سکوت - نزھت عباسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


sakoot1.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ثناءے ربی


چھایا ہے اِک سکوت سا اس کائنات میں
برپا ہے پھر بھی شور یہاں شش جہات میں

تیرا ہی ایک جلوہ نگاہوں میں ہے مری
تیرا ہی ایک ذکر میری بات بات میں

تجھ سے الگ تو میرا کوئی بھی نہیں وجود
داخل ترا ہی نور ہے اس میری ذات میں

اک رُخ تری خدائی کا شبنم کے اشک ہیں
پھولوں کی آنکھ رہتی ہے نم خود بھی رات میں

تیرے سوا کچھ اور تصور میں اب نہیں
اک تیرا ہی خیال جو رہتا ہے ساتھ میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مدحتِ نبی

میں مدح و ثنا نورِ لولاک کروں کیسے
ذرہ ہوں میں سورج کا ادراک کروں کیسے

جب آپ کے جبے میں پیوند ہوں اے آقا
میں ریشم و اطلس کو پوشاک کروں کیسے

پلکیں تو مری گردِ جادہ سے ہوئیں بوجھل
نظروں کو اب میں سوءے افلاک کروں کیسے

ہے آپ کی رحمت سے امید بہت مجھ کو
عارض کو بھلا اپنے نمناک کروں کیسے

حد درجہ سخاوت کا دریا ہے تری ہستی
میں دامنِ عصیاں کو پیراک کروں کیسے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہزاروں راستوں میں بٹ گئی ہوں
خود اپنے آپ ہی سے کٹ گئی ہوں

ہوں گُم گشتہ خلا کی وسعتوں میں
کہ میں محور سے اپنے آپ ہٹ گئی ہوں

سفر میں موڑ جب کاٹا تھا تم نے
وہیں دیکھو تو میں بھی کٹ گئی ہوں

رکاوٹ ہے نہ سدّ راہ کوئی
کہ تیرے راستوں سے ہٹ گئی ہوں

فنا مجھ کو کرے گی کیا عداوت
کہ تیرے پیار ہی میں لُٹ‌گئی ہوں

خود اپنی بھی نہیں پہچان باقی
غبارِ زیست میں یوں اَٹ گئی ہوں

میں دریا تو نہیں جو پھیل جاؤں
مثالِ آبِ جُو میں گھٹ گئی ہوں

مٹانا چاہتے تھے سو وہ آخر
انھی کے واسطے میں مٹ گئی ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ کون سی شے ہے جو تقسیم نہ ہو پائے
اب کون سے جذبے میں ترمیم نہ ہوپائے

مجرم بھی وہی ہیں جو منصف ہیں بنے بیٹھے
ان جیسے خداؤں کی تعظیم نہ ہو پائے

سوچوں میں تراشے ہیں لفظوں کے کئی پیکر
کیوں جانے مگر ان کی تجسیم نہ ہو پائے

مبہم سے ہوئے آخر رشتوں کے معانی بھی
آسان سی باتوں کی تفہیم نہ ہو پائے

بے سود نظریے ہیں ، بے سود نتیجے ہیں
اغیار کے مکتب میں تعلیم نہ ہو پائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس نے کیا احسان کیا
ہم نے جیون دان کیا

پہنی رشتوں کی زنجیر
گھر ہی کو زندان کیا

اتنا ہی ٹوٹا ہے من
جس پہ جتنا مان کیا

غم کا اتھاہ سمندر تھا
خود کا بھی جب گیان کیا

کوئی نہیں بس پُروا تھی
آہٹ پہ جب دھیان کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
"ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں"
خیال و فکر کی دانائیاں بھی جھوٹی ہیں

وجود و ذات کی بحثیں اُٹھا رکھیں اے دل
ابھی تو وقت کی آگاہیاں بھی جھوٹی ہیں

گلوں میں رنگ ، نہ ہے بادِ نو بہار کا رقص
کہ اب چمن کی یہ رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں

اکیلے ہوکے بھی ہر دم ہجوم رہتا ہے
تمہاری یاد کی تنہائیاں بھی جھوٹی ہیں

مجھے بھی اپنی نگاہوں پہ کوئی شک سا ہے
تمہارے درد کی پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں

جہاں میں حُسن کی صورت نہیں رہی ویسی
تمہارے عشق کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں

ہے اب خیال کو کچھ اور وسعتوں کی طلب
مرے شعور کی پہنائیاں بھی جھوٹی ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنی یادوں کی کہیں پر اک کڑی گُم ہو گئی
شہر سب باقی رہا بس وہ گلی گم ہوگئی

