عبید اللّہ علیم - انتخابِ کلام

فاتح

لائبریرین
اعجاز صاحب! میں نے ابھی اس ربط سے ڈاؤن لوڈ کی ہے ورڈ کی فائل لیکن اس برقی کتاب میں میرے کل کے مراسلات میں سے اکثر غزلیات موجود نہیں ہیں۔
میرے پاس عبید اللہ علیم کے تینوں مجموعہ ہائے کلام موجود ہیں اور انہی میں سے ٹائپ کر کے بھیجتا ہوں لیکن اگر کوئی کلام نیٹ سے مل جائے تو اس کی اغلاط درست کر کے ارسال کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ خوامخواہ کی محنت کا کیا فائدہ۔
میرے پاس علیم صاحب کی کافی غزلیات تحت اللفظ کے ساتھ ساتھ ان کی مترنم آواز میں بھی بشکل آڈیو موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ انہیں بھی اپلوڈ کرنے کا ارادہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اعجاز صاحب! میں نے ابھی اس ربط سے ڈاؤن لوڈ کی ہے ورڈ کی فائل لیکن اس برقی کتاب میں میرے کل کے مراسلات میں سے اکثر غزلیات موجود نہیں ہیں۔
میرے پاس عبید اللہ علیم کے تینوں مجموعہ ہائے کلام موجود ہیں اور انہی میں سے ٹائپ کر کے بھیجتا ہوں لیکن اگر کوئی کلام نیٹ سے مل جائے تو اس کی اغلاط درست کر کے ارسال کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ خوامخواہ کی محنت کا کیا فائدہ۔
میرے پاس علیم صاحب کی کافی غزلیات تحت اللفظ کے ساتھ ساتھ ان کی مترنم آواز میں بھی بشکل آڈیو موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ انہیں بھی اپلوڈ کرنے کا ارادہ ہے۔

جزاک اللہ برادرم
 

فاتح

لائبریرین
میں جس میں کھو گیا ہوں، مِرا خواب ہی تو ہے

میں جس میں کھو گیا ہوں، مِرا خواب ہی تو ہے
یک دو نفَس نمود سہی، زندگی تو ہے

جلتی ہے کتنی دیر ہواؤں میں میرے ساتھ
اک شمع پھر مرے لیے روشن ہوئی تو ہے

جس میں بھی ڈھل گئی اسے مہتاب کر گئی
میرے لہو میں ایسی بھی اک روشنی تو ہے

پرچھائیوں میں ڈوبتا دیکھوں بھی مہر ِعمر
اور پھر بچا نہ پاؤں، یہ بے چارگی تو ہے

تُو بوئے گل ہے اور پریشاں ہوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتۂ آوارگی تو ہے

اے خواب خواب عمر ِ گریزاں کی ساعتو!
تم سن سکو تو بات مری گفتنی تو ہے
 

فاتح

لائبریرین
ویران سرائے کا دیا ہے

ویران سرائے کا دیا ہے
جو کون و مکاں میں جل رہا ہے

یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

خورشید مثال شخص کل شام
مٹّی کے سپرد کر دیا ہے

تم مر گئے حوصلہ تمہارا
زندہ ہوں یہ میرا حوصلہ ہے

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

میں کون سا خواب دیکھتا ہوں
یہ کون سے مُلک کی فضا ہے

وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے
مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے

رکھّا تھا خلا میں پاؤں میں نے
رستے میں ستارہ آ گیا ہے

شاید کہ خدا میں اور مجھ میں
اک جست کا اور فاصلہ ہے

گردش میں ہیں کتنی کائناتیں
بچّہ مرا پاؤں چل رہا ہے
 

فاتح

لائبریرین
ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار

ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار
اے میری روشنیِ طبع مجھ کو اور سنوار

نشاطِ رنج ہو، رنجِ نشاط ہو، کچھ ہو
حیات رقص ہے وحشت کا، اور دائرہ وار

اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں
وہ اک نشّہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اُتار

میں اعترافِ شکستِ بہار کر لوں گا
ذرا اُڑے تو سہی بوئے زلفِ عنبر یار

رہِ وفا میں چلو پھر سے اجنبی بن جائیں
کہ ڈھل رہا ہے پرانی محبتوں کا خمار

اُس ایک قطرۂ خوں کا ہے نام شعر علیمؔ
جو دل میں ہو تو خزاں، اور ٹپک پڑے تو بہار
(عبید اللہ علیمؔ)
 
Top