سولھویں سالگرہ ظہیر احمد ظہیر بھائی سے ادبی اور علمی مکالمہ

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب۔
اگر مجھے درست یاد پڑتا ہے تو حقی صاحب علیم شام کے نام سے شاعری بھی کرتے تھے، اور یہ مشہور شعر بھی شاید انہی کا ہے
کسی کو اتنا نہ چاہو کہ پھر بھلا نہ سکو
یہاں مزاج بدلتے ہیں موسموں کی طرح
جی ہاں شاعری بھی کرتے تھے۔
ان کے ایک بزرگ رشتہ دار ٹرپ لے کے جایا کرتے تھے۔ جاسوسی/سسپینس میں ان کے بیٹے شکیل شاید نائب مدیر تھے۔
کبھی ہم بھی ان کے ساتھ ایک لمبے ٹرپ پہ گئے تھے۔ شمالی علاقہ جات، کشمیر، مری وغیرہ۔
 

یاز

محفلین
جی ہاں شاعری بھی کرتے تھے۔
ان کے ایک بزرگ رشتہ دار ٹرپ لے کے جایا کرتے تھے۔ جاسوسی/سسپینس میں ان کے بیٹے شکیل شاید نائب مدیر تھے۔
کبھی ہم بھی ان کے ساتھ ایک لمبے ٹرپ پہ گئے تھے۔ شمالی علاقہ جات، کشمیر، مری وغیرہ۔
اسی طرح کے کسی ٹرپ کے بیک ڈراپ میں ایک کہانی بھی لکھی تھی "آنکھوں میں دھنک" کے نام سے
 
میں نے تو غالبا انہیں ان کی وفات کے بعد پڑھنا شروع کیا یا انہی سالوں کے قریب قریب ہی۔۔۔اس لیے آپ دونوں کی کنورسیشن بزرگوارانہ محسوس ہو رہی ہے! 😁
 

یاز

محفلین
میں نے تو غالبا انہیں ان کی وفات کے بعد پڑھنا شروع کیا یا انہی سالوں کے قریب قریب ہی۔۔۔اس لیے آپ دونوں کی کنورسیشن بزرگوارانہ محسوس ہو رہی ہے! 😁
میں نے شاید ان کا پہلا ناول "پرماتما" پڑھا تھا جو ویسے تو 1988 یا 1989 میں آیا تھا، لیکن میں نے 1990s کے وسط کے قریب پڑھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
زبردست۔ اگر ممکن ہو تو شیئر کیجئے گا آٹوگراف والی کتب اور خطوط وغیرہ۔
حقی صاحب کی اصل قدر کا احساس اس وقت ہوتا ہے، جب دیگر لوگوں کے کئے گئے تراجم پڑھیں تو۔ زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے حقی صاحب کے اور دوسروں کے انداز اور کوالٹی میں۔
ان کا ایک آٹو گراف
 
ظہیراحمدظہیر صاحب سے چند سوالات (کی جسارت) ہم بھی کر لیں۔
1) یہ فرمائیے کہ آپ کی نظر میں کونسی اقدار معاشرے کے لئے اہم ترین ہونی چاہییں؟
2) آپ کی نظر میں خود شناسی اور خود پسندی میں حدِ فاصل کہاں پہ مقرر کی جانی چاہیئے؟
3) یہ بھی بتائیے کہ ماضی، حال یا مستقبل میں سے کس پہ نظر رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے؟
ظہیراحمدظہیر صاحب ہم آ پ کو اس لیے ٹیگ کر رہے ہیں کہ خدا نخواستہ بعد کی مراسلت میں یہ سوالات آپ کے نوٹیفکیشن پین سے محو نہ ہو گئے ہوں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر صاحب ہم آ پ کو اس لیے ٹیگ کر رہے ہیں کہ خدا نخواستہ بعد کی مراسلت میں یہ سوالات آپ کے نوٹیفکیشن پین سے محو نہ ہو گئے ہوں!
اس دھاگے کو بھولا نہیں ہوں۔ لیکن کرنے والے کاموں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ وقت کی راشن بندی کرنا پڑرہی ہے۔ ان شاء اللہ ایک آدھ روز میں اس دھاگے کو توجہ دیتا ہوں ۔یہ دنیا دو تین دن تک اور میرے افکارِ عالیہ و ارشاداتِ حالیہ سے محروم رہی تو امید ہے کہ کچھ زیادہ نقصان نہ ہووے گا۔:D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کو طب پڑھانے کا موقع بھی ملا؟
جی ہاں ۔ پچھلے سولہ سترہ سالوں میں اکثر پڑھاتا رہا ہوں ۔ آج کل بھی میڈیکل ریزیڈنٹس کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت میری مصروفیات کا اچھا خاصا حصہ ہے ۔ مجھے کئی مرتبہ اکادمیہ میں کل وقتی کام کرنے کی پیشکشیں ہوتی رہی ہیں لیکن میں منع کردیتا ہوں ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ اکادمیہ میں کام زیادہ ہوتا ہے اور معاوضہ نسبتاً بہت کم ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر صاحب سے چند سوالات (کی جسارت) ہم بھی کر لیں۔
جناب آپ جسارت نہیں بلکہ جنگ بھی کرسکتے ہیں ۔ آغاز اور نوائے وقت کی بھی پوری اجازت ہے۔ :)


