ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ابھی پچھلے دنوں ابن سعید صاحب کا ایک دھاگا دیکھا تو خیال آیا کہ اس قسم کی حرکت اپنی تک بندیوں کے ساتھ بھی کی جائے ۔ پچھلی تین چار دہائیوں سے شعر لکھ رہا ہوں لیکن بوجوہ شعر خوانی ایک خاص حلقہء احباب تک ہی محدود رہی ہے ۔ میں نے کبھی اسے اشاعت کے قابل نہیں سمجھا کہ دنیا میں روشنائی اور کاغذ کے اس سے کہیں بہتراستعمالات موجود ہیں ۔ پچھلے دنوں جناب فاتح صاحب کی اسی سے ملتی جلتی رائے یہیں کسی صفحے پر پڑھی تو اطمینان ہوا کہ میں اس کشتی میں اکیلا نہیں ہوں ۔ پچھلے ایک دو برس سے نسبتًا کچھ فراغت میسر آئی ہے توکاغذ کے پُرزوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اشعار ٹائپ کرنے کا کام شروع کیا ہوا ہے ۔ اب سوچا ہے کہ انہیں ایک لڑی میں لگادیا جائے تو اسی بہانے انٹرنیٹ پر ایک جگہ جمع ہوجائے گا۔
کچھ پِکسلز کا ضیاع کاغذ کی نسبت پھر قابلِ برداشت ہے ۔ شاید ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غزل
اُسی حوالے سے ہر بار میں نشانہ ہوا
جسے بھلائے ہوئے بھی مجھے زمانہ ہوا

یہ خوئے دربدری تو مرے مزاج میں تھی
کسی کا مِل کے بچھڑنا تو اک بہانہ ہوا

نکل سکا نہ اک اندیشہء فراق سے عشق
خیالِ وصل کبھی حرفِ مدعا نہ ہوا

وفا تو محوِ ستائش تھی اس کو کیا معلوم
جمالِ یار حقیقت سے کب فسانہ ہوا

کسی نرالے سے گاہک کے انتظار میں دل
دکان ِ درد پہ رکھے ہوئے پرانا ہوا

کوئی بتائے مجھے کاروان ِ عمر ِ رواں
کہاں سے آیا ، کدھر ٹھہرا ، کب روانہ ہوا

یہ بستیاں ہیں جو راہوں میں قافلے تھے کبھی
جہاں پہ رک گیا کوئی وہیں ٹھکانہ ہوا

عجیب شہر تھا جس نے دیارِ ہجرت میں
مجھے بنا لیا اپنا مگر مرا نہ ہوا

مری وفاؤں کا سودا مری ضرورت سے
کچھہ اس طرح سے ہوا ہے کہ دل بُرا نہ ہوا

ستمبر ٢٠١٠

 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قتیل ِ درد ہوا میں تو غمگسار آئے
رہی نہ جان سلامت تو جاں نثار آئے

تمہارا غم تھا میسر تو کوئی روگ نہ تھا
چلا گیا وہ مسیحا تو غم ہزار آئے

قبائے کذب و ریا اور کلاہِ نام و نمود
کہیں اُترنے سے پہلے ہی ہم اتار آئے

ہوئی نہ جراٗت ِ طوفِ حریم ِ عشق ہمیں
بس ایک سنگِ ملامت انا کو مار آئے

اک عرضِ شوق بصد حسرتِ دلِ ناکام
حضورِ ناز میں پہنچے تو پھر گزار آئے

متاعِ فکر و نظر ، ثروتِ خیال و خواب
خزانے جتنے میسر تھے اُن پہ وار آئے

ہزار اشکِ محبت بہم ہیں آنکھوں میں
کہاں سے شیشہء دل پر کوئی غبار آئے

وصالِ یار حقیقت ہے گر تو ختم نہ ہو
اگر یہ خواب ہے کوئی تو باربار آئے

ذرا سی دولتِ دل تھی ظہیر اُسکو بھی
قمارخانہء الفت میں جا کے ہار آئے

۔ ۔ اگست ۲۰۱۴ ۔ ۔ ۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نظریں چُرائیے ، نہ ندامت اٹھائیے
جتنے بچے ہیں سنگ ِ ملامت ، اٹھائیے

