سکوت - نزھت عباسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چمن چمن پہ وہی حیرتیں سی ہیں طاری
خزاں کے بعد بہاروں کا سلسلہ جاری

چمکتے ہیں سبھی چہرے مگر نہ جانے کیوں
خلوص سے ہیں یہاں پر تمام دل عاری

تمہاری جیت پر ہم خوش ہوئے مگر بازی
جو سچ کہو تو بھلا آج کس نے یوں ہاری

چلو سناتے ہیں تم کو ذرا یہ رات کٹے
کہ آج دل پہ ہے اک بوجھ سا یہ کیوں بھاری

لبوں پہ بات نہیں آئی اور نہ آئے گی
کہ اپنی ذات کسی پر ہے ہم نے کیوں واری
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ دستِ دعا اتنا بھی حیران نہیں تھا
شاید کہ اثر کا کوئی امکان نہیں تھا

لمحے تو سبھی زہر کے تیروں میں بجھے تھے
یوں پہلے پہل بھولنا آسان نہیں تھا

دنیا نے تو دانست میں اپنی یہی سمجھا
پتھر جو ہوا ہے کبھی انسان نہیں تھا

تو یاد بھی کرتا یہ گوارا ہی کہاں ہو
میں خوش ہوں مری ذات پہ احسان نہیں تھا

خوشیوں کے اترتے تھے کبھی قافلے یاں بھی
اس طرح سے گھر میرا تو ویران نہیں تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہم سفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے
اک پل کا قصہ بھی اک صدی سا لگتا ہے

وہ جو اک رفاقت تھی اب کہاں رہی باقی
عمر بھر کا رشتہ بھی دو گھڑی سا لگتا ہے

جیسے اک تھکن کوئی جسم و جاں میں اتری ہے
قربتوں کا اک اک پل تشنگی سا لگتا ہے

کیسا یہ اندھیرا سا چھا گیا ہے آنکھوں پر
روشنی کا ہر رستہ تیرگی سا لگتا ہے

خود کو میں نے پایا ہے اپنے آپ کو کھو کر
بے خودی کا ہر لمحہ آگہی سا لگتا ہے

بس اسی میں جی جائیں اور اسی میں مر جائیں
موت کا نظارہ بھی زندگی سا لگتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خاموش نظر آتے ہیں کیوں سر و سمن آج
خوابیدہ سا لگتا ہے یہ پورا ہی چمن آج

تاریک فضائیں ہیں مرے گلشنِ جاں کی
بھولے سے بھی آتی نہیں کوئی بھی کرن آج

ہر بات پہ اپنی جو مُکر جاتے ہیں ان کے
دیکھے ہوئے ہم نے تو ہیں سارے ہی چلن آج

سمجھے تھے جنہیں مرگِ تمنا کی علامت
پیرایہ ہستی ہیں وہی دار و رسن آج

یونہی رہیں باقی مرے گلشن کی بہاریں
شاداب رہے کل بھی میرا ہے جو وطن آج

راہیں تو ہیں دشوار مگر دل کو یقیں ہے
لے جائے گی منزل پہ جو دل میں ہے لگن آج
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب تو ہر غم ہی ردا ہو جیسے
ورنہ توہینِ وفا ہو جیسے

در کے کُھلتے ہی یہ محسوس ہوا
سامنے تُو ہی کھڑا ہو جیسے

ہے وہ ملنے سے گریزاں شاید
مجھ سے ہی کوئی گلہ ہو جیسے

کتنی مبہم ہے تری خاموشی
ایسا لگتا ہے خفا ہو جیسے

چاک ہوتی رہی رفتہ رفتہ
زیست کانٹوں کی قبا ہو جیسے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زخم آنکھوں میں اتر آئے ہیں گہرے کیسے
خواب دیکھے تھے کبھی ہم نے سنہرے کیسے

یہ بھی کیا بات ہے سچ ان کو سنانا مشکل
آئینہ دیکھ بدل جاتے ہیں چہرے کیسے

بال و پر سارے کتر کے وہ ہمارے خوش ہیں
سوچ پہ پھر بھی بٹھا پائیں گے پہرے کیسے

اب تو غیروں کی شکایت بھی نہیں کر سکتے
زخم اپنوں کے لگے دل پہ یہ گہرے کیسے

زیست کا کربِ مسلسل بھی عطا ہے اس کی
دل کسی بات پہ ٹھہرے بھی تو ٹھہرے کیسے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بے صدا سوز سے یا ساز سے کیا کرنا ہے
ہم کو اس درد کی آواز سے کیا کرنا ہے

