امن وسیم

محفلین
صفحہ نمبر 8 کے موضوعات

⭕ نظر بد
⭕ قرآنی اعمال
⭕ تعویز
⭕ وظیفے اور تعویز
⭕ دنیاوی فائدے کیلیے وظیفہ
⭕ نبی صلی ٱللَّه علیہ وسلم اور عملیات
⭕ بد شگونی اور طبی امراض
⭕ علم نجوم
⭕ علم نجوم سے استفادہ
⭕ اسلام میں تقدیر کا تصور
⭕ تقدیر اور جرم
⭕ رزق اور تقدیر
⭕ مرفوع احادیث میں شرک
تین طلاق، ہدہد، اور نملہ
⭕ قبر کو نمایاں صورت میں بنانا
⭕ قبرستان کے گرد دیوار
⭕ مزار پر دعا
 

امن وسیم

محفلین
نظر بد
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: نظر بد کی کیا حقیقت ہے؟ لوگ اس کے علاج کے لیے سرخ مرچوں کو جلا کر مریض کو سنگھاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ (سائرہ ناہید)

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ان العین حق‘، ’’بے شک نظر کا لگ جانا سچ ہے۔‘‘ (بخاری، رقم ۵۷۴۰ ،۵۹۴۴؛ مسلم، رقم ۲۱۸۷ ، ۲۱۸۸)
نظر بد کیا چیز ہے؟
یہ غالباً بعض کیفیتوں میں انسان کی آنکھ سے نکلنے والے وہ اثرات ہیں جو دوسرے شخص پر خدا کے اذن سے اثر انداز ہوتے اور اسے بیمار وغیرہ کر دیتے ہیں۔ ان اثرات کا معاملہ بالکل وہی ہے جو عام انسانی اقدامات کا معاملہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک آدمی (خدا کے قانون کے تحت) دوسرے کو پتھر مار کر زخمی کر سکتا ہے، اسی طرح بعض لوگوں کی نظر بھی خدا ہی کے اذن سے دوسرے پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ نظر مؤثر بالذات ہرگز نہیں ہوتی جو کچھ ہوتا ہے ،خدا کے قانون ہی کے تحت ہوتا ہے۔
نظر اگر لگ گئی ہو تو اس کو اتارنے کے لیے لوگوں نے مختلف حل تلاش کیے ہیں، سرخ مرچوں کو جلا کر سنگھانا، انھی میں سے ایک ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر اتارنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس آدمی کی نظر لگی تھی، اس کے وضو کا مستعمل پانی نظر کے مریض پر ڈالا۔
ہمارا خیال ہے کہ نظر بد کے اثرات جو کہ شاید نفسیاتی ہوتے ہیں یا کسی اور طرح کے غیر مادی اثرات ہوتے ہیں ، انھیں دور کرنے کے لیے یہ طریقے لوگوں نے اپنے تجربات سے ایجاد کیے ہیں، ان میں اگر کوئی مشرکانہ بات نہ ہو تو انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔
جس طرح عام بیماری میں ہم خدا سے شفا کے طالب ہوتے ہیں، کیونکہ شفا اسی کی طرف سے ملتی ہے، اسی طرح نظر بد سے شفا کے معاملے میں بھی دوا کے ساتھ اللہ ہی کی پناہ پکڑی جائے گی اور اسی سے دعا کی جائے گی۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
قرآنی اعمال
Talib Mohsin

سوال: روز مرہ کی بیماریوں کے علاج کے لیے قرآنی آیات کا استعمال درست ہے؟ (شہزاد عاصم)

جواب: قرآن کتاب ہدایت ہے۔ اس کی آیات اس لیے نازل ہوئی تھیں کہ ہم ان سے خدا کی ناراضی سے بچنے اور خدا کی رضا حاصل کرنے کا طریقہ جانیں۔ یہ آیات اس لیے نازل نہیں ہوئی تھیں کہ ان سے جسمانی بیماریوں کے علاج کا کام لیا جائے۔
یہ فن کبھی بھی سائنس نہیں بن سکا۔ یہ محض اندازوں اور توہمات پر قائم ایک نظام ہے جس کی کوئی تائید قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے نہیں ملتی، ان سے گریز بہتر ہے، خواہ اس کی بعض صورتیں دین کی رو سے غلط قرار نہ دی جا سکتی ہوں۔ البتہ قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعاؤں کو پڑھ کر اپنے اوپر یا کسی دوسرے کے اوپر پھونک مارنا درست ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ معوذتین (سورۂ فلق اور سورۂ ناس ) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکا کرتے تھے۔ معوذتین دعائیں ہیں۔ دعا خدا سے کی جاتی ہے۔ یہ کسی آیت کی زیربحث معنی میں کوئی تاثیر ماننا نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
تعویذ
Talib Mohsin

