سکوت - نزھت عباسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مری سوچ میں تو نہ آسکیں ، تری نفرتوں کی وہ شدتیں
ترے دھیان میں نہ سما سکیں مری خواہشیں مری چاہتیں

تری آستیں پہ لہو نہیں ، نہ ملال کوئی نگاہ میں
مرے خوں کی پھر بھی گواہ ہیں سبھی کائنات کی وسعتیں

جو بنا گئے ہیں تجھے خدا ، ہیں انہی کے دم سے خدائیاں
کہ مری جبیں کے طفیل ہیں تری سجدہ گاہ کی رفعتیں

مری ذات میں نہیں گھل سکیں ، میرے ذہن پر نہیں کھل سکیں
تری بے جواز عنایتیں ، تری بے جواز عداوتیں

وہی درد جو بھی کسک بنا ، اسے تیرے نام لگا دیا
اسی طور ہم نے تلاش کی ہیں یہ زندگی کی مُسرتیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عجب کچھ واہموں میں گِھر گئے ہیں
بہت سے دشمنوں میں گِھر گئے ہیں

تلاش ذات بھی باقی نہیں ہے
انا کے بت کدوں میں گِھر گئے ہیں

سیاست دور تک پھیلی ہوئی ہے
گھروں کی سازشوں میں گِھر گئے ہیں

سفینے آملے ساحل سے لیکن
ہوا کے راستوں میں گِھر گئے ہیں

خرد کی منزلیں طے کر چکے جب
جنوں کے مرحلوں میں گِھر گئے ہیں

بہت مختار ہو کے ہم نے دیکھا
بہت مجبوریوں میں گھر گئے ہیں

نہیں کہہ سکتے ہم دشمن بھی جن کو
کچھ ایسے دوستوں میں گھر گئے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لکھی ہے اس نے بھی جو تقدیر انوکھی
ہم نے بھی اب سوچی ہے تدبیر انوکھی

جس میں کوئی در ہو اور نہ کوئی دریچہ
کر دیں گے اک دن ہم وہ تعمیر انوکھی

دل کے خوں سے رنگ رکھا ہے ہاتھوں کو
بنتی ہے اب دیکھیے کیا تصویر انوکھی

جس نے جا کے روح کو بھی زخمی کر ڈالا
اتری ایسی دل میں اک شمشیر انوکھی

آزادی کی خواہش کیسے کر پائیں گے
باندھی ہے ہم نے بھی تو زنجیر انوکھی

چاک گریباں تک آنے سے کیا حاصل ہے ؟
جوش جنوں کی ہوتی ہے تشہیر انوکھی

خواب بھی آنکھوں تک آنے سے ڈرتے ہیں
کرتے ہیں وہ کچھ ایسی تعبیر انوکھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پیش ان کے جب مطالب ہو گئے
سارے خدشے جیسے غائب ہو گئے

پہلے تو مقتول کے سب ساتھ تھے
پھر گواہی سے ہی تائب ہو گئے

کس نے دیکھیں قتل کی سچائیاں
سارے منصف اس کی جانب ہوگئے

فیصلوں سے کوئی خوش ہو یا نہیں
فیصلے یہ بھی مناسب ہو گئے

جان دے کر ہی ادا کرتے انھیں
ہم پہ جو احسان واجب ہو گئے

جن کو منصب کی کبھی خواہش نہ تھی
جانے کیسے وہ بھی طالب ہو گئے

پِھر گئے ہیں ہم پِھر تنزل کی طرف
جب توہم ہم پہ غالب ہو گئے

اس سے آگے پِھر کبھی سوچا نہیں
قائل اس لمحے کے صاحب ہو گئے

کس قدر وہ دسترس سے دور ہیں
چاند سورج یا کواکب ہو گئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ثناءے ربی

تیرے سوا کچھ اور تصور میں اب نہیں
اک تیرا ہی خیال جو رہتا ہے ساتھ میں

معذرت کے ساتھ شگفتہ صاحبہ لیکن میرا خیال ہے صحیح شعر یوں ہوں گا-
تیرے سوا کچھ اور تصور میں اب نہیں
اک تیرا ہی خیال جو رہتا ہے سات میں
 

