امن وسیم

محفلین
۔ صفحہ نمبر 6 کے موضوعات ۔

❔ اسلام میں موسیقی
❔ تصویر کا مسئلہ
❔ مشینی تصویر کشی
❔ مجسمہ سازی
❔ موسیقی، عقیقہ اور سنت
❔ اسلام میں عقیقہ کا حکم
❔ کتے کی موجودگی میں فرشتوں کا گھر میں نہ آنا
❔ سنت کی تعریف میں اختلاف
❔ نبی صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی قبر میں زندگی
❔ علم الاعداد
❔ اسوہ حسنہ سے مراد
❔ عیسائی بننے والے کی سزا
❔ مرتد کی سزا
❔ اسلام می ارتداد کی سزا
❔ رفع مسیح علیہ السلام
 

امن وسیم

محفلین
اسلام میں موسیقی
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا اسلام میں موسیقی حرام ہے؟ (عبد الرحمن میمن)

جواب: اسلام میں موسیقی حرام نہیں ہے، البتہ اگر موسیقی کے ساتھ کچھ حرام چیزیں (فواحش) شامل ہو جائیں تو پھر وہ حرام ہو گی۔ اسی طرح اگر موسیقی کی دھن ہی ایسی ہے کہ وہ انسان کے اندر سفلی جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے تو ایسی موسیقی بھی اپنی دھن کی شناعت کے درجے کے مطابق مکروہ یا حرام ہو گی۔
اگر معاملہ یہ ہے کہ نہ موسیقی کی دھن وغیرہ میں کوئی خرابی ہے اور نہ اس کے ساتھ کسی حرام چیز ہی کی آمیزش ہے تو پھر اس صورت میں موسیقی جائز ہو گی، لیکن اس جائز موسیقی کا بھی ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ اس میں زیادہ اشتغال انسان کے تزکیے کے عمل کو خراب کرتا اور اسے خدا سے غافل کرتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ موسیقی میں اشتغال کو اشتغال بالادنیٰ (کم تر درجے کی چیز میں مشغول ہونا) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
چنانچہ موسیقی جائز تو ہے، لیکن اس درج بالا ساری بات کے مطابق ہی موسیقی کے جواز کا مفہوم طے کرنا چاہیے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
تصویر کا مسئلہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا جان دار کی تصویر بنانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟ تصویر کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ (فضل کریم بھٹی)

جواب: تصویر کے بارے میں عمومی نقطۂ نظر، یعنی یہ کہ جان دار کی تصویر ناجائز اور بے جان کی جائز ہے، یہ درست نہیں ہے۔ صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر وہ تصویر ناجائز ہے ، جو کسی بھی درجے میں مظہر شرک ہے۔ یہی بات قرآن مجید کی واضح رہنمائی سے ہمارے سامنے آتی اور یہی احادیث صحیحہ سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے۔ صحابہ اور تابعین کا فہم بھی یہی حکم لگاتا اور اُن کا عمل بھی اسی کے مطابق دکھائی دیتا ہے ۔ یہی بات قدیم آسمانی مذاہب میں پائی جاتی ہے۔
قرآن و حدیث میں تصاویر پر جتنی تنقید بھی کی گئی ہے، وہ سب مشرکانہ تصاویر کے حوالے سے ہے۔ عام نوعیت کی تصاویر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ وہ تصاویر جن میں شرک کے علاوہ کوئی اور دینی یا اخلاقی خرابی پائی جاتی ہے، وہ بھی دینی طور پر بالکل ممنوع ہیں۔ لیکن تصویر پر بحیثیت تصویر، خواہ وہ جان دار کی ہو یا بے جان کی، دین کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ خدا کا دین تصویر بنانے کو صرف اور صرف اُس وقت ممنوع قرار دیتا ہے، جب اُس میں کوئی دینی یا اخلاقی خرابی پائی جاتی ہو۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مشینی تصویر کشی
Talib Mohsin

سوال: میرے نزدیک فوٹو گراف یا ٹی وی کوریج وہ تصویر نہیں ہے جسے اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ فوٹو گراف خدا کے بنائے ہوئے منظر کا صحیح عکس ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹی وی کوریج بھی خدا کے بنائے ہوئے مناظر کی حقیقی عکاسی ہوتی ہے۔ ہم خدا کے بنائے ہوئے منظر کا حقیقی عکس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ وڈیو ریکارڈنگ بھی یہی چیز ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کا عکس ہے جسے مشینوں پر محفوظ کیا جا رہا ہے۔ کیا میرا یہ خیال درست ہے؟ (ارشاد نسیم)

جواب: آپ کی توضیح سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک تصویر کی حرمت میں سبب خود سے کوئی چیز بنانا ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی چیز کا حقیقی عکس تیار کرنا چونکہ خود سے کوئی چیز تخلیق کرنا نہیں ہے، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ گویا آپ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن اپنی تصویروں کو زندہ کر کے دکھانے کے لیے کہا جائے گا تو اس سے آپ کی مراد یہی تھی کہ اصل جرم خود سے کوئی چیز تخلیق کرنا تھا جس پر اللہ تعالیٰ غصہ ظاہر کریں گے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو اسے زندہ کرنے کا حکم دے کر اس پر اس کے جرم کی شناعت واضح کریں گے۔ غرض یہ کہ فقہا کا یہ استنباط کہ زندہ چیز کی تصویر بنانا ممنوع ہے، آپ کے نزدیک صحیح استنباط نہیں ہے۔