سوال: ہمارے معاشرے میں تعویذ کا رواج عام ہو چکا ہے۔ کیا یہ کوئی دینی نوعیت کی چیز ہے یا کسی چیز کا علامتی اظہار ہے؟ کیا اس کے پہننے سے بیماریاں دور ہو سکتیں اور بگڑے ہوئے کام درست ہو سکتے ہیں؟ (محمد کامران مرزا)

جواب: تعویذ اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیات و کلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے، یعنی قرآن و حدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آیات و کلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں ، وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں، لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانب دارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں، لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔
مزید دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں: ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویذ یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے، لیکن اس سے تعویذ کا تصور نہیں نکالا جا سکتا، اس لیے کہ تعویذ کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
وظیفے اور تعویذ
Talib Mohsin

سوال: قرآن مجید کی آیت ہے کہ جب تم پر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز اور صبر سے کام لو۔ اس کے بجاے ہم پریشانی یا مصیبت سے حفاظت کے لیے تعویذوں یا وظیفوں کا سہارا لیتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ (بسمہ عارف)

جواب: آپ نے جو بات قرآن مجید کے حوالے سے بیان کی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ قرآن مجید میں نماز اور صبر سے مدد لینے کی تلقین دین پر عمل کرنے اور دین کے تقاضے پورے کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان کے حوالے سے کی گئی ہے۔ البتہ آپ یہ کہہ سکتی ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں بھی مصائب کا مقابلہ کرنے کے لیے خدا کی طرف پلٹنے اور اس کے حضور دعا کرنے کے سوا کوئی تدبیر نہیں بتائی گئی۔ قرآن مجید میں یہ بات واضح طور پر بتائی گئی ہے کہ ہر مصیبت اللہ کے اذن سے آتی ہے، اس لیے ایک بندۂ مومن کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ عملی تدبیر کرے اور اس کی کامیابی کے لیے صرف اور صرف اللہ سے دعا پر بھروسا کرے۔
تعویذ اور وظیفے کرنے کی تعلیم نہ قرآن مجید میں کہیں دی گئی ہے اور نہ صحیح احادیث میں ایسی کوئی تعلیم ہمیں ملتی ہے۔ صحیح تدبیر اور دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کا طریقہ ہے۔ تعویذ اور وظیفے بعد کی پیداوار ہیں اور یہ نہ دینی اعتبار سے کوئی صحیح طریقہ ہیں اور نہ دنیوی اعتبار سے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
دنیوی فائدے کے لیے وظیفہ
Talib Mohsin

سوال: روحانیت اور تصوف کی دنیا میں بالخصوص اور روایتی مذہبی طبقہ میں بالعموم بہت سے وظائف رائج ہیں۔ یہ طے ہے کہ یہ دین کا حصہ نہیں ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے اسماے گرامی اور آیات قرآنی ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مختلف مسائل کے لیے مخصوص طریق کار اور تعداد میں پڑھنے سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ فلاح انسانی سے یقیناً اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ اگر فلاح انسانی کے لیے وظائف، درود شریف اور قرآنی آیات سے یہ فائدہ اٹھایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ (خالد عزیز چودھری)