تم کو ہے ہی نہیں انجامِ گلستاں کی خبر
اتنے ہنگامہ آغاز سے کیا کرنا ہے

جبکہ آزادی کی صورت ہی نہیں ہے کوئی
صرف اک حسرتِ پرواز سے کیا کرنا ہے

وہ تو کر ہی نہیں سکتی ہے ہماری پُرسش
پھر تری چشمِ فسوں ساز سے کیا کرنا ہے

جب ترے دل کو ہی احساس نہیں ہے کوئی
پھر پشیمانی کے انداز سے کیا کرنا ہے

جو کبھی وجہ سکوں ہی نہ بنے تو اے دل
ہم کو اس دیدہ غمّاز سے کیا کرنا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کبھی جب اپنا وہ لہجہ ذرا بدلتا ہے
مرے خیال کا اک سلسلہ نکلتا ہے

یہ ظلمتیں ہیں ، یہ آخر کبھی تو کم ہوں گی
یہی اندھیرا تو پھر روشنی اُگلتا ہے

اک آگ سی کوئی آنکھوں میں جل رہی ہے کیا
کہ آنسوؤں سے میرا دل بھی اب پگھلتا ہے

یہ راستہ تو ہے تنہائیوں کا اب لیکن
نہ جانے کون مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

بس ایک چہرہ تری یاد کا جو ہے باقی
سو وہ بھی اب تو مرے آنسؤں میں ڈھلتا ہے

بساطِ عشق پہ بازی ہمیشہ ہے اس کی
وہ اس کمال سے چاہت کی چالیں چلتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
روشنی سے ہو گی اب تابندگی کیا
زندگی کو مل سکے گی زندگی کیا

کر گئی ہے اجنبی لوگوں سے سارے
ہم کو اک یہ شہر کی باشندگی کیا

چاند سورج مل کے بھی تو کر نہ پائے
ایک تارے سے رہے رخشندگی کیا

ہے مسلسل جہد کا باعث حیات
ایک کوشش سے ملے پائندگی کیا

کیا مداوا کر سکیں گے اشکِ غم
زخم دھو دے گی تری شرمندگی کیا

ہو گی اب ثابت مری لوحِ جبیں پر
ایک سجدے کے نشاں سے بندگی کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بے سبب اشک بہانا کیا ہے
اس طرح دل کو دکھانا کیا ہے

چاند کو یوں نہ مسلسل دیکھو
اپنی آنکھوں کو تھکانا کیا ہے

رتجگوں سے بھی ہوا کیا حاصل
نیند راتوں کی گنوانا کیا ہے

ایک پھیکی سی ہنسی ہنس کر ہی
بھید یوں دل کا چھپانا کیا ہے

کتنے موسم تھے کہ اب جا بھی چکے
اب صدا دے کے بلانا کیا ہے

جبکہ ملنی ہی نہیں منزلِ شوق
خاک رستوں کی اُڑانا کیا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجبور براہین و دلائل نہ ہوا تھا
دل اپنا کسی بات پہ قائل نہ ہوا تھا

یوں دیکھے ہیں اس دل نے زمانے کے بہت رنگ
لیکن یہ کسی رنگ پہ مائل نہ ہوا تھا

ہے پھول میں یہ کیسی چبھن کون بتائے
پہلے تو کبھی خار سے گھائل نہ ہوا تھا

چاہا تھا بہت ہم نے مداوائے غمِ دل
کیا تھا اثرِ زہر کہ زائل نہ ہوا تھا

ساحل پہ ہوئے آج یہ کیوں غرق سفینے
طوفاں تو کوئی سامنے حائل نہ ہوا تھا

یہ سوچ کے آتا ہے ترے در پہ زمانہ
در سے ترے واپس کوئی سائل نہ ہوا تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب ہم کو اپنے قتل کے دعوے قبول تھے
پھر قاتلوں کے کس لیے چہرے ملول تھے

تھا جھوٹ بھی تو جن کے لیے مصلحت کا نام
ان کی منافقت کے بھی اپنے اصول تھے

چلتی ہوا کے ساتھ کہیں ہو گئے تھے گُم
جو راہ میں ملے تھے وہ راہوں کی دھول تھے

جن کو شمار کرتے رہے مدتوں سے ہم
وہ سارے لمحے وقت کی جیسے کہ دھول تھے

کل تک جو خود بہار کا موسم بنے رہے
دامن میں ان کے آج نہ کانٹے نہ پھول تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


قطعہ

مرا سکوں مرا صبر و قرار تم سے ہے
مری حیات مرا اعتبار تم سے ہے

تمہی کو دیکھ کے آنکھیں مری ہوئی روشن
مرے حسین چمن کی بہار تم سے ہے




 
Top