سکوت - نزھت عباسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنی زباں سے جب بھی ادا حرفِ حق ہوئے
چہرے پھر ان کے دیکھیے کس طرح فق ہوئے

ہیں موشگافیاں جو بہت قال و قیل کی
آساں سے فلسفے بھی ہمارے ادق ہوئے

اب پڑھ کے کیا کرے گی انہیں نوجوان نسل
اسلاف کے اُصول تو کہنہ ورق ہوئے

وہ جن کے دم سے رونقیں بزمِ طرب کی تھیں
وہ آج مل گئے ہیں تو وجہ قلق ہوئے

چہرے پہ جیسے قوس ِ قزح سی بکھر گئی
آنکھوں کے رنگ آج مثالِ شفق ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کسی طرح تو درِ دل پہ دستکیں دیتے
خیالِ سوق کو کچھ اور وحشتیں دیتے

ترے خیال ، تری چاہتوں کی خواہش میں
خود اپنے آپ کو ہم تو اذیتیں دیتے

بھلا ہو ا کہ اُجڑ ہی گیا یہ گوشہ دل
تمہاری یاد کو کب تک یہ زحمتیں دیتے

مٹا دیا ہے بھلا نقشِ پا کو کیوں اپنے
ہمارے سجدے اسے اور عظمتیں دیتے

کچھ اور رنگ بہاروں کا بھی نکھر جاتا
ہم اپنے خون سے گلشن کو رونقیں دیتے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نیند بھی ایک خواب ہے اب تو
اک مسلسل عذاب ہے اب تو

یہ اندھیروں میں بھی چمکتا ہے
اشکِ غم آفتاب ہے اب تو

کوئی لمحہ خوشی کا کیا ہوتا
ایک اک پل عذاب ہے اب تو

کیا کریں جان کر بھی اب کچھ اور
آگہی بھی عذاب ہے اب تو

اک کسی کا فریب کیا کھائیں
اپنی ہستی سراب ہے اب تو

الجھے الجھے سے لفظ ہیں سارے
زیست مبہم کتاب ہے اب تو

اک مرے پاس سب سوالوں کا
خامشی ہی جواب ہے اب تو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اچانک ایسے جل تھل ہو گئے کیوں
کہ صحرا سارے جنگل ہو گئے کیوں

قدم اس طرح سے شل ہو گئے کیوں
سہارے اتنے بوجھل ہو گئے کیوں

نہیں تخفیف ان میں اک ذرا سی
یہ غم اتنے مسلسل ہو گئے کیوں

تری قربت کے وہ سارے زمانے
سمٹ کر ایک ہی پل ہو گئے کیوں

انہیں اتنے دنوں کے بعد دیکھا
خوشی میں پھر یہ بے کل ہو گئے کیوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آسرا ایک پر کا باقی ہے
حوصلہ تو سفر کا باقی ہے

دھوپ ہی دھوپ تو نہیں رہتی
ایک سایا شجر کا باقی ہے

مل ہی جائے گا اب نشان کوئی
رنگ اُجڑے کھنڈر کا باقی ہے

نہ مٹائے ہوا کے قدموں نے
نقش ہر رہ گذر کا باقی ہے

بات کا زخم بھر گیا لیکن
داغ اب بھی جگر کا باقی ہے

آس اب بھی نہیں گئی دل کی
اک ستارہ سحر کا باقی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں
جنونِ عشق کی ساری حکایتیں بھی گئیں

