امن وسیم

محفلین
۔ صفحہ نمبر 5 کے موضوعات ۔

❔ حدیث کے بارے میں قرآن کی وضاحت
❔ کیا سنت قرآن پر قاضی ہے
❔ قرآن میں سنت کے بارے میں حکم
❔ حضور صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی پیروی
❔ حدیث اور قرآن میں تضاد
❔ قرآن اور حدیث
❔ قرآن میں اختلاف
❔ تفاسیر کا باہمی اختلاف
❔ اختلاف تعبیر میں انتخاب کا طریقہ
❔ قرآن کا اردو ترجمہ
❔ قرآن فہمی کے متعلق اختلاف رائے
❔ قرآن دین کا تنہا ماخذ
❔ نبی صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے اجتہادات
❔ معوذتین قرآن کا حصہ
❔ شراب کی حرمت کی بنیاد

___________
 

امن وسیم

محفلین
حدیث کے بارے میں قرآن کی وضاحت Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: قرآن مجید حدیث کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ (خالد احمد خاں)

جواب: قرآن مجید نے حدیث کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ البتہ، اس نے صاحب حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں، یعنی یہ کہ آپ کی اطاعت کی جائے، آپ کی اتباع کی جائے اور آپ کے اسوۂ حسنہ کو اپنایا جائے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
کیا سنت قرآن پر قاضی ہے؟

سوال: کل کتنے مسائل میں احادیث اور غیر قرآنی تواتر قرآن مجید پر قاضی اور حجت ہے۔ فرقہ پرستوں کے نزدیک ایسے مسائل کی تعداد کتنی ہے؟ (پرویز قادر )

جواب: ہمارے نزدیک کوئی حدیث اور کوئی تواتر قرآن مجید پر حاکم نہیں ہے۔ قرآن مجید کی حکومت پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ اسی طرح سنت قرآن ہی کی طرح دین کا ماخذ ہے۔ اس لیے بھی کہ اسے بھی قرآن ہی کی طرح اجماع وتواتر حاصل ہے۔ سنت اور قرآن میں کوئی منافات یا تضاد نہیں ہے اور یہ دونوں یکساں طور پر دین کا ماخذ ہیں۔ احادیث میں قرآن مجید اور سنت کے بعض پہلوؤں کی توضیحات بیان ہوئی ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پر عمل کا طریقہ نقل ہوا ہے۔ بعض سوالات کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فقہی اطلاقات واضح کیے ہیں۔ ہمارے فقہا نے قرآن مجید کے ارشادات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بالعموم ایک قاعدہ کی حیثیت سے لیا ہے، اس لیے وہ ان کی تعمیم کے قائل ہوئے ہیں ۔ احادیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے چونکہ ان کی بعض تخصیصات سامنے آتی ہیں، لہٰذا اصول فقہ کی متعدد بحثیں سامنے آتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ان تمام روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کا اصل مدعا واضح کیا ہے، اس لیے ہمیں یہ بات کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ احادیث قرآن پر قاضی ہیں۔

سوال میں فرقہ پرست کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ یہ تعبیر اصول کے علما کے لیے بالکل ناموزوں ہے۔ یہ لوگ پورے دین کے فہم اور جمع وتدوین کا ذریعہ بنے ہیں۔ ان کی خدمات ہر لحاظ سے قابل تعریف ہیں۔ ان سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ان کی توقیر میں کمی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ان لوگوں نے یہ کام نہ کیا ہوتا تو ہم آج شاید کوئی کام کرنے کی پوزیشن ہی میں نہ ہوتے اور اگر کچھ کر رہے ہوتے تو اپنی وقعت میں ان سے کہیں کم تر ہوتا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن مجید میں سنت کے بارے میں حکم

سوال: قرآن مجید میں کس کس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کا حکم ہے؟

جواب: قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انھی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت پر عمل کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘، ’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ (النساء۴: ۵۹) وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ جب کسی ہستی کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کرتے ہیں تو وہ دین میں ان پر ایمان لانے والوں کے مقتدا ہوتے ہیں۔ یہ بات آپ سے آپ واضح ہے، اس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘، ’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا تو اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (النساء۴: ۶۴) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی

سوال: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کی پیروی کرنا مسلمانوں کے لیے لازم ہے؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں ہیں : ایک اپنے معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت اور دوسرے آپ کی دینی حیثیت۔فرد کی حیثیت سے آپ اپنے معاشرے میں رائج رہن سہن اختیار کرتے ہیں، اس معاملے میں ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم انھی تمدنی صورتوں کو اختیار کریں۔ دوسری حیثیت میں آپ اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کی حیثیت سے دین پر عمل کرتے ہیں، اس معاملے میں آپ کا عمل ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ باقی رہی آپ کی اللہ کے رسول کی حیثیت تو اس میں آپ دین کی حیثیت سے جو کچھ بھی دیں، اسے بے کم وکاست ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
حدیث اور قرآن میں تضاد

سوال: اگر کوئی حدیث قرآن کے مضمون سے ٹکرا رہی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیش تر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید براں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں، وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو، وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔

___________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن اور حدیث

سوال: قرآن کے مقابلے میں حدیث کا کیا رتبہ ہے؟ کیا حدیث قرآن کی آیت کا متبادل ہو سکتی ہے؟

جواب: قرآن اس امت کو اجماع و تواتر سے منتقل ہوا ہے اور حدیث خبر واحد ہے۔ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے۔ حدیث سے قرآن کے لفظ و معنی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی، جبکہ قرآن کی روشنی میں حدیث کو سمجھا جائے گا اور تطبیق کی کوئی صورت پیدا نہ ہو تو اسے مخالف قرآن قرار دیا جائے گا اور اس سے دین میں استشہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ کوئی حدیث قرآن کی کسی آیت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن مجید میں اختلاف

سوال: قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پاتے، اس کی کیا وجہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں تو کئی جگہ پر ہمیں تضاد محسوس ہوتا ہے؟ (عدنان، شئیل مرتضیٰ)

جواب: قرآن مجید میں حقیقت یہ ہے کہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ آپ نے کوئی مثال دی ہوتی تو ہم اس کو سامنے رکھ کر واضح کر دیتے کہ تضاد محض بعض پہلوؤں کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے محسوس ہو رہا ہے، حقیقت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
قرآن مجید کے متعدد مقامات پر باتیں دہرائی گئی ہیں، ان میں کہیں تفصیل اور اجمال کا تعلق ہے، کہیں نتیجہ اور سبب کا۔ کہیں ظاہری پہلو نمایاں ہے اور کہیں معنوی پہلو وغیرہ۔ اصل ضرورت تدبر کی ہے۔ ہر جگہ پر واضح ہوجاتا ہے کہ بظاہر مختلف باتیں حقیقت میں ایک ہی بات کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن دو باتوں کو ایک قرار دے کر متضاد سمجھا جا رہا ہے، وہ حقیقت میں موقع و محل کے اعتبار سے مختلف ہوں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
تفاسیر کا باہمی اختلاف
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: ہمارے سامنے آیات اور احادیث کی مختلف تفسیریں اور تعبیریں آتی ہیں، انھیں پیش کرنے والے علما اپنے اپنے دلائل دیتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ ہم ان میں سے کس کی بات مانیں۔ (وجاہت علی خان)

جواب: اصل دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یعنی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ خدا ایک ہے، رسالت برحق ہے، آخرت یقینی ہے، خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ انسان کو خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کرنی ہے، اپنے معاملات سیدھے اور صاف رکھنے ہیں اور اچھے اخلاق کو اپنانا ہے، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں۔
البتہ، فروعی مسائل اور اجتہادی آرا میں ضرور اختلاف ہے۔ ان اختلافات کو آپ اسی طرح حل کریں، جیسے آپ اپنی بیماری کے معاملے میں کئی ڈاکٹروں کی مختلف آرا میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں، حالانکہ آپ ڈاکٹر نہیں ہوتے اور نہ آپ کے پاس مختلف ڈاکٹروں کے استدلال کا کوئی جواب ہوتا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اختلاف تعبیر میں انتخاب کا طریقہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: قرآن و حدیث کے حوالے سے ہم کس عالم کی تعبیر کو درست سمجھیں، جبکہ ہر عالم الگ سے اپنی دلیل دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی آیت یا حدیث کا دوسرے سے بالکل مختلف مطلب اور مفہوم ہمارے سامنے آتا ہے؟ (وجاہت علی خان)