مصلوب کیجئے ہمیں ناکردہ جرم پر
معصوم پھر بنا کے سلامت اٹھائیے

یہ ٹیڑھے ترچھے وار ہیں توہین ِعاشقی
تیغ ِ ستم کو برسر ِ قامت اٹھائیے

وہم و یقیں کے تہ بہ تہ پردے ہیں کس لیے
لفظوں کے درمیاں سے علامت اٹھائیے

اِس تہمتِ جفا سے بھی آگے ہیں مرحلے
اتنی سی بات پر نہ قیامت اٹھائیے

تکلیف دیجئے نہ کسی غمگسار کو
احسانِ چارہ گر بھی ذرا مت اٹھائیے

مرتا ہے شہر مہر و محبت کے قحط سے
خاصان ِخلق دست ِ کرامت اٹھائیے

نادم کھڑے ہیں سارے گنہگار منتظر
بڑھ کر ظہیر بار ِ امامت اٹھائیے

۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
زبردست ظہیر بھائی گویا کہ مجھے شاعری کی سمجھ کم ہی آتی ہے لیکن پھر بھی آپ جیسے شاعر کو داد تو دے سکتی ہوں... بہت ہی عمدہ واہہہہہہہہہ خوش رہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بے سبب ہم بھی تہ ِ دام نہ آئے ہونگے
فرش نے عرش کے امکان دکھائے ہوں گے

سر جھکاتے ہیں جو ہر سنگ پہ کہہ کر لبیک
خوئے تسلیم تری بزم سے لائےہوں گے

جن کے سینے میں دھڑکتا ہو کسی اور کا دل
لوگ ایسے بھی تو قدرت نے بنائے ہونگے

اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت
جس جگہ روشنی ہوگی وہیں سائے ہوں گے

کیسے اک مشتِ عناصر میں دھڑکتی ہے حیات
راز کیا کیا گِل ِ آدم میں سمائے ہوں گے

لائی ہے بادِ سحر راکھ ، دھواں اور شبنم
اُس نے پھر خط مجھے لکھ لکھ کے جلائے ہونگے

لوگ سن کر مرے اشعار اُسے جان گئے
کیا خبر تھی مرے لفظوں میں کنائے ہونگے

دشتِ تعبیر میں ملتی نہیں منزل جو ہمیں
چشم ِ رہبر میں کہیں خواب پرائے ہونگے​

دیئے میراث کے ٹوٹے ہوئےمت پھینک ظہیر
کچھ اندھیرے بھی ترے حصے میں آئے ہونگے

۔۔۔۔ ۲۰۰۵ ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

نہیں لیا کوئی احسانِ باغباں ہم نے
بھری بہار میں چھوڑا ہے گلستاں ہم نے

سفر میں رہ گئے پیچھے مگر یہ کم ہے کیا
ہر ایک موڑ پہ چھوڑے ہیں کچھ نشاں ہم نے

تمھارے نام کی افشاں سے جو سجائی تھی
کسی کی مانگ میں بھر دی وہ کہکشاں ہم نے

بچا کے لائے تھے بس اک چراغ آندھی سے
جلا کے رکھ دیا محفل کے درمیاں ہم نے

جلا ہے زہر ِ خموشی میں ایک عمر خیال
بنا اصیل تو کھولی ہے پھر زباں ہم نے

ضرورتوں کے سفر میں غرورِ نسبت ِ حرف
تجھے گنوایا ہے جانے کہاں کہاں ہم نے

مقیم ِ راہِ سفر ہیں ، سروں پر اپنے ظہیر
غبارِ راہ کو رکھا ہے سائباں ہم نے
۔۔۔ ۲۰۰۵ ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت عمدہ- ہر شعر زبر دست۔
بہت محبت بھائی ۔
زبردست ظہیر بھائی گویا کہ مجھے شاعری کی سمجھ کم ہی آتی ہے لیکن پھر بھی آپ جیسے شاعر کو داد تو دے سکتی ہوں... بہت ہی عمدہ واہہہہہہہہہ خوش رہیں

بہت نوازش ادی ! شاعری کی سمجھ تو مجھے بھی کم ہی آتی ہے ۔ داد بہرحال میں قبول کرتا ہوں ۔ :):):)
ادی سندھی میں بہن کو کہتے ہیں ۔ احترام کا پیرایہ ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دوائیں رکھتے ہوئے ، نشتروں کے ہوتے ہوئے
مرض تو بڑھ گئے چارہ گروں کے ہوتے ہوئے