جواب: قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل، دونوں اسما و آیات کی اس نوع کے استعمال سے بالکل خالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف مسائل و مشکلات میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممکنہ تدبیر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا مانگی ہے۔ بعینہٖ یہی رویہ ہمیں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کا نظر آتا ہے۔ تعویذ سے متعلق روایات عام طور پر سند کے اعتبار سے کمزور روایات ہیں۔ دین کے محکمات میں ان کی کوئی تائید نہ ہونے کی وجہ سے یہ اور کمزور ہو جاتی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور قرآن مجید کا تعلیم کیا ہوا طریقہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کر دیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ وظائف میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں تو اس کا کوئی جواب ہمیں قرآن مجید یا صحیح احادیث میں نہیں ملتا۔ فیصلے کی بنیاد صرف مشاہدہ اور تجربہ ہی رہ گیا ہے۔ میرے علم کی حد تک فائدہ پہنچنے کی روایات بہت سی ہیں، لیکن اس فن کو اس طرح مرتب نہیں کیا گیا کہ کوئی حتمی بات نہ سہی، اعتماد ہی کا اظہار کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم میں اس نوع کے فن کو جاننے والے پائے جاتے ہیں، لیکن اس فن کو کبھی قابل اعتماد تدبیر کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا۔
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وظائف کا یہ استعمال دینی اعتبار سے غلط ہے، لیکن اس کی سفارش بھی نہیں کرتے۔ یہ ایک خطرناک وادی ہے، اسی سے جبت اور توہم پرستی کی راہیں نکلتی ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں دینی نقصان ہے۔ پھر یہ بعض اوقات صحیح تدبیر اور خدا پر اعتماد کا متبادل بن جاتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ دنیوی نقصان کا باعث ہو سکتے ہیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملیات کا ثبوت

سوال: عملیات استشہادیہ کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ کیا قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں وہ جائز ہیں یا نہیں؟ کیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام اور اسلاف کے عمل کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں؟ اگر ملتی ہے تو وہ کیا ہے؟ (وحدت یار)

جواب: عملیات استشہادیہ سے آپ کی مراد غالباً حاضرات وغیرہ ہے ۔ اس طرح کے کسی عمل کا کوئی ذکر قرآن و حدیث میں ہے اور نہ صحابہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اس طرح کی کسی چیز کا ذکر ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں، البتہ یہ معلوم ہے کہ آپ معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ آپ کے اس عمل کی روشنی میں کوئی دعا پڑھ کر اپنے یا کسی دوسرے کے جسم پر پھونک ماری جا سکتی ہے۔ تعویذ وغیرہ کا سلسلہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے بعد کے زمانے ہی میں شروع ہوا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ بدشگونی اور طبی امراض

*سوال* : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وبائی امراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہامہ ، بیماری لگنا اور شگونِ بد کوئی چیز نہیں ہے ۔‘‘
جبکہ جدید دور میں میڈیکل سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ آپ نے ایک شخص کو دوسرے مریض شخص سے دو فٹ کے فاصلے سے بات چیت کرنے کی ہدایت کی ۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ بالا حدیث کی نفی ہوتی ہے ۔ اس بارے میں وضاحت کر دیجیے ۔


*جواب* : یہ دونوں روایتیں الگ الگ موقع کی ہیں ۔ پہلی روایت میں بدشگونی کی مختلف شکلوں یعنی ’طیرۃ ‘، ’ھامۃ‘ اور ’صفر‘ پر ’عدوی‘ کے عطف سے واضح ہے کہ معاملہ توہم پرستی کی تغلیط کا ہے ۔ ہماری اس بات کی تائید مفصل روایت کے مطالعے سے ہو جاتی ہے:

(ابو داؤد ،کتاب الطب ،باب۳۵)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری کا متعدی ہونا ، بدشگونی ،پیٹ کے سانپ(۱) اور پرندے یا الو (۲) کے گرنے کی کوئی حقیقت نہیں ۔ آپ کی یہ بات سن کر ایک بدو نے پوچھا : ان اونٹوں کا کیا معاملہ ہے جو صحرا میں بھلے چنگے ہوتے ہیں، گویا کہ وہ ہرنوں کی طرح (چاک و چوبند) ہیں۔ پھر ان میں ایک بیمار اونٹ آ ملتا ہے جو انھیں بیمار کر دیتا ہے۔ آپ نے پوچھا : پہلے کو کس نے بیمار کیا تھا۔‘‘

