سکوت - نزھت عباسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کب اپنی ذات کا کوئی ہم کو سرا ملا
اس کی نگاہ سے تھا ذرا سلسلہ ملا

کچھ دوستی کے داغ تھے ، کچھ دشمنی کے زخم
اب تجھ سے کیا کہوں مجھے کس کس سے کیا ملا

جب تک وہ باخبر تھا ، سو اپنی خبر رہی
وہ اجنبی ہوا تو نہ اپنا پتہ ملا

لمحے کی نیند تھی سو کہیں خواب ہو گئی
آںکھوں میں ہم کو اپنی فقط رتجگا ملا

اُکسا رہی ہے مجھ کو یہ عزمِ سفر پہ پھر
یہ اک خلش ہے جس سے سدا حوصلہ ملا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دل کہ آسودہ منزل نہ ہوا
راستہ کوئی بھی حاصل نہ ہوا

ہم نے تنہا ہی لڑی جنگ اپنی
کوئی بھی مدّ مقابل نہ ہوا

سارے الزام میرے سر ہی گئے
جو تھا قاتل وہی قاتل نہ ہوا

دل تھا آزادہ روی کا قائل
کبھی پابندِ سلاسل نہ ہوا

اس کی رحمت جو رہی شاملِ حال
کام مشکل کبھی مشکل نہ ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شاید وہیں سکون کی دنیا ملے مجھے
رکھنے ہوں دوسروں سے جہاں فاصلے مجھے

آیا نہ تھا جدائی کا ہر گز خیال بھی
اور توڑنے پڑے تھے وہیں سلسلے مجھے

صحرا نوردیوں نے چلو یہ سکھا دیا
سب ریت کے تھے لوگ جو اکثر مجھے ملے

ہاتھوں سے جو اُٹھائی تھی دیوار گر گئی
بربادیوں ہی میں ملے سارے صلے مجھے

ازبر ہے آج تک مجھے اس کا کہا ہوا
غم کے سبق سے کتنے ملے حوصلے مجھے

ناکامیوں کو میں نے کیا اپنی کامیاب
جینے کے راس آئے ہیں کیا ولولے مجھے

رستوں پہ یہ غبار نظر آ رہا ہے کیوں
شاید کہ ڈھونڈتے ہوں کہیں قافلے مجھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مکیں کو مکاں تو بدلنا پڑے گا
نئے راستوں پر بھی جانا پڑے گا

نہ آگے تمہیں پھر پکارے گا کوئی
صدا پہ ابھی اس کی رکنا پڑے گا

سمندر کی وسعت نہیں ہے جو دل میں
تو پھر آب جُو سا سمٹنا پڑے گا

سر آب یاں بلبلے اس قدر ہیں
گہر کو صدف میں ہی چھپنا پڑے گا

عجب وقت آیا ہے پندار پر یہ
نہ ٹوٹے اگر ہم تو جھکنا پڑے گا

تمنا کا حاصل فریب مسلسل
فریب مسلسل پہ رہنا پڑے گا

یونہی کار دنیا میں مصروف رہ کر
تمہیں یاد کرنا ، بھلانا پڑے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کتنا بڑا وہ شخص یہ احسان کر گیا
مجھ پہ ہی میری ذات کا عرفان کر گیا

اس کے ہی دم سے رونقیں ہر سمت گھر میں تھیں
وہ کیا گیا جہاں کو ہی ویران کر گیا

میرے ہر ایک قطرہ خوں میں ہے اس کا پیار
خود تھا بہار مجھ کو گلستان کر گیا

چادر وفا کی اوڑھ لی تربت میں ہو کے خاک
دل تھا صحیفہ ، جسم کو جزدان کر گیا

اس شہر بے اماں میں اسی کی تھی اک اماں
جو دھوپ میں بھی جینے کا سامان کر گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہروں یونہی سوچتے رہنا اچھا لگتا ہے
تیری یاد میں روتے رہنا اچھا لگتا ہے

ساری عمر بس ایک کسک سی ہوتی رہتی ہے
دل میں درد کا بستے رہنا اچھا لگتا ہے

تنہائی سے گھبرا کے اب آنکھ کناروں سے
دریاؤں کا بہتے رہنا اچھا لگتا ہے

لمحہ لمحہ اپنی صورت مٹتی جاتی ہے
خود سے غافل ہوتے رہنا اچھا لگتا ہے

خون میں بہتی یادوں کے ہر قاتل ذرّے کا
خار کی صورت چبھتے رہنا اچھا لگتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کوئی منصف تجھے ملا کہ نہیں
اور مرا فیصلہ ہوا کہ نہیں

ساری دنیا کو کھوجنے کے بعد
آج تک وہ تجھے ملا کہ نہیں

کیا خبر آنسوؤں کی بارش میں
زخمِ دل رات بھر دُھلا کہ نہیں

تو بتا ہے یہ چند لمحوں میں
ہم میں صدیوں کا فاصلہ کہ نہیں

کیا ترے دل میں نام کا میرے
ایک در آج بھی کھلا کہ نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ربط و گریز کیا ہے یہ سوچیں گے ایک دن
حاصل وفا کا کیا ہے یہ پوچھیں گے ایک دن

