جاسمن

لائبریرین
ہمارے پیارے نبیﷺ کی سیرت و کردار کا مطالعہ کریں تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ واقعتاََ "رحمت العالمین" ہیں۔۔پوری دنیا کے لئے رحمت۔ وہ صرف "رحمت المسلمین" نہیں ہیں۔
یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ ہمارے اخلاق میں وہ کون سی خامیاں ہیں کہ جو ہماری اصل تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔اور محفلین کے پاس غیر مسلموں سے اپنے اچھے برتاؤ کی بھی مثالیں یقیناََ موجود ہوں گی،وہ بھی شئیر کریں۔
1۔مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک زُعم میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پہ فخر ہے۔حالانکہ یہ تو اللہ کا احسان ہے ہم پہ۔ہمیں عاجزی و انکساری کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
2۔ ہم دوسروں پہ طنز و طعنہ زنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ محفل پہ ہی دیکھ لیں۔ کوئی ہمارے شکنجہ میں ایک بار پھنس جائے سہی۔ پھر چل سو چل۔
3۔مذاق اڑانا کس قدر برا فعل ہے۔ ہم اپنے رب کے بندوں کے دل دکھاتے ہیں۔ وہ "رب العالمین" ہے ،رب العالمین۔ وہ یہودیوں ،عیسائیوں،کافروں،قادیانیوں،لامذہب لوگوں کا بھی اُتنا ہی "رب" ہے جتنا ہم مسلمانوں کا۔
اگر وہ نارااض ہوگیا ہم سے ہمارے اِن افعال پہ ،تو ہم کہاں جائیں گے؟
دوسروں کو نہ دیکھیں، خود کو دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
بالکل حقیقت بات ہے۔۔۔ کیا کہوں آپی۔۔ صرف ندامت ہی ندامت ہے۔۔ حق سچ کہا آپ نے۔۔ ہمیں دوسروں سے زیادہ خود کے رویے میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔۔ہم مسلمان ہیں تو ہمارا کوئی کمال نہیں۔۔ صرف اللہ کا احسان ہے۔۔ مگر افسوس ہم اس زعم میں اس قدر مبتلا ہیں کہ اللہ کے اس کرم احسان کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔۔ اللہ ہداہت سے نوازے۔۔ آمین
 
