عبید اللّہ علیم - انتخابِ کلام

فاتح

لائبریرین
مٹّی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا

مٹّی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا
پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا

انسان ہو، کسی بھی صدی کا، کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا

صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا

سو کرتَبوں سے لکّھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا

اے شہسوارِ حُسن! یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سر زمیں ہے، قدم ناز سے اٹھا!

میں پوچھ لوں کہ کیا ہے مرا جبر و اختیار
یا رب! یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا

وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود
میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا

شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیم
قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا
 

فاتح

لائبریرین
کمالِ آدمی کی انتہا ہے

کمالِ آدمی کی انتہا ہے
وہ آیندہ میں بھی سب سے بڑا ہے

کوئی رفتار ہو گی روشنی کی
مگر وہ اس سے بھی آگے گیا ہے

جہاں بیٹھے صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اسی دیوار کا ہے

مجسم ہو گئے سب خواب میرے
مجھے میرا خزانہ مِل گیا ہے

حقیقت ایک ہے لذت میں لیکن
حکایت سلسلہ در سلسلہ ہے

یونہی حیراں نہیں ہیں آنکھ والے
کہیں اک آئینہ رکھا ہوا ہے

وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستہ ہے

سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
 

فاتح

لائبریرین
چلو اب فیصلہ چھوڑیں اُسی پر
ہمارے درمیاں جو تیسرا ہے

رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے

کسی بچے کی آہیں اٹھ رہی ہیں
غبار اک آسماں تک پھیلتا ہے

اندھیرے میں عجب اک روشنی ہے
کوئی خیمہ دیا سا جل رہا ہے

ہزاروں آبلے پائے سفر میں
مسلسل قافلہ اک چل رہا ہے

جدھر دیکھوں مری آنکھوں کے آگے
انہی نورانیوں کا سلسلہ ہے

یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو
عبید اللہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے

اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے

آگے کیا ہو یہ سخن، آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکھا ہوا مکتوب آئے

ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہلِ قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ بہت خوب آئے

دکھ سے پھر جاگ اٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے

ہم نے دل نذر کیا اہلِ محبت کے حضور
ان نے قامت یہ بڑھایا ہے کہ مصلوب آئے

میں تری خاک سے لپٹا ہوا، اے ارضِ وطن!
ان ہی عشّاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے
 

فاتح

لائبریرین
وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے

وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے
تو یعنی مہر بھی مہتاب کے برابر ہے

وفا کی بات کہاں بات تھی مروّت کی
سو اب یہ جنس بھی نایاب کے برابر ہے

کوئی نہیں ہے کہیں صرف میں ہی میں زندہ
یہ ذائقہ مجھے اسباب کے برابر ہے

خود اپنا قامتِ زیبا ہے میرا اک اک یار
ہر اک رقیب کے احباب کے برابر ہے

طوافِ ذات میں جو شمع تھا وہ پروانہ
بجھا تو شعلۂ بے تاب کے برابر ہے

جو عشق کھول نہ پائے قبائے ذات کے بند
زمانہ ساز ہے آداب کے برابر ہے

اگر ہوں کچے گھروندوں میں آدمی آباد
تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے

شکستہ ناؤ ہو اور لوگ بھی شکستہ ہوں
تو ایک لہر بھی گرداب کے برابر ہے

یہ ساحلوں سے خزانہ چرانے والے لوگ
سمجھ رہے ہیں تہہِ آب کے برابر ہے
 

فاتح

لائبریرین
تمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے لگے

تمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے لگے
پھر اس کے بعد اندھیرے دیے جلانے لگے

چمک رہا تھا وہ چاند اور اس کی محفل میں
سب آنکھیں آئینے، چہرے شراب خانے لگے

خلا میں تھا، کہ کوئی خواب تھا، کہ خواہش تھی
کہ اس زمین کے سب شہر شامیانے لگے

نہ جانے کون سے سیّارے کا مکیں تھا رات
کہ یہ زمین و زماں سب مجھے پرانے لگے

فضائے شام، سمندر، ستارہ جیسے لوگ
وہ بادبان کھلے، کشتیاں چلانے لگے

بس ایک خواب کے مانند یہ غزل میری
بدن سنائے اسے روح گنگنانے لگے

ہزاروں سال کے انساں کا تجربہ ہے جو شعر
تو پل میں کیسے کُھلے وہ جسے زمانے لگے

سیاہ رات کی حد میں اگر نکل آئے
دیے کے سامنے خورشید جھلملانے لگے

ہر اک زمانہ زمانہ ہے میر صاحب کا
کہا جو ان نے تو ہم بھی غزل سنانے لگے
 

فاتح

لائبریرین
سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات

سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات
کُھلا ہے قبلہ نما پرچمِ ستارۂ ذات

