عبید اللّہ علیم - انتخابِ کلام

فاتح

لائبریرین
دل کی پاتال سرا سے آئی ۔ حصۂ دوم

دل کی پاتال سرا سے آئی
دولتِ درد دعا سے آئی

اب کے پامال زمینوں پہ بہار
اور ہی آب و ہوا سے آئی

جان بیمار میں اس کے، آخر
اس کے ہی دستِ شفا سے آئی

ہم میں اک اور بقا کی صورت
ہم پہ اک اور فنا سے آئی

ہم نے ہر شے کو الگ سے دیکھا
ہم میں یہ بات جدا سے آئی

چاک کرتے تھے گریباں اپنا
روشنی بندِ قبا سے آئی

یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں
اک مسیحا کی دعا سے آئی

آئی جو لہر نئی دل میں علیمؔ
اس کی بخشش سے عطا سے آئی
 

فاتح

لائبریرین
یا میرے دیے کی لو بڑھا دے

یا میرے دیے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صبح سے ملا دے

اک میرا وجود سن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے

مجھ سے میرا کوئی ملنے والا
بچھڑا تو نہیں مگر ملا دے

چہرہ مجھے اپنا دیکھنے کو
اب دستِ ہوس میں آئینہ دے

جس شخص نے عمرِ ہجر کاٹی
اس شخص کو ایک رات کیا دے

دُکھتا ہے بدن کہ پھر ملے وہ
مل جائے تو روح کو دُکھا دے

کیا چیز ہے خواہشِ بدن بھی
ہر بار نیا ہی ذائقہ دے

چھونے میں یہ ڈرکہ مر نہ جاؤں
چھو لوں تو وہ زندگی سوا دے​
 

فاتح

لائبریرین
جو اس نے کیا اسے صلہ دے

جو اس نے کیا اسے صلہ دے
مولا! مجھے صبر کی جزا دے

سچ ہوں تو مجھے امر بنادے
جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹادے

یہ قوم عجیب ہو گئی ہے
اِس قوم کو خوئے انبیا دے

اترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے

بچوں کی طرح یہ لفظ میرے
معبود انھیں بولنا سکھا دے

دکھ دہر کے اپنے نام لکھوں
ہر دکھ مجھے ذات کا مزا دے
 

فاتح

لائبریرین
میں کیسے جیوں گر یہ دنیا ہر آن نئی تصویر نہ ہو

میں کیسے جیوں گر یہ دنیا ہر آن نئی تصویر نہ ہو
یہ آتے جاتے رنگ نہ ہوں اور لفظوں کی تنویر نہ ہو

اے راہِ عشق کے راہی سن! چل ایسے سفر کی لذت میں
تری آنکھوں میں نئے خواب تو ہوں پر خوابوں کی تعبیر نہ ہو

گھر آؤں یا باہر جاؤں ہر ایک فضا میں میرے لیے
اک جھوٹی سچی چاہت ہو، رسموں کی کوئی زنجیر نہ ہو

جیسے یہ مری اپنی صورت مرے سامنے ہو اور کہتی ہو
مرے شاعر تیرے ساتھ ہُوں میں، مایوس نہ ہو، دلگیر نہ ہو

کوئی ہو تو محبت ایسی ہو، مجھے دھوپ اور سائے میں جس کے
کسی جذبے کا آزار نہ ہو، کسی خواہش کی تعزیر نہ ہو
 

فاتح

لائبریرین
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے

جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے

ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے

وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے

کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے

ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے

ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے

یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے

کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے
 

فاتح

لائبریرین
چہرہ ہُوا میں اور مری تصویر ہوئے سب

چہرہ ہُوا میں اور مری تصویر ہوئے سب
میں لفظ ہوا، مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب

بنیاد بھی میری در و دیوار بھی میرے
تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئے سب

بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے
کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب

ویسے بھی لکھو گے تو مرا نام ہی ہو گا
جو لفظ لکھے وہ مری جاگیر ہوئے سب

مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے
یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب

