عبید اللّہ علیم - انتخابِ کلام

فرخ منظور

لائبریرین
محبّت

محبّت

میں جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہوں
نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے
نہ خال و خد کا جمال اس میں، نہ زندگی کا کمال کوئی
جو کوئی اُس میں ہُنر بھی ہوگا
تو مجھ کو اس کی خبر نہیں ہے
نہ جانے پھر کیوں!
میں وقت کے دائروں سے باہر کسی تصوّر میں اُڑ رہا ہوں
خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوتِ بزم میں شب و روز
مرا لہو اپنی گردشوں میں اسی کی تسبیح پڑھ رہا ہے
جو میری چاہت سے بے خبر ہے
کبھی کبھی وہ نظر چرا کر قریب سے میرے یوں بھی گزرا
کہ جیسے وہ باخبر ہے
میری محبتوں سے
دل و نظر کی حکایتیں سن رکھی ہیں اس نے
مری ہی صورت
وہ وقت کے دائروں سے باہر کسی تصوّر میں اُڑ رہا ہے
خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوت ِ بزم میں شب و روز
وہ جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہے
مگر نہیں جانتا یہ وہ بھی
کہ ایسا کیوں ہے
میں سوچتا ہوں، وہ سوچتا ہے
کبھی ملے ہم تو آئینوں کے تمام باطن عیاں کریں گے
حقیقتوں کا سفر کریں گے
 

فرخ منظور

لائبریرین
محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں

محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں
جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں کہیں

ابھی تو وعدہ و پیماں اور یہ حال اپنا
وصال ہوتو خوشی سے ہی مر نہ جائیں کہیں

یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں کے
ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں

جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا
یہ آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں کہیں

پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں

نڈھال اہلِ طرب ہیں کہ اہلِ گلشن کے
بجھے بجھے سے یہ چہرے سنور نہ جائیں کہیں

فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر
نکل کے گھر سے اب اہلِ نظر نہ جائیں کہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوشا وہ دَور کہ جب تجھ سے رسم و راہ نہ تھی

خوشا وہ دَور کہ جب تجھ سے رسم و راہ نہ تھی
سکون کفر نہ تھا زندگی گناہ نہ تھی

نفس نفس پہ ابھرتی ہوں سولیاں جیسے
حیات اتنی تو پہلے کبھی تباہ نہ تھی

بہ فیضِ حسرتِ دیدار خسروانِ جنوں
ادھر بھی دیکھ گئے جس طرف نگاہ نہ تھی

خود اپنی روشنئ طبع کے ستائے ہوئے
وہ ہم تھے دہر میں جن کو کہیں پناہ نہ تھی

وہ اک نگاہ کہ سب کچھ سمجھ لیا تھا جسے
تباہئ دل و جاں پر وہی گواہ نہ تھی
 

فرخ منظور

لائبریرین
کب تک آخر ہم سے اپنے دل کا بھید چھپاؤ گی

کب تک آخر ہم سے اپنے دل کا بھید چھپاؤ گی
تمہیں رہ پر اک دن آنا ہے، تم رہ پر آ ہی جاؤ گی

کیوں چہرہ اُترا اُترا ہے؟ کیوں بُجھی بُجھی سی ہیں آنکھیں؟
سُنو! عشق تو ایک حقیقت ہے، اسے کب تک تم جُھٹلاؤ گی

سب رنگہ تمہارے جانتا ہوں، میں خوب تمہیں پہچانتا ہوں
کہو کب تک پاس نہ آؤ گی؟ کہو کب تک آنکھ چُراؤ گی؟

بھلا کب تک ہم اک دوسرے کو چُھپ چُھپ کر دیکھیں اور ترسیں؟
ہمیں یار ستائیں گے کب تک تم سکھیوں میں شرماؤ گی؟

یہ سرو تنی، محشر بدَنی، گُل پیرہنی، گوہر سُخَنی
سب حسن تمہارا بے قیمت۔۔۔ گر ہم سے داد نہ پاؤ گی

جب کھیل ہی کھیلا شعلوں کا، پھر آو کوئی تدبیر کریں
ہم زخم کہاں تک کھائیں گے؟ تم غم کب تک اپناؤ گی

چلو آؤ بھی۔۔۔ ہم تم مل بیٹھیں۔۔۔ اور نئے سفر کا عہد کریں
ہم کب تک عمر گنوائیں گے؟ تم کب تک بات بڑھاؤ گی؟