جواب: عام آدمی کے لیے اس معاملے میں واحد راستہ یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تعبیر میں جس عالم کو قابل اعتماد سمجھتا ہے، اس کی راے کو اختیار کرے۔ البتہ، وہ شخص جو خود علم رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ تعبیر بیان کرنے والے کی دلیل پر غور کرے، اگر صحیح محسوس ہو تو اسے قبول کرے، ورنہ رد کر دے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
ترجمۂ قرآن
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: میں نے بعض لوگوں سے یہ سنا ہے کہ قرآن کا پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا تھا اور پھر اسی فارسی ترجمے سے باقی تمام ترجموں میں رہنمائی لی گئی، جس کی وجہ سے ایرانیوں کے خیالات اور ان کے عقائد قرآن کے اُن ترجموں میں شامل ہو گئے ہیں، چنانچہ یہ ترجمے قابل اعتبار نہیں ہیں، خصوصاً جبکہ ہم لوگ عربی زبان سے بھی ناواقف ہیں۔ کیا یہ بات آپ کے خیال میں درست ہے؟ (آصف بن خلیل و قمر اقبال)

جواب: ترجموں کے حوالے سے آپ نے جو بات لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عالم نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، وہ تو کچھ عربی جانتا تھا، چنانچہ اس نے عربی قرآن کا فارسی میں ترجمہ کر لیا، لیکن جن لوگوں نے قرآن کا ترجمہ مثلاً اردو میں کیا ہے، وہ عربی کوئی خاص نہیں جانتے تھے، البتہ وہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے ، چنانچہ وہ فارسی ترجمے ہی کی مدد سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنے پر مجبور تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے اردو ترجمے کو دیکھیے، وہ ایک بے مثال ترجمہ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مسلمان امت میں قرآن کا ترجمہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں نے کیا ہے اور جو عربی زبان جانتے تھے، انھوں نے ایسے ترجمے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیے اور خود اس ضمن میں کوئی کام نہ کیا۔
اس طرح کے اشکالات عموماً ان لوگوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں جو عربی زبان سے ناواقف تھے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن فہمی کے متعلق اختلاف راے
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: آپ علامہ پرویز صاحب کی قرآن فہمی سے کس حد تک متفق ہیں ؟ علماے کرام نے پرویز صاحب پر کفر کے بہت فتوے لگائے تھے ، آپ کی پرویز صاحب کے بارے میں کیا راے ہے ، کیا وہ صحیح تھے یا غلط؟ (صفدر اقبال)

جواب: معاملہ یہ ہے کہ ہمارے اور پرویز صاحب کی قرآن فہمی میں کوئی اتفاق نہیں ہے۔ دونوں کے قرآن فہمی کے اصولوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پرویز صاحب نے اپنی تفسیر ’’مفہوم القرآن‘‘ کی ابتدا میں اپنے اصولوں کو بیان کیا ہے۔ ان دونوں حضرات کے اصولوں میں پائے جانے والے ایک بنیادی فرق کو میں یہاں بیان کر دیتا ہوں۔
ہمارے نزدیک قرآن فہمی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کے الفاظ کے وہی معنی لیے جائیں جو نزول قرآن کے زمانے میں عربوں میں مستعمل تھے، جبکہ پرویز صاحب کے نزدیک کسی لفظ کے معنی اس کے مادے (root) سے طے کیے جائیں گے۔

ہمارے نزدیک کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا درست نہیں ہے۔ ہم دوسرے کی آرا سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اس کے خیالات کو غلط قرار دے سکتے ہیں، لیکن کسی کو کافر کہنے کا حق ہمیں حاصل نہیں۔ہمارے نزدیک دین کے معاملے میں پرویزصاحب کی کئی آرا یکسر غلط تھیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن دین کا تنہا ماخذ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ایک کامل کتاب قرار دیا ہے اور اس میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے، جیسا کہ بعض علما مختلف آیات کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر قرآن مجید کے ساتھ کسی اور چیز کو دین کا ماخذ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ (محمد علی سجاد خان)

جواب: قرآن مجید کی جن آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اس کتاب میں کوئی کمی نہیں ہے اور اس میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے، ان کا مطالعہ کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان میں دین و شریعت کے اجزا زیر بحث ہی نہیں ہیں، بلکہ ان میں یہ بات کسی اور پہلو سے کہی گئی ہے، یہ آیات درج ذیل ہیں۔

ارشادِ باری ہے:


۱۔ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ. (الانعام۶: ۳۸)
’’ہم نے اپنی کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔‘‘