وہ اہلِ قلم سایۂ رحمت کی طرح تھے
ہم اتنے گھٹے اپنی ہی تعزیر ہوئے سب

اس لفظ کے مانند جو کھلتا ہی چلا جائے
یہ ذات و زماں مجھ سے ہی تحریر ہوئے سب

اتنا سخنِ میرؔ نہیں سہل، خدا خیر
نقاد بھی اب معتقدِ میرؔ ہوئے سب
 

فاتح

لائبریرین
جب لفظ کبھی ادب لکھو گے

جب لفظ کبھی ادب لکھو گے
یہ لفظ مرا نسب لکھو گے

لکھا تھا کبھی یہ شعر تم نے
اب دوسرا شعر کب لکھو گے

جتنا بھی قریب جاؤ گے تم
انساں کو عجب عجب لکھو گے

ہر لمحہ یہاں ہے ایک "ہونا"
کس بات کا کیا سبب لکھو گے

انسان کا ہو گا ہاتھ اس میں
اللہ کا جو غضب لکھو گے

جب رات کو نیند ہی نہ آئے
پھر رات کو کیسے شب لکھو گے

بچے کے بھی دل سے پوچھ لینا
کیا ہے وہ جسے طرب لکھو گے

صدیوں میں وہ لفظ ہے تمھارا
اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے

میں اپنے وجود کا ہوں شاعر
جو لفظ لکھوں گا سب لکھو گے
 

فاتح

لائبریرین
ایک میں بھی ہوں کلاہ داروں کے بیچ

ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ
میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ

روشنی آدھی اِدھر، آدھی اُدھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ

میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانے تھے نظاروں کے بیچ

ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ

کھا گیا انساں کو آشوبِ معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ

میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ

اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ

کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ

اہلِ دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ

آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ
اک محمد مصطفےٰ ساروں کے بیچ
 

فاتح

لائبریرین
تو اپنی آواز میں گم ہے، میں اپنی آواز میں چپ

تو اپنی آواز میں گم ہے، میں اپنی آواز میں چپ
دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ میں چپ

اول اول بول رہے تھے خواب بھری حیرانی میں
پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے راز میں چپ

خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت ایسی ہے
جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حجرۂ راز و نیاز میں چپ

اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا ادھر کا جیون انگ
جانتے ہیں پر کیا بتلائیں، لگ گئی کیوں پرواز میں چپ

پھر یہ کھیل تماشا سارا کس کے لئے اور کیوں صاحب
جب اس کا انجام بھی چپ ہے، جب اس کے آغاز میں چپ

نیند بھری آنکھوں سے چوما، دیے نے سورج کو، اور پھر
جیسے شام کو اب نہیں جلنا، کھینچ لی اس انداز میں چپ

غیب سمے کے گیان میں پاگل کتنی تان لگائے گا
جتنے سُر ہیں ساز سے باہر، اس سے زیادہ ساز میں چپ
 

فاتح

لائبریرین
کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے

کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے
تھے گدا، تحفۂ نایاب اٹھا کر لے آئے

کون سی کشتی میں بیٹھیں ترے بندے مولا
اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لے آئے

ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے

ایسا ضدی تھا مرا عشق، نہ بہلا پھر بھی
لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے

سطحِ ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی
ہم خزانوں کو تہہِ آب اٹھا کر لے آئے

جب ملا حسن بھی ہرجائی تو اس بزم سے ہم
عشقِ آوارہ کو بے تاب اٹھا کر لے آئے

اس کو کم ظرفیِ رندانِ گرامی کہیے
نشے چھوڑ آئے مئے ناب اٹھا کر لے آئے

انجمن سازیِ اربابِ ہنر کیا لکھیے
ان کو وہ اور انھیں احباب اٹھا کر لے آئے

ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے جب لوگ تو ہم
گفتگو کے نئے آداب اٹھا کر لے آئے

خواب میں لذتِ یک خواب ہے دنیا میری
اور مرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے
 

فاتح

لائبریرین
دعا دعا وہ چہرہ

دعا دعا وہ چہرہ
حیا حیا وہ آنکھیں
صبا صبا وہ زلفیں
چلے لہو گردش میں
رہے آنکھ میں دل میں
بسے مرے خوابوں میں
جلے اکیلے پن میں
مِلے ہر اک محفل میں
دعا دعا وہ چہرہ
کبھی کسی چلمن کے پیچھے
کبھی درخت کے نیچے
کبھی وہ ہاتھ پکڑتے
کبھی ہوا سے ڈرتے
کبھی وہ بارش اندر
کبھی وہ موج سمندر
کبھی وہ سورج ڈھلتے
کبھی وہ چاند نکلتے
کبھی خیال کی رَو میں
کبھی چراغ کی لَو میں
دعا دعا وہ چہرہ
حیا حیا وہ آنکھیں
صبا صبا وہ زلفیں