تمہارے بعد رہی رُت عجیب گلشن کی
وہ چھاؤں بھی تو گئی وہ تمازتیں بھی گئیں

قدم قدم پہ تھیں بکھری پڑی ہوئی یادیں
چلی سموم تو دل کی امانتیں بھی گئیں

عجیب قحط پڑا اب کے سال ہم پر بھی
بصارتیں بھی گئیں اور سماعتیں بھی گئیں

ہر ایک رشتہ ہر اک ربط تم سے ٹُوٹ گیا
محبتیں بھی گئیں وہ عداوتیں بھی گئیں

کہ منزلوں کا کوئی بھی نشاں نہیں ملتا
سفر میں رائگاں اپنی مسافتیں بھی گئیں

تمہاری دید کا منظر بدل گیا جب سے
تمہاری ذات کی ساری شباہتیں بھی گئیں

( بہ زمیں سحر انصاری)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کہاں پہ چاک گریباں کو ہم رفو کرتے
کہ اس طرح سے یہ دل اور بھی لہو کرتے

سراغ اپنا کہیں ہم بھی جا کے پا لیتے
تمام عمر گئی یہ ہی جستجو کرتے

بصارتوں نے لبوں کو سکوت بخشا ہے
کہاں تھی تاب کبھی ان سے گفتگو کرتے

نمازِ عشق بھلا وہ ادا بھی کرتے کیا
تمام عمر ہی گذری جنہیں وضو کرتے

کہ عکس اس کا بھی حیران ہی تو رہ جاتا
گر آئینے کو بھی ہم اپنے روبرو کرتے

سفر حیات کا اب تو تمام ہو جاتا
کہاں تک اس کی طلب اور کو بہ کو کرتے

یہ ایک زخمِ تمنا سدا ہرا رکھے
اسی کی ہم تو رہے خواہش نمو کرتے

ہمارے اپنے قلم نے ہمیں زباں دی ہے
"زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صحرا میں چھاؤں کا کوئی منظر نہیں ملا
یادوں کی ریت تھی کہ سمندر نہیں ملا

یوں تو ہزار سائے رہے اپنے ساتھ ساتھ
خواہش تھی جس کی دل کو وہ پیکر نہیں ملا

محرومیوں کے راستے اس درجہ سخت تھے
سایا بھی دھوپ کا کوئی سر پر نہیں ملا

کیسے یہ قربتوں میں رہے اتنے فاصلے
اک شخص آج بھی مجھے مل کر نہیں ملا

حاصل رہی ہے دشت نوردی کی زندگی
گھر ہی میں رہ کے ہم کو کبھی گھر نہیں ملا

یہ وار کس طرح سے کیا تو نے ہمنشیں
تیرے تو ہاتھ میں کوئی خنجر نہیں ملا

جو خود ہوا بلند ستم گر کے سامنے
پھر اس کے بعد تن پہ وہی سر نہیں ملا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سارے چہرے بھول چکے ہیں ایک وہ چہرہ یاد رہا
یاد کا جنگل ، غم کا بادل ، دکھ کا صحرا یاد رہا

اپنی ساری باتیں تو میں اک اک کر کے بھول چکی
اس کی صورت اس کی باتیں اس کا لہجہ یاد رہا

سارے رستے جاتے جاتے اور طرف کو جا نکلے
اس کی جانب جانے کا پھر کوئی نہ رستہ یاد رہا

جو بھی اس نے گھاؤ دیے ہیں رکھا ان کو اپنا کر
جو بھی اس نے وار کیا ہے زخم وہ گہرا یاد رہا

خون کے رشتے زہر میں بجھ کر دل میں اترتے جاتے ہیں
کتنے رشتے یاد تھے لیکن کون سا رشتہ یاد رہا

خاک اُڑتی ہے یادوں کی اب دل کے سونے آنگن میں
خالی گھر کے سناٹے کو تیرا جانا یاد رہا

اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے بھول گئے ہیں کیا کیا کچھ
تم اب پوچھنے کیوں آئے ہو ہم کو کیا کیا یاد رہا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہتے ہوئے پانی میں روانی ہی کہاں تھی
بیتے ہوئے موسم کی نشانی ہی کہاں تھی

