2) آپ کی نظر میں خود شناسی اور خود پسندی میں حدِ فاصل کہاں پہ مقرر کی جانی چاہیئے؟
میری رائے میں خود شناسی اور خود پسندی ایک ہی سلسلے کے دو مراحل نہیں ہیں ۔ جو لوگ خود شناس ہوتے ہیں وہ دراصل حقیقت پسند ہوتے ہیں ۔ خود شناسی عموماً ایک طویل عمل ہوتا ہے اور عقل و تجربے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ خود شناسی کے اس عمل میں آدمی اپنے آپ کو اپنے معاشرے اور اپنی دنیا کے تناطر میں دیکھتے ہوئے اپنی حیثیت متعین کرتا ہے۔ اگر انسان اپنی حقیقت تک پہنچ جائے تو اسے احساس ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے منفرد و یکتا نہیں ۔ اس جیسے ہزاروں لاکھوں پہلے بھی گزر گئے ہیں ، اس وقت بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔ وہ اتنی بڑی رنگارنگ منقش دنیا میں صرف ایک چھوٹا سا نقش ہے۔
ہر اک شباہت میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے عکس در عکس
خود آشنائی کی حد سے آگے عجب علاقہ ہے آئنوں کا
اگر آدمی اس حد تک خود کو پہچان لے تو پھر خود پسندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی پہچان ہوجائے تو پھر آدمی کی نظر میں دوسروں کی عزت اور قدر بڑھ جاتی ہے۔ یہی حدِ فاصل ہے۔
خود پسندی یعنی narcissism تو کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ۔ ایسا ممکن ہےکہ کسی انسان میں کچھ خوبیاں اور صلاحیتیں موجود ہوں تو وہ اپنے بارے میں خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور نتیجتاً موقع بے موقع دوسرے لوگوں کی تکسیر و تحقیر اور تضحیک پر اتر آئے۔ یا وہ اپنے بارے میں تفاخر سے کام لینے لگے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسا رویہ جلد یا بدیر اس کے لیے مشکلات پیدا کردیتا ہے اور اکثر اس کی تذلیل کا باعث بن جاتا ہے۔
خود پسندی بری بات سہی لیکن عزتِ نفس بڑی چیز ہے۔ اپنے آپ کو عزت دینا انتہائی ضروری ہے۔ میری نظر میں یہ انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتاہے۔ اپنی عزتِ نفس ہر حال میں قائم رکھنا انسان کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ میں اکثر اپنے آپ کو اور بچوں کو یہ بتاتا رہتا ہوں کہ آپ جو ہیں اورجیسے ہیں اس کے ہونے میں قدرت کا بڑا دخل ہے۔ موروثی عناصر کے علاوہ آپ کی شخصیت کے بننے میں حالات و واقعات کا ہاتھ بھی رہا ہے ۔ ایک عمر تک آپ کو اپنی زندگی کے معاملات پر اختیار نہیں تھا۔ سو آپ کی سوچ اور فلسفے نے آپ کی زندگی میں ہونے والے مختلف واقعات اور تجربات کے باہمی تعامل سے جنم لیا ہے ۔ اور ان تمام عوامل نے مل کر آپ کی شخصیت کو ایک روپ عطا کیا ہے۔ یہ روپ بیشک مکمل اور بے عیب نہیں لیکن یہ چہرہ آپ کا اپنا ہے ۔ اسے کسی خول کی ضرورت نہیں۔ اس پر کوئی مصنوعی رنگ مت چڑھائیے ۔ اس کی عزت کیجیے۔ کسی کو اجازت مت دیجیے کہ وہ اس کا مذاق اڑا سکے۔ اگر آپ خود اپنے آپ سے مخلص اور سچے ہیں تو پھر اپنے دفاع کے لیے آپ کو کسی سہارے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جو شخص آپ کا احترام نہیں کرسکتا وہ آپ کے دوستوں میں شامل ہونے کے قابل نہیں۔ عزتِ نفس بڑی قیمتی چیز ہے۔ اس قیمتی اثاثے کو کسی کے ہاتھوں مت گنوائیے۔ اپنا مذاق مت بنوائیے۔ اپنی عزت کیجیے ، دنیا آپ کی عزت کرے گی۔
معذرت چاہتا ہوں کہ یہ جواب کچھ طویل ہوگیا ۔ اس کے لیے آپ مریم افتخار کو قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں کہ جو مجھے یہاں لے کر آئی ہیں ۔
