امن وسیم

محفلین
صفحہ 7 کے موضوعات

⭕ عورت اور مرد کا فرق
⭕ مرد و عورت میں فرق
⭕ تحفظ حقوق نسواں بل
⭕ مرد عورت برابری
⭕ عورت کے سفر کیلیے محرم
⭕ خواتین قبرستان میں
⭕ پردہ
⭕ پردے کے احکام
⭕ اسلام میں پردہ
⭕ عورت کی نماز
⭕ مشرکانہ اعمال والے
فرقوں میں شادی
⭕ ہندو لڑکے سے شادی
⭕ جہیز
⭕ محرمات
⭕ رضاعی رشتوں میں شادی
⭕ پسند کی شادی
 

امن وسیم

محفلین
عورت اور مرد کا فرق
Talib Mohsin

سوال: اسلام مساوات کا مذہب ہے۔ پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ عورت کو مرد سے آدھی وراثت ملتی ہے اور شوہر کو بیوی کو مارنے کا حق دیا گیا ہے۔ کئی غیر مسلم قرآن کے اس حکم کا حوالہ دیتے ہیں۔ ازراہ کرم ان تصورات کی وضاحت کر دیجیے۔ (بسمہ نور)

جواب: اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو مساوات کے بجاے عدل کا لفظ زیادہ صحیح ہے۔ مساوات سے بھی وہی مساوات مراد ہے جو عدل کے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی جن دو تعلیمات پر اشکال ظاہر کیا ہے، ان کا تعلق اسلام کے پیش نظر خاندانی نظام سے ہے۔
جس طرح کسی بھی نظام میں مناصب اہلیت کی بنا پر دیے جاتے ہیں، اسی طرح خاندان میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کی شخصیت میں کچھ فرق رکھا ہے ۔ دوسرے اسلام میں کفالت کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان دو سبب کے تحت مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ہر نظام میں سربراہ کو تادیب کے اختیار حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح گھر کے اس باس کو تادیب کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن مجید میں یہ ساری بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ.(النساء۴: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔‘‘


شوہر کو بیوی کا باس قرار دینے کی وجہ بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اچھی بیوی کی دو صفات بیان کی ہیں: ایک یہ کہ وہ فرماں بردار ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ گھر کے بھیدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے بعد اگر بیوی شوہر کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردے تو قرآن مجید نے اصلاح کے لیے نصیحت، بستر سے علیحدگی اور بدرجہ آخر مارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اگر اللہ کے دین میں دیا گیا خاندانی نظام پیش نظر ہو تو اس میں یہ ساری باتیں معقول ہیں۔ البتہ اگر خاندانی نظام کے بجاے معاشرے کو کسی دوسرے طریقے پر استوار کرنا پیش نظر ہے تو پھر نہ ان ہدایات کی ضرورت ہے اور نہ کسی خصوصی اختیار اور حیثیت کی۔
قانون وراثت کے ضمن میں عرض ہے کہ اس کی اساس خود اللہ تعالیٰ نے بیان کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وراثت کے یہ احکام اس لیے دیے گئے ہیں کہ تم خود سے بالعموم ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کر سکتے کہ مرنے والے سے منفعت میں سب سے زیادہ کون قریب ہے، اس لیے ہم نے خود سے حصے مقرر کر دیے ہیں۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ مرد کو کفیل ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ اولاد کے مردوں پر آیندہ کفالت کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا انھیں زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ اسی قانون میں ماں باپ کا حصہ برابر ہے، حالاں کہ ان میں بھی ایک مرد اور ایک عورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس پر معاش کی ذمہ داری کی وہ صورت نہیں ہے۔
ہر قانون اور ضابطہ کچھ مصالح اور مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ قانون پر تنقید کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مصلحت اور مقصد کو سمجھا جائے۔ دو صورتیں ہوں گی: ہمیں اس مقصد اور مصلحت ہی سے اتفاق نہ ہو، پھر بحث اس موضوع پر ہو گی۔ دوسری یہ کہ اس مصلحت اور مقصد کو یہ قانون پورا نہ کرتا ہو۔اس صورت میں گفتگو اس دوسرے پہلو سے ہو گی۔ قرآن مجید کا معاملہ یہ ہے کہ یہ علیم و خبیر خداوند عالم کی کتاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی کوئی بات انسانی فطرت اور عقل و فہم کے موافق نہ ہو۔ ہم اپنی کوتاہی دور کر لیں، ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مرد و عورت میں فرق
Talib Mohsin

سوال: لوگ کہتے ہیں کہ عورت اور مرد برابر نہیں ہیں، اس کی تائید میں وہ قرآن مجید کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں مرد کو قوام قرار دیا گیا ہے۔ قوام سے کیا مراد ہے؟ (فرحت سبحان)

جواب: بطور انسان سب برابر ہیں۔ جس طرح معاشرے میں صلاحیت ، تعلیم اور حیثیت سے حقوق و فرائض میں فرق واقع ہو جاتا ہے، اسی طرح خاندان میں بھی یہ فرق واقع ہوتا ہے۔ بطور انسان اولاد اور والدین بھی برابر ہیں، لیکن حیثیت اور مرتبے میں اولاد پر والدین کو فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔ بطور انسان عوام اور حکمران بھی برابر ہیں، لیکن حکمرانوں کو عوام پر ایک فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔ اسی طرح جب دو مرد و عورت، میاں بیوی بن کر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان میں سے مرد کو برتر حیثیت حاصل ہے۔ دین میں بھی یہ حیثیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی وجہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی حیثیت ہے۔ اس کو سمجھنے اور ماننے میں گھر کی زندگی کی ترقی اور سکون کا راز مضمر ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
تحفظ حقوق نسواں بل
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: حکومت نے حال ہی میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ بل پاس کیا ہے۔ اس کے بارے میں بعض علما کا یہ کہنا ہے کہ اس بل کے نتیجے میں ملک میں جنسی آزادی جنم لے گی۔ اس میں آخر ایسی کیا غلطی ہے، جس کی بنا پر وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے پہلے عورتوں کے حق میں قانون انصاف پر مبنی نہیں تھا اور اس سے انھیں تحفظ ملا ہے۔ (عاقب خلیل خان)

