عبید اللّہ علیم - انتخابِ کلام

فرخ منظور

لائبریرین
عبید اللہ علیم کی شاعری پیش ِ خدمت ہے -
براہ۔ مہربانی جوابات اور تبصروں کے لیے یہاں دیکھیں-

بنا گلاب تو کانٹے چبُھا گیا اِک شخص
ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص

تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص

میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص

پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص

محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص

محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص

کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اِک شخص

1968 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں

کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے،
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

اِک وہم ہے یہ دُنیا اس میں
کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

1970 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ

تیرے پیار میں رُسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ

ہر لمحہ احساس کی صہبا رُوح میں ڈھلتی جاتی ہے
زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ

جیسے تمہیں ہم نے چاہا ہے کون بھلا یوں چاہے گا
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ

یُوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ

آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے ہم ہی نہیں دیوانے لوگ

کیسے دکھوں کے موسم آئے کیسی آگ لگی یارو
اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ

کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ
 

فرخ منظور

لائبریرین
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اِک جھلک دیکھوں

چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم
اب ستارے پلک پلک دیکھوں

جانے تو کس کا ہم سفر ہوگا
میں تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں

بند کیوں ذات میں رہوں اپنی
موج بن جاؤں اور چھلک دیکھوں

صبح میں دیر ہے تو پھر اِک بار،
شب کے رُخسار سے ڈھلک دیکھوں

اُن کے قدموں تلے فلک، اور میں
صرف پہنائی فلک دیکھوں

1972 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
مرے خدا مجھے وہ تابِ نے نوائی دے

مرے خدا مجھے وہ تابِ نے نوائی دے
مَیں چپ رہوں بھی تو نغمہ مرا سنائی دے

گدائے کوئے سخن اور تجھ سے کیا مانگے
یہی کہ مملکتِ شعر کی خدائی دے

نگاہِ دہر میں اہل ِ کمال ہم بھی ہوں
جو لکھ رہے ہیں وہ دنیا اگر دکھائی دے

چھلک نہ جاؤں کہیں میں وجُود سے اپنے
ہُنر دیا ہے تو پھر ظرفِ کبریائی دے

مجھے کمالِ سخن سے نوازنے والے
سماعتوں کو بھی اب ذوق ِ آشنائی دے

نمو پذیر ہے یہ شعلہء نوا تو اسے
ہر آنے والے زمانے کی پیشوائی دے

کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی
کہ ایک زخم بھرے دوسرا دہائی دے

میں ایک سے کسی موسم میں رہ نہیں سکتا
کبھی وصال کبھی ہجر سے رہائی دے

جو ایک خواب کا نشّہ ہو کم تو آنکھوں کو
ہزار خواب دے اور جراءتِ رسائی دے

1971 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھّا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسّم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پس ِ جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھّے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہَوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی

نہیں کہ حُسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہل ِ کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے سو وہ اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی

یہ دور ِ بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی


1964 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
خورشید بکف کوئی کہاں ہے

خورشید بکف کوئی کہاں ہے
سب اپنی ہی روشنئ جاں ہے

میں بھی تو ادھر ہی جا رہا ہوں
مجھ کو بھی تلاش ِ رفتگاں ہے

پھر دیکھنا خوابِ عہد رفتہ
مل لو ابھی وقت مہرباں ہے

سودا بھی کروں تو کیا کہ دنیا
باہر سے سجی ہوئی دکاں ہے

شعلے کو خبر ہی کیا نمو میں
اپنے ہی وجود کا زیاں ہے

ہر لحظہ بدل رہی ہے دنیا
ہر پَل کوئی خوابِ رائیگاں ہے

لیتا ہی نہیں کہیں پڑاؤ
یادوں کا عجیب کارواں ہے

مانا کہ جدا نہیں ہیں ہم تم
پھر بھی کوئی فصل درمیاں ہے

اے ابر ِ بہار ِ نو برس بھی
پھر تازہ ہجوم ِ تشنگاں ہے

اے موج ِفنا گزر بھی سر سے
ہونے کا مجھے بہت گماں ہے

1965 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمئ انفاس سے پگھل جائے

محبّتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں ‌راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