اس روایت میں بیان کی گئی تمام مثالیں عربوں کے توہمات سے متعلق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید کی ہے ۔ اسی طرح بیماری کے متعدی ہونے کے ساتھ توہم کا وابستہ ہونا بھی شرک کا راستہ کھولتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی ساتھ شامل کر لیا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ پوچھنا کہ ’’پہلے کو کس نے بیمار کیا۔‘‘ درحقیقت خدا کے فیصلے اور اذن کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے ۔
آپ نے جس دوسری روایت کا ذکر کیا ہے ، اس کا تعلق احتیاطی تدبیر سے ہے ۔ اور دنیوی اعتبارسے مناسب تدابیر اختیار کرنا بھی دین کے مطابق ہے ، البتہ تدابیر اختیار کرتے ہوئے یہ واضح رہنا چاہیے کہ کوئی تدبیر اللہ تعالیٰ کے اذن و توفیق کے بغیر موثر نہیں ہوتی ۔
_________________________
۱ ؂ عربوں کا خیال تھا کہ بھوک کی شدت میں پیٹ کی اینٹھن کا باعث ایک سانپ ہے۔
۲ ؂ زمانہء جاہلیت کے عربوں کے نزدیک الو کے گھر میں اترنے سے مصیبتیں آتی ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
❓ علم نجوم
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: علم نجوم (ستاروں کے علم) سے قسمت کا حال معلوم کرنا اسلام میں کیوں جائز نہیں؟ جبکہ آج کل اسے ایک سائنس ہی سمجھا جاتا ہے، اگر موسم کا حال جاننا جائز ہے تو علم نجوم سے اپنا حال معلوم کرنا کیوں جائزنہیں؟ (عائشہ خان)

جواب: علم نجوم کوئی سائنس نہیں ہے۔ اگر نجوم کا علم واقعی ایک سائنس قرار پا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو براہ راست مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے یہ یقینی خبر مل گئی ہے کہ آیندہ ہونے والے واقعات ستاروں کی مختلف گردشوں کے ذریعے سے ظاہر کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم براہ راست تجربے اور مشاہدے سے یہ جانتے ہیں کہ غلے کے اگنے میں بارش یا پانی ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ پھر اس صورت میں علم نجوم کو ایک سائنس قرار دیا جائے گا ۔
ابھی تک اس علم کا سائنس ہونا اپنے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا اور روایات میں بھی اس علم کے حق ہونے کے بارے میں کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہی ہے۔ اس کے اندر یا تو کوئی اصول اور قانون نہیں پایا جاتا یا پھر انسان ابھی تک اسے دریافت نہیں کر سکا۔ چنانچہ اس وقت انسان اسے نہ سائنس کے طور پرقبول کر سکتا ہے اور نہ کسی مذہبی خبر کی بنا پر، لہٰذا اس علم سے بچنا ہی چاہیے، کیونکہ یہ انسان کو شدید قسم کے وہموں میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ ستاروں کو موثر بالذات سمجھنے لگتا اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ان کے بارے میں غیر مذہبی اور غیر سائنسی (غیر علمی) بنیادوں، یعنی اوہام کی بنا پر کچھ صفات کا قائل ہو جاتا ہے اور یوں وہ ’افتراء علی اللّٰہ‘ (خدا پر جھوٹ باندھنے) کا مجرم بنتا ہے۔
جہاں تک موسم کے بارے میں پیش گوئیوں کا تعلق ہے تو وہ خالصتاً مادی حالات کے سائنسی مشاہدہ کی بنا پر کی جاتی ہیں، جبکہ علم نجوم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ علم نجوم سے استفادہ
Talib Mohsin

سوال: کسی نجومی سے مشورہ کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ اسی طرح کی پیشین گوئی ہے ، جس طرح طوفان ، زلزلے اور بارش وغیرہ کی پیشین گوئی کی جاتی ہے۔ میرا ایک ذاتی تجربہ ہے۔ مجھے کسی نجومی نے بتایا تھا کہ فلاں وقت ملک سے باہر جانے کا امکان ہے، ایسا ہی ہوا۔ مجھے فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اس کے لیے مناسب تیاری کر رکھی تھی۔ اگر نجومیوں سے اس نوع کا فائدہ اٹھایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ (رفعت سبحان)