جواب: جن لوگوں نے ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ بل پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ جنسی آزادی کا باعث بنے گا، انھوں نے اس پر درج ذیل اعتراضات کیے ہیں:
پہلا یہ کہ زنا بالجبر کی جو سزا قرآن و سنت نے بیان کی ہے اور جسے اصطلاح میں حد کہتے ہیں، اسے اس بل میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، اس کی رو سے زنا بالجبر کے کسی مجرم کو کسی بھی حالت میں شرعی سزا نہیں دی جا سکتی، بلکہ اسے ہرحال میں تعزیری سزا دی جائے گی۔
دوسرا یہ کہ حدود آرڈی نینس میں جس جرم زنا کو موجب تعزیر کہا گیا تھا، اسے اس بل میں فحاشی (Lewdness) کا نام دے کر اس کی سزا کم کر دی گئی ہے اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ ثبوت کو مشکل تر بنانے کی وضاحت یہ ہے کہ اب زنا کے حوالے سے پولیس کوئی اقدام ہی تب کرے گی جب اسے دو گواہ میسر ہوں گے۔ نیز اس بل کے مطابق سولہ سال سے کم عمر خاتون، خواہ وہ حقیقتاً بالغ ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ اگر اس کی رضامندی کے بغیر یا رضا مندی کے ساتھ زنا کیا گیا ہے تو ہر دو صورتوں میں مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس خاتون کو بری قرار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس بل میں اور بھی بعض ایسے مسائل موجود ہیں جو جرم زنا کے خلاف قانون کو سست اور کمزور بناتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس بل میں موجود یہ پہلو تشویش ناک ہیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مرد و عورت کی برابری
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے؟ اگر نہیں سمجھتا تو کیوں نہیں سمجھتا؟ اور اگر سمجھتا ہے تو پھر اسلام میں عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے، مرد کے برابر کیوں نہیں؟ (طاہر جمیل)

جواب: مرد و عورت کے وجود پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں کچھ چیزوں میں برابر ہیں اور کچھ چیزوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر انھیں خدا کے ساتھ تعلق اور اس کی بندگی، انسانیت ، اخلاقیات، نیکی اور بدی، جرم و سزا ، انعام و اکرام کے پہلو سے دیکھیں تو یہ دونوں وجود برابر ہیں۔ دونوں (مرد و عورت) خدا کی بندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، دونوں سے یکساں یہ تقاضا ہے کہ وہ انسانیت کے معیار پر پورے اتریں، دونوں پر برابر کی اخلاقی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، یعنی دونوں ہی سارے اخلاقی احکام کے مکلف ہیں، دونوں نیکی و بدی کی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں، دونوں کا اعمال نامہ مرتب ہو رہا ہے، دونوں سے برابر کی سطح پر ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، دونوں کے لیے دنیا میں ایک جیسی سزائیں اور ایک جیسا انعام ہے اور آخرت میں بھی برابر کی سزائیں ہوں گی اور برابر کا انعام ہو گا۔ ان باتوں پر بہت سی آیات دلالت کرتی ہیں، مثلاً چوری، زنا اور قتل جیسے سنگین جرائم میں جو سزا مرد کو دی گئی ہے، وہی عورت کو دی گئی ہے، اگر یہ دونوں برابر نہ ہوتے تو ایسا ہرگز نہ کیا جاتا۔ اسی طرح نیکیوں پر ان کے اخروی انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا.(النسا۴: ۱۲۴)

’’مرد ہو یا عورت جو بھی نیکی کرے گا ، اس حال میں کہ وہ مومن ہوا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور اُن پر ذرہ بھر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘


مَنْ عَمِلَ سَیِّءَۃً فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓءِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ. (المومن۴۰: ۴۰)

’’جو شخص بھی کوئی برائی کرے گا تو اُس کو اُس کے برابر ہی بدلہ دیا جائے گا اور جو کوئی نیک کام کرے گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اور وہ مومن ہو تو، یہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے اور اُس میں اِن کو بے حد و حساب رزق دیا جائے گا۔‘‘

یہ تو تھا مر د و عورت کی برابری کا پہلو ، اب ہم اس کی طرف آتے ہیں کہ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بعض پہلووں سے یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ مرد و عورت کئی میدانوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مختلف ہونا لازماً کم تر اور گھٹیا ہونا نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک آدمی کی ذمہ داری اور کار کردگی کے لیے ایک میدان ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے دوسرا۔ مثلاً اولاد جننا، اسے دودھ پلانا ، یہ تو عورتوں ہی کے ساتھ خاص ہے، مرد اس معاملے میں صفر پر کھڑے ہیں۔ بچوں کی ابتدائی تربیت میں ماں کا کردار زیادہ ہوتا ہے اور باپ کا کم۔ گھر کے کام کاج، مثلاً کھانا پکانا، گھر سنبھالنا، اس میں بھی عورتوں ہی کا غلبہ ہے۔ معاش کی محنت مشقت ، کسان کی طرح تپتی دھوپ میں زمین پر ہل چلانا، دور دراز کے سفر کر کے سامان تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، مزدوروں، مزارعوں اور کسانوں کی طرح کام کرنا یا ان سے کام لینا، اس میں بھی عام طور پر مرد حضرات ہی آگے دکھائی دیے ہیں۔ خوف ناک حالات میں اپنے لائف پارٹنر کو شیلٹر دینا، مثلاً اسے شیر، چیتے، بھیڑیے، ریچھ یا اس چوہیا ہی سے بچانے کی کوشش کرنا جو کمرے میں گھس آئی ہو، یہ سب کام عام طور پر مردوں کے ساتھ خاص ہیں، عورتیں زیادہ تر ان کاموں میں پیچھے رہنا ہی پسند کرتی ہیں۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے؟ کیا یہ کوئی خاص نوعیت کا مسئلہ ہے ؟