دین کے احکام پر غور کرنے میں دو طریقے ہیں: جہاں نصوص ہوں وہاں نصوص کے معنی طے کیے جائیں اور ان میں جو علت بیان ہوئی ہے، اس کا اطلاق کیا جائے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو پھر دین کے مجموعی نظام میں رکھ کر دیکھا جائے کہ اس حکم کی حکمت کیا ہے۔ تصویر کے حوالے سے قرآن مجید میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی تماثیل کا ذکر ہوا ہے تو وہاں بھی اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ ہم اس کے جواز و عدم جواز کا کوئی اصول دریافت کر سکیں۔
البتہ، احادیث میں واضح الفاظ میں تصویر کی حرمت بیان ہوئی ہے۔ تمام احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ یہ روایات تصویروں کی ایک خاص نوعیت سے متعلق ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ان میں ان تصویروں کی حرمت بیان ہو رہی ہے جو پرستش کے لیے بنائی جاتی تھیں۔ عام تصویریں ان میں زیر بحث ہی نہیں ہیں۔
بطور اصول یہ بات واضح رکھیں کہ دین میں حرمت وحلت کا فیصلہ یا تو خدا کے تعلق کے حوالے سے ہو گا یا کسی اخلاقی اصول کے تحت ہوگا۔ کوئی تیسری چیز دین میں حلت و حرمت کا سبب نہیں ہے۔
آپ کا یہ خیال کہ کیمرہ اصل کی عکاسی کرتا ہے اور مصوروں کی تصویروں اور کیمرے کی تصویر میں یہ ایک اہم فرق ہے، اس لیے تصویر کی حرمت میں اسی کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ پرانے مصور بھی خدا کی بنائی ہوئی اشیا کی عکاسی بھی کرتے تھے اور اس میں اپنے احساس کو شامل کرتے ہوئے کچھ تغیر و تبدل بھی کرتے تھے۔ چنانچہ روایات سے یہ بات سامنے آنی چاہیے تھی کہ تصویر بنانے میں صرف اصل کی عکاسی کیا کرو، اس میں کوئی کمی بیشی جائز نہیں ہے۔
آخر میں قیامت کے دن زندہ کرنے کے حکم کی علت بھی واضح کردوں۔ مشرکین چونکہ ان تصاویر کو نافع و ضار مانتے تھے، اس لیے ان پر اتمام حجت کے لیے یہ کہا جائے گا کہ جن تصویروں اور بتوں کو تم حاضر و ناظر اور نافع و ضار مانتے تھے، ان کی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ محض تصویریں اور مورتیاں ہیں۔ اگر تمھارا دعویٰ سچا تھا تو اسے ثابت کر کے دکھاؤ۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مجسمہ سازی
Talib Mohsin

سوال: آج کل فنون لطیفہ میں بت تراشی، یعنی مجسمہ سازی کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ کیا شرعی لحاظ سے اس میں کوئی ممانعت ہے؟ (عارف جان)

جواب: تصویر سے متعلق ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کی حرمت شرک کے سد ذریعہ کے طور پر ہے۔ وہ تصویریں اس میں شامل نہیں ہیں جن میں مذہبی عقیدت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسی اصول کے تحت ایسے مجسمے بنانے میں بھی حرج نہیں ہے جو اس علت کے تحت نہیں آتے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
موسیقی، عقیقہ اور سنت
Talib Mohsin

سوال: ایک مرتبہ آپ نے عقیقہ کے متعلق کہا تھا کہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگوں نے سنت کی غلط تاویلات کی ہیں۔ کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ سنت کا لغوی مطلب کیا ہے اور سنت نبوی سے کیا مراد ہے؟ صرف قرآن ہی کے بتانے کو سنت مان لیا جائے تو پھر حدیث کا کیا فائدہ؟ آپ نے موسیقی کے بارے میں بھی کہا تھا کہ یہ کوئی برا عمل نہیں ہے، اگر اسے صحیح استعمال کیا جائے۔ ایک تو آپ نے موسیقی اور شاعری کو ایک ہی پیمانے میں ڈال دیا۔ پھر مجھے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے؟(طارق بن یامین)

جواب: پہلی بات تو میں یہ واضح کر دوں کہ آپ نے جن الفاظ میں ہمارا مدعا بیان کیا ہے، وہ ہمارے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔ بہرحال ان سے آپ کی الجھن سمجھ میں آتی ہے۔
سنت کے لغوی معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس کے معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ دینی طریقے کے ہیں۔

’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘(۱۴)


اس کے علاوہ قرآن کے ساتھ سنت کو بھی باقاعدہ ماخذ کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے:

’’اِس (دین) کے ماخذ کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:

۱۔ قرآن مجید
۲۔ سنت‘‘(میزان ۱۳)


ان اقتباسات سے بالکل واضح ہے کہ ہم صرف قرآن مجید ہی کو دین کا ماخذ نہیں سمجھتے ، بلکہ سنت سے بھی اسی طرح دین اخذ کرتے ہیں، جس طرح قرآن مجید سے کرتے ہیں۔ امید ہے ، ان اقتباسات سے آپ کایہ اشکال دور ہو گیا ہوگا۔
عقیقہ کے بارے میں یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے کہ یہ کوئی مستقل دینی حکم ہے یا نہیں۔ فقہ کی مشہور کتاب ’’بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد‘‘ میں فقہی آرا کا خلاصہ ان الفاظ میں منقول ہے:

’’ایک گروہ نے، جس میں ظاہری علما شامل ہیں، عقیقہ کو واجب قرار دیا ہے۔ جمہور نے اسے سنت کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے فرض مانتے ہیں نہ سنت۔ ایک قول ہے کہ اُن کے قول کا ماحصل ہے کہ یہ محض نفل ہے۔‘‘

(بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد، ابن رشد، ترجمہ: ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی۱۵۶۔۱۵۷)