دعا دعا وہ چہرہ
کبھی بال سکھائے آنگن میں
کبھی مانگ نکالے درپن میں
کبھی چلے پون کے پاؤں میں
کبھی ہنسے دھوپ میں چھاؤں میں
کبھی پاگل پاگل نینوں میں
کبھی چھاگل چھاگل سینوں میں
کبھی پھولوں پھول وہ تھالی میں
کبھی دیوں بھری دیوالی میں
کبھی سجا ہوا آئینے میں
کبھی دعا بنا وہ زینے میں
کبھی اپنے آپ سے جنگوں میں
کبھی جیون موج ترنگوں میں
کبھی نغمہ نور فضاؤں میں
کبھی مولا حضور دعاؤں میں
کبھی رکے ہوئے کسی لمحے میں
کبھی دکھے ہوئے کسی چہرے میں
وہی چہرہ بولتا رہتا ہوں
وہی آنکھیں سوچتا رہتا ہوں
وہی زلفیں دیکھتا رہتا ہوں
دعا دعا وہ چہرہ
حیا حیا وہ آنکھیں
صبا صبا وہ زلفیں
 

فاتح

لائبریرین
تم ایسی محبت مت کرنا

تم ایسی محبت مت کرنا
مرے خوابوں میں چہرہ دیکھو
اور میری قائل ہو جاؤ
تم ایسی محبت مت کرنا
مرے لفظوں میں وہ بات سنو
جو بات لہو کی چاہت ہو
پھر اس چاہت میں کھو جاؤ
تم ایسی محبت مت کرنا
یہ لفظ مرے یہ خواب مرے
ہر چند یہ جسم و جاں ٹھہرے
پر ایسے جسم و جاں تو نہیں
جو اور کسی کے پاس نہ ہوں
پھر یہ بھی ممکن ہے، سوچو
یہ لفظ مرے، یہ خواب مرے
سب جھوٹے ہوں
تم ایسی محبت مت کرنا
گر کرو محبت تو ایسی
جس طرح کوئی سچائی کی رَو
ہر جھوٹ کو سچ کر جاتی ہے
 

فاتح

لائبریرین
خوشبو تھا بدن سے تنگ تھا میں

خوشبو تھا بدن سے تنگ تھا میں
جب شعلۂ رنگ رنگ تھا میں

سائے پہ پڑا ہوا تھا سایا
تعبیر پہ اپنی دنگ تھا میں

میں اپنی دلیل لانے والا
ہارا تو عجب ترنگ تھا میں

تم نے مجھے اس طرح نہ جانا
جو عالمِ خواب رنگ تھا میں

ہاتھوں سے کچھ اپنے دوستوں کے
وہ پھول پڑے کہ سنگ تھا میں

گزری ہوئی رات کی کہانی
وہ شمع تھی اور پتنگ تھا میں

پھر دہر پہ کیوں نہ پھیل جاتا
قامت پہ جب اپنے تنگ تھا میں

ترسی ہوئی روح پر زمیں کی
برسی ہوئی اک امنگ تھا میں

اے موسمِ ذات تو بتانا
انسان کی کیسی جنگ تھا میں
 

فاتح

لائبریرین
وحشتیں کیسی ہیں، خوابوں سے الجھتا کیا ہے

وحشتیں کیسی ہیں، خوابوں سے الجھتا کیا ہے
ایک دنیا ہے اکیلی۔۔۔ تُو ہی تنہا کیا ہے

داد دے ظرفِ سماعت تو کرم ہے ورنہ
تشنگی ہے مری آواز کی۔۔۔ نغمہ کیا ہے

بولتا ہے کوئی ہر آن لہو میں میرے
پر دکھائی نہیں دیتا یہ تماشا کیا ہے

جس تمنا میں گزرتی ہے جوانی میری
میں نے اب تک نہیں جانا وہ تمنا کیا ہے

یہ مری روح کا احساس ہے۔۔۔ آنکھیں کیا ہیں
یہ مری ذات کا آئینہ ہے۔۔۔ چہرہ کیا ہے

کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے

زندگی کی اے کڑی دھوپ! بچالے مجھ کو
پیچھے پیچھے یہ مرے موت کا سایا کیا ہے
 

فاتح

لائبریرین
آؤ تم ہی کرو مسیحائی

آؤ تم ہی کرو مسیحائی
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی

تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے
اب یہ کس کام کی ہے بینائی