’’ثبوت جرم کے لیے قرآن مجید نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھیرائی ، اِس لیے یہ بالکل قطعی ہے کہ اسلامی قانون میں جرم اُن سب طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جنھیں اخلاقیات قانون میں مسلمہ طور پر ثبوت جرم کے طریقوں کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے اور جن کے بارے میں عقل تقاضا کرتی ہے کہ اُن سے اِسے ثابت ہونا چاہیے ۔ چنانچہ حالات، قرائن، طبی معاینہ، پوسٹ مارٹم، انگلیوں کے نشانات، گواہوں کی شہادت ، مجرم کے اقرار، قسم ، قسامہ اور اِس طرح کے دوسرے تمام شواہد سے جس طرح جرم اِس دنیا میں ثابت ہوتے ہیں ، اسلامی شریعت کے جرائم بھی اُن سے بالکل اِسی طرح ثابت قرار پاتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت اپنے ارشاد : ’ البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعیٰ علیہٗ میں لفظ ’البینۃ‘ سے واضح فرمائی ہے ۔ ابن قیم لکھتے ہیں :

البینۃ فی کلام اللّٰہ ورسولہ وکلام الصحابۃ اسم لکل ما یبین الحق فھی اعم من البینۃ فی اصطلاح الفقھاء حیث خصوھا بالشاھدین اوالشاھد والیمین.(اعلام الموقعین ۱/ ۱۳۱)

’’’ البینۃ‘ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے کلام میں ہر اُس چیز کا نام ہے جس سے حق واضح ہو جائے ۔چنانچہ فقہا کی اصطلاح کے مقابلے میں اِس کا مفہوم وسیع تر ہے ، کیونکہ اِن حضرات نے اِسے دو گواہوں یا ایک گواہ اور قسم کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔‘‘

اِس سے مستثنیٰ صرف دو صورتیں ہیں :
اول یہ کہ کوئی شخص کسی ایسے شریف اور پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے جس کی حیثیت عرفی بالکل مسلم ہو ۔ اِس صورت میں قرآن کا اصرار ہے کہ اُسے ہرحال میں چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے ، اِس سے کم کسی صورت میں بھی اُس کا مقدمہ قائم نہ ہو سکے گا۔ حالات، قرائن، طبی معاینہ ،یہ سب اُس معاملے میں اُس کے نزدیک بے معنی ہیں ۔ آدمی بدچلن ہو تو ثبوت جرم کے لیے یہ سب طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ، لیکن اُس کی شہرت اگر ایک شریف اور پاک دامن شخص کی ہے تو اسلام یہی چاہتا ہے کہ اُس سے اگر کوئی لغزش ہوئی بھی ہے تو اُس پر پردہ ڈال دیا جائے اور اُسے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے ۔ چنانچہ اِس صورت میں وہ چار عینی شہادتوں کا تقاضا کرتا، اور الزام لگانے والا اگر ایسا نہ کر سکے تو اُسے لازماً قذف کا مجرم ٹھیراتا ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا، وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ، اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (النور ۲۴ : ۴۔۵)

’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ نہ لائیں تو اُن کو اسّی کوڑے مارو اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں ، لیکن جو اِس کے بعد توبہ و اصلاح کر لیں تو اللہ (اُن کے لیے) غفورو رحیم ہے۔‘‘

دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگر قحبہ عورتیں ہوں تو اُن سے نبٹنے کے لیے قرآن مجید کی رو سے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں جو اِس بات پر گواہی دیں کہ فلاں فی الواقع زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے ۔ وہ اگر عدالت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم اِسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالت نقد و جرح کے بعد اُن کی گواہی پر مطمئن ہو جاتی ہے تو وہ اُس عورت کو سزا دے سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ، فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا.(النساء ۴ : ۱۵)

’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو ۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو اُن کو گھروں میں بند کر دو ، یہاں تک کہ موت اُنھیں لے جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راہ نکال دے ۔ ‘‘

اِن دو مستثنیات کے سوا اسلامی شریعت ثبوت جرم کے لیے عدالت کو ہر گز کسی خاص طریقے کا پابند نہیں کرتی ، لہٰذا حدود کے جرائم ہوں یا اِن کے علاوہ کسی جرم کی شہادت ، ہمارے نزدیک یہ قاضی کی صواب دید پر ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتا ہے اور کس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ اِس میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے ۔ عورت اگر اپنے بیان میں الجھے بغیر واضح طریقے پر گواہی دیتی ہے تو اُسے محض اِس وجہ سے رد نہیں کر دیا جائے گا کہ اِس کے ساتھ کوئی دوسری عورت یا مرد موجود نہیں ہے ، اور مرد کی گواہی میں اگر اضطراب و ابہام ہے تو اُسے محض اِس وجہ سے قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ مرد ہے ۔ عدالت اگر گواہوں کے بیانات اور دوسرے قرائن وحالات کی بنا پر مطمئن ہو جاتی ہے کہ مقدمہ ثابت ہے تو وہ لامحالہ اُسے ثابت قرار دے گی اور وہ اگر مطمئن نہیں ہوتی تو اُسے یہ حق بے شک ، حاصل ہے کہ وہ دس مردوں کی گواہی کو بھی قبول کرنے سے انکار کردے ۔ ‘‘(۲۵۔۲۷)

قحبہ عورتوں کے معاملے میں شہادت کے سوا، جہاں قرآن مجید نے ’منکم‘ کی شرط عائد کرکے اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کر دیا ہے، یہی معاملہ غیر مسلموں کی گواہی کا بھی ہے ۔

’’یہاں یہ واضح رہے کہ ہمارے فقہا کی راے اس معاملے میں مختلف ہے ۔
... فقہا نے اپنے نقطۂ نظر کی بنیاد سورۂ بقرہ کی جس آیت پر رکھی ہے ، وہ یہ ہے :

وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ، فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ، مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی.(۲ : ۲۸۲)

’’اور تم (قرض کی دستاویز پر) اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی کرالو ۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی، تمھارے پسندیدہ لوگوں میں سے۔ دوعورتیں اِس لیے کہ اگر ایک الجھے تو دوسری یاد دلا دے۔‘‘