غیروں میں کوئی بھی ہمیں دشمن نہیں ملا
اپنی ہی آستیں کبھی دیکھیں گے ایک دن

مُدّت کے بعد بھی وہی اجڑا ہوا ہے گھر
تم نے کہا تھا یاد ہے ٹھہریں گے ایک دن

راہ فنا ہے کیا ذرا معلوم تو کریں
مہلت دے زندگی کبھی بیٹھیں گے ایک دن

تھا ہوش ہی کہاں کہ جھلک تو ذرا سی تھی
تھا شوق کس قدر تمہیں دیکھیں گے ایک دن
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خدا کرے دل سادہ کو کچھ پتا نہ لگے
سوادِ شہر کی اس کو کبھی ہوا نہ لگے

وہ اپنے دل میں سمندر چھپائے پھرتا ہے
کہ جس کی آنکھ میں آنسو بھی اک روا نہ لگے

یہ فاصلے بھی عجب کچھ فریب دیتے ہیں
ملا نہیں ہے جو صدیوں سے وہ جدا نہ لگے

ہم اس طرح سے چلو راستہ بدل جائیں
بچھڑتے وقت کسی کو بھی کچھ برا نہ لگے

یہ ایک جبرِ مسلسل کہاں تلک میں سہوں
کہ آئینہ بھی جو دیکھوں اسے بھلا نہ لگے

ہمارے نام پہ سارے گناہ لکھ ڈالو
تمہارے نام پہ اب بھی کوئی خطا نہ لگے

ہمارا حال وہی کر دو جو کہ عبرت ہو
دعا بھی مانگیں تو ہم کو کوئی دعا نہ لگے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سر رہ کہیں وہ ملا نہیں
کبھی حادثہ یہ ہوا نہیں

مجھے زندگی سے نکال کے
کبھی تو بھی شاد رہا نہیں

میں نے زندگی کو برت لیا
مجھے اب کسی سے گلہ نہیں

جو نہ چاہا تھا وہ تو ہو گیا
جو تھا چاہا وہی ہوا نہیں

مرے دل نے اس کو سمجھ لیا
جو بھی تو نے لب سے کہا نہیں

وہی چاہ دل میں رہی کہاں
کوئی شکوہ اب تو رہا نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں نے اس کو یاد رکھا
خود کو یوں برباد رکھا

دنیا کے ہر رشتے سے
جان و دل آزاد رکھا

دل کا حال بتائیں کیا
شاد رکھا ناشاد رکھا

جس کا زہر ہے نسلوں تک
ظلم وہ کیوں اجداد رکھا

احساں ہے اس مالک کا
میرا وطن آباد رکھا

قصہ تجھ کو بھولنے کا
ہم نے کیسے یاد رکھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فیصلہ تو ہوا کے ہاتھ میں تھا
کوئی پتھر صدا کے ہاتھ میں تھا

جب دوا بھی اثر نہ کر پائی
سلسلہ پھر دعا کے ہاتھ میں تھا

ساری سمتیں بدل کے رکھ دی ہیں
راستہ رہنما کے ہاتھ میں تھا

کتنی اونچی ہوئی ہیں دیواریں
شہر سارا انا کے ہاتھ میں تھا

پھر تو خوشبو کا اک سفر تھا وہ
ہاتھ جب بھی صبا کے ہاتھ میں تھا

اب جو ہاتھوں پہ تیرے نام سے ہے
رنگ کب یہ حنا کے ہاتھ میں تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گو کہ وعدہ کوئی وفا نہ کیا
کیا حسیں اس نے ہر بہانہ کیا

صرف تیرا ہی دکھ نہیں ہم کو
دل کو وقف غم زمانہ کیا

بات سچ تھی مگر نہیں بولے
دوستوں کو کبھی خفا نہ کیا

آج پھر ہم نے تیری یادوں سے
اپنا روشن غریب خانہ کیا

دل جو آباد ہے تو سب کچھ ہے
غم نے ویرانہ آشیانہ کیا

دستکیں ہاتھ اس کے دیتے رہے
گھر کا دروازہ ہم نے وا نہ کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جفا کے فیصلے اچھے نہیں تھے
وفا کے مرحلے اچھے نہیں تھے

جنہیں خود دعوی پندار غم تھا
انہی کے حوصلے اچھے نہیں تھے

یوں ملنے میں بلا کی شدتیں تھیں
دلوں کے فاصلے اچھے نہیں تھے

پھر آگے تک نہ کوئی راستہ تھا
وفا کے سلسلے اچھے نہیں تھے

چمک آنکھوں کو زخمی کر گئی تھی
نظر کے آبلے اچھے نہیں تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اچھے دنوں کی یاد میں آنکھیں برس گئیں
اپنوں کی صورتوں کو یہ کیسے ترس گئیں