میں وہ چراغ ِ سر ِ راہ گزار ِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

ہر ایک لحظہ، یہی آرزو، یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے


1966 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
کوئی دھُن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں

کوئی دھُن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں
درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں

خواب بن کر تُو برستا رہے شبنم شبنم
اور بس میں اسی موسم میں نہائے جاؤں

تیرے ہی رنگ اُترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں

جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبّت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں

تُو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں

یہی چہرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں

جان تو چیز ہے کیا رشتہء جاں سے آگے
کوئی آواز دییے جائے میں آئے جاؤں

شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں

اہل ِ دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آ ہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں

1972 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں

یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزل ِ سفر میں ہوں

ابھی نظر نہیں ایسی کہ دُور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کس اثر میں ہوں

پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلہء جاں سے
شریک میں بھی اسی محفل ِ ہنر میں ہوں

جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں

جو سایہ ہو تو ڈروں اور دھوپ ہو تو جلوں
کہ ایک نخل ِ نمو خاکِ نوحہ گر میں ہوں

کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں

بچھڑ گئ ہے وہ خوشبو اجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشم ِ تر میں ہوں

قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا
دعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں


1966 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
جوانی کیا ہوئی اِک رات کی کہانی ہوئی

جوانی کیا ہوئی اِک رات کی کہانی ہوئی
بدن پُرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی

کوئی عزیز نہیں ماسوائے ذات ہمیں
اگر ہوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی

نہ ہوگی خشک کہ شاید وہ لوٹ آئے پھر
یہ کِشت گزرے ہوئے ابر کی نشانی ہوئی

تم اپنے رنگ نہاؤ میں اپنی موج اُڑوں
وہ بات بھول بھی جاؤ جو آنی جانی ہوئی

میں اُس کو بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا
تَو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی

کہاں تک اور بھلا جاں کا ہم زیاں کرتے
بچھڑ گیا ہے تو یہ اُس کی مہربانی ہوئی

1969 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا

ویرانہء جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا

وہ شمّع مرے گھر میں تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں وہ جنس ہو نادر تو مجھے کیا

وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا

مَیں نے اُسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا مَیں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا

دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا

اِک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا

1969 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
مَیں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے

مَیں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے
یک دو نفس نمود سہی زندگی تو ہے

جلتی ہے کتنی دیر ہواؤں میں میرے ساتھ
اِک شمع پھر مرے لیے روشن ہوئی تو ہے

جس میں بھی ڈھل گئی اُسے مہتاب کر گئی
میرے لہو میں ایسی بھی اِک روشنی تو ہے

پرچھائیوں میں ڈوبتا دیکھوں بھی مہر ِعمر
اور پھر بچا نہ پاؤں یہ بیچارگی تو ہے

تُو بوئے گُل ہے اور پریشاں ہَوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتہء آوارگی تو ہے

اے خواب خواب عمر ِ گریزاں کی ساعتو
تم سُن سکو تو بات مری گفتنی تو ہے

1966 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں

ميرے خدايا
ميں زندگي کے عذاب لکھوں
کہ خواب لکھوں
يہ ميرا چہرہ، يہ ميري آنکھيں
بُجھے ہوئے سے چراغ جيسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
جنہوں نے پيماں کيے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے، محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے
کہ اے مسافر رِہ وفا کے
جہاں بھي جائے گا
ہم بھي آئيں گے ساتھ تيرے
بنيں گے راتوں ميں چاندني ہم
تو دن ميں تارے بکھير ديں گے
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
وہ اپنے پيماں
رفاقتوں کے، محبتوں کے
شکست کرکے
نہ جانے اب کس کي رہ گزر کا
مينارہِ روشني ہوئے ہيں
مگر مسافر کو کيا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گيا ہے
ستارہ آنکھيں تو سو گئي ہيں
وہ زلفيں بے سايہ ہو گئيں ہيں
وہ روشني اور وہ سائے مري عطا تھے
سو مري راہوں ميں آج بھي ہيں
کہ ميں مسافر رہِ وفا کا
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
ہزاروں چہروں، ہزاروں آنکھوں، ہزاروں زلفوں کا
ايک سيلابِ تند لے کر
ميرے تعاقب ميں آرہے ہيں
ہر ايک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہيں ساري آنکھيں ستارہ آنکھيں
تمام ہيں مہرباں سايہ دار زلفيں
ميں کِس کو چاہوں، ميں کس کو چُوموں
ميں کس کے سايہ ميں بيٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں ميں ڈوب جاؤں
کہ ميرا چہرہ، نہ ميري آنکھيں
ميرے خدايا ميں زندگي کے عذاب لکھوں، کہ خواب لکھوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
آؤ تم ہی کرو مسیحائی

