سید عاطف علی

لائبریرین
تمام ہی کلام متاثر ہے ظہیر صاحب۔ کچھ مقامات پر میری توجہ کچھ اٹک سی گئی ،لیکن بہر حال داد کسی طرح کم نہ کر سکی ۔ فاتح کا مشورہ صائب و مثبت ہے اور شاید تجربات پر مبنی بھی ۔ہر غزل کا ایک دھاگا ہو تو بہتر ہو گا۔ البتہ ایک اوردھاگا سب کو جمع بھی کرلے تو حرج نہیں ۔۔۔۔ ہماری داد اس لطف کی طرح قبول کیجئے جو آپ نے کلام سے پہنچایا۔۔۔
 
جناب پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ان مجموعہءِ الفاظ کو اب مزید تک بندی کہہ کر نہ پکارا جائے، کیوں کہ اب میرے خیال میں یہ لڑکپن سے بھرپور شباب میں قدم رکھ چکے ہیں۔ انہیں اشعار اور بہترین اشعار کہا جانا ہی مناسب ہے۔ طبیعت کا میلان کچھ ایسا ہو چلا ہے کہ اب شاعری کا دعویٰ کرنے والے ہر نئے نام کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھتا ہوں پھر چھان پھٹک کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرتا ہوں۔ لیکن آپکی لڑی میں نامعلوم کیسی کشش تھی کہ محفل کے سرورق پر موجود دیگر عنوانات کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلا لنک یہی کھولا۔ تمہید نے مزید پڑھتے رہنے پر مجبور کیا۔ پہلی ہی غزل نے قائل کر لیا کہ بھائی بندے کے کلام میں دم ہے۔ یوں تو ہر ایک شعر ہی لاجواب ہے لیکن رسم یہی ہے کہ دو چار چیدہ چیدہ اشعار کو تبصرے میں ضرور داد دی جاتی ہے۔ سو مجھے تو یہ اشعار بہت پسند آئے؛

؎کسی نرالے سے گاہک کے انتظار میں دل
دکان ِ درد پہ رکھے ہوئے پرانا ہوا

کوئی بتائے مجھے کاروان ِ عمر ِ رواں
کہاں سے آیا ، کدھر ٹھہرا ، کب روانہ ہوا

؎ہوئی نہ جراٗت ِ طوفِ حریم ِ عشق ہمیں
بس ایک سنگِ ملامت انا کو مار آئے

وصالِ یار حقیقت ہے گر تو ختم نہ ہو
اگر یہ خواب ہے کوئی تو باربار آئے

؎لائی ہے بادِ سحر راکھ ، دھواں اور شبنم
اُس نے پھر خط مجھے لکھ لکھ کے جلائے ہونگے

بہت سی داد قبول کیجئے :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یعنی آپ کھلم کھلا ہمیں دعوتِ کلام دی رہے ہیں؟
خلیل بھائی۔ محفل کا ماحول یکایک بہت بوجھل اور گمبھیر ہوچلا ہے ۔ کسی قسم کے ۔ ۔ ۔ وارانہ فسادات کا خطرہ ہے۔ ایسے میں بابائے وزل کی آمد تو بہت ضروری ہے ۔
گفتگو کا مزاج بدلے گا
زہر میں قند گھولئے صاحب​
جہاں تک بات ہماری ننھی منی اقلیم ِ سخن کی ہے تو اس پر شب خون پڑنے سے بہتر ہے کہ آپ کو ’’مذاق رات‘‘کی دعوت دیدی جائے ۔:) اس طرح کم ازکم سفارتی تعلقات تو برقرار رہتے ہیں ۔ آپ کو ہماری طرف سے غیر مشروط دعوتِ کلام ہے ۔ اور اگر آپ کبھی پاس پڑوس میں ہوں تو ’’غریب کھانے‘‘ پرکھلی دعوتِ طعام بھی ہے ۔:):):)
 