حریفِ جاں ! یہ روایت نہیں ہماری کہ ہم
عمامے پیروں میں رکھ دیں سروں کے ہوتے ہوئے

ثبوت اور میں کیا دوں تجھے اسیری کا
اُڑانیں دیکھ تو میری پروں کے ہوتے ہوئے

ہر آدمی ہے تلاشِ اماں میں سرگرداں
تمام شہر ہے بے گھر گھروں کے ہوتے ہوئے

یہ سوچنے کی نہیں فیصلے کی ساعت ہے
گزر نہ جائے کہیں مشوروں کے ہوتے ہوئے

یہ فاصلے تو بڑھے جارہے ہیں روزبروز
تمام ہاتھوں میں نامہ بروں کے ہوتے ہوئے

تم اُن کی گرد میں منزل کو ڈھونڈتے ہو ظہیر
جو کارواں ہوئےگم رہبروں کے ہوتے ہوئے

۔۔۔۔ ۲۰۱۳ ۔۔۔۔۔۔۔​
 
بہت عمدہ ظہیر صاحب بہت خوب۔


تم اُن کی گرد میں منزل کو ڈھونڈتے ہو ظہیر
جو کارواں ہوئےگم رہبروں کے ہوتے ہوئ

اُسی حوالے سے ہر بار میں نشانہ ہوا
جسے بھلائے ہوئے بھی مجھے زمانہ ہوا

ہزار اشکِ محبت بہم ہیں آنکھوں میں
کہاں سے شیشہء دل پر کوئی غبار آئے

قبائے کذب و ریا اور کلاہِ نام و نمود
کہیں اُترنے سے پہلے ہی ہم اتار آئے

جن کے سینے میں دھڑکتا ہو کسی اور کا دل
لوگ ایسے بھی تو قدرت نے بنائے ہونگے

اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت
جس جگہ روشنی ہوگی وہیں سائے ہوں گے

دیئے میراث کے ٹوٹے ہوئےمت پھینک ظہیر
کچھ اندھیرے بھی ترے حصے میں آئے ہونگے

سفر میں رہ گئے پیچھے مگر یہ کم ہے کیا
ہر ایک موڑ پہ چھوڑے ہیں کچھ نشاں ہم نے

حریفِ جاں ! یہ روایت نہیں ہماری کہ ہم
عمامے پیروں میں رکھ دیں سروں کے ہوتے ہوئے

کیا کہنے۔

یقین جانیے، اردو محفل کی اسی خوبی نے یہاں سے جوڑ دیا ہے کہ اس دور میں کہ جب معیاری شاعری ڈھونڈنے سے ملتی ہے، یہاں بآسانی پڑھنے کو مل جاتی ہے۔

آپ کی شاعری کے اضافے نے محفل کے گلدستہ کو مزید نکھار دیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ واہ، اتنی اچھی شاعری سے اکیلے اکیلے محظوظ ہوتے رہے اب تک؟
ایک جگہ جمع ہو جائے تو مجھے بھجوا دیں۔ برقی مجموعہ کا تو پبلشر بن ہی سکتا ہوں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت عمدہ ظہیر صاحب بہت خوب۔

تابش بھائی ۔ آپ کی محبت ہے ۔ بڑی نوازش ! آپ نے اتنے اچھے الفاظ سے نوازا تو سیروں خون بڑھ گیا ۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ ذوق سلامت رکھے۔


















کیا کہنے۔

یقین جانیے، اردو محفل کی اسی خوبی نے یہاں سے جوڑ دیا ہے کہ اس دور میں کہ جب معیاری شاعری ڈھونڈنے سے ملتی ہے، یہاں بآسانی پڑھنے کو مل جاتی ہے۔

آپ کی شاعری کے اضافے نے محفل کے گلدستہ کو مزید نکھار دیا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب۔ ابھی دوتین ہی غزلیں پڑھی ہیں لیکن مزا آگیا جناب۔ بہت داد قبول فرمائیے
خلیل الرحمٰن بھائی ! بہت کرم نوازی ہےآپ کی ۔ عنایت ہے ۔ سپاس گزار ہوں ۔
ہماری اقلیم ِسخن آپ کے تحریفی حملوں سے کب تک امان میں رہتی ہے
:):):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ، اتنی اچھی شاعری سے اکیلے اکیلے محظوظ ہوتے رہے اب تک؟
ایک جگہ جمع ہو جائے تو مجھے بھجوا دیں۔ برقی مجموعہ کا تو پبلشر بن ہی سکتا ہوں!