1) یہ فرمائیے کہ آپ کی نظر میں کونسی اقدار معاشرے کے لئے اہم ترین ہونی چاہییں؟
باہمی عزت اور برابری ۔
یعنی مذہب ، نسل ، زبان اور علاقے سے بالا تر ہو کر باہمی عزت اور یہ ایمان کہ معاشرے میں سب انسان برابر ہیں اور سب کےبنیادی حقوق مساوی ہیں ۔
میری رائے میں ان دو اقدار کے بغیر معاشرے میں انصاف اور امن ممکن نہیں ۔ انصاف اور امن کسی بھی معاشرے کی بقا ، خوشی اور ترقی کی لیے ضروری ہیں۔

2) آپ کی نظر میں خود شناسی اور خود پسندی میں حدِ فاصل کہاں پہ مقرر کی جانی چاہیئے؟
یاز بھائی ، اس کا جواب تفصیل طلب ہے ۔ پھر لکھتا ہوں۔ اب لنچ کا وقفہ ختم ہونے والاہے ، میں کچھ کھالوں ۔
3) یہ بھی بتائیے کہ ماضی، حال یا مستقبل میں سے کس پہ نظر رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے؟
بحیثیت فرد یا بحیثیت قوم؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
2) آپ کی نظر میں خود شناسی اور خود پسندی میں حدِ فاصل کہاں پہ مقرر کی جانی چاہیئے؟