حضرت محمد ﷺ رحمتہ العالمین ہیں۔ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے لئے بھی رحمت ہیں
جانور بھی خداکی مخلوق ہیں اور آنحضرت ﷺ ہر چیز کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ اس لئے آپؐ نے جانوروں سے بھی رحم اور شفقت کے بہترین نمونے دکھائے اور دوسروں کوبھی اس کی تلقین فرمائی۔
بلبلاتا اونٹ
حضورﷺ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے۔ وہاں ایک اونٹ حضورؐ کو دیکھ کر بلبلایا اور اس کی آنکھوں مںا آنسو آگئے۔ آپؐ نے شفقت سے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہوگیا۔پھر آپؐ نے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے؟ایک انصاری نے بتایا کہ میرا اونٹ ہے۔ فرمایا اس اونٹ نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور طاقت سے بڑھ کر کام لیتے ہو۔ خدا نے تمہیں اس کا مالک بنا یاہے۔ اس کے بارہ میں خدا سے ڈرو۔ (سنن ابوداؤد:کتاب الجہاد باب مایومربہ من القیام علی الدواب والبہائم)
خدا سے ڈرو
حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر کے ساتھ لگ چکا تھا۔ اسے دیکھ کر آپؐ نے فرمایا ان بے زبان جانوروں کے متعلق خدا سے ڈرو۔ ان پر سواری بھی اس وقت کرو جب یہ صحت مند ہوں اور ان کا گوشت تب کھاؤ جب یہ صحت مند ہوں ۔(سنن ابوداؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب مایومربہ من القیام علی الدواب والبہائم)
نرمی اختیار کرو
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوئی جو اڑیل تھا اور مجھے تنگ کر رہا تھا تو میں نے اسے ادھر ادھر دوڑانا شرع کردیا۔ حضورؐ نے دیکھا تو فرمایا نرمی اختیار کرو۔ (صحیح مسلم کتاب البروا لصلۃ: باب فی فضل الرفق)
بچے واپس رکھ دو
ایک صحابی حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں :۔
ہم ایک سفر میں حضورؐ کے ساتھ تھے کہ ایک چھوٹی چڑیا دیکھی جس کے ہمراہ دو بچے بھی تھے۔ ہم نے اس کے بچے اٹھائے تو چڑیا ہمارے قریب آکر اڑنے لگی۔ حضورؐ نے دیکھا تو فرمایا اس چڑیا کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے۔ اس کے بچے واپس رکھ دو۔ (سنن ابوداؤد۔کتاب الادب باب قتل الذر)
انڈہ رکھ دو
حضور ﷺ صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے۔ راستے میں ایک جگہ ایک پرندے نے انڈہ دیاہوا تھا۔ ایک شخص نے وہ انڈا اٹھالیا۔ پرندہ آیا اور آنحضرت ﷺ کے اوپر اضطراب اور تکلیف کے ساتھ اڑنا شروع کردیا۔
حضورؐ نے فرمایا تم میں کس نے اس کا انڈہ چھین کر تکلیف پہنچائی ہے۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہؐ میں نے اس کا انڈہ اٹھالیا ہے۔ فرمایا اس پر رحم کرو اور انڈہ وہیں رکھ دو۔
اللّھُمّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَ بارِکْ وَ سَلَّم اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
 

الف نظامی

لائبریرین
قرآن میں دو مختلف سورتوں میں ایک ہی آیت بیان کی گئی ہے۔
  1. سورہ تحریم آیت نمبر 9
  2. سورہ التوبہ آیت نمبر 73
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اس کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیجیے۔
 
آخری تدوین:
23سالہ ظلم کے دور کے بعد جب آپؐ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہے تھے اور خدا کے حضور آپؐ کی گردن عاجزی سے جھکتے جھکتے آپ کی اونٹنی کو جالگی تھی۔ آج آپؐ کا دل خدا کی حمد سے بھرا ہوا تھا اور آج بھی وہ ایسا ہی صاف تھا۔ آج بھی وہ خدا کے بندوں کے لئے اسی طرح محبت سے پر تھا جس طرح تیرہ سال قبل جب آپؐ اپنے عزیز شہر کو چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ اس وقت آپؐ بظاہر کمزور تھے اور آج آپؐ کے پاس غلبہ اور طاقت تھی اس لئے آج کفار مکہ کے دل خائف تھے لیکن ان کے دل کی چھپی ہوئی آواز بھی یہی تھی کہ محمدؐ تو مجسم رحم ہے۔ اس لئے ابن عباسؓ کی حدیث کے مطابق جب حضورؐ مکہ فتح کرچکے تو آپ ؐ منبرپر چڑھے اپنے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر اہل مکہ سے کہا تمہاراکیا گمان ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا اور تم کیا کہتے ہو کہ تم سے کیا سلوک ہونا چاہئے توانہوں نے جواب دیا کہ ہم تو آپ سے نیکی کی امید رکھتے ہیں اور ہم یہی کہتے ہیں کہ آپ ہم سے نیک سلوک کریں ۔
آپ ہمارے معزز چچازاد ہیں اور اس وقت آپؐ کو قدرت اور غلبہ حاصل ہے۔اس پرآپؐ نے فرمایا میں (بھی) تم سے (وہی) کہتا ہوں (جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا) کہ لَاَتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوَمَ
آج تم پر کوئی ملامت نہیں ۔ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔(میں نے تمہیں معاف کیا) اللہ تمہیں معاف کرے۔ وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (تفسیر درِ منثور۔ سورۃ یوسف)
زہر دینے والی عورت کو معافی
فتح خیبر کے موقع پر یہود نے رسول خدا کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ایک سریع الاثر زہر بہت بڑی مقدار میں ران کے گوشت میں پکا کر حضور ؐ کو سلام بن مشکم کی بیوی زینب کے ذریعہ تحفہ بھجوادیا گیا۔ حضور ؐ کو یہ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ زہر کا احساس ہوگیا۔ ایک صحابی حضرت بشرؓ نے لقمہ نگل لیا جو کچھ عرصہ بعد اس زہر سے شہید ہوگئے۔ رسول اللہؐ نے اس عورت اور دوسرے یہودیوں کو بلایا اور پوچھا کہ اے یہودیو! سچ سچ بتاؤ تم نے اس گوشت میں زہر کیوں ڈالا؟ وہ عورت کہنے لگی ہم نے کہا اگر آپؐ سچے نہیں تو آپؐ سے نجات مل جائے گی اور اگر سچے ہیں تو زہرآپؐ پر اثر نہیں کرے گا۔ رسول کریمؐ نے بڑے جلال سے فرمایا خدا تعالیٰ تمہاری قتل کی تمام کوششوں کے باوجود تمہیں ہرگز میرے قتل کی طاقت نہیں دے گا۔ (السیرۃ المحمد یہ صفحہ329)
میرے آقا جب مرض الموت میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہؓ سے فرمانے لگے اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودیوں نے مجھے دیا تھا اور اب بھی میرے بدن میں اس زہر کے اثر سے کٹاؤ اور جلن کی کیفیت ہے۔ مگر رسول اللہؐ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا کرتے تھے۔ آپؐ نے اس پر بھی یہود کو بخش دیا اور اس عورت کو معاف کردیا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ وفاتہ)
 