’’...جس طرح یہ کائنات ان نشانیوں سے مملو ہے جو پیغمبر کی دعوت کی حقانیت کی شاہد ہیں اسی طرح ہم نے قرآن میں بھی اپنے دلائل و براہین بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایک ایک دعوے کو ایسے ناقابل انکار دلائل سے ثابت کیا ہے اور اتنے مختلف اسلوبوں اور پہلووں سے حجت قائم کی ہے کہ صرف عقل و دل کے اندھے اور بہرے ہی ان کے سمجھنے سے قاصر رہ سکتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۳/ ۴۹)

۲۔ لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ، مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.(یوسف۱۲: ۱۱۱)

’’ان کی سرگزشتوں میں اہل عقل کے لیے بڑا سامانِ عبرت ہے۔ یہ کوئی گھڑی ہوئی چیز نہیں، بلکہ تصدیق ہے اس چیز کی جو اس سے پہلے موجود ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی اور ہدایت و رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔‘‘

’’یعنی پچھلے انبیا اور ان کی قوموں کی سرگزشتوں میں اہل عقل کے لیے بڑا سامان عبرت موجود ہے بشرطیکہ یہ عقل سے کام لیں اور ان سرگزشتوں کو صرف دوسروں کی حکایت سمجھ کر نہ سنیں، بلکہ ان سے خود اپنی زندگی کو درست کرنے کے لیے سبق حاصل کریں۔ یہ قرآن کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے بلکہ جو پیشین گوئیاں اور جو حقائق آسمانی کتابوں میں پہلے سے موجود ہیں یہ ان کی تصدیق، ہر متعلق چیز کی تفصیل، آغاز کے اعتبار سے رہنمائی اور انجام کے اعتبار سے رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔‘‘ (تدبر قرآن۴/ ۲۶۰)


۳۔ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ.(النحل ۱۶: ۸۹)
’’اور ہم نے تم پر کتاب اتاری ہے ہر چیز کو کھول دینے کے لیے اور وہ ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے فرماں برداروں کے لیے۔‘‘

’’...یہ اس چیز کا حوالہ ہے جو اس دنیا میں حق کی گواہی اور لوگوں پر اتمام حجت کا ذریعہ ہے۔ فرمایا کہ تمھارے اسی فرض منصبی کے تقاضے سے ہم نے تم پر کتاب اتار دی ہے جو شہادت حق کے لیے تمام پہلووں سے جامع اور مکمل اور ہر متعلق چیز کو اچھی طرح واضح کر دینے والی ہے تا کہ کسی کے لیے گمراہی پر جمے رہنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔‘‘ (تدبر قرآن۴ / ۴۳۸)


۴۔ وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِیْلًا.(بنی اسرائیل۱۷:۱۲)
’’اور ہم نے ہر چیز کی پوری پوری تفصیل کر دی ہے۔‘‘

’’...یعنی آفاق کی ان نشانیوں کے علاوہ ہم نے تم پر یہ احسان بھی کیا ہے کہ اپنی اس کتاب میں بھی ہر ضروری چیز کی تفصیل کر دی ہے تاکہ غور کرنے والے کے اطمینان کے لیے یہ کتاب ہی کافی ہو جائے۔‘‘ (تدبر قرآن۴/ ۴۸۷۔۴۸۸)

درج بالا آیات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید میں ہر چیز کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو دعوت دی گئی ہے اور حق کی شہادت کے حوالے سے جو استدلال کیا گیا ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور وہ ہر پہلو سے جامع ہے۔ چنانچہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کتاب اجزاے دین کے بیان اور ان کی تفصیلات کے پہلو سے مکمل ہے۔ اجزاے دین کے حوالے سے کئی چیزوں کو اس میں بیان ہی نہیں کیا گیا، مثلاً نماز کی رکعتیں، اوقات اور دیگر تفصیلات، زکوٰۃ کی شرحیں، مو نچھیں پست رکھنا، عید الفطر اور عید الاضحی وغیرہ۔ شریعت سے متعلق یہ اہم چیزیں قرآن مجید میں موجود ہی نہیں۔
چنانچہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید اس پہلو سے جامع ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے دین کے سب اجزا بیان کر دیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا دین ایک رسول کے ذریعے سے دیا ہے اور یہ بات ایک تاریخی سچائی ہے کہ اس رسول نے خدا کا یہ دین ہمیں علم کی صورت میں بھی دیا ہے اور عمل کی صورت میں بھی۔ جو دین ہمیں علم کی صورت میں ملا ہے، وہ سارے کا سارا قرآنِ مجید میں ہے اور جو عمل کی صورت میں ملا ہے، وہ وہ سنت ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں جاری کیا ہے۔
چنانچہ اگر ہم قرآن کے علاوہ سنت کے اس ذریعے کا انکار کرتے ہیں تو پھر ان سب اعمال کو ہم بطور دین قبول ہی نہیں کر سکتے۔ بے شک ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، لیکن اس میں وہ ذکر اس طرح سے ہے کہ گویا یہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزیں ہیں، جن پر لوگ عمل کر رہے ہیں اور قرآن محض کسی خاص پہلو سے ان کا ذکر کر رہا ہے۔ جب یہ حقیقت ہے تو پھر پورا دین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور سنت، دونوں کی طرف رجوع کریں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات

سوال: اس بات کا قرآنی ثبوت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اجتہادات فہم اور سوچ، جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے ، یقینی طور پر درست تھے؟ (پرویز قادر)

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد آرا اس امت میں بطور دین رائج ہیں۔ مثلاً جمع بین الاختین کے تحت خالہ بھانجی اور پھوپھی بھتیجی کے جمع کرنے کی ممانعت۔ ان پرندوں اور بہائم کی تعیین جن کو کھانا درست نہیں ہے وغیرہ۔ قرآن مجید میں ان کا اصول مذکور ہے، لیکن اس کا اطلاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ کچھ لوگوں کی راے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوع کے ارشادات بھی اصلاً وحی تھے، لیکن اگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فہم یا اجتہاد تھے تو یہ اس چیز کی مثال ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک راے قائم کی اور قرآن مجید یا وحی نے اس کو غلط قرار نہیں دیا۔ لہٰذا یہ اجتہادات درست تھے۔
میں نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ہے، لیکن یہ اسلوب درست نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو عقیدت ہمارے دلوں میں ہے، اس طرح کا اسلوب اس کے منافی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
معوذتین قرآن کا حصہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سورۂ فلق اور سورۂ ناس کو قرآن مجید کا حصہ نہیں سمجھتے تھے؟ (وجاہت علی خان)

جواب: ایک روایت میں یہ بات ہمیں اسی طرح ملتی ہے، لیکن امت نے متفقہ طور پر اس روایت کو قرآن مجید کے حوالے سے کوئی اہمیت نہیں دی۔ اگر اس بات کو اہمیت دی گئی ہوتی تو ہم اس امت میں ایسا قرآن مجید پاتے جس میں یہ دونوں سورتیں موجود نہ ہوتیں، لیکن الحمد للہ اس طرح کا کوئی قرآن اس امت میں رائج نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
شراب کی حرمت کی بنیاد
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: قرآن مجید میں چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں شراب شامل نہیں ہے۔ شراب کے بارے میں بس یہ کہا گیا ہے کہ تم نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اس کے علاوہ شراب سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن ایسا کیوں ہے کہ مسلمان شراب کو خدا کی حرام کردہ دوسری سب چیزوں سے زیادہ حرام سمجھتے ہیں؟
ایسا کیوں ہے کہ اسلام شراب کی حرمت سے شروع ہوتا ہے اور عورتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے؟
(احسان)

جواب: قرآن مجید نے حلت و حرمت کے حوالے سے جو اصولی بات کی ہے، وہ درج ذیل ہے۔ ارشاد باری ہے:

یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ.(المائدہ۵: ۴)
’’وہ پوچھتے ہیں: ان کے لیے کیا چیز حلال ٹھہرائی گئی ہے۔ کہو تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں۔‘‘


یہودونصاریٰ نے حلت و حرمت کے حوالے سے افراط و تفریط کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انھیں ایمان کی دعوت دیتے ہوئے، حلت و حرمت کے بارے میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا:

وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ، وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ، وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ، وَالْاَغْلٰلَ التَِّیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ.(الاعراف ۷: ۱۵۷)

’’(یہ پیغمبر) اُن کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہراتا ہے اور اُن کے وہ بوجھ اتارتا اور بندشیں توڑتا ہے جو اب تک ان پر رہی ہیں۔‘‘