بہت نوازش ادی ! شاعری کی سمجھ تو مجھے بھی کم ہی آتی ہے ۔ داد بہرحال میں قبول کرتا ہوں ۔ :):):)
ادی سندھی میں بہن کو کہتے ہیں ۔ احترام کا پیرایہ ہے
یہ کیا ظہیر بھائی ایسے کیوں کہتے ہیں کے آپ کو شاعری کی سمجھ کم آتی میں تو کہتی آپ تو شاعروں کے بھی استاد ہیں :)
بہت بہت شکریہ بھائی اس عزت افزائی کا خوش رہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جناب پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ان مجموعہءِ الفاظ کو اب مزید تک بندی کہہ کر نہ پکارا جائے، کیوں کہ اب میرے خیال میں یہ لڑکپن سے بھرپور شباب میں قدم رکھ چکے ہیں۔ انہیں اشعار اور بہترین اشعار کہا جانا ہی مناسب ہے۔ طبیعت کا میلان کچھ ایسا ہو چلا ہے کہ اب شاعری کا دعویٰ کرنے والے ہر نئے نام کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھتا ہوں پھر چھان پھٹک کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرتا ہوں۔ لیکن آپکی لڑی میں نامعلوم کیسی کشش تھی کہ محفل کے سرورق پر موجود دیگر عنوانات کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلا لنک یہی کھولا۔ تمہید نے مزید پڑھتے رہنے پر مجبور کیا۔ پہلی ہی غزل نے قائل کر لیا کہ بھائی بندے کے کلام میں دم ہے۔ یوں تو ہر ایک شعر ہی لاجواب ہے لیکن رسم یہی ہے کہ دو چار چیدہ چیدہ اشعار کو تبصرے میں ضرور داد دی جاتی ہے۔ سو مجھے تو یہ اشعار بہت پسند آئے؛

؎کسی نرالے سے گاہک کے انتظار میں دل
دکان ِ درد پہ رکھے ہوئے پرانا ہوا

کوئی بتائے مجھے کاروان ِ عمر ِ رواں
کہاں سے آیا ، کدھر ٹھہرا ، کب روانہ ہوا

؎ہوئی نہ جراٗت ِ طوفِ حریم ِ عشق ہمیں
بس ایک سنگِ ملامت انا کو مار آئے

وصالِ یار حقیقت ہے گر تو ختم نہ ہو
اگر یہ خواب ہے کوئی تو باربار آئے

؎لائی ہے بادِ سحر راکھ ، دھواں اور شبنم
اُس نے پھر خط مجھے لکھ لکھ کے جلائے ہونگے

بہت سی داد قبول کیجئے :)

بھائی عدنان احمد ۔ اللہ تعالیٰ آپ کا ذوق سلامت رکھے۔ بہت نوازش۔ آپ کے خلوص اور محبت سے بھرے الفاظ کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ لیکن میرے بھائی بات یہی ہے کہ جب بھی اچھے شعرا کو پڑھتا ہوں بخدا اپنی طبع آزمائی بہت ہی ہیچ اور تک بندی ہی نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی اسے قابلِ اشاعت نہیں سمجھا ۔ بس یہ جیسے تیسے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی ہیں ۔ آپ نے انہیں سراہا تو آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔ میں بہت شکر گزار ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تمام ہی کلام متاثر ہے ظہیر صاحب۔ کچھ مقامات پر میری توجہ کچھ اٹک سی گئی ،لیکن بہر حال داد کسی طرح کم نہ کر سکی ۔ فاتح کا مشورہ صائب و مثبت ہے اور شاید تجربات پر مبنی بھی ۔ہر غزل کا ایک دھاگا ہو تو بہتر ہو گا۔ البتہ ایک اوردھاگا سب کو جمع بھی کرلے تو حرج نہیں ۔۔۔۔ ہماری داد اس لطف کی طرح قبول کیجئے جو آپ نے کلام سے پہنچایا۔۔۔
عاطف بھائی ۔ بڑی محبت ہے آپ کی۔ نوازش ! آپ کا مشورہ تو اور بھی پسند آیا ۔ ذرا سا زیادہ وقت لگے گا لیکن اس طرح دونوں ہی کام ہوجائیں گے۔ یوں ہی کرتا ہوں ۔
کوشش تو کرتا ہوں کہ کمزور اور ہلکے اشعار کو نکال دیاجائے ۔ لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ خود تنقیدی بہت مشکل چیز ہے اور بعض دفعہ خود اپنا اپنڈکس کاٹ کر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اگر کہیں کوئی بات محلِ نظر دکھائی دے تو میں آپ سے توقع کروں گا کہ اس طرف توجہ ضرور دلائیں ۔
 