ہماری راے امام ابوحنیفہ کے موافق ہے۔ ہم بھی اسے ایک نفلی قربانی سمجھتے ہیں۔
موسیقی کے حوالے سے آپ کا اشکال یہ ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موسیقی کی رائج صورتوں میں تو قباحت ہی قباحت نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گانوں کی شکل میں جو موسیقی ہر جگہ سنی اور سنائی جا رہی ہے، اسے قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک بھی اس طرح کی موسیقی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے، لیکن دین کے ایک عالم کو اصولی بات بھی بتانا پڑتی ہے۔ اصولاً موسیقی کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ موسیقی کے عمومی استعمال میں جو قباحت موجود ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اگر استعمال درست نہ ہو تو یہ گنا ہ ہے۔ جائز موسیقی کی بعض صورتیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں، جیسے جنگی اور ملی ترانے، حمدیہ اور نعتیہ کلام، اچھے مضامین کی حامل غزلیں اور نظمیں، جنھیں آلات موسیقی کے ساتھ اور فن موسیقی کے مطابق گایا جاتا ہے، موسیقی کے صحیح استعمال کی مثالیں ہیں۔
شاعری اور موسیقی دو الگ الگ فن ہیں، لیکن ان کو یکجا بھی پیش کیا جاتا ہے، اس لیے ان کا ذکر ایک ساتھ ہو جاتا ہے۔ ان میں ایک اور حوالے سے بھی مشابہت ہے۔ موسیقی کی طرح شاعری بھی ایک فن لطیف ہے۔ جس طرح شاعری میں اعلیٰ اور ادنیٰ، علمی، عاشقانہ اور سماجی معاملات نظم کیے جاتے ہیں، اسی طرح موسیقی بھی عمدہ اور کم تر مظاہر رکھتی ہے۔ جس طرح شاعری کی بعض صورتیں گناہ ہیں، اسی طرح موسیقی کی بعض صورتیں بھی گناہ ہیں۔ غرض یہ فنون لطیفہ تلوار کی طرح ہیں۔ استعمال کرنے والا چاہے تو اسے جہاد میں استعمال کر کے جنت خرید لے اور چاہے تو اسے کسی بے گناہ کو قتل کر کے جہنم واصل ہو۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اسلام میں عقیقہ کا حکم
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: عقیقہ فرض ہے یا سنت ہے؟ اور کیا بچے کی پیدایش کے بعد کچھ متعین دنوں کے اندر اندر ہی عقیقہ کرنا ضروری ہے؟ (اے ایم طارق)

جواب: عقیقے کی قربانی نفلی قربانی ہے۔ یہ ان سنن میں سے نہیں ہے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور شریعت اس امت میں جاری کیا ہے۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے جو بچے کی پیدایش پر قربانی کرنا چاہے ، وہ کر لے۔
اکثر علما کی راے کے مطابق عقیقے کا دن نومولود کا ساتواں دن ہے، لیکن یہ بات بھی لازم نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
کتے کی موجودگی میں فرشتے کا گھرمیں نہ آنا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: غامدی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہا کہ ایسی کوئی حدیث موجود ہی نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ’’جس گھر میں کتا ہو، اس میں خدا کے فرشتے داخل نہیں ہوتے‘‘، حالانکہ’’ مشکوٰۃ‘‘ میں اس مضمون کی درج ذیل حدیث موجود ہے:

’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی شخص ہو۔‘‘


براہ مہربانی صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت کر دیں۔ (شکیل احمد سید)


جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مضمون کی احادیث ہماری کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں، جیسا کہ آپ نے بھی بیان کر دی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کتوں کے بارے میں یہ بات تعمیم کے اسلوب میں نہیں مانی جا سکتی کہ جہاں کتے موجود ہوں، وہاں فرشتے نہیں آتے، کیونکہ قرآن مجید میں کتوں کے سدھائے جانے کا اور ان کے شکار کے جواز کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:

یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوْا مِمَّا اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ. (المائدہ۵: ۴)
’’وہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال ٹھہرایا گیا ہے۔کہو ،تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں۔ اور شکاری جانوروں میں سے جن کو تم نے سدھایا ہے، اس علم میں سے کچھ سکھا کر جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو تم ان کے اس شکار میں سے کھاؤ جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں اور ان (شکاری جانوروں) پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔‘‘


ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شکاری جانوروں خواہ وہ شکاری کتے ہوں یا باز اور عقاب وغیرہ، ان کا ذکر مثبت انداز میں کیا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ شکار کے مقصد سے کتے یا باز اور عقاب وغیرہ رکھنا، انھیں پالنا، انھیں سدھانا اور ان کے ذریعے سے شکار کرنا، خدا کے نزدیک نہ کوئی گناہ کا کام ہے اور نہ مکروہ کام، لہٰذاجن احادیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا موجود ہو، ان کا مطلب ،بہرحال ان آیات کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ جہاں شکار کے وہ کتے موجود ہوں جنھیں رکھنا، پالنا، سدھانا اور ان کے ذریعے سے شکار کرنا، نہ کوئی گناہ کا کام ہے اور نہ کوئی مکروہ کام، بلکہ ہمیں ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تم انھیں شکار کے لیے چھوڑو تو ان پر اللہ کا نام لے لیا کرو، وہاں اللہ کے فرشتے نہ آتے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتے کی موجودگی میں فرشتے کے گھر میں داخل نہ ہونے کا معاملہ ہر عام و خاص کتے کے حوالے سے نہیں ہے۔ یعنی ان احادیث میں کتے کا لفظ تعمیم کے اسلوب میں نہیں بولا گیا کہ اس سے ہر قسم کا کتا مراد لیا جا سکے۔
اس مسئلے کو بخاری و مسلم کی درج ذیل احادیث واضح کرتی ہیں۔ ارشاد نبوی ہے:

’’جو شخص مویشیوں یا کھیتی کی حفاظت کے علاوہ کتا پالتا ہے ، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری ، رقم ۳۳۲۴)

’’جس نے مویشیوں کی حفاظت، شکار کی غرض یا کھیتی کی حفاظت کے سوا کتا رکھا، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری ، رقم۲۳۲۲)