اصل بات یہ ہے کہ دین چونکہ نفس انسانی کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ باطن کی تطہیر کے ساتھ کھانے اور پینے کی چیزوں میں بھی خبیث و طیب کا فرق ملحوظ رکھا جائے۔
اسلام میں شراب کی ممانعت کا حکم اسی بنا پر ہے کہ یہ چیز طیبات میں نہیں آتی، بلکہ یہ خبائث میں آتی ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ، فَاجْتَنِبُوْہُ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(المائدہ۵: ۹۰)

’’ایمان والو ،یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘


چنانچہ آپ کا یہ کہنا کہ بس شراب سے بچنے کا کہا گیا ہے، اسے حرام تو نہیں ٹھہرایا گیا، یہ بات درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ صرف طیبات ہی حلال ہیں اور شراب طیبات میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک گندہ شیطانی کام ہے، چنانچہ اس کے پینے پلانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا ہر صاحب ایمان کو اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

رہی یہ بات کہ ’’اسلام شراب کی حرمت سے شروع ہوتا ہے اور عورتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے‘‘

یہ کسی حقیقت ناشناس اور لا ابالی شخص ہی کا جملہ ہو سکتا ہے۔ ایسے شخص سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ اگر اسے اس طرح کے جملے کہنے کا محض شوق ہے تو وہ ضرور کہا کرے، بس یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ نے ہر بات کا حساب لینا ہے، لیکن اگر اس کے دل میں حقیقت جاننے کا شوق ہے تو پھر وہ اسلام کا باقاعدہ مطالعہ کرے، ان شاء اللہ اس کا یہ خیال بدل جائے گا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
آیت کا صحیح ترجمہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: سورۂ آل عمران آیت ۳۰ کا صحیح ترجمہ کیا ہے؟ (سائرہ ناہید)

جواب: آیت اور اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا، وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ، تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَبَیْنَہٗٓ اَمَدًا بَعِیْدًا، وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ، وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌ بِالْعِبَادِ. (آل عمران۳: ۳۰)

’’جس دن ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکی سامنے پائے گا اور اُس نے جو برائی کی ہوگی، اُسے بھی دیکھے گا، اُس دن وہ تمنا کرے گا کہ کاش، اُس کے اور اِس (دن) کے درمیان ایک مدت حائل ہوجاتی۔ (یہ اللہ کی نصیحت ہے) اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور (اِس لیے ڈراتا ہے کہ ) اللہ اپنے بندوں کے لیے بڑا مہربان ہے۔‘‘

____________
 

امن وسیم

محفلین
قرآن کے دعوے کا مفہوم
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: قرآن کے اس دعوے کا کیا مطلب ہے کہ اگر تم اسے خدا کا کلام نہیں سمجھتے تو اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھاؤ؟ میرا سوال یہ ہے کہ انسان قرآن کی مثل کلام کیوں نہیں بنا سکتا ، میرا خیال ہے کہ وہ بنا سکتا ہے خواہ کچھ غلط سلط ہی بنا دے؟ (عائشہ خان)

جواب: قرآن کے اس دعوے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو سمجھتے ہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو کلام لائے ہیں، یہ انسانی کاوش ہی ہے، یہ خدا کا کلام نہیں ہے اور اس میں خدائی صفات کا ظہور نہیں، یعنی یہ خدائی خوبیوں کا حامل اور ہر غلطی سے مبرا کلام نہیں ہے تو ایسا ہی کلام تم بھی بنا کر دکھا دو۔ پھر اگر تم نہ بنا سکو تو اس کلام کی آنکھوں سے نظر آنے والی عظمت کو مانو اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرو۔

’’...تم اگر اسے خدا کی کتاب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت اور اسلوب بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے، اس شان کی کوئی ایک سورہ ہی بنا کر پیش کر دو۔ تمھارے گمان کے مطابق یہ کام اگر تمھاری قوم کے ایک فرد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہیں تو تمھیں بھی اس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔ اپنے متعلق یہ قرآن کا چیلنج ہے جو اُس نے اپنے اولین مخاطبین کو دیا اور اُن میں سے کوئی بھی اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔‘‘

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ کا صحیح مفہوم
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ (اپنے نفسوں کو قتل کرو) اس حکم کا کیا مطلب ہے؟
۱۔ کیا اس سے خود کشی مراد ہے؟
۲۔ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے؟
۳۔ نفس امارہ کو قتل کرنا، یعنی مجاہدۂ نفس کرنا مراد ہے؟
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس حکم کے بعد اسی سورہ کی اگلی آیات میں بنی اسرائیل پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ’ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ‘ (پھر یہ تمھی لوگ ہو جو اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو)، اس تضاد کی کیا وضاحت ہے
؟ (قاری محمد اسحاق)