میں شاعر ہوں، مرا شعر مجھے کسی تاج محل سے کم تو نہیں
میں شاہ جہانِ شعر تو تم ممتاز محل کہلاؤ گی

نہیں پاس کیا گر عشق کا کچھ۔۔۔ اور ڈریں نہ ظالم دنیا سے
شاعر پہ بھی الزام آئیں گے، تم بھی رسوا ہو جاؤ گی
 

فرخ منظور

لائبریرین
نگارِ صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے

نگارِ صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے

وہ حسن اس کا بیاں کیا کرے جو دیکھتا ہو
ہر اک ادا سے کئی قد نئے نکلتے ہوئے

وہ موجِ مے کدۂ رنگ ہے بدن اس کا
کہ ہیں طلاطمِ مے سے سبو اچھلتے ہوئے

تو ذرّ ذرّہ اس عالم کا ہے زلیخا صفَت
چلے جو دشتِ بلا میں کوئی سنبھلتے ہوئے

یہ روح کھنچتی چلی جا رہی ہے کس کی طرف
یہ پاؤں کیوں نہیں تھکتے ہمارے چلتے ہوئے

اُسی کے نام کی خوشبو سے سانس چلتی رہے
اُسی کا نام زباں پر ہو دم نکلتے ہوئے

خیال و خواب کے کیا کیا نہ سلسلے نکلے
چراغ جلتے ہوئے، آفتاب ڈھلتے ہوئے

اندھیرے ہیں یہاں سورج کے نام پر روشن
اجالوں سے یہاں دیکھے ہیں لوگ جلتے ہوئے

اُتار ان میں کوئی اپنی روشنی یا ربّ!
کہ لوگ تھک گئے ظلمت سے اب بہلتے ہوئے

وہ آ رہے ہیں زمانے کہ تم بھی دیکھو گے
خدا کے ہاتھ سے انسان کو بدلتے ہوئے

وہ صبح ہو گی تو فرعون پھر نہ گزریں گے
دلوں کو روندتے انسان کو مسلتے ہوئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی

غم کا علاج، دُکھ کا مداوا کرے کوئی
جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

سو سلسلے خیال کے، سو رنگ خواب کے
کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی

بجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی

آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے
گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی

یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے
جو بھی ہو جس کا حال، سنایا کرے کوئی

جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں بہَم
اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی

کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی

جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھُلتی ہے اُس کی آنکھ
لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی

اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر
کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی

"ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں"
جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی

وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار
دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی

کر کے سپرد اک نگہۂ ناز کو حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی

چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم
لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی
 

فرخ منظور

لائبریرین
چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے

چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے
جسم ایسا جیسے آئینہ بدن پہنے ہوئے

عرش سے تا فرش اک نظّارہ و آواز تھا
جب وہ اُترا جامۂ نورِ سخن پہنے ہوئے

رات بھر پگھلا دعا میں اشک اشک اس کا وجود
تب کہیں یہ صبح نکلی ہے چمن پہنے ہوئے

اس حجابِ وصل میں اٹھتے ہیں پردے ذات کے
جسم ہوں بے پیرہن بھی پیرہن پہنے ہوئے

اُن کی خوشبو اب وطن کی خاک سے آنے لگی
وہ جو زنداں میں ہیں زنجیرِ وطن پہنے ہوئے

اُٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے اختیار
میں نے دیکھا جب وطن اپنا کفن پہنے ہوئے

گر کرم تم بھی نہ فرماؤ تو پھر دیکھے یہ کون
آئینے ٹوٹے ہوئے گردِ محن پہنے ہوئے

 

فرخ منظور

لائبریرین
چھُو کے جب خواب سا بدن آیا

چھُو کے جب خواب سا بدن آیا
شاخِ لب پر گُلِ سخن آیا

اس کے قامت پہ زیب دیتا تھا
جو پہن کر وہ پیرہن آیا

ہم اسے روز دیکھنے جائیں
آج کیا اس میں بانکپن آیا

رنگ تھے اس کے دیکھنے والے
جب بہاروں پہ وہ چمن آیا

ٹوٹ کر رہ گیا ہوں جب میں وہاں
خود گیا اور خود ہی من آیا

کوئی نغمہ نگار کیا جانے
میرے حصے میں جو وطن آیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا

ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا
گھر میں جو تھا سبھی ہی ٹوٹ گیا