قرآن میں دو مختلف سورتوں میں ایک ہی آیت بیان کی گئی ہے۔
  1. سورہ تحریم آیت نمبر 9
  2. سورہ التوبہ آیت نمبر 73
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اس کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیجیے۔
اے نبی! کفار سے اور منافقین سے جہاد کر اور ان کے مقابلہ پر سختی کر۔ اور اُن کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

اب آپ بھی فرما دیجئے اس کا ترجمہ اور تفسیر آپ کے خیال میں کیا ہے۔
آپ کے خیال میں کیا مطلب ہے اس جہاد کے حکم کا ۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت محمدؐ کو اللہ تعالیٰ نےبے قصور نہتے اور پر امن کافروں کے قتال کا حکم دیا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
قرآن میں دو مختلف سورتوں میں ایک ہی آیت بیان کی گئی ہے۔
  1. سورہ تحریم آیت نمبر 9
  2. سورہ التوبہ آیت نمبر 73
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اس کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیجیے۔
واہ
 
ہمارے پیارے نبیﷺ کی سیرت و کردار کا مطالعہ کریں تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ واقعتاََ "رحمت العالمین" ہیں۔۔پوری دنیا کے لئے رحمت۔ وہ صرف "رحمت المسلمین" نہیں ہیں۔
یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ ہمارے اخلاق میں وہ کون سی خامیاں ہیں کہ جو ہماری اصل تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔اور محفلین کے پاس غیر مسلموں سے اپنے اچھے برتاؤ کی بھی مثالیں یقیناََ موجود ہوں گی،وہ بھی شئیر کریں۔
1۔مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک زُعم میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پہ فخر ہے۔حالانکہ یہ تو اللہ کا احسان ہے ہم پہ۔ہمیں عاجزی و انکساری کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
2۔ ہم دوسروں پہ طنز و طعنہ زنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ محفل پہ ہی دیکھ لیں۔ کوئی ہمارے شکنجہ میں ایک بار پھنس جائے سہی۔ پھر چل سو چل۔
3۔مذاق اڑانا کس قدر برا فعل ہے۔ ہم اپنے رب کے بندوں کے دل دکھاتے ہیں۔ وہ "رب العالمین" ہے ،رب العالمین۔ وہ یہودیوں ،عیسائیوں،کافروں،قادیانیوں،لامذہب لوگوں کا بھی اُتنا ہی "رب" ہے جتنا ہم مسلمانوں کا۔
اگر وہ نارااض ہوگیا ہم سے ہمارے اِن افعال پہ ،تو ہم کہاں جائیں گے؟
دوسروں کو نہ دیکھیں، خود کو دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