بھائی عدنان احمد ۔ اللہ تعالیٰ آپ کا ذوق سلامت رکھے۔ بہت نوازش۔ آپ کے خلوص اور محبت سے بھرے الفاظ کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ لیکن میرے بھائی بات یہی ہے کہ جب بھی اچھے شعرا کو پڑھتا ہوں بخدا اپنی طبع آزمائی بہت ہی ہیچ اور تک بندی ہی نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی اسے قابلِ اشاعت نہیں سمجھا ۔ بس یہ جیسے تیسے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی ہیں ۔ آپ نے انہیں سراہا تو آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔ میں بہت شکر گزار ہوں ۔
ِ
عجز کا تقاضا یہی ہے کہ خود کو کم تر ہی سمجھا جائے کیوں کہ یہی وصف انسان کو خوب سے خوب تر کے سفر پر گامزن رکھتا ہے۔ لیکن دوست داری کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ میں کچھ نظر آئے تو اسکے اظہار سے آپکی حوصلہ افزائی کا سامان کیا جائے، تا کہ آپ لکھتے چلے جائیں اور ہماری سماعتیں آپکے سخن کی نکہتوں سے مہکتی رہیں۔
سلامت رہیے برادر! :)
 

محمدظہیر

محفلین
جناب ظہیر احمد ظہیر صاحب، بہت عمدہ شاعری ہے آپ کی۔ آج سے آپ کا مقتدی ہوں اور مجھے خوشی ہے آپ جیسے شاعر کا سا نام میرا بھی ہے : )
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جناب ظہیر احمد ظہیر صاحب، بہت عمدہ شاعری ہے آپ کی۔ آج سے آپ کا مقتدی ہوں اور مجھے خوشی ہے آپ جیسے شاعر کا سا نام میرا بھی ہے : )
ظہیر بھائی! بہت بہت شکریہ۔ نوازش! مجھے بھی خوشی ہے کہ آپ کو اشعار پسند آئے ۔خدا آپ کو خوش و خرم رکھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ کیا ظہیر بھائی ایسے کیوں کہتے ہیں کے آپ کو شاعری کی سمجھ کم آتی میں تو کہتی آپ تو شاعروں کے بھی استاد ہیں :)
بہت بہت شکریہ بھائی اس عزت افزائی کا خوش رہیں
حمیرا عدنان ایسے نہیں کہتے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا اور مشورے دینا استادی شاگردی نہیں ہے ۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سینئر اپنے کسی جونیئر کی ذرا سی رہنمائی کردے ۔ استاد تو جناب اعجاز عبید اور یعقوب آسی صاحب جیسے اہلِ علم و ہنر ہوتے ہیں کہ شعر وادب جن کا اوڑھنا بچھونا ہے اور جنہوں نے پوری عمریں ادب کی خدمت میں لگادی ہیں ۔
دونوں کان (اپنے) پکڑ کر توبہ کرو اور ناک رگڑو (تولیے سے) ۔ اور عہد کرو کہ آئندہ جس بات کا پتہ نہ ہو اس کے بارے میں نہیں بولنا ہے ۔ :):):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

لوگ کیا کیا گفتگو کے درمیاں کھلنے لگے
ذکر ِ یاراں چل پڑا تو رازداں کھلنے لگے

پھر پڑاؤ ڈل گئے یادوں کے شامِ ہجر میں
اور فصیلِ شہرِ جاں پر کارواں کھلنے لگے

تنگ شہروں میں کھلے ساگر کی باتیں کیا چلیں
بادِ ہجرت چل پڑی اور بادباں کھلنے لگے

جب سے دل کا آئنہ شفاف رکھنا آگیا
میری آنکھوں پر کئی عکسِ نہاں کھلنے لگے

دل کی شریانوں میں تازہ غم اک ایسے جم گیا
سب پرانے زخم ہائے بےنشاں کھلنے لگے

تیرے غم کا مہر بستہ گوشوارہ کیا کھلا
عمربھرکے دفتر ِ سود و زیاں کھلنے لگے

مدتوں سےہم نشیں تھے ہم نشاط وہم طرب
مبتلائے غم ہوا تو مہرباں کھلنے لگے​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں
پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں

پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا
نئے سفر کیلئے راستے بناتا ہوں

مقیمِِ دل ہوں میں ، امید نام ہے میرا
میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں

میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے
ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا ہوں