الف عین

لائبریرین
کچھ شعراء جو سوتی قوافی باندھتے ہیں، وہ ساتھ اور ہاتھ کو بھی رات اور بات کے ساتھ باندھ لیتے ہیں، اور ساتھ کو سات اور ہاتھ کو ہات لکھتے ہیں۔ دونوں درست ہیں۔ بلکہ سوتی قافیہ نشاط بھی میں نے دیکھا ہے، لیکن اس کو کسی نے نشات نہیں لکھا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب آپ نے بالکل صحیح فرمایا لیکن - بات،جہات، ذات کے قافیے میں‌ سات ہی آئے گا، ساتھ نہیں کیونکہ اگر ساتھ آئے گا تو قافیے کا آہنگ بدل جائے گا اور شعر وزن سے خارج تصوّر ہوگا - جبکہ نشاط کے ساتھ صوتی آہنگ نہیں‌بدلتا اس لیے نشاط کو نشاط ہی لکھا جائے گا نشات نہیں - بحریں صوتی آہنگ میں ہوتی ہیں اس لیے نشاط کے ساتھ بحر کا صوتی آہنگ نہیں بدلتا -
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
معذرت کے ساتھ شگفتہ صاحبہ لیکن میرا خیال ہے صحیح شعر یوں ہوں گا-
تیرے سوا کچھ اور تصور میں اب نہیں
اک تیرا ہی خیال جو رہتا ہے سات میں


السلام علیکم

شعری ضرورت کے تحت اگر دیکھیں تو آپ کی بات درست ہے ۔ میں اس کی پروف ریڈنگ بھی ساتھ ساتھ کر رہی ہوں ۔ مجموعہ میں "ساتھ" ہی لکھا ہے البتہ ممکن کہ یہ کتابت میں غلطی ہو ، املاء کی کچھ اغلاط اس ( مجموعہ ) میں نظر آئی ہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محبت میں کمی سی رہ گئی ہے
کہ بس اک بے بسی سی رہ گئی ہے

نہ جانے کیوں ہمارے درمیاں یہ
فقط اک برہمی سی رہ گئی ہے

عجب کچھ سانحہ گذرا ہے ہم پہ
ترے غم کی خوشی سی رہ گئی ہے

سمندر کتنے آنکھوں میں اتارے
دلوں میں تشنگی سی رہ گئی ہے

نہیں چڑھتا ہے اب یادوں کا دریا
مگر اک بے کلی سی رہ گئی ہے

خلش دل میں کوئی باقی ہے اب تک
کہ آنکھوں میں نمی سی رہ گئی ہے

وہی اک بات جو کہنی تھی تم سے
وہی تو ان کہی سی رہ گئی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رفاقتوں کا نیا تم نے خواب کیوں دیکھا
نئے جہان کا روشن سراب کیوں دیکھا

چمن چمن جو کھلے تھے وہ خواب دیکھ کے بھی
مری نگاہ نے تازہ گلاب کیوں دیکھا

سلائی پھیر دے آنکھوں میں یہ سزا دے دے
میرہ نگاہ نے یارب وہ خواب کیوں دیکھا

یہ حیرتیں مری آنکھوں میں بس گئیں کیسے
ثواب کو بھی بدلتے عذاب کیوں دیکھا

نگہ نے راز کو اپنے چھپا لیا ہوتا
سوال کر نہ سکے تو جواب کیوں دیکھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیری یادوں سے دوستی کر لی
کتنی بے چین زندگی کر لی

تیرے جانے کے بعد ہم نے بھی
خود اندھیرے سے دوستی کر لی

کیا ہوا گر ہمیں قرار نہیں
تو نے تو اپنی ہر خوشی کر لی

پھر کسی در پہ سر جھکا ہی نہیں
آپ کی جب سے بندگی کر لی

ہم نے اپنی خودی کو پا کے ہی
کیسی حاصل یہ بے خودی کر لی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تو جب سے گیا ہو گیا ویران یہ گھر بھی
ہوتا ہے بہاروں میں ہی گر جائے شجر بھی

رہنے کو تو رہتے ہیں کہیں ایک ہی گھر میں
ہوتی ہے مگر اس کو کہاں میری خبر بھی

کھو جائے کسی موڑ پر اے کاش تری یاد
اب یاد تری زہر کا رکھتی ہے اثر بھی

ہر موڑ پہ سوچا تھا کہ واپس ہی چلے جائیں
باقی تھے مگر دل میں بہت شوق سفر بھی

تنہائی کی جھیلوں میں کھلے اب تو کوئی پھول
مل جائے رفاقت کا کوئی ہم کو ثمر بھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کربِ تنہائی زیادہ نہیں ہونے پاتا
مجھ کو احساس تمہارا نہیں ہونے پاتا