ہجرت کا وہ اک دور جو آغاز ہوا تھا
اس میں کششِ نقل مکانی ہی کہاں تھی

اظہار کا یہ کھیل تو الفاظ کا نکلا
اس بحث میں تشکیل معانی ہی کہاں تھی

اک تندی سیلاب کا باعث بھی جو ٹھہری
آنکھوں کی فقط اشک فشانی ہی کہاں تھی

اک خواب کا عالم تھا کہ وہ عرصہ ہستی
ہم یاد بھی رکھتے وہ کہانی ہی کہاں تھی

جس بات کا سننا تمہیں منظور نہیں تھا
ہم کو بھی وہی بات سنانی ہی کہاں تھی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کہاں ہوں میں اور کہاں نہیں ہوں
جہاں ہو تم میں وہاں نہیں ہوں

وجود سے میرے ہو نہ منکر
میں اک یقیں ہوں گماں نہیں ہوں

میں حوصلہ ہوں خود زندگی کا
میں کوئی بارِ گراں نہیں ہوں

سکوں کی منزل ہے دل سراپا
میں کوئی آتش فشاں نہیں ہوں

نہ گوشوارے میں مجھ کو لکھو
حسابِ سود و زیاں نہیں ہوں

مرے ہی دم سے شعورِ ہستی
فقط میں رنگِ جہاں نہیں ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس طرح کیوں اداس ہے کوئی
تجھ سے ملنے کی آس ہے کوئی

جس کو سایہ سمجھ رہے ہیں ہم
دھوپ کا یہ لباس ہے کوئی

یہ جو دیوار گھر میں اُٹھی ہے
فاصلوں کی اساس ہے کوئی

وہ بھی اک تھا خیال کے جیسا
یہ بھی اپنا قیاس ہے کوئی

میری آنکھوں میں اس کے آنسو ہیں
اس طرح دل کے پاس ہے کوئی

درد کے اک سبق سے ہستی کے
اخذ یہ اقتباس ہے کوئی

باریابی نہ پا سکے شاید
پیکرِ التماس ہے کوئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زندگی کے صحرا میں کچھ نشاں نہیں ملتے
راستے تو ملتے ہیں کارواں نہیں ملتے

مامتا کی چھاؤں کی قدر جو نہیں کرتے
دھوپ ان کو ملتی ہے سائباں نہیں ملتے

عمر بھر سفر ہی تو پھر نصیب ہوتا ہے
گھر سے جب نکل جائیں آشیاں نہیں ملتے

اپنی اپنی دنیا میں کھو گئے ہیں ہم دونوں
تم جہاں پہ ملتے ہو ، ہم وہاں نہیں ملتے

دین ہو کہ یہ دنیا رائیگاں ہی ٹہرے ہم
مفت میں تو یہ آخر دو جہاں نہیں ملتے

فیصلے کے لمحے میں عدل کرنا مشکل ہے
چشم دید لوگوں کے کیوں بیاں نہیں ملتے

درد کی کتابوں میں ، ہاتھ کی لکیروں میں
ہم نے پا کے دیکھا ہے غم کہاں نہیں ملتے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھے گنوا کے سدا وہ بھی وحشتوں میں رہا
خود اپنی ذات کی ویران خلوتوں میں رہا

نہیں کسی کو نہیں اپنے حال سے نسبت
نہیں شریک کوئی بھی صعوبتوں میں رہا

یہ بات طے تھی کہ اک دن بچھڑ ہی جانا ہے
تمام عمر یہ دل کیسی حسرتوں میں رہا

کسی کے دھیان میں کھو کر گنوا دیے لمحے
کہ فرقتوں کا کوئی قرض قربتوں میں رہا

نظر میں ٹھہر گیا عکس جاوداں بن کر
وہ ایک چہرہ جو اک پل بصارتوں میں رہا

وہ اک خیال سے آگے مثال کی دنیا
کہ نقشِ وہم ہی رہبر تھا ، راستوں میں رہا

وہ مجھ کو بھول کے زندہ رہا تو یہ جانا
کہ بھولنا تو سدا اس کی عادتوں میں رہا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رات دن گردشوں میں رہتے ہیں
کچھ عجب سلسلوں میں رہتے ہیں

