سہ ماہی اردو محفل ۔۔۔ اکتوبر تا دسمبر 2019

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
تین صفحات اور 40 پیغامات دیکھ کر میں تو یہی سمجھا کہ بہت ساری تصنیفات جمع ہو گئی ہیں اور اب بس خلیل الرحمٰن بھائی سے اداریہ لکھوانا اور کتابی شکل میں تبدیل کرنا رہ گیا ہے۔ :)

لیکن ۔۔۔ :)
ابھی تو اعلان کیا ہے، ایک دو ہفتے تو دیجیے محفلین کو لکھنے کے لیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا سلسلہ ہے مگر برا مت مانیئے گا لکھاریوں کو قدغنیں پسند نہیں ہوا کرتیں، اور آپ شرائط کافی سخت ہیں۔ قدغنیں بہت ساری ہیں، میرے جیسے منہ پھٹ کی طرف سے پیشگی معذرت قبول کیجئے کہ اتنی پابندیوں کی موجودگی میں بے لاگ لکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ ایک کوشش ہو گی کہ چند دنوں کے بعد وطن جا رہا ہوں، واپسی پرسفر نامہ یا روئیدادِ سفر پر مشتمل تجربات کو قلم بند کرنے کی کوشش ہو گی۔

ہمارا خیال تو یہی ہے کہ عمومی ادبی جرائد کی طرز کی پابندیوں کے علاوہ کوئی قدغن نہیں ہے تصنیفات ارسال کرنے میں۔

آپ بتائیے کہ کس معاملے میں نرمی چاہتے ہیں آپ؟
 

محمداحمد

لائبریرین
نثرہماری ترجیح ہے۔
یہ ہمیں نثر نگاری کی طرف مائل کرنے کی ہلکی پھلکی سی سازش نظر آتی ہے:sneaky:
تفنن برطرف بہت اچھی کوشش ہے۔
ہم کوشش کریں گے کہ کچھ لکھ سکیں۔لیکن بقول غالبؔ
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں(n)
آپ کی اور ہماری ترجیحات بالکل مختلف ہیں ۔
حضرت! رسالے میں نثر کے سیکشن کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ضخیم منظوم سیکشن بھی ہوا کرتا ہے۔

نثر ضرور لکھیے لیکن ہر شمارے کے لیے غزلیں بھی عطا فرمائیے۔

نثر کو ترجیح ہم نے اس لئے کہا کہ:

  1. نثر کے مقابلے میں شاعری زیادہ لکھی جاتی ہے۔
  2. محفل میں بھی نثر لکھنے والے بہت کم اور شعر کہنے والے کافی ہیں
  3. اور یہ کہ بغیر اچھی نثر کے ایک ادبی رسالہ بڑا پھیکا پھیکا سا لگے گا۔
نیز یہ کہ ہم نے ایک رُکن کو زیادہ سے زیادہ 1 نثری اور 2 شعری نگارشات ارسال کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر احباب اس تناسب سے بھی تصنیفات ارسال کریں تب بھی رسالے میں (عددی اعتبار سے) شاعری کو دو تہائی جگہ ملے گی اور نثر کے لئے ایک تہائی جگہ بچے گی۔

سو محفل کے شعراء کو اسے شاعری کی حق تلفی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے نثر میں بھی طبع آزمائی کرنا چاہیے۔ :)

ہماری رائے یہ ہے کہ اگر لکھنے پر آئیں تو شاعروں سے اچھی نثر کوئی نہیں لکھ سکتا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
وعلیکم السلام۔ احمد بھائی ، یہ بتائیے کہ نومولود کا نام عقیقہ کے بعد رکھا جائے گا یا حجام کی آمد کے بعد؟!
:)

نام وہی ہے جو محفل کا نام ہے۔ یعنی سہ ماہی اردو محفل
اور خود ہی انہیں پڑھنے کا اہم فریضہ بھی انجام دیں گے ۔ (اب مکمل ہوئی نا بات!:) )

بالکل! :)
 

محمداحمد

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تین صفحات اور 40 پیغامات دیکھ کر میں تو یہی سمجھا کہ بہت ساری تصنیفات جمع ہو گئی ہیں اور اب بس خلیل الرحمٰن بھائی سے اداریہ لکھوانا اور کتابی شکل میں تبدیل کرنا رہ گیا ہے۔ :)
لیکن ۔۔۔ :)
احمد بھائی ، میں تو غزلوں کا پلندہ لئے تیار بیٹھا ہوں ۔ لیکن آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ غزلیں کس طرح ارسال کرنی ہیں ۔ اس لڑی میں پوسٹ کرنی ہیں یا کہیں اور ؟ یا کسی مدیر کو ذاتی پیغام میں بھجوانی ہیں ؟! اگر اس لڑی ہی میں پوسٹ کرنی ہیں تو پھر بڑا مشکل ہوجائے گا اتنے صفحات میں تخلیقات کو ڈھونڈنا۔ یا پھر میں ہی سمجھ نہیں پایا اس سلسلے کو؟

سو محفل کے شعراء کو اسے شاعری کی حق تلفی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے نثر میں بھی طبع آزمائی کرنا چاہیے۔ :)
ہماری رائے یہ ہے کہ اگر لکھنے پر آئیں تو شاعروں سے اچھی نثر کوئی نہیں لکھ سکتا۔ :)
میں کئی دنوں سے ایک عدد پیش لفظ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ لیکن دو گھنٹے بعد بھی سادہ کاغذ بغیر کسی لفظ کے پیش ہی دھرا رہتا ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نثر لکھنے کے بارے میں پہلے ایک ٹیوٹوریل ہونا چاہئے ۔ (اگر منظوم ہو تو بہتر ہے کہ جلدی یاد ہوجاتا ہے)۔

نام وہی ہے جو محفل کا نام ہے۔ یعنی سہ ماہی اردو محفل
احمد بھائی میری رائے میں اس مجلہ کا کوئی مختلف نام ہونا چاہئے ۔ اردومحفل تو موجود ہے ہی ۔ اگر آپ چاہیں تو میں ایک دو نام تجویز کرسکتا ہوں ۔
 
احمد بھائی ، میں تو غزلوں کا پلندہ لئے تیار بیٹھا ہوں ۔ لیکن آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ غزلیں کس طرح ارسال کرنی ہیں ۔ اس لڑی میں پوسٹ کرنی ہیں یا کہیں اور ؟ یا کسی مدیر کو ذاتی پیغام میں بھجوانی ہیں ؟! اگر اس لڑی ہی میں پوسٹ کرنی ہیں تو پھر بڑا مشکل ہوجائے گا اتنے صفحات میں تخلیقات کو ڈھونڈنا۔ یا پھر میں ہی سمجھ نہیں پایا اس سلسلے کو؟

ظہیر بھائی خیال یہ ہے کہ تین ماہ تک تخلیقات کو اس دھاگے میں جمع کیا جائے۔ پھر تین ماہ بعد ایک عدد ای بک اور پی ڈی ایف فائل کی صورت میں پیش کیا جائے۔

تخلیقات آنا شروع ہوں گی تو تبصروں اور تخلیقات کے لیے علیحدہ لڑیاں بھی بن جائیں گی۔ یوں ایک ڈائینامک رسالہ وجود میں آئے گا۔
 

احمد محمد

محفلین
بلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)

ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔

شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟

بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔

کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔

اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔

انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔

اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔

انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔

شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔

یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔

شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-

سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top