لَو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے - ریاض خیرآبادی

فرخ منظور

لائبریرین
لَو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے
ہے ڈر کی بات آگ سے کھیلا نہ کیجیے

کہتا ہے عکس حُسن کو رسوا نہ کیجیے
ہر وقت آپ آئینہ دیکھا نہ کیجیے

کہتی ہے مے فروشوں سے میری سفید ریش
دے دیں گے دام، اُن سے تقاضا نہ کیجیے

اچھی نہیں یہ آپ کی محشر خرامیاں
دُنیا کو اِس طرح تہ و بالا نہ کیجیے

ہے زیرِ بحث فرق سفید و سیاہ کا
بندِ نقاب اپنے ابھی وا نہ کیجیے

اُٹھنے کو اُٹھّے آپ کے کوچے سے روزِ حشر
ایسے کو آنکھ اُٹھا کے بھی دیکھا نہ کیجیے

اپنی حنا کو دیکھیے، نازک سے ہاتھ کو
وہ ڈر رہی ہے خونِ تمنّا نہ کیجیے

آئے گی خُم میں غیب سے وہ دے گا اے ریاض
تلچھٹ بھی کُچھ ہو تو غمِ فردا نہ کیجیے

******* ریاض خیر آبادی
 

شمشاد

لائبریرین
کہتی ہے مے فروشوں سے میری سفید ریش
دے دیں گے دام، اُن سے تقاضا نہ کیجیے

بہت خوب جناب بہت اچھے۔
 

امر شہزاد

محفلین
بہت عمدہ غزل شئیر کی ہے آپ نے۔

پہلے ایک بار سن چکا تھا لیکن ادھوری سنی تھی، پوری غزل کمال کی ہے،

بہت شکریہ
 

خوشی

محفلین
بہت خوب سخنور جی،

خوب کالم ھے

ایک بات کہے بنا نہیں رہ سکتی
یہ وارث جی آپ کو داد دینے چلے آتے ھیں:noxxx:
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب سخنور جی،

خوب کالم ھے

ایک بات کہے بنا نہیں رہ سکتی
یہ وارث جی آپ کو داد دینے چلے آتے ھیں:noxxx:

جی یہ خاکسار "معیاری" کلام پر داد دینے بے اختیار کشاں کشاں چلا آتا ہے، یقین نہیں ہو تو کوئی "معیاری" کلام پر پوسٹ کر کے دیکھ لیں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ کاشفی صاحب، خوشی صاحبہ اور فاتح صاحب!

جی یہ خاکسار "معیاری" کلام پر داد دینے بے اختیار کشاں کشاں چلا آتا ہے، یقین نہیں ہو تو کوئی "معیاری" کلام پر پوسٹ کر کے دیکھ لیں :)

وارث صاحب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خوشی صاحبہ معیاری کلام پوسٹ نہیں کرتیں۔ :noxxx:
 
Top