میری رائے میں خود شناسی اور خود پسندی ایک ہی سلسلے کے دو مراحل نہیں ہیں ۔ جو لوگ خود شناس ہوتے ہیں وہ دراصل حقیقت پسند ہوتے ہیں ۔ خود شناسی عموماً ایک طویل عمل ہوتا ہے اور عقل و تجربے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ خود شناسی کے اس عمل میں آدمی اپنے آپ کو اپنے معاشرے اور اپنی دنیا کے تناطر میں دیکھتے ہوئے اپنی حیثیت متعین کرتا ہے۔ اگر انسان اپنی حقیقت تک پہنچ جائے تو اسے احساس ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے منفرد و یکتا نہیں ۔ اس جیسے ہزاروں لاکھوں پہلے بھی گزر گئے ہیں ، اس وقت بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔ وہ اتنی بڑی رنگارنگ منقش دنیا میں صرف ایک چھوٹا سا نقش ہے۔
ہر اک شباہت میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے عکس در عکس
خود آشنائی کی حد سے آگے عجب علاقہ ہے آئنوں کا
اگر آدمی اس حد تک خود کو پہچان لے تو پھر خود پسندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی پہچان ہوجائے تو پھر آدمی کی نظر میں دوسروں کی عزت اور قدر بڑھ جاتی ہے۔ یہی حدِ فاصل ہے۔
خود پسندی یعنی narcissism تو کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ۔ ایسا ممکن ہےکہ کسی انسان میں کچھ خوبیاں اور صلاحیتیں موجود ہوں تو وہ اپنے بارے میں خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور نتیجتاً موقع بے موقع دوسرے لوگوں کی تکسیر و تحقیر اور تضحیک پر اتر آئے۔ یا وہ اپنے بارے میں تفاخر سے کام لینے لگے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسا رویہ جلد یا بدیر اس کے لیے مشکلات پیدا کردیتا ہے اور اکثر اس کی تذلیل کا باعث بن جاتا ہے۔
خود پسندی بری بات سہی لیکن عزتِ نفس بڑی چیز ہے۔ اپنے آپ کو عزت دینا انتہائی ضروری ہے۔ میری نظر میں یہ انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتاہے۔ اپنی عزتِ نفس ہر حال میں قائم رکھنا انسان کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ میں اکثر اپنے آپ کو اور بچوں کو یہ بتاتا رہتا ہوں کہ آپ جو ہیں اورجیسے ہیں اس کے ہونے میں قدرت کا بڑا دخل ہے۔ موروثی عناصر کے علاوہ آپ کی شخصیت کے بننے میں حالات و واقعات کا ہاتھ بھی رہا ہے ۔ ایک عمر تک آپ کو اپنی زندگی کے معاملات پر اختیار نہیں تھا۔ سو آپ کی سوچ اور فلسفے نے آپ کی زندگی میں ہونے والے مختلف واقعات اور تجربات کے باہمی تعامل سے جنم لیا ہے ۔ اور ان تمام عوامل نے مل کر آپ کی شخصیت کو ایک روپ عطا کیا ہے۔ یہ روپ بیشک مکمل اور بے عیب نہیں لیکن یہ چہرہ آپ کا اپنا ہے ۔ اسے کسی خول کی ضرورت نہیں۔ اس پر کوئی مصنوعی رنگ مت چڑھائیے ۔ اس کی عزت کیجیے۔ کسی کو اجازت مت دیجیے کہ وہ اس کا مذاق اڑا سکے۔ اگر آپ خود اپنے آپ سے مخلص اور سچے ہیں تو پھر اپنے دفاع کے لیے آپ کو کسی سہارے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جو شخص آپ کا احترام نہیں کرسکتا وہ آپ کے دوستوں میں شامل ہونے کے قابل نہیں۔ عزتِ نفس بڑی قیمتی چیز ہے۔ اس قیمتی اثاثے کو کسی کے ہاتھوں مت گنوائیے۔ اپنا مذاق مت بنوائیے۔ اپنی عزت کیجیے ، دنیا آپ کی عزت کرے گی۔
معذرت چاہتا ہوں کہ یہ جواب کچھ طویل ہوگیا ۔ اس کے لیے آپ مریم افتخار کو قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں کہ جو مجھے یہاں لے کر آئی ہیں ۔:)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
3) یہ بھی بتائیے کہ ماضی، حال یا مستقبل میں سے کس پہ نظر رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے؟
آدمی کے لیے اپنے ماضی پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ اسی طرح وہ اپنے بارےمیں سیکھتا ہے اور اسی سے اس کا مستقبل بھی متعین ہوتا ہے۔
حکمت و دانائی تو یہ کہتی ہے کہ آدمی ہر روز اپنے گزرے ہوئے دن یا ہفتے پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ کیا ٹھیک ہوا اور کیا غلط۔ اور پھر اس سے سبق حاصل کرے ۔ لیکن عملی طور پر شاید ہی کچھ لوگ ایسا کرتے ہوں ۔ عموماً ہم گزرے ہوئے ماہ و سال پر ہی نظر ڈالتے ہیں ۔
ماضی کو تنقیدی نظر سے دیکھنے پر تین چیزیں معلوم ہوتی ہیں ۔ اول یہ کہ ہم کن کن حالات سے گزرے۔ دوم یہ کہ ان حالات میں ہمارا ردِ عمل کیا تھا ۔ سوم یہ کہ پھر نتیجہ کیا نکلا۔ ان حقائق کا جائزہ لینے سے آپ کو اپنی اصل شخصیت ، مزاج اور پسند نا پسند کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جن حالات سے ہم گزرے ان کے پسِ پردہ کون سے عوامل کارفرما تھے اور مستقبل میں ناپسندیدہ حالات کو پیدا ہونے سے کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top