ماشا اللہ بہت اچھے موضوعکی شروعات کی ہے۔محترمی ومکرمی الف نظامی صاحب نے قرآن پاک کی ایک آیت پیش کردی جو بظاہر اس عنوان کے خلاف لگتی ہے ۔ حالانکہ وہ اُن کفار کے بارے میں ہے جو مقابلہ پر آئیں شرارت یا جنگ پر آمادہ ہوں۔ نارمل حالات میں کفار سے حسن سلوک کی جو مثالیں امام اعظم کامل و اکمل ترین حضرت محمد ﷺ نے پیش کی ہیں ان کا موازنہ ممکن ہی نہیں ہے۔
 
بابا جیؒ فرماتے ہیں ! اینٹ کا اینٹ سے ربط ختم ہو جائے تو دیوار اپنے ہی بوجھ سے گرنا شروع ہو جاتی ہے،آج انسانوں کی بھیڑ میں ہر انسان اکیلا ہے۔ایک دوسرے کے آس پاس تو ہیں لیکن ایک دوسرے سے ناشناس ہیں،ناشناسی اور نا آشنائی کی وبا پھیل چُکی ہے ۔کسی کا کوئی پرسانے حال نہیں دایاں ہاتھ بائیں سے بے خبر ہے ۔بھائی بھائی سے بیگانہ ہے ، رشتوں کا تقدیس پامال ہوتا جارہا ہے۔جب ہم مسلمان آپسی تعلق میں اس قدر زوال پزیر ہوتے جا رہے ہیں تو پھر دیگر مذہب سے وابستہ لوگ ہمارے سے شروفساد اورنفرت سے کس طرح محفوظ ہو سکتے ہیں۔آج کے دور میں گلی محلوں اور رشتے دار برادری میں آپ کو لازمی ایک عدد مفت کا مفتی ملے گا جو اپنی جہالت کی روشنی سے ہمارے سوچوں میں نفرت ، تعصب اور بدعت کے جراثیم سے ہمیں دماغ مفلوج کر رہے ہیں۔
اللہ کریم ہمارے حالوں پر اپنا کرم فرمائے اور ہمیں ایمان کی سلامتی نصیب فرمائے۔آمین
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
سب سے اونچی بات، سنت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلند اخلاق کے مالک تھے۔
ہمارا کردار بھی اخلاق والا ہونا چاہئے۔ جو سنت بھی ہے اللہ کا حکم بھی۔
 