اِس آیت سے فقہا کا استدلال ، ہمارے نزدیک دو وجوہ سے محل نظر ہے :
ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اس آیت کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ دستاویزی شہادت سے متعلق ہے۔ ہر عاقل جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور واقعاتی شہادت میں گواہ کا موقع پر موجود ہونا ایک اتفاقی معاملہ ہوتا ہے۔ ہم نے اگر کوئی دستاویز لکھی ہے یا کسی معاملے میں کوئی اقرار کیا ہے تو ہمیں اختیار ہے کہ اُس پر جسے چاہیں گواہ بنائیں ، لیکن زنا ، چوری ، قتل ، ڈاکا اور اِس طرح کے دوسرے جرائم میں ، ظاہر ہے کہ جو شخص بھی موقع پر موجود ہو گا ، وہی گواہ قرار پائے گا۔ چنانچہ شہادت کی اِن دونوں صورتوں کا فرق اِس قدر واضح ہے کہ اِن میں سے ایک کو دوسری کے لیے قیاس کا مبنیٰ نہیں بنایا جا سکتا۔
دوسری یہ کہ آیت کے موقع و محل اور اسلوب بیان میں اِس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اِسے قانون و عدالت سے متعلق قرار دیا جائے ۔ اِس میں عدالت کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اِس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اِس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اِس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اِس میں اُنھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اِس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اُ س کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے اُن گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل ، ثقہ ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات و مشاغل کے لحاظ سے اِس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کر سکتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس میں اصلاً مردوں ہی کو گواہ بنانے اور دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ گھر میں رہنے والی یہ بی بی اگر عدالت کے ماحول میں کسی گھبراہٹ میں مبتلا ہو تو گواہی کو ابہام و اضطراب سے بچانے کے لیے ایک دوسری بی بی اُس کے لیے سہارا بن جائے ۔ اِس کے یہ معنی ، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ عدالت میں مقدمہ اُسی وقت ثابت ہو گا ، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اُس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں ۔ یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے جس کی پابندی اگر لوگ کریں گے تو اُن کے لیے یہ نزاعات سے حفاظت کا باعث بنے گی ۔ لوگوں کو اپنی صلاح و فلاح کے لیے اِس کا اہتمام کرنا چاہیے ، لیکن مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ کوئی نصاب شہادت نہیں ہے جس کی پابندی عدالت کے لیے ضروری ہے ۔ چنانچہ اِس سلسلہ کی تمام ہدایات کے بارے میں خود قرآن کا ارشاد ہے :

ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّھَادَۃِ وَاَدْنآی اَلَّا تَرْتَابُوْٓا.(البقرہ ۲ : ۲۸۲)

’’یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی برانصاف، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی اور زیادہ قرین قیاس ہیں کہ تم شبہات میں مبتلا نہ ہو۔‘‘ ‘‘ (برہان۲۷۔۳۱)


____________
 

امن وسیم

محفلین
عورت کے سفر حج کے لیے محرم کی شرط
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: میں حج پر جانا چاہتی ہوں ، لیکن محرم رشتہ داروں میں سے کوئی ساتھ نہیں جا سکتا، البتہ ایک قابل اعتماد فیملی جن کے بچے میرے شاگرد رہے ہیں، وہ مجھے اپنے ساتھ حج پر لے جا سکتی ہے۔ کیا اسلام کی رو سے اس فیملی کے ساتھ میرا حج پر جانا درست ہو گا؟ (صغریٰ بیگم)

جواب: اس زمانے میں حج کا سفر بہت محفوظ ہو گیا ہے، لہٰذا پرانے زمانے کے غیر محفوظ سفروں کی وجہ سے عورت کے لیے محرم کے ساتھ ہونے کی جو ہدایت دی گئی تھی، اب ان حالات میں اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
محرم کی شرط کے معاملے میں ائمہ اربعہ میں اختلاف موجود ہے ۔امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک اگر عورت کو محفوظ رفاقت میسر آ جائے تو وہ حج کے لیے جا سکتی ہے، اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ محرم کے وجود کو لازم قرار دیتے ہیں۔
ہماری راے یہی ہے کہ آپ جس قابل اعتماد فیملی کے ساتھ حج پر جانا چاہتی ہیں، اس کے ساتھ جا سکتی ہیں، کسی محرم کے ساتھ ہونے کی شرط لازم نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
خواتین کا قبرستان میں جانا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا کوئی خاتون فاتحہ پڑھنے کے لیے اپنے طہر کے زمانے میں قبرستان میں جا سکتی ہے؟ (فاروق عالم صدیقی)

جواب: عورت طہر اور حیض دونوں زمانوں میں قبرستان میں جا سکتی ہے۔ قبرستان کا معاملہ مسجد کی طرح کا نہیں ہے۔ وہ کسی قبر پر کھڑے ہو کر دعاے مغفرت بھی کر سکتی ہے۔
فاتحہ پڑھنے کا عمل سنت سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ دعاے مغفرت کرنا بالکل درست ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
لونگ پہننے کی شرعی حیثیت
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: شادی شدہ عورتوں کے ناک میں سوراخ کرا کر لونگ پہننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ ہندووں میں پائی جانے والی رسوم میں سے ہے؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر صبح فرشتے انسانوں کی دنیا میں آ کر یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی لڑکی شادی شدہ ہے اور کون سی نہیں اور وہ شادی شدہ لڑکی کو ناک کے اس لونگ ہی سے پہچانتے ہیں۔ اس بات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (راشد محمود)

جواب: عورتوں کا اپنی زیب و زینت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوسری تہذیب سے غیر شرعی رسوم لینے سے منع کرتا ہے اور جو رسوم غیر شرعی نہیں ہیں، ان کو اپنا لینے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
ناک میں سوراخ کرا کر لونگ پہننا مسلمانوں نے خواہ ہندووں ہی سے لیا ہو، لیکن اب یہ خود بعض علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اسے اختیار کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ البتہ فرشتوں کے شادی شدہ لڑکیوں کو لونگ کے ذریعے سے پہچاننے کے حوالے سے جو بات آپ نے لکھی ہے، وہ محض افسانہ ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
پردہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: اسلام میں عورتوں کے حجاب کے حوالے سے کیا تصور پایا جاتا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ وہ نامحرم افراد سے اپنے چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کو چھپائیں اور ان کے ساتھ درشتی سے بات کیا کریں؟ (محمد کامران)