بس ایک سنگِ ندامت ہے اب مری توفیق
میں پانی تکتا ہوں اور دائرے بناتا ہوں

نہ سنگِ میل ، نہ منزل ، نہ رہنما ، میں تو
ستارے دیکھتا ہوں ، زائچے بناتا ہوں

مجھے خبرہے کہ جانا مجھے اکیلا ہے
تو پھر یہ قافلہ کس کے لئے بناتا ہوں ؟

۔۔۔۔ ۲۰۰۷۔۔۔۔۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پھر نور ِ محبت لئے خورشید ِ بہاراں
گلشن میں ہمارے بھی کرے عید ِبہاراں

ہر بار خزاں لُوٹ کے لے جاتی ہے گلشن
ہم از سر ِ نو کرتے ہیں امید ِ بہاراں

موسم کی گواہی سنو گلیوں میں نکل کر
ڈھونڈو نہ دریچوں سے اسانید ِ بہاراں

سب رنگ بسنتی ہیں پتنگوں کے فضا میں
اور کالی زمیں کرتی ہے تردید ِ بہاراں

در پر ہے اُگا قفل ، تو دیوار پہ زنجیر
آغاز مرے گھر سے ہے تمہید ِ بہاراں

ہوتا ہے مرا درد بہاروں میں مکرّر
حرفِ غم ِ ہجراں پہ ہے تشدید ِ بہاراں

شبنم نہیں ، تکمیل ِ نمو کی ہیں یہ مہریں
پھولوں کے ورق پر ہیں اسانید ِ بہاراں

رکھتے ہیں تروتازہ مرے موسم ِ دل کو
کچھہ خوشبو صفت لوگ صنادید ِ بہاراں

شعروں کے نئے پھول سجانے ہیں غزل میں
کرنی ہے سخن زار میں تجدید ِ بہاراں

۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰ ۔۔۔۔۔

ظہیراحمدظہیر, 7 منٹ قبل تدوین رپورٹ بک مارک
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن

علاج ِ زخم ِ تمنا کو چاہئیے مرہم
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن

اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو !
جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن

شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سربریدہ بدن

یہ انکساری نہیں بوجھ ہے کوئی سرپر
وہ میرے سامنے آتا تھا کب خمیدہ بدن

گراں ہے ریشم و کمخواب سے ابھی مرہم
سو خوش لباس ہوئے ہیں سبھی دریدہ بدن

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن

مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن

۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰ ۔۔۔۔۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سنگ آئے کہ کوئی پھول ، اٹھا کر رکھئے
جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے

سجدہء عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی
سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے

دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے
اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے

گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم
ہے وہی خاکِ شفا اُس کو اٹھا کر رکھئے

ہم یوں کھلتے نہیں دوچار ملاقاتوں میں
ایک دو روز ہمیں پاس بلا کر رکھئے​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آسرے توڑتے ہیں ، کتنے بھرم توڑتے ہیں
حادثے دل پہ مرے دُہرا ستم توڑتے ہیں

آ ستینوں میں خداوند چھپا کر اتنے
لوگ کن ہاتھوں سے پتھر کے صنم توڑتے ہیں

اُٹھ گئی رسمِ صدا شہر ِ طلب سے کب کی
اب تو کشکولِ ہوس بابِ کرم توڑتے ہیں

جھوٹی تعبیر کے آرام کدے سے تو نکل
خواب کتنے تری دہلیز پہ دم توڑتے ہیں

ہم نے اُس شہر میں بھی پاسِ وفا رکھا ہے
قیس و فرہاد جہاں روز قسم توڑتے ہیں

پڑھنے والے پڑھا کرتے ہیں ترے چہرے کو
لکھنے والے ترے قدموں میں قلم توڑتے ہیں

تیرا اعجاز کہ ہم تیری اسیری کے لئے
دامِ صد حلقہء دینار و درم توڑتے ہیں

۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

ہاتھوں میں لئے سنگ کی سوغات چلی ہے
اُترے گی مرے گھر ہی جو بارات چلی ہے

ملتے ہیں گھڑی بھر کو دکھانے کیلئے زخم
یاروں میں نئی طرزِ ملاقات چلی ہے

لگتا ہے کہ افسانہء رسوائی بنے گی
وہ بات جو اغیار سے بے بات چلی ہے

جو عشق نے چاہا ہے وہی کر کے دکھایا
کب دل کے حضور اپنی کوئی بات چلی ہے

پھر کوئے سیاست میں بعنوانِ شریعت
اک رسمِ خریداریء جذبات چلی ہے

۔۔۔ ۔۔ ۲۰۰۲۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top