کاشفی

محفلین
غزل
(حفیظ بنارسی، 1933ء - 2008ء)
لب فرات وہی تشنگی کا منظر ہے
وہی حسین، وہی قاتلوں کا لشکر ہے

یہ کس مقام پہ لائی ہے زندگی ہم کو
ہنسی لبوں پہ ہے، سینے میں غم کا دفتر ہے

یقین کس پہ کریں، کس کو دوست ٹھہرائیں
ہر آستین میں پوشیدہ کوئی خنجر ہے

گلہ نہیں مرے ہونٹوں پہ تنگ دستی کا
خدا کا شکر مرا دل ابھی تونگر ہے

کوئی تو ہے جو دھڑکتا ہے زندگی بن کر
کوئی تو ہے جو ہمارے دلوں کے اندر ہے

اسے قریب سے دیکھا تو یہ ہوا معلوم
وہ بوئے گل نہیں شمشیر بادِ صرصر ہے

سمجھ کے آگ لگانا ہمارے گھر میں تم
ہمارے گھر کے برابر تمہارا بھی گھر ہے

مری جبیں کو حقارت سے دیکھنے والے
مری جبیں سے ترا آستاں منور ہے

تمہارے قریب کی لذت نصیب ہے جس کو
وہ ایک لمحہ حیات ابد سے بہتر ہے

ہمارا جرم یہی ہے کہ حق پرست ہیں ہم
ہمارے خون کا پیاسا ہر ایک خنجر ہے

وہ میرے سامنے آئے تو کس طرح آئے
کوئی لباس ہے اس کا نہ کوئی پیکر ہے

ہر اک بلا سے بچائے ہوئے ہے جو ہم کو
ہمارے سر پہ یہ ماں کی دعا چادر ہے

بھٹک رہا ہوں میں صدیوں سے دشت غربت میں
کوئی تو مجھ کو بتائے کہاں مرا گھر ہے

ابھی حفیظ گلابوں کی بات مت کیجے
لہولہان ابھی گلستاں کا منظر ہے
 
Top