’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتوں یا کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کے سوا دوسرے کتوں کو مار دینے کا حکم دیا۔‘‘ (مسلم، رقم۱۵۷۱)


اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی حقیقی ضرورت کے لیے کتا پالنا اور رکھنا ممنوع نہیں ہے، البتہ خواہ مخواہ کتے پالنے کے شوق سے کتا رکھنا، اسلام کے نزدیک ممنوع ہے۔ اسی طرح آوارہ کتوں کو گھروں میں آنے دینا بھی درست نہیں ہو گا۔
چنانچہ جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویر، کتا یا جنبی آدمی ہو‘‘، اس میں ہمارے نزدیک کتے سے مراد آوارہ کتا ہے یا پھر وہ کتا جو محض کتے پالنے کے شوق سے رکھا گیا ہو۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
سنت کی تعریف میں اختلاف
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: سنت کی تعریف میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ لوگوں کی اکثریت کیوں سنت کی کلاسیکل تعریف ہی کی قائل ہے، جبکہ آپ کے نزدیک سنت کی تعریف اس سے مختلف ہے۔ (محمد علی سجاد خان)

جواب: پوری امت اس پر متفق ہے کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی طرف سے دین کے طور پر علم بھی دیا ہے اور عمل بھی، یہی علم و عمل صحابہ سے تابعین نے لیا اور پھر ان سے آگے یہ پوری امت میں پھیلا ہے، یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جب علما نے اس دین کو مدون کرنا شروع کیا تو اس وقت مختلف اصطلاحات کا مسئلہ پیدا ہوا، سنت کا لفظ بھی انھی اصطلاحات میں سے ایک ہے۔
بعض علما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے اعمال کو سنت کا نام دیا، بعض نے آپ کی احادیث کو سنت کا نام دیا۔ ہمارے نزدیک بطور اصطلاح سنت کے لفظ کو عملی تواتر سے ملنے والے ان دینی اعمال کے لیے بولا جانا چاہیے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں جاری کیا تھا، چنا نچہ اصطلاحاً انھی کوسنت قرار دینا چاہیے۔
سنت کا یہی لفظ ایک دوسری اصطلاح کے طور پر بھی بولا گیا ہے، یعنی بعض علما نے ان نوافل کو بھی سنت کہا ہے جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض کے بعد یا ان سے پہلے تطوعاً پڑھا ہے۔
اصطلاحاً سنت کا لفظ کس چیز پر بولنا چاہیے، اس میں محققین کی آرا مختلف ہو سکتی ہیں اور وہ مختلف ہیں۔
رہی یہ بات کہ انسانوں کی اکثریت سنت کی کلاسیکل تعریف ہی کی قائل کیوں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنت کا لفظ اپنے جن اصطلاحی معنوں میں ایک لمبے عرصے سے بولا جاتا رہا ہے، ظاہر ہے کہ لوگ اسی کے قائل ہوں گے۔ ہم نے سنت کو جن اصطلاحی معنوں میں بولا ہے، اگر امت کے نزدیک یہ زیادہ موزوں ہوا تو ان شاء اللہ وہ اسے قبول کر لے گی۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں زندگی
Talib Mohsin

سوال: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ والی قبر میں زندہ ماننا ضروری ہے۔ ایسا ماننا شرک ہے یا یہ ایک فروعی مسئلہ ہے؟ (پرویز قادر)

جواب: قرآن مجید میں شہدا کو زندہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ انبیا کو بھی وہی زندگی حاصل ہے۔ قرآن مجید نے اسی مقام پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس زندگی کا تمھیں شعور نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس زندگی کا ہمیں تجربہ ہے، وہ زندگی اس سے مختلف ہے۔ یہ زندگی عالم برزخ میں ہے، اس کا اس قبر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ قبر کا لفظ اسی عالم برزخ کی تعبیر کے لیے آجاتا ہے۔ اس پہلو سے قبر کا لفظ بھی بولا جا سکتا ہے۔
کسی مردہ کو حاضر و ناظر کے معنی میں زندہ ماننا، بے شک شرک ہے۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ مرنے والوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
علم الاعداد
Talib Mohsin

سوال: علم الاعداد توہم پرستی ہے یا حقیقت پر مبنی ہے؟ (محمد کامران مرزا)

جواب: یہ علوم کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے کہ انھیں سائنس قرار دیا جا سکے۔ یہ محض اندازوں اور اٹکل پر مبنی ہیں اور ان کے پیچھے مشرک معاشروں کی مائتھالوجی کے اثرات کار فرما ہیں۔ کسی شے میں ماوراے اسباب تاثیر ماننا جبت ہے۔ غیب کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس طرح کے علوم غیب دانی کے مدعی ہوتے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید کی نصوص کے خلاف ہے۔ اصلاً یہ لوگ شیاطین کا آلۂ کار بنتے ہیں۔ اس طرح کے علوم سے احتراز کرنا ہی محفوظ راستہ ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اسوۂ حسنہ سے مراد

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اسوۂ حسنہ قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دین پر عمل کرتے اور دین کے ساتھ وابستگی کے تقاضے کو پورا کرتے تھے تو اس میں کمال بندگی اور حسن تعمیل کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی پہلو سے ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
عیسائی بننے والے کی سزا
Talib Mohsin

سوال: اگر کوئی مسلمان عیسائی ہو جائے تو اس کی کیا سزا ہے؟ ہمارے ہاں افغانستان میں ایک مسلمان عیسائی ہو گیا ہے۔ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ اس کی سزا موت ہے؟ (عبد اللہ)