جواب: بالغ عورت کے لیے پردے کا وہ تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے ، یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بات غلط ہے کہ عورت کو نامحرموں سے اپنا چہرہ، ہاتھ اور پاؤں لازماً چھپانا چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ عورت کو مردوں کے ساتھ درشتی ہی سے بات کرنی چاہیے۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے میل جول کے موقعوں کے حوالے سے کچھ ضروری آداب سکھائے گئے ہیں۔ ان آداب کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں موجود ہے۔ ان میں غض بصر، شرم گاہوں کی حفاظت اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کرنے کا حکم تو موجود ہے، لیکن نامحرموں سے اپنا چہرہ ڈھانکنے کا حکم موجود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ سورۂ احزاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حوالے سے بعض احکام دیے گئے ہیں، ان میں بے شک یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر کسی کو ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو وہ پردے کی اوٹ سے مانگے اور اسی طرح منافقین کے ضرر سے بچنے کے لیے انھیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ بلا تمیز ہر آنے والے سے نرمی اور تواضع سے بات نہ کیا کریں، بلکہ صاف اور سیدھی بات کیا کریں تاکہ جس کے دل میں کوئی خرابی موجود ہو، وہ کسی طمع میں گرفتار نہ ہو سکے، لیکن یہ احکام اصلاً، آپ کی ازواج ہی کے ساتھ خاص تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب کے اپنے الفاظ سے پتا چلتا ہے۔ اس کے علاوہ اسی سورہ میں مدینے میں موجود منافقین کی شرارتوں سے بچنے کی غرض سے مسلمان عورتوں کو باہر نکلتے ہوئے اپنے اوپر بڑی چادر لینے کا حکم دیا گیا، سورہ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ یہ حکم اس صورت حال سے نبٹنے کے لیے ایک حل کے طور پر دیا گیا تھا، اسے سورۂ نور میں موجود احکام کی طرح شریعت کا مستقل حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پردے کے معاملے میں علماے امت میں اختلاف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انھوں نے ان سب احکام کو پوری امت سے متعلق سمجھ لیا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
پردے کے احکام
Talib Mohsin

سوال: عورت کے لیے پردے کا اصل حکم کیا ہے؟ کیا سر ڈھانپنا ضروری ہے؟ جسم کس حد تک ملبوس ہونا چاہیے؟ کیا ایک بڑی چادر یا برقع لینا ضروری ہے؟ (رفعت سبحان)

جواب: پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں مرد و عورت، دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب و احکام کا پابند کیا ہے۔
دو حکموں میں مرد و عورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں:
۱۔ دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔
۲۔ دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
۳۔ عورتیں اپنی زیب و زینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔
۴۔ عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں۔

نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے حسن و جمال سے آنکھیں سینکنے، خط و خال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔
شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں ظاہر ہے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس باقرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد، دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔
لباس کے حوالے سے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کر رکھیں۔
اس ہدایت پر عمل کرنے میں تشدد اور نرمی دونوں طرح کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ جو خواتین زیادہ سے زیادہ ڈھانپنے کی طرف مائل ہیں، وہ بھی اور جو احکام کے تقاضے پورا کر دیتی ہیں، دونوں ہمیشہ سے معاشرے میں موجود رہی ہیں۔ اس کا انحصار ذوق اور حالات پر ہوتا ہے کہ کوئی عورت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ ہم کسی رویے کو اس وقت ہی غلط قرار دے سکتے ہیں، جب وہ حکم کے الفاظ ہی سے متجاوز ہو۔
سورۂ احزاب میں بڑی چادر لینے کا حکم فتنہ پردازوں سے بچنے کے لیے ایک تدبیر تھا۔ یہ کوئی مستقل حکم نہیں تھا، لیکن ہمارے فقہا نے اسے ایک ابدی حکم سمجھا ہے۔ لہٰذا وہ اسے اب بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اور ابدی حکم سورۂ نور کا ہے اور باحیا اور باوقار لباس جو عورت کی زیب و زینت اور جسم کو نمایاں کرنے والا نہ ہو، حکم کا تقاضا پورا کر دیتا ہے۔ سر ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھی نہیں ہے جس میں آپ نے سر ڈھانپنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں سر ڈھانپنے کا رواج تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور اصحاب کی ازواج نے اس کو جاری رکھا۔ اس اعتبار سے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید حاصل ہے اور قرآن مجید کے احکام بھی اس طرز معاشرت کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں۔ ایک روایت سے یہ تائید مزید محکم ہوتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: ’’بالغ عورتیں اگر اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ اسے قبول نہیں کرتے۔‘‘ معلوم ہے کہ نماز میں قاعدے کا لباس پہننا چاہیے۔ عورت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے قاعدے کے لباس میں اوڑھنی شامل ہے۔

___________
 

امن وسیم

محفلین
اسلام میں پردے کا حکم
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: پردے کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کیا ہے؟ (صبیحہ خان)