ہم کہ تھے لذتِ حیات میں گم
جاں سے اک موج ِ تشنگی آئی

ہم سفر خوش نہ ہو محبت سے
جانے ہم کس کے ہوں تمنائی

کوئی دیوانہ کہتا جاتا تھا
زندگی یہ نہیں مرے بھائی

اولِ عشق میں خبر بھی نہ تھی
عزتیں بخشتی ہے رسوائی

کیسے پاؤ مجھے جو تم دیکھو
سطح ِ ساحل سے میری گہرائی

جن میں ہم کھیل کر جوان ہوئے
وہی گلیاں ہوئیں تماشائی
 

فاتح

لائبریرین
اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا

ویرانۂ جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا

وہ شمع مرے گھر میں تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں وہ جنس ہو نادر تو مجھے کیا

وہ رنگ فشاں آنکھ، وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا

میں نے اسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا میں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا

دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا

اک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کوئی پکارے "مرے شاعر!" تو مجھے کیا
 

فاتح

لائبریرین
جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی

جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی

کوئی عزیز نہیں ما سوائے ذات ہمیں
اگر ہوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی

نہ ہوگی خشک کہ شاید وہ لوٹ آئے پھر
یہ کشت گزرے ہوئے ابر کی نشانی ہوئی

تم اپنے رنگ نہاؤ، میں اپنی موج اُڑوں
وہ بات بھول بھی جاؤ جو آنی جانی ہوئی

میں اس کو بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا
تو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی

کہاں تک اور بھلا جاں کا ہم زیاں کرتے
بچھڑ گیا ہے تو یہ اس کی مہربانی ہوئی
 

فاتح

لائبریرین
خورشید بکف کوئی کہاں ہے

خورشید بکف کوئی کہاں ہے
سب اپنی ہی روشنیِ جاں ہے

میں بھی تو ادھر ہی جا رہا ہوں
مجھ کو بھی تلاش ِ رفتگاں ہے

پھر دیکھنا خوابِ عہد رفتہ
مل لو ابھی وقت مہرباں ہے

سودا بھی کروں تو کیا کہ دنیا
باہر سے سجی ہوئی دکاں ہے

شعلے کو خبر ہی کیا نمو میں
اپنے ہی وجود کا زیاں ہے

ہر لحظہ بدل رہی ہے دنیا
ہر پل کوئی خوابِ رائیگاں ہے

لیتا ہی نہیں کہیں پڑاؤ
یادوں کا عجیب کارواں ہے

مانا کہ جدا نہیں ہیں ہم تم
پھر بھی کوئی فصل درمیاں ہے

اے ابر ِ بہار ِ نو! برس بھی
پھر تازہ ہجوم ِ تشنگاں ہے

اے موج ِفنا گزر بھی سر سے
ہونے کا مجھے بہت گماں ہے
 

فاتح

لائبریرین
دل ہی سے ہم دُکھے ہوئے، تم نے دُکھا لیا تو کیا

دل ہی سے ہم دُکھے ہوئے، تم نے دُکھا لیا تو کیا
تم بھی تو بے اماں ہوئے، ہم کو ستا لیا تو کیا

آپ کے گھر میں ہر طرف منظرِ ماہ و آفتاب
ایک چراغِ شام اگر میں نے جلا لیا تو کیا

باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوَس میں ہے
ایک غریب نے اگر پھول اٹھا لیا تو کیا

لطف یہ ہے کہ آدمی عام کرے بہار کو
موجِ ہوائے رنگ میں آپ نہا لیا تو کیا

اب کہیں بولتا نہیں، غیب جو کھولتا نہیں
ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنا لیا تو کیا

جو ہے خدا کا آدمی، اس کی ہے سلطنت الگ
ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو کیا

آج کی ہے جو کربلا، کل پہ ہے اس کا فیصلہ
آج ہی آپ نے اگر جشن منا لیا تو کیا

لوگ دُکھے ہوئے تمام، رنگ بجھے ہوئے تمام
ایسے میں اہلِ شام نے شہر سجا لیا تو کیا

پڑھتا نہیں ہے اب کوئی، سنتا نہیں ہے اب کوئی
حرف جگا لیا تو کیا، شعر سنا لیا تو کیا
 
Top