جواب: ارتداد کی سزا موت ہے، یہ بات بالکل درست ہے ، لیکن اس کا اطلاق صرف ایک خاص گروہ کے لیے تھا۔ اصل اصول یہ ہے کہ پیغمبر کے منکرین کے لیے سزاے موت طے ہے۔ اگر پیغمبر کے ساتھی تعداد میں کم ہوں تو پیغمبر کو بستی چھوڑنے کا حکم دے دیا جاتا ہے اورمنکرین پر آسمان سے موت کی سزا نافذ ہو جاتی ہے، لیکن اگر پیغمبر کے ساتھی مناسب تعداد میں ہوں تو یہ سزا ان کے ہاتھوں منکرین پر نافذ ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسرا طریقہ عمل میں آیا۔ ارتداد کی سزا اسی قانون کی فرع ہے۔ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی منکر رسول مسلمان ہو جانے کے بعد کفر اختیار کرے گا تو اسے وہی سزا دی جائے گی جو رسول کے منکر کے لیے مقرر ہے۔
ہمارے نزدیک، جیسا کہ میں نے جواب کے شروع میں لکھا ہے، ارتداد کی سزا مشرکین عرب میں سے مسلمان ہو جانے والوں کے لیے تھی۔ اس سزا کا بعد میں ہونے والے ارتداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب موت کی سزا صرف دو طرح کے مجرموں ہی کو دی جا سکتی ہے۔ ایک وہ جو محاربے یا بغاوت کے مجرم ہوں اور دوسرے وہ جنھیں قاتل ہونے کی بنا پر قصاص میں قتل کیا جائے۔ کوئی تیسرا جرم اسلامی شریعت میں ایسا نہیں ہے جس کی سزا موت ہو۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مرتد کی سزا
Talib Mohsin

سوال: مرتد کے لیے اسلام میں سزاے موت کیوں رکھی گئی ہے، جبکہ دوسرے مذاہب میں یہ سزا نہیں ہے؟ (عائشہ خان)

جواب: قرآن مجید میں بیان کی گئی سزاؤں میں مرتد کے لیے کوئی سزا بیان نہیں ہوئی۔ مزید براں سزاے موت بھی قرآن مجید میں صرف دو مجرموں کے لیے بیان ہوئی ہے: ایک قتل عمد کا مجرم اور دوسرے حرابہ کا مجرم۔
اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ قتل کی سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ مجرم یا قاتل ہو یا اس نے ریاست کے خلاف بغاوت کی ہو یا جرم کرتے ہوئے ریاست اور معاشرے کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہو۔
آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال پیدا ہو گیا ہوگا کہ پھر ارتداد کی سزا کا ماخذ کیا ہے؟ فقہا کے نزدیک ارتداد کی سزا کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی قتل کی سزا کے حوالے سے صریح آیت کے خلاف ایک نئی سزا بیان کی ہو۔
جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جرم پر بھی سزاے موت دی ہے۔ ہمارا اشارہ اس سزا کی طرف ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان مشرک قوموں کو دی ہے جن میں اس نے اپنے پیغمبر بھیجے اور انھوں نے حق پوری طرح واضح ہو جانے کے باوجود ان کو نہیں مانا۔ بالعموم یہ سزا کسی آسمانی آفت کی صورت میں نازل ہوتی رہی ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا ساتھ حاصل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرک منکرین کو یہ سزا ان صحابہ کے ہاتھوں سے دی جائے گی۔ چنانچہ آخری حج میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ مشرکین عرب حرام مہینوں کے گزرتے ہی قتال کر کے مار دیے جائیں گے۔ ان کے لیے اپنی جان بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ کفر سے توبہ کر کے دین اسلام کو اختیار کر لیں۔ ظاہر ہے ، ان کے بعض افراد یہ طریقہ اختیار کر سکتے تھے کہ وہ ایمان قبول کرنے کا اعلان کر دیں اور بعد میں کفر کی طرف لوٹ جائیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کر دیا کہ یہ اگر اپنا دین بدلیں تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ فقہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو قرآن کے اس حکم سے متعلق نہیں سمجھا اور وہ اسے ایک مستقل بالذات سزا مانتے ہیں، اس لیے وہ اب بھی ارتداد کی سزا موت ہی سمجھتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ سزا صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب مشرکین عرب کے لیے تھی۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اسلام میں ارتداد کی سزا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: اسلام میں ارتداد کی سزا قتل کیوں ہے؟ جبکہ دوسرے کسی مذہب میں ایسا نہیں ہے۔ (عائشہ خان)

جواب: کسی قوم میں جب کوئی رسول اتمام حجت کر دیتا ہے تو پھر اس کے لیے ایمان لانا لازم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ایمان نہیں لاتی تو پھر اس پر خدا کا عذاب آ جاتا ہے اور صرف وہی لوگ بچتے ہیں جو ایمان لائے ہوتے ہیں، جیسا کہ قوم نوح، قوم لوط، قوم صالح اور قوم ہود پر عذاب آئے تھے اور ان میں سے صرف صالح مسلمان ہی بچے تھے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔
ان قوموں میں سے اگر کوئی آدمی ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کو اختیار کر لے تو وہ پھر خدا کے عذاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں اس عذاب کی شکل یہ تھی کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔
چنانچہ ہمارے خیال میں مرتد کے لیے قتل کی سزا صرف رسول کے براہ راست مخاطبین تک ہی محدود تھی۔ آج اس کا اطلاق کرنا غلط ہو گا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
رفع مسیح علیہ السلام

سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی مسیح علیہ السلام آسمانوں میں چلے گئے تھے؟ یہ بات قرآن مجید کی کس آیت یا صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہے؟ (عظیم اقبال)

جواب: حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ اٹھا لیے جانے کا معاملہ قرآن مجید کی ایک آیت پر مبنی ہے۔ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ. (۳: ۵۵)

’’جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ، میں تمھیں وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور اہل کفر سے نجات دلا دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو تیرا کفر کرنے والوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ پھر تمھارا پلٹنا میری طرف ہے۔ اور میں ان امور میں تمھارے مابین فیصلہ سناؤں گا جن میں تم اختلاف کر رہے ہو۔‘‘

