیں گے؟
اب تو وہ دِن ہوا ہوئے جب دَبستان دِہلی، دَبستانِ لاہور اور دَبستانِ لکھنؤ کی زبانوں کے حوالے پیش کیے جاتے تھے۔
اب تو نہ لکھنؤ کے نوابوں کے یہاں اردو اپنی اصل حالت میں باقی رہی نہ اہالیان دہلی کے یہاں۔
لاہور کا حال آپ سنا دیجیے۔ باقی بچے ہم اور آپ ۔ تو جنابِ عالی!اب تو ہم اور آپ ہی اہل زبان ہیں۔
ہمیں اور آپ کوباہم مل کرہی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
آیا کوئی لفظ غلط العام فصیح کے زمرے میں شامل ہے یا نہیں؟
اداکار سے اداکارہ اور فن کار سے فن کارہ کو غلط العام فصیح کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے ہمیں اورآپ کو فرہنگ آصفیہ،نوراللغات یا فرہنگ عامرہ، لغات کشوری اور امیراللغات جیسی کلاسیکل لغات سے کوئی ثبوت نہیں ملے گا۔
تو پھر یہ بتائیے کہ ثبوت کے طور پر آپ کے حضور میں اور کیا پیش کیا جائے؟
 

ساجد

محفلین
ماشاء اللہ ، بہت ساری معلومات ملیں۔ استادِ محترم الف عین صاحب سے گزارش ہے کہ لکھاری کی مؤنث بارے کچھ ارشاد فرمائیں۔ گو کہ سنسکرت میں یہ لیکھک ہی ہے لیکن اردو میں پنجابی کی آمیزش ہونے سے لکھاری کا لفظ بھی مصنف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، اس پراپنی علمی رائے سے ہمیں نوازیں۔
فاتح بھائی بھی کچھ فرمانا چاہیں تو بہت اچھا رہے گا۔
 
یہ بتا دیجیے کہ فی زمانہ آپ اہل زبان آپ کسے کہیں گے؟​
بہت دل چسپ بات کی آپ نے جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
ابھی گزشتہ دنوں جناب فاتح صاحب سے یہی سوال (الفاظ کی کچھ کمی بیشی کے ساتھ) پوچھ چکا ہوں، جواب کا ہنوز منتظر ہوں۔

اداکار سے اداکارہ اور فن کار سے فن کارہ کو غلط العام فصیح کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے آپ کو فرہنگ آصفیہ،​
نوراللغات یا فرہنگ عامرہ، لغات کشوری اور امیراللغات جیسی کلاسیکل لغات سے کوئی ثبوت نہیں ملے گا۔​
آپ کا یہ ارشاد بھی بجا! یہ فقیر تو مشورہ دے چکا:
اس کا زیادہ دیسی اور نسبتاً زیادہ قابلِ قبول طریقہ موجود ہے۔ نمبردار سے نمبردارنی، جمعدار سے جمعدارنی کے قیاس پر جہاں بہت ضروری ہو، فنکارنی، گلوکارنی، صداکارنی کہہ لیجئے۔​

گر قبول افتد زہے عز و شرف
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
حضورِ والا!تخلیقِ اِنسانی زبان کے لیےنہیں ہوئی۔بلکہ انسانوں کے لیے زبانیں تخلیق کی گئیں یا ہوئیں۔ اس لیے عموماًاہل زبان نے اور بالخصوص علمائے لسانیات نے ان لفظوں کو ہمیشہ اپنی زبانوں کے دامن میں جگہ دی جو زباں زدِ عام ہوگئے۔عوام میں مقبول ہوگئے، ہر خاص و عام کی زبان پر چڑھ گئے۔آپ تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دَور کی اردو زبان اور اس کے ادب میں "اداکارہ" اور "فنکارہ" کو اپنا لیا گیا ہے۔یقین نہیں آتا پاکستان کے کسی بھی شہر سے شائع ہونے والا ایسا کوئی اخبار، رسالہ یا جریدہ اُٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں فلموں کے بارے میں تبصرے شائع ہوتے ہوں۔ ان تمام میں آپ کو کہیں بھی اداکارنی یا فنکارنی جیسے بے تکے الفاظ کبھی نہیں ملیں گے البتہ "اداکارہ" اور "فن کارہ" ضرور مل جائیں گے۔ اس کے با وجود اگر آپ اپنی ضد پر قائم ہیں تو بصد شوق رہیے۔ کیونکہ اردو زبان و ادب مجھ جیسے کسی فرد واحد کے محتاج نہیں۔
محمد یعقوب آسی ، @ الف۔عین،
 
Top