جواب: بالغ عورت کے لیے پردے کا وہ تصور جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے ، یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بات غلط ہے کہ عورت کو نامحرموں سے اپنا چہرہ، ہاتھ اور پاؤں لازماً چھپانا چاہیے۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے میل جول کے موقعوں کے حوالے سے کچھ ضروری آداب سکھائے گئے ہیں۔ ان آداب کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں موجود ہے۔ ان میں غض بصر، شرم گاہوں کی حفاظت اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کرنے کا حکم تو موجود ہے، لیکن نامحرموں سے اپنے چہرے ڈھانکنے کا حکم موجود نہیں ہے۔
چنانچہ ایک مسلمان خاتون نامحرموں کے سامنے اپنا چہرہ اور ہاتھ پاؤں کھلے رکھ سکتی ہے، اس کے علاوہ وہ ایسا لباس اور چادر وغیرہ پہنے گی جس سے اس کی زینتیں ہر گز ظاہر نہ ہوں۔ چہرہ کھلا رکھنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ عورت کو چہرے کی زینتیں جان بوجھ کر نمایاں کرنے اور دکھانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ نہیں، بلکہ جس چیز کی اجازت دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں وغیرہ کی حد تک جو زینت عام طور پر ظاہر ہو جایا کرتی ہے، اسلام میں اس کو روا رکھا گیا ہے۔ چنانچہ کوئی عورت چہرے کی زینت کو بھی جان بوجھ کر ظاہر نہیں کر سکتی۔
سورۂ نور کے علاوہ سورۂ احزاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حوالے سے بعض احکام دیے گئے ہیں، ان میں یہ بات موجود ہے کہ اگر کسی کو ان سے کوئی چیز مانگنی ہے تو وہ پردے کی اوٹ سے مانگے، لیکن یہ اور اس طرح کے کچھ اور احکام اصلاً آپ کی ازواج ہی کے ساتھ خاص تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب کے اپنے الفاظ سے پتا چلتا ہے۔ اسی سورہ میں مدینے میں موجود منافقین کی شرارتوں سے بچنے کی غرض سے مسلمان عورتوں کو باہر نکلتے ہوئے اپنے اوپر بڑی چادر لینے کا حکم دیا گیا، سورہ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ یہ حکم اس صورت حال سے نبٹنے کے لیے ایک حل کے طور پر دیا گیا تھا۔ اسے سورۂ نور میں موجود احکام کی طرح شریعت کا مستقل حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پردے کے معاملے میں علماے امت میں اختلاف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انھوں نے ان سب احکام کو بالواسطہ طور پر پوری امت سے متعلق سمجھ لیا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
عورت کی نماز
Talib Mohsin

سوال: کیا عورتوں کے نماز پڑھنے کا طریقہ مختلف ہے یا وہ بالکل مردوں کی طرح نماز پڑھ سکتی ہیں؟ کیا ان کے لیے قیام، رکوع، قعدے اور سجدے کا کوئی الگ طریقہ ہے؟
کیا عورت گھر میں اپنے محرم (والد، بھائی، شوہر یا بیٹے ) کے ساتھ کچھ پیچھے کھڑے ہو کر جماعت سے نماز پڑھ سکتی ہے؟
چار رکعت والی نماز میں اگر درمیانی قعدے میں درود شریف پڑھ لیا ہو تو کیا سجدۂ سہو کرنا ہوگا؟
سفر کی حالت میں چار پانچ روز کے قیام میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا ملا کر پڑھی جا سکتی ہیں یا ایسا کرنا غلط ہو گا؟
ازراہ کرم تمام نمازوں کے آخری وقت بتا دیں
۔ (عقیلہ قریشی)

جواب: عورت کے نماز پڑھنے کا طریقہ بالکل وہی ہے جو مردوں کا ہے۔ احناف نے کچھ فرق کیا ہے اور اس کی وجہ عورت کے حیا کے جذبے اور فطری ضرورتوں کا لحاظ ہے۔ مردوں کے طریقے سے کسی سبب سے تھوڑا بہت فرق قابل قبول ہے۔
عورت اپنے گھر میں مرد اعزہ کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ، خواہ اکیلی ہو ، اسے پیچھے الگ صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔
چار رکعت والی نماز میں اگر درمیانی قعدے میں درود شریف پڑھ لیں، کوئی دعا کر لیں، سب درست ہے۔ اس پر کوئی سجدۂ سہو نہیں ہے۔
نماز جمع کرنے کی اجازت ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو ایک نماز کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو یا کوئی غیر معمولی مشقت پیش آسکتی ہو۔ معمول کے حالات میں نماز جمع کرنا مناسب نہیں ہے۔
نمازوں کے آخری اوقات حسب ذیل ہیں:
فجر طلوع آفتاب سے کچھ پہلے تک۔ ظہر جب سورج مغرب میں آنکھوں کے سامنے آجائے۔ عصر غروب آفتاب سے کچھ پہلے تک۔ مغرب اندھیرا چھا جانے تک۔ عشا آدھی رات تک۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مشرکانہ اعمال والے فرقوں میں شادی
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: مسلمانوں کے جن فرقوں میں مشرکانہ اعمال و تصورات پائے جاتے ہیں، کیا ان میں شادی کرنا جائز ہے؟ (سلمان طاہر)

جواب: اسلام میں مسلمان مرد کی شادی، مشرک عورت سے اور مسلمان عورت کی شادی، مشرک مرد سے بالکل ممنوع ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ، وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ، وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ، وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا، وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ، وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ.(البقرہ ۲: ۲۲۱)
’’ اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور (یاد رکھو کہ) ایک مسلمان لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں کتنی ہی بھلی لگے۔ اور اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں نہ دو ، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور (یاد رکھو کہ) ایک مسلمان غلام مشرک شریف زادے سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں کتنا ہی بھلا لگے۔‘‘


ان آیات کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ مرد جو دین توحید سے وابستہ ہے، وہ دین شرک سے وابستہ کسی عورت کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا اور نہ دین توحید سے وابستہ عورت کی شادی دین شرک سے وابستہ کسی مرد کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں کے سارے ہی گروہ یا فرقے دین توحید سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ہم دین شرک سے وابستہ قرار نہیں دے سکتے۔ ان میں جو شرک نظر آتا ہے، وہ تاویل کا شرک ہے، یعنی جسے ہم مشرکانہ بات کہتے ہیں، وہ اسے توحید کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ خود جسے توحید کے خلاف سمجھتے ہیں، اس سے نفرت کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ اس کی رہنمائی ہمیں قرآن مجید سے ملتی ہے، ارشاد باری ہے:

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ ، اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ، مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ، وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ.(المائدہ ۵: ۵)

’’اور تم سے پہلے کے اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی (حلال ہیں) ، جب تم اُن کے مہر ادا کرو ، اِس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہو، نہ بدکاری کرنے والے اور نہ چوری چھپے آشنا بنانے والے ۔‘‘


اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود و نصاریٰ اپنے علم اور عمل ، دونوں میں شرک کی نجاست سے آلودہ تھے، لیکن چونکہ وہ اصلاً توحید ہی کو مانتے تھے، یعنی وہ خود کو توحید کے بجاے شرک سے منسوب کرنا ہرگز پسند نہ کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اتنی رعایت کی کہ ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی۔
یہ معاملہ ان اہل کتاب کا ہے جو نہ صرف علم و عمل کے اعتبار سے شرک میں ملوث تھے، بلکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان بھی نہیں رکھتے تھے، جبکہ مسلمانوں کے سبھی فرقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ان فرقوں میں جنھیں ہم شرکیہ اعمال و تصورات میں ملوث دیکھتے ہیں، شادی کرنے میں قانوناً اور شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
ہندو لڑکے سے شادی
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا ہندو لڑکے کے ساتھ مسلمان لڑکی کا شادی کرنا جائز ہے؟ (محمد زبیر خان)

جواب: مسلمان مردوں کے لیے غیر مسلموں میں سے صرف اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے، اس سے آگے بڑھنا درست معلوم نہیں ہوتا۔چنانچہ ہمارے خیال کے مطابق ہندو لڑکے کے ساتھ مسلمان لڑکی کا شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
جہیز
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: جہیز کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کیا ہے؟ (محمد عمر بن عبداللہ)

جواب: شادی کے موقع پر والدین کا اپنی بیٹی کو جہیز دینا ایک معاشرتی رسم و رواج ہے۔ دین نہ اسے نکاح کی کوئی شرط قرار دیتا ہے اور نہ اس پر کوئی پابندی لگاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ طریقہ بھی درست ہے کہ لڑکے کی طرف سے دی گئی مہر کی رقم ہی سے یہ جہیز خرید لیا جائے اور یہ بھی درست ہے کہ لڑکی کے والدین اپنی خوشی اور سہولت سے بیٹی کو بطور جہیز جو دینا چاہیں وہ دیں۔ دین کو اس پر نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ وہ اس کی کوئی ترغیب ہی دیتا ہے۔
البتہ، یہ ایک اہم بات ہے کہ اگر یہ جہیز ایک ایسی رسم کی صورت اختیار کر جائے جو معاشرے میں ظلم و زیادتی اور دیگر مفاسد کا باعث بن جائے، اس کے نتیجے میں شادی بیاہ مشکل ہو جائے، جیسا کہ ہمارے معاشرے کی صورت حال ہے تو پھر دین اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا اور مسلمانوں کو یہ ترغیب دلاتا ہے کہ وہ اس میں موجود خرابیوں کو لازماً دور کریں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
محرمات
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا کوئی آدمی اپنے سگے بھانجے، بھتیجے، بھانجی یا بھتیجی کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے، اسی طرح کیا کوئی عورت اپنے سگے بھانجے، بھتیجے، بھانجی یا بھتیجی کے بیٹے سے شادی کر سکتی ہے؟ سگے سے میری مراد والد کی طرف سے سگا ہونا ہے نہ کہ والدہ کی طرف سے بھی۔ (محمد ہاشم عبداللہ)

جواب: ان سب صورتوں میں جواب نہیں میں ہے، یعنی درج بالا رشتوں میں کوئی شادی بھی جائز نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پوتی اور نواسی بیٹی کے حکم میں اور پوتا اور نواسا بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے۔
چنانچہ بھانجی کی بیٹی بھانجی، بھتیجی کی بیٹی بھتیجی، بھانجے کی بیٹی بھانجی کے حکم میں اور بھتیجے کی بیٹی بھتیجی کے حکم میں ہو گی۔ اسی طرح بھانجے کا بیٹا بھانجے کے حکم میں اور بھتیجے کا بیٹا بھتیجے کے حکم میں ہوگا۔
اگر اولاد کے والدین دونوں مشترک ہیں تب بھی یہی حکم ہے اور اگر صرف ان کا والد مشترک ہے تب بھی یہی حکم ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
رضاعی رشتوں میں نکاح
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: وہ بچہ جس نے اپنی نانی کا دودھ پیا ہو، کیا اس کا رشتہ اپنے مامووں اور خالاؤں کی بیٹیوں سے ہو سکتا ہے؟ (مسز افتخار چوہدری)

جواب: آپ نے جو صورت بتائی ہے، اس صورت میں یہ بچہ اپنے مامووں اور اپنی خالاؤں کا رضاعی بھائی ہے۔ چنانچہ اس رشتے سے اس کے مامووں اور اس کی خالاؤں کی بیٹیاں اس کی رضاعی بھتیجیاں اور بھانجیاں بنتی ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔

___________
 

امن وسیم

محفلین
پسند کی شادی
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: میں سویڈن کی ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک غیر مسلم ہے۔ میں نے اسے انگریزی ترجمے والا قرآن مجید بھیجا تھا، جس کا اس نے مطالعہ کیا اور اسے دین اسلام پسند آیا۔ وہ مسلمان ہونا چاہتی ہے۔
میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں کسی اور لڑکی سے شادی کروں، لیکن میرے والدین اس پر بالکل راضی نہیں ہیں کہ میں کسی انگریز لڑکی سے شادی کروں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم اس سے شادی کرو گے تو پھر تمھیں ہمارا گھر چھوڑنا پڑے گا۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے
۔ (عبداللہ )

جواب: اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہر انسان شادی کرنے میں آزاد ہے، لیکن اسے خواہ مخواہ اپنے اولیا (والدین) کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے معاشرے میں بہت فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔

’’...یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نکاح خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اُس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ یہ والدین اور سرپرستوں کو ساتھ لے کر اور اُن کی رضا مندی سے کیا جائے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نکاح میں فیصلہ اصلاً مرد و عورت کرتے ہیں اور اُن کے علانیہ ایجاب و قبول سے یہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اولیا کا اذن اگر اُس میں شامل نہیں ہے تو اِس کی کوئی معقول وجہ لازماً سامنے آنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو تو معاشرے کا نظم اجتماعی یہ حق رکھتا ہے کہ اِس طرح کا نکاح نہ ہونے دے ۔’لا نکاح الا بولی‘ (سرپرست کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اور اِس طرح کی دوسری روایتوں میں یہی بات بیان ہوئی ہے ۔‘‘ (۴۱۹)