میں کرسمس کے موقع پر یہ بات تحریر کرنا چاہتا تھا لیکن دیر ہوگئی۔ اس لڑی کو دیکھ کر پھر عرض کرنے کا خیال آتا ہے۔
ہمارا موضوع یہ ہے کہ کفار کے ساتھ ہمارا تعلق اور رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ آیا ان سے بالکل مسلمانوں کا سا تعلق رکھیں یا بالکل ان سے لاتعلق ہوجائیں؟..۔ یا پھر اس کے درمیان کوئی درجہ ہے؟
اس بارے میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں واضح ہدایات ملتی پیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
کفار کے ساتھ اچھا معاشرتی برتاؤ اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، جسے اسلامی رواداری کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان سے دلی محبت اور قلبی الفت رکھنا قرآن کریم کی رو سے منع ہے۔
ارشاد ہے: اے ایمان والو اپنے علاوہ لوگوں کو دلی دوست مت بناؤ، کہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ (آل عمران)
اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ (الممتحنہ)
اور ظالموں کی طرف مت جھکو، کہ تمہیں آگ چھو لے گی۔(ھود)
معلوم ہوا کہ کفار سے دلی دوستی رکھنا درست نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے ساتھ رواداری اور انسانی بنیادوں پر حسن سلوک کرنا بہت ہی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کو صدقات دینے سے نہیں روکتے جنہوں نے تمہارے ساتھ قتال نہیں کیا۔(الممتحنہ)
اگر مشرکین میں سے کوئی تم سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی پناہ گاہ تک پہنچا دو۔(توبہ)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے یہودیوں سے معاہدہ فرمایا اور جب تک ان کی طرف سے عہد شکنی سامنے نہیں آئی ان کو مسلمانوں کی طرح امن دیا گیا۔ حتیٰ کہ بعض مواقع پر ان کا کسی مسلمان سے جھگڑا ہوا تو اس کے حق پر ہونے کی صورت میں مسلمان کے خلاف ان کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔
یہ اسلام کی معتدل اور متوازن تعلیم ہے کہ نہ تو اس میں افراط یے اور نہ ہی تفریط۔
اللہ اکبر
 
جو لوگ غیر مسلموں کا مذاق اڑاتے ہیں وہ کسی نا کسی وجہ سے اپنے مسلمانوں کو بھی نہیں چھوڑتے، کسی کی کم علمی کا مذاق اڑاتے، کسی کی معذوری کا کچھ بدبخت تو ایسی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو کرنا سعادت کی بات اور نیکی کا کام ہے۔ کسی کا مذاق اڑانا اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ لوگوں کے اپنے ذاتی کرتوت ہیں۔
 
معلوم ہوا کہ کفار سے دلی دوستی رکھنا درست نہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان سے دلی محبت اور قلبی الفت رکھنا قرآن کریم کی رو سے منع ہے۔
کافی مشکل میں ڈال دیا۔ اگر کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم سے پیار ہو جائے، شادی، گھر بسانہ چاہے، وہ تو بیچارہ مارا گیا۔
 

ہادیہ

محفلین
کافی مشکل میں ڈال دیا۔ اگر کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم سے پیار ہو جائے، شادی، گھر بسانہ چاہے، وہ تو بیچارہ مارا گیا۔
اچھی خاصی "اخلاقی" لحاظ سے بحث ہورہی تھی۔۔اور آپ۔۔۔ ویسے آپ کو اس بات کا علم نہیں۔۔ اگر مسلم کو مسلم سے "پیار" ہوجائے ۔ مارا تو تب بھی جاتا ہے۔ اب ایسے معاملات میں مذہب سے زیادہ لوگوں کی انا اور خاندانی رسم و رواج زیادہ شامل ہوتے ہیں۔۔ اور دوسری بات ۔۔ "پُٹھے کماں دے پُٹھے نتیجے"...
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
کافی مشکل میں ڈال دیا۔ اگر کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم سے پیار ہو جائے، شادی، گھر بسانہ چاہے، وہ تو بیچارہ مارا گیا۔
شادی کرلو، مارا کیوں گیا، اتنے دنوں سے گرل فرینڈ میں چل رہی تھی جب مارا نہیں گیا تو اب شادی کے بعد کیوں؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محفلین کے پاس غیر مسلموں سے اپنے اچھے برتاؤ کی بھی مثالیں یقیناََ موجود ہوں گی،وہ بھی شئیر کریں۔
میرے دفتر میں ایڈمن سٹاف میں کرسچن کافی ہیں۔ تو دفتر کے تمام لوگ کرسمس پر رقم جمع کر کے ان میں بانٹتے ہیں تاکہ وہ اپنا تہوار منا سکیں۔ اس طرح عیدین پر بھی رقم اکھٹی کر کے ایڈمن سٹاف کے اراکین میں تقسیم کی جاتی ہے۔
 
Top