کاشفی

محفلین
غزل
(حبیب احمد صدیقی)
فیض پہنچے ہیں جو بہاروں سے
پوچھتے کیا ہو دل فگاروں سے

کتنے نغمے بنا لئے ہم نے
سازِ دل کے شکستہ تاروں سے

آشیاں تو جلا مگر ہم کو
کھیلنا آگیا شراروں سے

آپ اور آرزوئے عہدِ وفا
وہ بھی ہم سے گناہ گاروں سے

اب نہ دل میں خلش نہ آنکھ میں اشک
سخت نادم ہوں غم گساروں سے

کیا ہوا یہ کہ خوں میں ڈوبی ہوئی
لپٹیں آتی ہیں لالہ زاروں سے

گل و گلزار خوب دیکھ چکے
اب توقع ہے کچھ تو خاروں سے

ان میں ہوتے ہیں قافلے پنہاں
دل شکستہ نہ ہو غباروں سے

ہے یہاں کوئی حوصلے والا
کچھ پیام آئے ہیں ستاروں سے

ہم سے مہر و وفا کی بات کرو
ہوش کی بات ہوشیاروں سے

کوئے جاناں ہو دیر ہو کہ حرم
کب مفر ہے یہاں سہاروں سے
 
Top