آپ اپنی عمر کے جذباتی دور سے گزر رہے ہیں۔ اس عمر میں آدمی اکثر چیزوں کو اپنی معلومات کی کمی، جذبات کی شدت اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے بہت کوتاہ نظری سے دیکھتا اور بڑی بھیانک غلطیاں کرتا ہے۔
چنانچہ میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے والدین کے اختلاف پر بہت غور کریں۔ ان کے اس اختلاف کی کیا وجہ ہے ، یہ بات دوسرے لوگوں سے بھی سمجھیں۔ اسی نوعیت کی دوسری بہت سی شادیاں جو اس دنیا میں ہوئی ہیں، ان کے نتائج اور عواقب پر بھی غور کریں۔ اپنے آپ کو اور اس لڑکی کو دنیا کے دوسرے لوگوں سے بہت مختلف نہ سمجھیں اور کم از کم ایک دو سال اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
جبری نکاح
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: میرا نکاح جبراً میرے کزن کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ میں نے نکاح نامے پر دستخط بھی اپنے والد کے دباؤ سے کیے تھے، ورنہ میرا دل اس نکاح کے لیے بالکل راضی نہ تھا۔ پھر میرے شوہر سے میری اولاد بھی ہوئی، جو کہ بعد میں زندہ نہ رہ سکی۔ اب میں اپنے والدین کے گھر میں ہوں اور شدید گھٹی ہوئی زندگی بسر کر رہی ہیں، میں اپنے شوہر کے ساتھ کسی صورت میں بھی رہنا نہیں چاہتی اور میں اس سے خلع چاہتی ہوں، لیکن وہ مجھے خلع دینے پر تیار نہیں ہے۔
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا میرا یہ جبری نکاح جائز تھا؟ اور اب اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے
؟ (بنت حوا)

جواب: آپ کا نکاح یقیناً جبراً کیا گیا ہے، لیکن آپ نے چونکہ نکاح نامے پر (خواہ اپنی مرضی کے بغیر ہی سہی، بہرحال) دستخط کر دیے تھے اور اس کے بعد آپ بیوی کی حیثیت سے علانیہ طور پر اپنے شوہر کے گھر آ گئی تھیں، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کا نکاح واقع ہی نہیں ہوا۔ آپ کا نکاح صحیح شمار ہو گا، البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے ساتھ جبر کرنے والوں کو خدا کے سامنے جواب دینا ہو گا اور خدا بے انصاف نہیں ہے۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کسی طرح اپنے آپ کو شوہر کے ساتھ رہنے پر راضی کر سکتی ہیں تو ضرور کر لیں۔ آپ کے راضی ہو جانے سے ہو سکتا ہے کہ آپ کے حق میں اچھے حالات پیدا ہو جائیں ، لیکن اگر یہ چیز آپ کے لیے کسی صورت میں بھی ممکن نہیں تو پھر صبر کریں، خدا سے یہ دعا کریں کہ وہ آپ کے لیے کوئی راستہ نکالے۔ پورے وقار کے ساتھ اپنے ماں باپ کے گھر میں رہیں اور اپنے موقف پر سختی سے ڈٹی رہیں۔ میرا آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے والد کو راضی کریں اور عدالت میں خلع کے لیے مقدمہ کر دیں۔
آپ حوصلہ رکھیں اور خدا سے اپنے لیے دعا کریں اور اس کی مدد طلب کریں۔ جو حالات آپ نے بتائے ہیں، ان کے مطابق آپ پر صریحاً ظلم ہوا ہے، آپ واقعی مظلوم ہیں، لیکن آپ کسی انتقام کے بارے میں ہرگز نہ سوچیں، یہ کام خدا پر چھوڑ دیں۔ خدا کی لاٹھی بے آواز بھی ہوتی ہے اور بہت شدید بھی۔ ظالموں سے جیسا بدلہ خدا لیتا ہے، ویسا کوئی اور لے ہی نہیں سکتا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
زبردستی کا نکاح
Talib Mohsin

سوال: اگر کوئی باپ زبردستی اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے کردے تو کیا یہ نکاح ہو جاتا ہے، جبکہ بیٹی نے باپ کو اپنی مرضی بتا دی ہو۔ مزید یہ کہ اس نے اس لڑکے کو بھی حقیقت سے آگاہ کر دیا ہو اور اس کو اپنی یہ خواہش بھی بیان کر دی ہو کہ وہ خود ہی رشتہ ختم کردے تاکہ اسے زبردستی کا یہ نکاح قبول نہ کرنا پڑے؟ (علی عمار)

جواب: پہلی بات تو یہ واضح رہنی چاہیے کہ یہ ایک عدالتی معاملہ ہے۔ نکاح ہونے کے بعد خواہ لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہیں تھی، اب اس شخص کی منکوحہ ہے۔ اسے اگر یہ نکاح ختم کرانا ہے تو اسے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ کسی سوال کے جواب سے نکاح و طلاق کے معاملات پر فیصلہ کرنا انتہائی غیر دانش مندانہ ہے۔ اگر واضح طریقے سے اور قانونی تقاضوں کو پورا کر کے اس طرح کے معاملات میں فیصلہ نہ لیا جائے تو بعد میں پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں چونکہ خاندان کی ناموس بھی زیر بحث آجاتی ہے، اس لیے معاملے کی نزاکت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
نکاح کے بعد خواہ اس کے حالات کچھ بھی رہے ہوں، اگر لڑکی اس نکاح کو جاری رکھے گی تو یہ درست ہے اور اگر وہ اس نکاح کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسی دلیل کی بنیاد پر کہ اس کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کیا گیا ہے، وہ فیملی کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نکاح کے لیے لڑکی کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے، لیکن اگر اس کی مرضی کے بغیر نکاح ہو گیا ہے تو اس نکاح کو عدالت یا باقاعدہ مقرر شدہ ثالث کے علاوہ کوئی ختم نہیں کر سکتا۔

____________
 
Top