آؤ تم ہی کرو مسیحائی
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی

تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے
اب یہ کس کام کی ہے بینائی

ہم کہ تھے لذّتِ حیات میں گم
جاں سے اِک موج ِ تشنگی آئی

ہم سفر خوش نہ ہو محبّت سے
جانے ہم کس کے ہوں تمنّائی

کوئی دیوانہ کہتا جاتا تھا
زندگی یہ نہیں مرے بھائی

اوّلِ عشق میں خبر بھی نہ تھی
عزّتیں بخشتی ہے رسوائی

کیسے پاؤ مجھے جو تم دیکھو
سطح ِ ساحل سے میری گہرائی

جن میں ہم کھیل کر جوان ہوئے
وہی گلیاں ہوئیں تماشائی

1972 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے

وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے
ایک دنیا ہے اکیلی تو ہی تنہا کیا ہے

داد دے ظرفِ سماعت تو کرم ہے ورنہ
تشنگی ہے مری آواز کی نغمہ کیا ہے

بولتا ہے کوئی ہر آن لہو میں میرے
پر دکھائی نہیں دیتا یہ تماشا کیا ہے

جس تمنّا میں گزرتی ہے جوانی میری
میں نے اب تک نہیں جانا وہ تمنّا کیا ہے

یہ مری روح کا احساس ہے آنکھیں کیا ہیں
یہ مری ذات کا آئینہ ہے چہرہ کیا ہے

کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے

زندگی کی اے کڑی دھوپ بچالے مجھ کو
پیچھے پیچھے یہ مرے موت کا سایہ کیا ہے

1972 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے

عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے
وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے گئے

ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اِک آن میں بکھر سے گئے

بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی
کہ اِک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے

ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے

کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام
اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر سے گئے

یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں
کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے

مرا ہی رنگ تھے، تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں
مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے

جو زخم، زخم ِ زباں بھی ہے اور نمو بھی ہے
تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے گئے

1969 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطّہء زمیں پر
وہی خطہء زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہَوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

1971 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
پابہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ


پابہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ
محفلِ وقت تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ

خوب پایا ہے صلہ تری پرستاری کا
دیکھ اے صبحِ طرب ! آج کہاں ہیں ہم لوگ

اک متاعِ دل و جاں پاس تھی سو وہ ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ

نکہتِ گل کی طرح ناز سے چلنے والو!
ہم بھی کہتے تھے کہ آسودئہ جاں ہیں ہم لوگ

کوئی بتلائے کہ کیسے یہ خبر عام کریں
ڈھونڈتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم لوگ

قسمتِ شب زدگاں جاگ ہی جائے گی علیم
جرسِ قافلۂ خوش خبراں ہیں ہم لوگ
 

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا

اک سبز شاخ گلاب کی تھا اک دنیا اپنے خواب کی تھا
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لیے سب کچھ ہار دیا

یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں ‌مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سُکھ نے آزار دیا

میں کھُلی ہوئی اک سچّائی، مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا

وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا

میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں
ان لوگوں پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا

وہ یار ہوں یا محبوب مرے یا کبھی کبھی ملنے والے
اک لذت سب کے ملنے میں وہ زخم دیا یا پیار دیا

مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے
میں‌خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ و بار دیا

(عبید اللہ علیم)
 
Top