اعجاز بھائی ۔ بڑی ذرہ نوازی ہے آپ کی ۔ آپ کا بڑا پن ہے یہ۔ اشعار آپ کو پسند آئے تو ساری محنت وصول ہو گئی ۔ آپ جیسے سخنور اور قلمکار کی ستائش بہت معنی رکھتی ہے میرے لئے ۔ میں سراپا سپاس ہوں ۔ آپ تو واقف ہی ہیں کہ امریکا میں مصروفِ روزگار انسان کی کیا زندگی ہوتی ہے ۔ اب تک تو زندگی کی ترجیحات میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال ہی سرِ فہرست تھی ۔ بس اسی میں وقت گزر گیا۔ اب بچے کچھ بڑے ہوئے ہیں تو قدرے فراغت میسر آئی ہے اور اس طرف دھیان دے رہا ہوں ۔ یہ تو میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہوگا اگر آپ برقی مجموعہ اپنے ہاتھوں سے پبلش کریں ۔ اس کے لئے پیشگی شکریہ ۔ اب تک کوئی ایک سو کے قریب غزلیں اور نظمیں جمع ہوگئی ہیں ۔ کچھ ٹائپ بھی ہو چکیں ۔ دسمبر کے آخر میں کرسمس کی چھٹیاں ہیں اور پورا ایک ہفتہ میں نے آف لیا ہوا ہے ۔ اس مین بیٹھ کر اس کام کو مکمل کرنے کا ارادہ ہے ۔ آپ کو اطلاع دیدوں گا ۔ آپ کی محبت اور عنایت کیلئے بہت شکر گزار ہوں ۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ چہ خوب۔ خوبصورت شاعری ہے جناب۔ اب تک پیش نہ کر کے ظلم کیا
ایک لڑی کی بجائے اگر ہر غزل کے لیے الگ لڑی کھول لیا کریں تو پڑھنے والوں کے لیے آسانی ہو جاتی یہ جاننے میں کہ فلاں فلاں غزل نئی ہے۔ ایک ہی لڑی میں غزلیں بھیجنے کا پڑحنے والے کے لیے نقصان یہ ہوتا ے جب اپڈیٹ آتی ہے کہ فلاں لڑی میں نیا مراسلہ شامل ہوا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کسی کا کمنٹ ہے یا شاعر کی نئی غزل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ چہ خوب۔ خوبصورت شاعری ہے جناب۔ اب تک پیش نہ کر کے ظلم کیا
ایک لڑی کی بجائے اگر ہر غزل کے لیے الگ لڑی کھول لیا کریں تو پڑھنے والوں کے لیے آسانی ہو جاتی یہ جاننے میں کہ فلاں فلاں غزل نئی ہے۔ ایک ہی لڑی میں غزلیں بھیجنے کا پڑحنے والے کے لیے نقصان یہ ہوتا ے جب اپڈیٹ آتی ہے کہ فلاں لڑی میں نیا مراسلہ شامل ہوا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کسی کا کمنٹ ہے یا شاعر کی نئی غزل

فاتح بھائی بہت شکریہ ۔ بڑی عنایت ہے ! ایک اچھے شاعر کی طرف سے ان حوصلہ افزا الفاظ کےلئےبہت ممنون ہوں!
مشورہ تو آپ کا صائب ہے ۔ پتہ نہیں پہلے کیوں نہیں سوچا میں نے ایسا ۔ بس یہی آسان لگا کہ ایک لڑی میں سب کچھ جمع کردیا جائے ۔ ارادہ یہ تھا کہ ہر دفعہ بیٹھ کر چار چھ غزلیں ٹائپ کرکے کاپی پیسٹ کردی جائیں ۔ لیکن اب آپ نے توجہ دلائی ہے تو بات سمجھ میں آرہی ہے ۔ اب آپ کے مشورے کے مطابق ہی عمل کرتا ہوں ۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ اتنی ساری غزلیں ایک ساتھ دیکھ کر آپ کہیں کہ پہلے تو نہ پیش کرکے ظلم کیا تھا اور اب پیش کرکے ظلم کررہے ہیں آپ ۔ :D
 
Top