جس کے دل ٹوٹنے کی باتیں تھیں
آج وہ آدمی ہی ٹوٹ گیا

جب وہ اک شخص درمیاں آیا
خواب وہ اس گھڑی ہی ٹوٹ گیا

پھر اماں کون دے اسے جس کا
رشتۂ بندگی ہی ٹوٹ گیا

جب سے دیکھا نہیں ہے وہ قامت
نشّۂ زندگی ہی ٹوٹ گیا

کس بھروسے پہ اب جنوں کیجیے
عشوۂ دلبری ہی ٹوٹ گیا

ٹوٹتے ٹوٹتے محبت کا
رقصِ دیوانگی ہی ٹوٹ گیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس

نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس
اک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس

اس کی ایک ایک نگہ دل پہ پڑی ایسی کہ بس
عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس

یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے
جتنے بھی بُت تھے صنم خانۂ پندار کے پاس

تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو
آسماں کی ہے زباں یارِ طرح دار کے پاس

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

یوں ہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل
یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس

پھر اسے سایۂ دیوار نے اٹھنے نہ دیا
آ کے اک بار جو بیٹھا تری دیوار کے پاس

تجھ میں اک ایسی کشش ہے کہ بقولِ غالب
خود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس

ترا سایہ رہے سر پر تو کسی حشر کی دھوپ
سرد پڑ جائے جو آئے بھی گنہگار کے پاس

تُو اگر خوش ہے یہاں مجھ سے تو پھر حشر کے دن
ایک تیری ہی شفاعت ہو گنہگار کے پاس
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکستہ حال سا، بے آسرا سا لگتا ہے

شکستہ حال سا، بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ہے

ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ہے

زمین ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹوٹا ہوا سا لگتا ہے

مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے

جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہُوا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے

یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہُوا سا لگتا ہے

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے

تو دل میں بجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام
کبھی کبھی جو مجھے تو بجھا سا لگتا ہے

جو آ رہی ہے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا بُرا سا لگتا ہے

یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے

ہوائے رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے
علیم ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے
 

فاتح

لائبریرین
اک خواب ہے اور مستقل ہے

اک خواب ہے اور مستقل ہے
وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے

وہ رنگ ہے، نور ہے کہ خوشبو
دیکھو تو وہ کس قدر سجِل ہے

اے میرے بدن خبر ہے تجھ کو
تجھ سے مری روح متصّل ہے

جلتا تھا وہ اک چراغ تنہا
اب اس کا ظہور دل بہ دل ہے

کیا دل کو بہار دے گیا ہے
وہ زخم جو آج مندمل ہے

اک عالمِ وصل میں مسلسل
زندہ ہے وہ دل جو منفعل ہے​
 

فاتح

لائبریرین
تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو

تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو
تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو

جو آنکھ بھی دیکھے تمہیں سر سبز ہو
تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو

تم لب بہ لب، تم دل بہ دل، تم جاں بہ جاں
اک نشّہ ہو اک خواب ہو تم کون ہو

جو دستِ رحمت نے مرے دل پر لکھا
تم عشق کا وہ باب ہو تم کون ہو

میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا
تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو

میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے
تم اس قدر بے تاب ہو تم کون ہو

میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی
تم روح تک سیراب ہو تم کون ہو

یہ موسِمِ کمیابیِ گُل کل بھی تھا
تم آج بھی نایاب ہو تم کون ہو

چھُوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا
اک ساز پر مضراب ہو تم کون ہو

دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں
کیسے مرے احباب ہو تم کون ہو

وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و در
اس گھر کا تم اسباب ہو تم کون ہو

اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں
میرا بہت آداب ہو تم کون ہو
 

فاتح

لائبریرین
پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ

پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ
محفلِ وقت! تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ

خوب پایا ہے صلہ تیری پرستاری کا
دیکھ اے صبحِ طرب! آج کہاں ہیں ہم لوگ

اک متاعِ دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ

نَکہتِ گل کی طرح ناز سے چلنے والو
ہم بھی کہتے تھے کہ آسودۂ جاں ہیں ہم لوگ

کوئی بتلائے کہ کیسے یہ خبر عام کریں
ڈھونڈتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم لوگ

قسمتِ شب زدگاں جاگ ہی جائے گی علیم
جرَسِ قافلۂ خوش خبراں ہیں ہم لوگ
 

فاتح

لائبریرین
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں

گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں

اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گُل ہوئی
اب یہ کہ ساتھ اپنے بھی رہتا نہیں ہوں میں

تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں

پیچھے نہ بھاگ، وقت کی اے ناشناس دھوپ!
سایوں کے درمیان ہوں سایہ نہیں ہوں میں

جو کچھ بھی ہوں مَیں اپنی ہی صورت میں ہوں علیم
غالب نہیں ہوں میر و یگانہ نہیں ہوں میں
 

فاتح

لائبریرین
یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں

یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزلِ سفر میں ہوں

ابھی نظر نہیں ایسی کہ دور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کس اثر میں ہوں

پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے
شریک میں بھی اسی محفلِ ہنر میں ہوں

جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں

جو سایہ ہو تو ڈروں اور دھوپ ہو تو جلوں
کہ ایک نخلِ نمو خاکِ نوحہ گر میں ہوں

کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں

بچھڑ گئی ہے وہ خوشبو اجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشمِ تر میں ہوں

قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا
دعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں
 

فاتح

لائبریرین
ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلے ہی

ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلے ہی
یعنی ایک ستارہ ٹوٹا شام سے پہلے ہی

چلی ہوا کے دوش پہ لیکن دکھوں کی ماری لہر
ساحل سے پھر لوٹ گئی آرام سے پہلے ہی

وقت کے آزر! ہاتھ اُٹھا اصنام تراشی سے
دبی ہوئی ہے یہ دنیا اوہام سے پہلے ہی

مولا ہمت دیتا ہے تو چلتے ہیں ورنہ
کھڑی ہوئی ہے اِک گردش ہر گام سے پہلے ہی

یا مے خانے پی جاتے تھے شاعر رند ترے
یا نشے سے چُور ہوئے ہیں جام سے پہلے ہی
 

فاتح

لائبریرین
اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے

میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو 'محبت' ہے

اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے

عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے

بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے

خواب میں ایک شکل تھی میرے
تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے

پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری
میری تنہائی کو ضرورت ہے

گھٹتا بڑھتا رہا مرا سایہ
ساتھ چلنے میں کتنی زحمت ہے

زندگی کو مری ضرورت تھی
زندگی اب مری ضرورت ہے

لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں
لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے

تھی کبھی شاعری کمال مرا
شاعری اب مری کرامت ہے
 

فاتح

لائبریرین
پڑھ اِس طرح اسم اپنے رب کا

پڑھ اِس طرح اسم اپنے رب کا
سینے میں رکھا ہو درد سب کا

پلکوں سے کہو کہ خاک اٹھائیں
بھائی! یہ مقام ہے ادب کا

دُنیا کے جو خواب دیکھتا تھا
وہ شخص تو مر چکا ہے کب کا

میں سجدے میں رات رو رہا تھا
پوچھا نہیں اُس نے کچھ نسب کا

تجھ کو تو خبر ہے میرے معبود
کب ہاتھ بڑھا کہیں طلب کا

مولا! میں ترا اداس شاعر
پیسہ کوئی بھیک میں طرف کا

بے لفظ گیا تھا مانگنے مَیں
اِک ملک مجھے دے دیا ادب کا

سینے پہ اسی نے ہاتھ رکھا
جب کوئی نہیں تھا جاں بلب کا

میں اس کا کلام پڑھ رہا ہوں
اُمّی ہے جو علم کے لقب کا

جاتا نہیں شعر کی طرف میں
مقتول ہوں اس کے حرفِ لب کا

اک تُو کہ بلند ہر سبب سے
ورنہ تو سبب ہے ہر سبب کا
 

فاتح

لائبریرین
سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا

سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا

کھلا کہ عشق نہیں ہے کچھ اور اس کے سوا
رضائے یار جو ہو اپنا حال کر رکھنا

اُسی کا کام ہے فرشِ زمیں بچھا دینا
اُسی کا کام ستارے اچھال کر رکھنا

اُسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں
محبتوں سے مجھے مالا مال کر رکھنا

بس ایک قامتِ زیبا کے خواب میں رہنا
بس ایک شخص کو حدِّ مثال کر رکھنا

گزرنا حسن کی نظّارگی سے پل بھر کو
پھر اس کو ذائقۂ لازوال کر رکھنا

کسی کے بس میں نہیں تھا، کسی کے بس میں نہیں
بلندیوں کو سدا پائمال کر رکھنا
 
Top