جواب:’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ کی آیت ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے گوسالہ پرستی کے جرم سے متعلق ہے۔ چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ بچھڑے کی پرستش بنی اسرائیل کے سارے لوگوں نے نہیں کی تھی، بلکہ ان میں سے ایک گروہ نے یہ مشرکانہ اقدام کیا تھا، جیسا کہ درج ذیل دو آیات سے پتا چلتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ.(الاعراف۷: ۱۵۲)
’’بے شک جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ہے، انھیں عنقریب ان کے رب کی طرف سے غضب لاحق ہو گا۔‘‘

اَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا.(الاعراف۷: ۱۵۵)
’’(موسیٰ نے کہا) کیا تو ہمیں ایسے جرم کی پاداش میں ہلاک کر دے گا، جس کا ارتکاب ہمارے اندر کے بے وقوفوں نے کیا ہے۔‘‘

دوسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے متعلق زیر بحث آیت کا پورا مضمون درج ذیل ہے :

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِءِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.(البقرہ۲: ۵۴)
’’اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو اور خود اپنے (مجرموں) کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرو، یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔‘‘


اگر قرآن مجید کی اس بات کو ہم ملحوظ رکھیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے بچھڑے کی پرستش کا جرم کیا تھا تو پھر اس درج بالا آیت کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ اے بنی اسرائیل، تم خود اپنے مجرموں کو قتل کرو۔
اور پھر مزید یہ بات بھی ہے کہ اگر ہم ’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ میں ’اَنْفُسَکُمْ‘ سے ’’اپنے مجرموں کو‘‘ کے بجاے ’’تم سب اپنے آپ کو‘‘ مراد لیں تو پھر اس سزا میں نیک و بد اور صالح و مجرم، دونوں شامل ہو جاتے ہیں جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
سورۂ فیل میں فیل سے مراد
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: سورۂ فیل کی شرح میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اصحاب فیل سے مراد ابرہہ کا وہ لشکر ہے جو کعبہ پر حملہ کرنے کے لیے ہاتھیوں پر سوار ہو کر آیا تھا۔ کیا یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وہ لشکر ہاتھیوں ہی پر سوار تھا، کیونکہ عرب میں ہاتھی نہیں پائے جاتے۔ کیا اس سورت کا ترجمہ درست کیا جاتا ہے؟ (آصف بن خلیل و قمر اقبال)

جواب: یہ بات تو درست ہے کہ عرب میں ہاتھی نہیں پائے جاتے تھے، لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ لشکر حبشہ سے آیا تھا۔ حبشہ براعظم افریقہ کا ملک ہے اور افریقہ میں ہاتھی پائے جاتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ عرب ہاتھی کے تصور سے واقف تھے اور وہ اس کے لیے ’’فیل ‘‘ہی کا لفظ بولتے تھے۔ یہ لفظ غالباً فارسی کے لفظ ’’پیل‘‘ سے معرب ہے۔ بہرحال، ابرہہ ہی کے حملے کے بارے میں ان کے جو اشعار ہمیں ملتے ہیں ، ان میں صریح طور پر ہاتھیوں کا ذکر ہے، مثلاًان کا شاعر ابو قیس کہتا ہے:

ومن صنعہ یوم فیل الحبوش
اذ کلما بعثوہ وزم

’’اور اہل حبشہ کے فیل والے دن، اُس کے عجیب کرشموں میں سے یہ بات ہے کہ وہ لوگ جتنا اس کو اٹھاتے تھے، اتنا ہی وہ بیٹھا جاتا تھا۔‘‘

محاجنہم تحت اقرابہ
وقد کلموا انفہ فانخرم

’’اُن کے آنکس اُس کی کمر اور پیٹ کے نچلے حصے کو زخمی کر رہے تھے اور اُنھوں نے اُس کی سونڈ بھی زخمی کر ڈالی تھی۔‘‘

ان اشعار سے یہ ظاہر ہے کہ فیل بہرحال، کو ئی ایسا جانور ہی تھا، جس کی سونڈ ہوتی ہے اور جسے ہانکنے کے لیے آنکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
چنانچہ’’ اصحاب الفیل‘‘ سے ہاتھی والے لوگ مراد لینے کے پہلو سے اس سورہ کا ترجمہ بالکل درست کیا جا رہا ہے۔

____________
 
Top