اس آیت میں ’مُتَوَفِّیْکَ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہم نے ’’میں تمھیں وفات دوں گا‘‘ کیے ہیں۔ اس لفظ کا معروف مطلب یہی ہے، لیکن یہ اردو کے لفظ انتقال کی طرح اصل میں موت کے معنی میں نہیں ہے۔ جس طرح انتقال کے اصل معنی منتقل ہونے کے ہیں، لیکن یہ جب کسی فرد کے حوالے سے بولا جائے گا تو اس کے معنی اس کے وفات پانے ہی کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’توفی‘ کا فعل پورا ہونا یا پورا لینا کے معنی میں آتا ہے، لیکن یہ انتقال ہی کی طرح جب کسی فرد کے حوالے سے بولا جائے گا تو اس کے معنی اس کے وفات پا جانے کے ہیں۔ لہٰذا ہمارے نزدیک اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے وفات پانے ہی کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی اس سے معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم مبارک کو بھی اوپر اٹھا لیا تھا۔
کتب حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی روایات نقل ہوئی ہیں۔ انھی روایات سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ آنے کے بعد ہی وفات پائیں گے۔ معروف کتب حدیث میں ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی جس میں صریح الفاظ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ اٹھا لیے جانے کا ذکر کیا گیا ہو۔ ’’طبری‘‘ میں محولہ بالا آیت کی شرح میں ایک روایت ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان نقل ہوا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور وہ تمھاری طرف دوبارہ آنے والے ہیں، لیکن ’’طبری‘‘ ہی میں مختلف تفسیری اقوال میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ ’مُتَوَفِّیْکَ‘، ’مُمِیْتُکَ‘ (میں تمھیں وفات دوں گا) کے معنی میں آیا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
لفظ کے معنی طے کرنے کا صحیح طریقہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: میرے خیال میں غلام احمد پرویز کی یہ بات درست ہے کہ :

’’اعجاز قرآن لفظوں کے انتخاب میں چھپا ہوا ہے، یعنی یہ کہ خدا نے اپنی بات کہنے کے لیے فلاں لفظ ہی کیوں منتخب کیا ہے اور اُس لفظ کا خاص پس منظر کیا ہے، چنانچہ جب اس پس منظر کے حوالے سے بات واضح کی جاتی ہے تو تفسیر کے اس طریقے سے ہمارے اوپر حکمت قرآن کے دروازے کھلتے ہیں۔‘‘


پرویز صاحب کے اس اتنے اچھے نقطۂ نظر پر آپ کی درج ذیل تنقید میری سمجھ میں نہیں آتی کہ:

’’کسی عربی لفظ کے مادے کی تحقیق کا تعلق علم لسانیات سے ہے، یہ ایک دلچسپ موضوع تو ہے، لیکن قرآن فہمی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘‘


جبکہ میرے خیال میں پرویز صاحب نے اپنے اسی طریقے سے سورۂ اخلاص کی جو تفسیر کی ہے، وہ طبیعت کو بہت متاثر کرتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ پرویز صاحب کے طریق تفسیر میں آخر کیا غلطی ہے اور اس طریقے سے دوسرے علما قرآن کی تفسیر کیوں نہیں کرتے اور وہ لوگوں کو اس طریقے سے کیوں نہیں سمجھاتے
؟ (جنید احمد)

جواب: ہمارا کہنا ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی سے اس کا مفہوم سمجھا جائے گا اور پرویز صاحب بھی قرآن کے الفاظ ہی سے اس کا فہم سمجھنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ یہ دونوں کی ضرورت ہے کہ وہ قرآن کے الفاظ کو سمجھیں اور جو کچھ ان الفاظ سے سامنے آئے، اسے بطور تفسیر قبول کریں۔ اس کے بعد یہ اصولی سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ کو سمجھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
پرویز صاحب کے نزدیک لفظ کے معنی سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ قرآن میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، اس کا مادہ کیا ہے اور اس مادے کے اصل معنی کیا ہیں ، کیونکہ وہ لفظ جس روپ میں بھی ہمارے سامنے آ رہا ہے، لازماً اپنے مادے ہی کے معنی کو یا اس کے کسی پھیلاؤ ہی کو ظاہر کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں کوئی لفظ کبھی اپنے مادے کے اصل معنی سے مختلف معنی میں استعمال ہی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مفسر قرآن الفاظ قرآن کے معنی ان کے مادے ہی کی تحقیق سے طے کرے۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس طرح آپ معنی کے اعتبار سے لفظ کی تاریخ سے تو واقف ہو سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ قرآن نے اسے کس معنی میں بولا ہے، کیونکہ قرآن نے تو اس لفظ کو اپنے مخاطبین کی لغت فصیحہ میں استعمال کیا ہے، تبھی تو مخاطبین کے لیے اسے سمجھنا اور اس سے متاثر ہونا ممکن ہوا ہے۔ قرآن مجید اپنے بارے میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں نازل ہوا ہے اور عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(الدخان ۴۴ :۵۸ )
’’پس ہم نے اس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔‘‘


نیز فرمایا:

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا. (مریم ۱۹: ۷ ۹ )
’’پس ہم نے اس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے تاکہ تم اس کے ذریعے سے اہل تقویٰ کو بشارت دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو اس کے ذریعے سے اچھی طرح خبردار کردو ۔‘‘


قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے ، وہ مکہ کی عربی معلّٰی ہے جو اس کے دور جاہلیت کی زبان تھی۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ وہی زبان ہے جو خدا کا پیغمبر بولتا تھا اور جو اس زمانے کے مکہ میں اس کی قوم قبیلۂ قریش کے لوگ بولتے تھے۔
اس لیے اس کتاب کا فہم اب اس زبان کے صحیح علم اور اس کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس میں تدبر اور اس کی شرح و تفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کا جید عالم اور اس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم سے کم اس کی زبان اس کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔
ہمارے نزدیک لفظ کے معنی سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ نزول قرآن کے زمانے میں اس کے براہ راست مخاطبین (قبیلۂ قریش) کے ہاں کن معنوں میں بولا جاتا تھا اور ان کے ہاں اس لفظ کے کیا کیا ’shade‘ پائے جاتے تھے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک یہ بات گمراہ کن ہو گی کہ ہم یہ دیکھنے لگ جائیں کہ لفظ اپنے مختلف زمانوں میں کس کس معنی میں بولا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مادہ کیا معنی رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات لفظ اپنے بنیادی معنی سے اٹھ کر اس سے بہت مختلف معنوں میں استعمال ہونے لگ جاتا ہے، لہٰذا یہ کہنا بہت غلط ہو گا کہ لفظ وقت کے ساتھ جس جس معنی میں بھی استعمال ہو، اس کے مادے کے اصل معنی لازماً اس میں مرکزی حیثیت سے موجود رہتے ہیں۔
یہ تو ان دونوں حضرات کے قرآن فہمی کے اصولوں کا فرق ہے۔ اس فرق کو ہمارا سمجھنا اور اس کے صحیح غلط کو طے کرنا ہماری علمی ضرورت ہے، لیکن اگر اس فرق کی تہ میں اترے بغیر ہم محض اس بنیاد پر کسی کے اصول تفسیر کے صحیح اور غلط ہونے کو طے کرتے ہیں کہ فلاں کی بات سے ہمارا دل جھوم اٹھا اور ہمارا ذہن مطمئن ہو گیا اور ہمیں وہ بہت صحیح لگتا ہے تو ہمارے یہ داخلی احساسات اور طبعی معیارات ہیں، جو علم و عقل کی دنیا میں زیادہ سے زیادہ ہمارے جاہل ہونے پر ہی دلالت کر سکتے ہیں۔
انسان کے دل کا کیا ہے، وہ تو بہت سے باطل فلسفوں پر بھی جھوم اٹھتا ہے، کروڑوں لوگ صدیوں سے تصوف پر کھڑے جھومتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں دل کا جھومنا اور (کسی فرد کے) ذہن کا مطمئن ہو جانا کوئی معیار نہیں ہے۔ اصل معیار اصول فہم کا درست ہونا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
توفی کے معنی
Talib Mohsin

سوال: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں ’مُتَوَفِّیْکَ‘ کا لفظ آیا ہے، اس کے حوالے سے میں آپ کی راے جاننا چاہتا ہوں۔ آپ اس کا ترجمہ باقی لوگوں سے مختلف کیوں کرتے ہیں؟ (عبد الستار کھوکھر)

جواب: قرآن مجید کی سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(۳: ۵۵)

استاد محترم نے اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:

’’اُس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، فروری ۲۰۰۵ء، ۱۰۔۱۱)

سوال کے حوالے سے آیت کے متعلقہ حصے کے معنی واضح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’یعنی روح قبض کر کے تیرا جسم بھی اپنی طرف اٹھا لوں گا تا کہ یہ ظالم اس کی توہین نہ کر سکیں۔ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک ان کا مشن پورا نہ ہوجائے، ان کے دشمن ہرگز ان کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اسی طرح ان کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتے اور جو لوگ اس کے درپے ہوں، انھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً ان کی دستبرد سے محفوظ کر دیتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، فروری ۲۰۰۵ء، ۱۰)

یہاں سوال یہ ہے کہ توفی اور رفع سے کیا مراد ہے۔ رفع سے مراد آپ علیہ السلام کے جسم کو اوپر اٹھانا ہے۔ اس میں عام طور پر مفسرین کا اتفاق ہے۔ توفی کے بارے میں ابن جریر نے درج ذیل آرا نقل کی ہیں:

نیند طاری کر دینا مراد ہے اور اسی نیند کی حالت میں اوپر اٹھا لیا گیا۔
قبض کر لینا معنی ہیں، لیکن اس سے موت مراد نہیں ہے۔ یہ اس معنی میں ہے، جیسے زمین سے کوئی چیز ہاتھ میں پکڑ کر اٹھا لیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی راے میں توفی اور رفع مترادف استعمال ہوئے ہیں۔
ابن عباس کی راے انھوں نے یہ نقل کی ہے کہ ’مُتَوَفِّیْکَ‘ کے معنی ’مُمِیْتُکَ‘ کے ہیں۔ یہ وہی ترجمہ ہے جو استاد محترم نے کیا ہے۔
بعض کی راے یہ ہے کہ یہ وفات تین ساعت کے لیے ہوئی تھی اور بعض کی راے میں سات ساعت کے لیے وفات ہوئی تھی اور اس کے بعد زندہ کرکے آپ کو اوپر اٹھا لیا گیا تھا۔
کچھ لوگوں کی راے یہ ہے کہ ’مُتَوَفِّیْکَ‘ کا عمل حضرت عیسیٰ کے دنیا میں دوبارہ آنے کے بعد ہو گا۔ ابھی رفع کا عمل ہوا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس آیت کے ایک ہی معنی کیے گئے ہیں۔ قدیم سے اس کے بارے میں مختلف آرا رہی ہیں۔ ابن جریر تیسری صدی ہجری کے مصنف ہیں۔ ان کے زمانے میں علما یہ سب معنی بیان کر رہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ قبول عام قبض کر لینے کے معنی کو حاصل ہوا ہے۔
توفی کا لفظ اردو کے لفظ انتقال کی طرح فرد کے لیے وفات دینے ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کی مختلف توجیہات کرنی پڑی ہیں۔ ان توجیہات کی ضرورت صرف اس لیے پیش آرہی ہے کہ حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی خبر بعض روایات میں دی گئی ہے۔
کسی آیت اور کسی روایت میں صریح الفاظ میں حضرت مسیح کے زندہ اٹھا لیے جانے کا ذکر نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
مرتد کی سزا
Talib Mohsin