تجھ کو بھولوں تو یہی آتا ہے رہ رہ کے خیال
میرے زخموں کا مداوا نہیں ہونے پاتا

میرے اندر کا اندھیرا یہ کہاں آ پہنچا
تیری یادوں کا اُجالا نہیں ہونے پاتا

یہ تو ممکن ہے تری آنکھ کبھی بھر آئے
ہم سے ہی دکھ یہ ہمارا نہیں ہونے پاتا

ہر نئی رہ نئی راہوں کا پتہ دیتی ہے
مجھ سے رستوں کا اعادہ نہیں ہونے پاتا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنے گنہہ کا کس کو یہاں اعتراف ہو
کس کا بیان آج خود اپنے خلاف ہو

دامن ہی آج سب کا یہاں ہے رنگا ہوا
کس کا ضمیر ہے کہ جو شفاف و صاف ہو

ڈھالا ہے خود کو آج زمانے کے رنگ میں
اس راز کا وجود پہ کیا انکشاف ہو

کب درد بن کے اپنی سکونت بنائے گا
وہ تیر جس سے دل میں ہمارے شگاف ہو

اپنے سوا کچھ اور نظر آئے گا کہاں
آنکھوں پہ جن کی لپٹا ہوا اک غلاف ہو

ان سے عداوتوں کے مراسم بڑھا لیے
جن سے ذرا سی بات پہ کچھ اختلاف ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہم نے خود کو بدل کے دیکھا ہے
سب سے آگے نکل کے دیکھا ہے

ہو گئے اب پرانے سارے خیال
نئے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہے

اس کی ٹھنڈک میں آگ ہے کتنی
ہم نے بارش میں جل کے دیکھا ہے

شمع کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی
رات بھر کیوں پگھل کے دیکھا ہے

یہ نہ بھٹکا دے ہم کو منزل سے
راستہ ہم نے چل کے دیکھا ہے

ڈوب جائیں نہ ان کی آنکھوں میں
ہم نے کتنا سنبھل کے دیکھا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خود کو اس طرح آج شاد کریں
تم کو بھولیں تمہی کو یاد کریں

تم سے ملنا نہیں قیامت تک
فیصلہ یہ بھی آج صاد کریں

رنگ کتنے ہیں تیرے چہرے کے
کس حوالے سے تجھ کو یاد کریں

کر کے احسان ہم پہ نا حق ہی
ہم سے وابستہ وہ مفاد کریں

آگ گھر کی انہیں بھی یاد ریے
شہر میں جو کبھی فساد کریں

آج خود سے ذرا سی ؂دیر ملیں
آج پوری چلو مراد کریں

یاد میں ایک مرنے والے کی
آج محفل کا انعقاد کریں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
درد و غم کو زندگی سے یوں شناسا کر دیا
زہر امرت کو کیا ، ہر کرب دونا کر دیا

اب کبھی بہتے نہیں آنکھوں سے میرے اشک غم
قطرہ قطرہ کر کے اس نے دل کو دریا کر دیا

اس نے بخشی ہر سفر میں مجھ کو اک آشفتگی
ہر قدم پر راستے کو اس نے صحرا کر دیا

ہم نے تو دل میں بسائے تیری یادوں کے نگر
تو نے لیکن شہر میں یادوں کو تنہا کر دیا

دوستی کے سارے حق تھے جس کے ہاتھوں میں سدا
دشمنی کا حق بھی اس نے آج چُکتا کر دیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ضرور کیا وہ تمہیں راز فاش کرنا تھا
کہ اس طرح سے یہ دل پاش پاش کرنا تھا

تمہارا طرزِ تکلم کچھ اور کیا کرتا
لہو کو زہر بدن قاش قاش کرنا تھا

تمہارے دستِ مسیحا کا معجزہ شاید
دل و جگر کو سپردِ خراش کرنا تھا

تمام عمر یہی سوچ کر بسر کر دی
سکونِ جاں کو کہاں پر تلاش کرنا تھا

وہ ایک کام جسے ہم یونہی اٹھا رکھتے
کبھی نہ اس کو کیا جس کو کاش کرنا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ اور بات جگر لخت لخت ہو جاتا
اس ایک پل کے لیے دل بھی سخت ہو جاتا

حضورِ شہ سرِ تسلیمِ خم جو کر دیتے
بنا ہے آج جو تختہ وہ تخت ہو جاتا

نصیب کاتبِ تقدیر ہی تو لکھتا ہے
ہمارا لکھا ہوا کیسے بخت ہو جاتا

پھر اس کے بعد سبھی منزلیں ہماری تھیں
یہ حوصلہ ہی سفر کا جو رخت ہو جاتا

اسے بھی چوس گئی زرد بیل فرقت کی
محبتوں کو وہ پودا درخت ہو جاتا
 
Top