چھلک کے جائے تو جائے کہاں وجود مرا
ہر ایک سَمت ہے پھیلا ہوا کنارۂ ذات

بس ایک عشق تجلّی دکھائے جاتا ہے
نکل رہا ہے مسلسل مرا شمارۂ ذات

وہ کم نظر اسے آشوبِ ذات کہتے ہیں
کہ ایک ذات تلک ہے مرا گزارۂ ذات

بنانے والے نے اس شان سے بنایا اُسے
جہاں سے دیکھو نظر آئے ہے منارۂ ذات

ہے ایک شمع سے روشن یہ آئینہ خانہ
تو کیا ہے آئینہ خانہ بجُز نظارۂ ذات

اتر رہا ہے مرے قلب پر وہ عالمِ حرف
کہ جیسے وحیِ خفی ہو مرا شرارۂ ذات
 

فاتح

لائبریرین
ملتا جُلتا تھا حال میر کے ساتھ

ملتا جُلتا تھا حال میر کے ساتھ
میں بھی زندہ رہا ضمیر کے ساتھ

ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ

آنکھ مظلوم کی خدا کی طرف
ظلم اک ظلمتِ کثیر کے ساتھ

جرم ہے اب مری محبت بھی
اپنے اس قادر و قدیر کے ساتھ

اس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ

کس میں طاقت وفا کرے ایسی
اپنے بھیجے ہوئے سفیر کے ساتھ

سلسلہ وار ہے وہی چہرہ
عالم اصغر و کبیر کے ساتھ

آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ

تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح
کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ

شب دعاؤں میں تر بتر میری
صبح اک خوابِ دل پذیر کے ساتھ

اہلِ دل کیوں نہ مانتے آخر
حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ
 

فاتح

لائبریرین
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے

زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لئے

انھیں غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز بہت، ہے خدا ہمارے لئے

تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے
وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے

بس ایک لَو میں اسی لَو کے گرد گھومتے ہیں
جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہمارے لئے

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے

وہ نور نور دمکتا ہوا سا اک چہرہ
وہ آئینوں میں حیا ہی حیا ہمارے لئے

درود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں
تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لئے

عجیب کیفیتِ جذب و حال رکھتی ہے
تمہارے شہر کی آب و ہوا ہمارے لئے

دیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمھاری دعا ہمارے لئے

زمین ہے نہ زماں، نیند ہے نہ بیداری
وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے لئے

سخنوروں میں کہیں ایک ہم بھی تھے لیکن
سخن کا اور ہی تھا ذائقہ ہمارے لئے
 

فاتح

لائبریرین
وحشت اُسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا

وحشت اُسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا

اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن
بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا

پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک
اس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا

یا رب کوئی ستارۂ امّید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمین کے آثار دیکھنا

لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں
اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا

اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اس طرف
جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا

دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے
تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا

جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا

میں نے سنا ہے قربِ قیامت کا ہے نشاں
بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا

صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی
یہ سر ہے یا چراغ سرِدار دیکھنا

اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا

دو چار کے سوا یہاں لکھتا غزل ہے کون
یہ کون ہیں یہ کس کے طرفدار دیکھنا
 

فاتح

لائبریرین
ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا

ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا
کسی جدائی کی ساعت کا پاس مت کرنا

مَحبتیں تو خود اپنی اساس ہوتی ہیں
کسی کی بات کو اپنی اساس مت کرنا

کہ برگ برگ بکھرتا ہے پھول ہوتے ہی
برہنگی کو تم اپنا لباس مت کرنا

بلند ہو کے ہی ملنا جہاں تلک ملنا
اس آسماں کو زمیں پر قیاس مت کرنا

جو پیڑ ہو تو زمیں سے ہی کھینچنا پانی
کہ ابر آئے گا کوئی یہ آس مت کرنا

یہ کون لوگ ہیں کیسے یہ سربراہ ہوئے
خدا کو چھوڑ کے ان کی سپاس مت کرنا
 

فاتح

لائبریرین
اپنا احوال سنا کر لے جائے

اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے

میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے

وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے

ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے

خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے

در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے

دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے

تجھ کو بھی کوچہ عشاقاں میں
اپنے مولا سے دعا کر، لے جائے


کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے

اک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے

کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بُلا کر لے جائے

پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے

اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے

کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو
تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے

ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے

سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے

ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے

ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے
 

فاتح

لائبریرین
منظرِ ہفت سما آنکھ میں جب خوب آیا

منظرِ ہفت سما آنکھ میں جب خوب آیا
شور عالم میں ہوا، پھر کوئی مجذوب آیا

یہ زمیں غیر کو آباد نہیں کرتی ہے
جب بھی اِس دل میں کوئی آیا تو محبوب آیا

اتنا دنیا میں کہاں تھا قدِ بالا وہ شخص
ہم تو عاشق ہوئے جب سامنے مصلوب آیا

اس میں کیا ہے، نہیں معلوم، مگر دیکھتے ہیں
جو گیا اُس کی طرف، اُس سے ہی منسوب آیا

کُھل گئی آنکھ مگر خواب نہ ٹوٹا پھر بھی
کوئی بتلائے یہ عاشق ہے کہ محبوب آیا
 

فاتح

لائبریرین
گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے

گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے
اندھیرے میں اجالا، دھوپ میں سایا، فقط تو ہے