جانے کیوں پہچاننے میں ہو گئی تاخیر کچھ
گھر کی جب آرائشوں میں سادگی گم ہو گئی

جانے کتنے سائلوں نے اپنے دامن بھر لیے
میری جانب آتے آتے ہر خوشی گم ہو گئی

میری تنہائی نے میری ذات کو افشا کیا
محفلوں کی رونقوں میں بے خودی گُم ہو گئی

جب تلک تھے بے خبر یہ آرزو تھی جان لیں
آنکھ جب روشن ہوئی تو روشنی گم ہو گئی

موت ہاتھوں میں آُٹھائے رو رہے ہیں لوگ سب
میرے شہروں میں کہاں پر زندگی گُم ہو گئی

زندگی کے پیچ و خُم میں دل اُلجھ کر رہ گیا
یاد بھی تیری نہ جانے کس گھڑی گُم ہو گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
منزلیں کچھ اور تھیں اور راستے کچھ اور تھے
قربتیں کچھ اور تھیں وہ فاصلے کچھ اور تھے

یہ تو مانا زندگی کے کم نہیں آزار کچھ
مسئلے کچھ اور تھے اور حوصلے کچھ اور تھے

ختم ہی تو ہو گئے تھے چاہتوں کے وہ سفر
یاد کے لیکن رہے جو سلسلے کچھ اور تھے

منصف و مختار تم لیکن ہمارے واسطے
قاعدے کچھ اور تھے اور ضابطے کچھ اور تھے

ساتھ رہنے سے تو کچھ کم ہو نہ پائے فاصلے
جو دلوں کو جوڑ دیں وہ رابطے کچھ اور تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زمیں بھی گم ہے یہاں آسمان بھی گم ہے
زماں بھی گم ہے اور اس میں مکان بھی گم ہے

نہ راستے کی خبر ہے نہ منزلوں کا پتہ
ستارہ گم ہے سفر کا نشان بھی گم ہے

وہ سامنے جو کبھی ہم کو آ رہا تھا نظر
وہ ایک شہر وہ اپنا مکان بھی گم ہے

نہ جانے کیوں کوئی الہام اب نہیں ہوتا
اثر وہ شعر کا ، لطفِ بیان بھی گم ہے

اسی خیال میں سارے خیال پنہاں ہیں
اسی یقین میں سارا گمان بھی گم ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گو کہ اک عمر رائیگاں کی ہے
یاد تیری تو جاوداں کی ہے

دولتِ غم کہاں چھپا رکھتے
صرف یہ بھی کہاں کہاں کی ہے

دوسری بار مل بھی جائے تو کیا
زندگی وقفِ دیگراں کی ہے

حالتِ غم وہی ہے یا کہ نہیں
اپنی آنکھوں سے جو عیاں کی ہے

منزلیں اپنی دیکھ لیں ہم نے
جب نظر سوئے آسماں کی ہے

یہ جہاں تو نہیں ٹھکانہ مرا
جستجو کون سے جہاں‌کی ہے

یہ کوئی نقشِ آبِ جُو تو نہیں
موج یہ بحرِ بیکراں کی ہے

پھر نہ واپس پلٹ کے جائیں گے
راہ ہر سمت بے نشاں کی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دشت میں کیوں دلِ بے تاب لیے پھرتا ہے
کس لیے دیدہ بے خواب لیے پھرتا ہے

آپ ہی اپنا وجود اس میں ڈبو کر جیسے
اپنی ہستی ہی میں گرداب لیے پھرتا ہے

بانٹتا جاتا ہے اشکوں کے خزانے ہر سُو
آنکھ میں گوہرِ نایاب لیے پھرتا ہے

زندگی جاگتے رہنے کی سزا ہو جیسے
وہ سزاؤں کے بھی آداب لیے پھرتا ہے

بیٹھنے دیتا نہیں مجھ کو کنارے پہ کبھی
مجھ میں پوشیدہ یوں سیلاب لیے پھرتا ہے

جس گھڑی قلب ہوا تھا میرا پارہ پارہ
اسی پل کو دلِ سیماب لیے پھرتا ہے

کون کرتا ہے رگِ جاں میں لہُو کو گردش
کون سانسوں میں یہ زہراب لیے پھرتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دل پہ کس طرح اعتبار کریں
کیا جنوں ہی کو اختیار کریں

تیرے غم سے ہو کیوں گریز ہمیں
اک تعلق تو استوار کریں

آُ پ کا وصفِ دوستی ہے عجب
جس کو چاہیں اسی پہ وار کریں

تجھ سے پہلے نہ بعد میں کوئی
کون ہے جس کا انتظار کریں

ہے ابھی ابتدا بہاروں کی
دل کے زخموں کا کیا شمار کریں

اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کی چمک
کیوں زمانے پہ آشکار کریں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خود شناسی بھی اک ملال ہی تھی
اپنی ہستی ابھی سوال ہی تھی

یاد اچھا ہوا کہ بھول گئی
جیتے جی جان کا وبال ہی تھی

وہم تھی یا گماں تھی کیا تھی وہ
تیری صورت بھی کیا خیال ہی تھی

ان کے ترکش میں تیر تھے کتنے
صبر کی میرے پاس ڈھال ہی تھی

ان کی باتوں پہ روئے کیوں اتنا
بات کیا کوئی حسبِ حال ہی تھی

مجھ پہ احساں کا بوجھ ڈالا تھا
یہ بھی اپنوں کی ایک چال ہی تھی
 
Top