پھولوں سی نرم نرم زمانے کی دھوپ میں
دل کی وہ خواہشیں تھیں کہ ساری جُھلس گئیں

جلتا رہا میرا تصور بھی رات دن
یادیں ہزار بار تری آ کے ڈس گئیں

خاموشیوں نے قید سزا کو بڑھا دیا
زنجیریں میرے ہاتھ کی کچھ اور کس گئیں

ویران تو رہی نہیں خوابوں کی بستیاں
آزادیوں کے خواب مسلسل سے بس گئیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر طرف جیسے نور نور ہوا
آپ سے سامنا ضرور ہوا

تیرا وعدہ بھی دل کے جیسا تھا
ایک شیشہ تھا چُور چُور ہوا

ٹوٹ کر جو گرا ہے پلکوں سے
وہی آنسو چراغ طُور ہوا

ہر خوشی کر گئی اداس مجھے
درد ہی باعث سرور ہوا

آپ کی مہربانیوں کے طفیل
اپنی تقدیر کا شعور ہوا

جو تھا چاہا وہی تو ہو نہ سکا
جو نہ چاہا وہی ضرور ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غم سوا ہے خوشی نہیں باقی
زیست میں زندگی نہیں باقی

کھیل سانسوں کا ختم ہو جائے
اس میں کچھ دلکشی نہیں باقی

چُھپ گیا آج چاند بھی جلدی
اس میں بھی روشنی نہیں باقی

ایسا بدلا ہے کائنات کا رنگ
اب لبوں پہ ہنسی نہیں باقی

کتنی بنجر سی ہو گئیں آنکھیں
اب تو ان میں نمی نہیں باقی

ڈھل گیا ہے سکوت میں سب کچھ
خامشی بھی نہیں رہی باقی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دل مرا سوگوار اب بھی ہے
ہاں ترا انتظار اب بھی ہے

آج بھی کوئی بس نہیں چلتا
دل یہ بے اختیار اب بھی ہے

نہ گیا اضطراب کا عالم
کس قدر بے قرار اب بھی ہے

کیا میرے بعد تذکرہ میرا
شامل بزم یار اب بھی ہے

درد تھمتا نہیں کسی صورت
آنکھ یہ اشکبار اب بھی ہے

دشمنی ساری ہم سے کی لیکن
دوستوں میں شمار اب بھی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھ سے پوچھو نہ اب پتہ میرا
جانتا ہے مجھے خدا میرا

آخری بار خود کو دیکھا تھا
کب یہ ٹوٹا تھا آئینہ میرا

ایک آواز اب بھی آتی ہے
کوئی تکتا ہے راستہ میرا

کر دیا ہے کھڑا کہاں مجھ کو
کوئی بھی اب نہیں رہا میرا

وہ جھکا تو نہیں سکا لیکن
دیکھ لے اب وہ ٹوٹنا میرا

اس کو منصف بنا کے دیکھ لیا
نہ ہوا کیسے فیصلہ میرا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دل کو پھر بنانے میں وقت چاہیے کچھ تو
کرچیاں اٹھانے میں وقت چاہیے کچھ تو

ساتھ وہ نہیں پل کا عمر بھر کا لگتا تھا
اس کو اب بھلانے میں وقت چاہیے کچھ تو

ہو سکے تو ہم سے بھی سن سکو تو سن لو تم
بات پھر سنانے میں وقت چاہیے کچھ تو

کیا نگہ کی سیرابی ، کیا نظر کی شادابی
آنکھ کو اٹھانے میں وقت چاہیے کچھ تو

فاصلے بڑھانے میں دیر کتنی لگتی ہے
اور قریب آنے میں وقت چاہیے کچھ تو

اس قدر نہیں آساں ، جتنا ہم نے سمجھا تھا
حال دل بتانے میں وقت چاہیے کچھ تو

سب خطائیں ان کی ہم بھول بھی تو سکتے ہیں
پر گلے لگانے میں وقت چاہیے کچھ تو

دیر آشنا تم ہو ، اس قدر بھی جلدی کیا
ہم کو پھر مٹانے میں وقت چاہیے کچھ تو

دردِ دل بڑھانے کو ایک لمحہ کافی ہے
دردِ دل گھٹانے میں وقت چاہیے کچھ تو

تنکا تنکا چُن چُن کر ہم نے جو بنایا تھا
آشیاں جلانے میں وقت چاہیے کچھ تو

زخم جو پرانے ہیں ، ان کو ہم رفو کر لیں
پھر فریب کھانے میں وقت چاہیے کچھ تو

آنکھ کا سمندر سے کچھ عجیب رشتہ ہے
سیلِ غم بہانے میں وقت چاہیے کچھ تو

خاک میں ملانے کا گر ارادہ رکھتے ہو
آسماں گرانے میں وقت چاہیے کچھ تو

نیکیاں ہی کرنے میں عمر جو لگی تم کو
اس کو پھر جتانے میں وقت چاہیے کچھ تو

پھر پلٹ کے جانے کی ہم نہ رکھیں خواہش بھی
کشتیاں جلانے میں وقت چاہیے کچھ تو

جب وجود کا رستہ حد پہ موت کی پہنچے
پار اس کے جانے میں وقت چاہیے کچھ تو

اب لہو کے چھینٹوں کا اس قدر ہے چرچا کیوں
زخم کو چُھپانے میں وقت چاہیے کچھ تو
 
Top