گدائے دہر کا کیا ہے، اگر یہ در نہیں وہ ہے
ترے در کے فقیروں کی تو کُل دُنیا فقط تو ہے

تو ہی دیتا ہے نشہ اپنے مظلوموں کو جینے کا
ہر اک ظالم کا نشہ توڑنے والا فقط تو ہے

وہی دنیا، وہی اک سلسلہ ہے تیرے لوگوں کا
کوئی ہوکر بلا اس دیں کا رکھوالا فقط تو ہے

ہواؤں کے مقابل بجھ ہی جاتے ہیں دیے آخر
مگر جس کے دیے جلتے رہیں ایسا فقط تو ہے

عجب ہو جائے یہ دنیا اگر کھل جائے انساں پر
کہ اس ویراں سرائے کا دیا تنہا فقط تو ہے

ہر اِک بے چارگی میں، بے بسی میں، اپنی رحمت کا
جو دل پر ہاتھ رکھتا ہے، خداوندا! فقط تو ہے

مرے حرف و بیاں میں، آئینوں میں، آبگینوں میں
جو سب چہروں سے روشن تر ہے وہ چہرہ فقط تو ہے
 

فاتح

لائبریرین
ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی

ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی
لیکن ہم نے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی

اس کی شانِ عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے
اک ایسا خورشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی

بستر پر موجود رہے اور سیرِ ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی

اس کی آل وہی جو اس کے نقشِ قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آلِ سادات نہیں دیکھی

ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی

اک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے
یہ شانِ برکات کسی کے ساتھ نہیں دیکھی

شاہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن
اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی

اس کے نام پہ ماریں کھانا، اب اعزاز ہمارا
اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی

صدیوں کی اس دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے
پوری ہوتی کون سی اس کی بات نہیں دیکھی

اہلِ زمیں نے کون سا ہم پر ظلم نہیں ڈھایا
کون سی نصرت ہم نے اس کی بات نہیں دیکھی
 

فاتح

لائبریرین
جب اپنا سُر پاتال ہوا

جب اپنا سُر پاتال ہوا
تب وحیِ نفَس انزال ہوا

اک اصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا

تھا دکھ اپنی پیدائش کا
جو لذت میں انزال ہوا

کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا

بن عشق اسے کیونکر جانوں
جو عشق سراپا حال ہوا

اس وقت کا کوئی انت نہیں
یہ وقت تو ماہ و سال ہوا

وہی ایک خلش نہ ملنے کی
ہمیں ملتے دسواں سال ہوا

ہر اچھی بات پہ یاد آیا
اک شخص عجیب مثال ہوا

ہر آن تجلی ایک نئی
لکھ جانا میرا کمال ہوا

کس بات کو کیا کہتا تھا میں
تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا

تم کیسی باتیں کرتے ہو
اے یار صغیر ملال ہوا

کل رات سمندر لہروں پر
دیوانوں کا دھمّال ہوا

اک رانجھا شہر کراچی میں
اک رانجھا جھنگ سیال ہوا
 

فاتح

لائبریرین
اک شخص سماں بدل گیا ہے

اک شخص سماں بدل گیا ہے
مٹی کا جہاں بدل گیا ہے

بندہ وہ خدا نہیں تھا لیکن
ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے

وہ آخری آدمی خدا کا
سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے

پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے

ہر نام و نسب کے دور میں وہ
سب نام و نشاں بدل گیا ہے

کہتے ہیں شہید کربلا کے
مفہومِ زیاں بدل گیا ہے

ہر زندہ چراغ ہے اسی کا
وہ نور کہاں بدل گیا ہے

پروانے کہاں یہ سننے والے
اب دَور میاں! بدل گیا ہے

آواز یہ اس مکاں سے آئی
وہ شخص مکاں بدل گیا ہے

نیچے سے زمیں نکل گئی ہے
اوپر سے زماں بدل گیا ہے

کس خلوتِ خاص میں گیا وہ
کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے
 

فاتح

لائبریرین
دل کی پاتال سرا سے آئی ۔ حصۂ اول

دل کی پاتال سرا سے آئی
دولتِ درد دعا سے آئی

ہے یہ ایمان کہ اس کی آواز
سلسلہ وار خدا سے آئی

ایسا لگتا ہے کہ اس کی صورت
عالمِ خواب نما سے آئی

چلتے ہیں نقشِ قدم پر اس کے
جس کو رفتار صبا سے آئی

یونہی قامت وہ قیامت نہ ہوا
ہر ادا ایک ادا سے آئی

حسن اس کا تھا قیامت اس پر
وہ قیامت جو حیا سے آئی

ہر صدا آئی پر اس کی آواز
صرف تسلیم و رضا سے آئی

دل وہ آنسو کہ پلک سے ٹپکا
غم وہ بارش کہ گھٹا سے آئی
 
Top