سوال: مرتد کے لیے اسلام میں سزاے موت کیوں رکھی گئی ہے، جبکہ دوسرے مذاہب میں یہ سزا نہیں ہے؟ (عائشہ خان)

جواب: قرآن مجید میں بیان کی گئی سزاؤں میں مرتد کے لیے کوئی سزا بیان نہیں ہوئی۔ مزید براں سزاے موت بھی قرآن مجید میں صرف دو مجرموں کے لیے بیان ہوئی ہے: ایک قتل عمد کا مجرم اور دوسرے حرابہ کا مجرم۔
اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ قتل کی سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ مجرم یا قاتل ہو یا اس نے ریاست کے خلاف بغاوت کی ہو یا جرم کرتے ہوئے ریاست اور معاشرے کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہو۔
آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال پیدا ہو گیا ہوگا کہ پھر ارتداد کی سزا کا ماخذ کیا ہے؟ فقہا کے نزدیک ارتداد کی سزا کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی قتل کی سزا کے حوالے سے صریح آیت کے خلاف ایک نئی سزا بیان کی ہو۔
جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جرم پر بھی سزاے موت دی ہے۔ ہمارا اشارہ اس سزا کی طرف ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان مشرک قوموں کو دی ہے جن میں اس نے اپنے پیغمبر بھیجے اور انھوں نے حق پوری طرح واضح ہو جانے کے باوجود ان کو نہیں مانا۔ بالعموم یہ سزا کسی آسمانی آفت کی صورت میں نازل ہوتی رہی ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا ساتھ حاصل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرک منکرین کو یہ سزا ان صحابہ کے ہاتھوں سے دی جائے گی۔ چنانچہ آخری حج میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ مشرکین عرب حرام مہینوں کے گزرتے ہی قتال کر کے مار دیے جائیں گے۔ ان کے لیے اپنی جان بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ کفر سے توبہ کر کے دین اسلام کو اختیار کر لیں۔ ظاہر ہے ، ان کے بعض افراد یہ طریقہ اختیار کر سکتے تھے کہ وہ ایمان قبول کرنے کا اعلان کر دیں اور بعد میں کفر کی طرف لوٹ جائیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کر دیا کہ یہ اگر اپنا دین بدلیں تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ فقہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو قرآن کے اس حکم سے متعلق نہیں سمجھا اور وہ اسے ایک مستقل بالذات سزا مانتے ہیں، اس لیے وہ اب بھی ارتداد کی سزا موت ہی سمجھتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ سزا صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب مشرکین عرب کے لیے تھی۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی
Talib Mohsin

سوال: حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں، اگر وہ وفات پاچکے ہیں تو ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر زندہ ہیں تو کب آسمان سے اتریں گے؟ (عرفان)

جواب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے یا نہ آنے کا معاملہ ان کی زندگی سے مشروط نہیں ہے۔ جو قادر مطلق انھیں ایک بار زندگی دے سکتا ہے، وہ انھیں دوبارہ بھی زندگی دے سکتا ہے۔ جس نے انھیں بغیر باپ کے پیدا کیا تھا، کیا یہ اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ انھیں دوبارہ زندگی دے کر زمین پر بھیج دے؟ اس لیے ان کے آنے کو اس حقیقت سے مجرد ہو کر دیکھنا چاہیے کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں۔ وہ زندگی تو انھیں، بہرحال حاصل ہے جو شہدا کی زندگی ہے۔
پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ قرآن مجید میں صریح الفاظ تو کیا ضمنی پہلو سے بھی کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے برعکس دو مقامات ایسے ہیں جہاں ان کے دوبارہ آنے کا ذکر ہونا چاہیے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہاں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے۔
سورۂ مائدہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک مکالمہ منقول ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے بیچ قیامت کے دن ہو گا۔ اس میں ان سے سوال کیا گیا ہے کہ اے عیسیٰ ابن مریم، کیا تم نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ۔ اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: تو اس سے پاک ہے ، میرے لیے کس طرح موزوں ہے کہ میں وہ بات کہوں جو ناحق ہے۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کے علم میں ہوتا۔ آپ تو میرے دل کی بات سے واقف ہیں۔ میں اس سے واقف نہیں جو آپ کے دل میں ہے۔ بے شک آپ تو تمام پوشیدہ باتوں کے جاننے والے ہیں۔ میں نے تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا حکم مجھے آپ نے دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ جب تک میں ان کے بیچ میں تھا تو ان پر گواہ تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو آپ ہی ان پر نگران تھے۔ اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔ (۵: ۱۱۶۔ ۱۱۷)

اس مکالمے میں اس بات کا پورا موقع تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دوبارہ آنے اور اس باطل عقیدے کی بھر پور تردید کرنے کا ذکر کرتے۔ مزید براں اس مکالمے میں یہ بات مضمر ہے کہ حضرت عیسیٰ اس باطل عقیدے کے پیدا ہونے سے واقف نہیں ہیں۔ اگر وہ اس دنیا میں آئے ہوتے تو ایسے جملے نہ بولتے جن سے ان کی عدم واقفیت جھلکتی ہو۔

دوسرا موقع وہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ اب ان کی وفات کا وقت آ گیا ہے اور غلبہ اب ان کے ماننے والوں کو حاصل ہو گا اور ان کے ماننے والے قیامت تک یہود پر فائق رہیں گے۔ ( آل عمران ۳: ۵۵)
جب پیشین گوئی کو قیامت تک کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا تو یہاں یہ بات بیان نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تمھیں میں دوبارہ دنیا میں بھیجوں گا اور تم اس غلبے کا مشاہدہ بھی کرو گے اور ایک بار پھر ان پر حجت تمام کرو گے۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ قرآن کے مطابق نہیں ہے۔

____________
 
Top