عروج کا دور آرہا ہے، جو ذرّہ ہے آفتاب ہوگا - نجم ندوی

کاشفی

محفلین
غزل
(نجم ندوی)

عروج کا دور آرہا ہے، جو ذرّہ ہے آفتاب ہوگا
رَوش زمانہ کی کہہ رہی ہے کہ اِک بڑا انقلاب ہوگا

فلک سے برسیں گے وہ شرارے، زمین وقف تپش ہوگی
سکونِ خلوت کدہ کا خوگر ستم کش اضطراب ہوگا

ہوا ہے اِک داغ دل میں پیدا، خدا اُسے بخت ور بنائے
جو بچ گیا تو اندھیرے گھر کا یہی کبھی آفتاب ہوگا

نقاب پر تو ہے یہ تجلّی کہ ایک عالم کو بیخودی ہے
نہ جانے کیا حشرہوگا برپا جو وہ کبھی بے نقاب ہوگا

کروں تو کیا شکوہء تغافل کہ خود نہیں جراءتِ تکلّم
اجازتِ عرض حال بھی ہو تو گفتگو میں حجاب ہوگا

یہ عاشقی کا رواجِ کہنہ جہاں سے اُٹھ جائے گا سراسر
نہ حُسن افسوں طراز ہوگا نہ قلب کو پیچ و تاب ہوگا

دلِ جنوں آشنا سے کہہ دو کہ رنگِ آشفتگی نہ چھوڑے
سُنے نہ کچھ عقل کی نصیحت نتیجہ ورنہ خراب ہوگا

اِدھر کہاں آئے آپ واعظ؟ یہ فصلِ گل اور نجم گھر پر
کہیں کسی میکدے میں بیٹھا رہینِ لطفِ شباب ہوگا
 

فاتح

لائبریرین
ہوا ہے اک داغ دل میں پیدا، خدا اسے بخت ور بنائے
جو بچ گیا تو اندھیرے گھر کا یہی کبھی آفتاب ہوگا
سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ہے حضور!
 
Top