اک کرن بھی نہیں اُجالے کی
کس طرح ظلمتوں میں رہتے ہیں

فاصلے کس قدر ہوئے پیدا
جب سے ہم قربتوں میں رہتے ہیں

اپنی خوش فہمیوں میں ہیں جیتے
ہم سبھی جنّتوں میں رہتے ہیں

گھوم پھر کر وہیں پلٹ آئیں
ایسے کچھ دائروں میں رہتے ہیں

خود سے آگے نظر نہیں آتا
ایسے کچھ منظروں میں رہتے ہیں

بے گھری ہی ہمارا گھر ٹھہری
ہم بھی اپنے گھروں میں رہتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زخموں کی تحریروں کو ہم بھی پڑھتے ہیں
یادوں کے ان پھولوں کو ہم بھی چنتے ہیں

ماضی کے افسانوں کو ہم بھی سنتے ہیں
بھیگی بھیگی شاموں کو ہم بھی روتے ہیں

روشن روشن لمحوں کو ہم بھی گنتے ہیں
خوابوں کی تعبیروں کو ہم بھی لکھتے ہیں

اپنے پرائے چہروں کو ہم بھی تکتے ہیں
درد کے خونی رشتوں کو ہم بھی سوچتے ہیں

جھوٹے سچے وعدوں کو ہم بھی ہنستے ہیں
تیری ساری باتوں کو ہم بھی روتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چمن چمن کوئی یادِ بہار باقی ہے
کہ اب تو ایک دلِ بے قرار باقی ہے

چلی یہ کیسی ہوا ، آس کے چراغ بُجھے
اس ایک دل میں ابھی انتظار باقی ہے

دلوں کا راستہ بھولی ہوائے عجز و وفا
یہاں پہ اب تو جفا کا غبار باقی ہے

ہمارے گھر مین تو چھائی ہے ایک وحشت سی
ہمیں ہے کیا جو چمن مین بہار باقی

تیرے خیال کو تیرے لبوں پہ آنے تک
نہ جانے ابھی انتظار باقی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چمن چمن کوئی یادِ بہار باقی ہے
کہ اب تو ایک دلِ بے قرار باقی ہے

چلی یہ کیسی ہوا ، آس کے چراغ بُجھے
اس ایک دل میں ابھی انتظار باقی ہے

دلوں کا راستہ بھولی ہوائے عجز و وفا
یہاں پہ اب تو جفا کا غبار باقی ہے

ہمارے گھر میں تو چھائی ہے ایک وحشت سی
ہمیں ہے کیا جو چمن میں بہار باقی ہے

تیرے خیال کو تیرے لبوں پہ آنے تک
نہ جانے کتنا ابھی انتظار باقی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر درد یہ کہتا ہے ، دوا بن جاؤں
ہر زخم یہ کہتا ہے ، شفا بن جاؤں

آہیں نہ رہیں مری اثر سے خالی
ہر حرف یہ کہتا ہے ، دعا بن جاؤں

پیاسا نہ رہے کوئی مسافر سرِ دشت
ہر اشک یہ کہتا ہے ، گھٹا بن جاؤں

مظلوم کے لب پر نہ رہے قفلِ سکوت
ہر لفظ یہ کہتا ہے ، نوا بن جاؤں

انسان کی طینت ہے جدا سب سے یہاں
ہر شخص یہ کہتا ہے ، خدا بن جاؤں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دکھ سے خوشیاں کشید کرنا ہے
اس طرح ہم کو عید کرنا ہے

اپنے ہاتھوں سے دیں گے خود ہی کفن
خود ہی دل کو شہید کرنا ہے

اس کا کہنا ہے مدّتوں کے بعد
نئے وعدے وعید کرنا ہے

تجھ سے ملنا ہے اب خیالوں میں
تیری خوابوں میں دید کرنا ہے

اتنی جلدی نہ کر مروت میں
ظلم مجھ پہ مزید کرنا ہے
 
Top