جواب: اس طرح کے تمام علوم مشرکانہ معاشروں کی باقیات میں سے ہیں۔ قرآن مجید میں ایمان بالجبت سے منع کیا گیا ہے اور اس علم کے ڈانڈے اس چیز سے بھی ملتے ہیں۔ صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آپ عقل اور تجربے کی روشنی میں تدبیر کریں اور پھر اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس تدبیر کی کامیابی کی دعا کریں۔ اس طرح کے فنون کے ماہرین اصلاً شیاطین کے آلۂ کار ہوتے ہیں، خواہ انھیں یہ بات معلوم ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کی چیزوں کی طرف رغبت ایمان کے نقصان پر منتج ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔
میں نے اس فن کو جبت سے متعلق قرار دیا ہے۔ جبت پر ایمان کی مذمت سورۂ نساء (۴) کی آیت ۵۱ میں کی گئی ہے،

’’’جبت‘ سے مراد اعمال سفلیہ، مثلاً سحر، شعبدہ، ٹونے ٹوٹکے، رمل جفر، فال گیری، نجوم، آگ پر چلنا اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں۔ ہاتھ کی لکیروں کا علم بھی اسی میں شامل ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۳۱۲)

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ اسلام میں تقدیر کا تصور
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: اسلام میں تقدیر، مقدر اور قسمت کا کیا تصور ہے؟ بے شک ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی تقدیر کو بدل سکتے ہیں؟ (عائشہ خان)

جواب: تقدیر ،مقدر اور قسمت یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ ان سے مراد انسان کے بارے میں خدا کے فیصلے ہیں۔ خدا کے بعض فیصلوں میں انسان مجبور ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ کہاں پیدا ہو گا، اس کے ماں باپ کون ہوں گے، اسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ، وغیرہ۔ البتہ خدا کے بعض فیصلوں میں وہ اپنے افعال و اعمال کا ارادہ کرنے کی حد تک آزاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور اسے ان پر نیکی یا بدی ملتی ہے۔
تقدیر کو اس طرح بیان کرنا کہ ’’ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے‘‘ یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ شاید ہم مجبور محض ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہم بے جان پتلیاں ہیں جنھیں خدا جس طرح چاہتا ہے، نچاتا ہے۔ وہی ہم میں سے کسی کو جبراً قاتل بناتا ہے اور کسی کو جبراً مقتول، وہی کسی کو جبراً نیک بناتا ہے اور کسی کو جبراً بد۔ چنانچہ پھر اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہونے والے جرائم اور اچھے اعمال کا ذمہ دار صرف خدا ہے، انسان تو معصوم ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم جو اعمال بھی سر انجام دیتے ہیں، خدا کی اجازت کے ساتھ اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس لیے صالح کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے مطابق استعمال کرتے ہوئے، نیک کام کیا ہوتا ہے اور اس لیے مجرم کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے خلاف استعمال کر کے برا کام کیا ہوتا ہے۔
البتہ، اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا خدا مستقبل کو جانتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہاں بالکل اسے آیندہ ہونے والے سارے واقعات اور حالات کا پتا ہے، کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، وہ زمانے کے وجود میں آنے سے پہلے اسے پوری تفصیلات کے ساتھ جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آیندہ ہونے والے واقعات خدا کے جبر سے بالکل اسی طرح وجود پذیر ہوتے ہیں، جیسے اس کا علم ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب ہو گا کہ نہیں، بلکہ جن چیزوں کو وہ جبراً ایک خاص طریقے پر کرنا چاہتا ہے، صرف انھیں وہ جبراً کرتا ہے اور جنھیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتا ہے، وہ اسی کے اذن سے، اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ البتہ خدا کا علم دونوں کے بارے میں غلطی سے پاک ہوتا ہے۔
جن مواقع کے حوالے سے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے جس چیز کو طلب کرے گا، وہ اسے دے دی جائے گی، ان مواقع پر انسان کی تدبیر ہی سے اس کی تقدیر بنتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ تقدیر اور جرم
Talib Mohsin

سوال: مقدر کیا ہے؟ اسلام میں قسمت کا کیا تصور ہے؟ میرا عقیدہ ہے کہ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دیتا ہے۔ ہم اس کے پلان کے مطابق متحرک ہوتے ہیں۔ جب ایک آدمی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ کیا ہمیں اپنے مقدر پر قابو حاصل ہے؟ (عائشہ خان)

جواب: مقدر اور قسمت کے الفاظ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں۔ ہم جب اللہ کے علم، قدرت اور اقتدار کے محیط ہونے کا شعور حاصل کرتے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز طے شدہ ہے۔ ہمارے لیے شاید کوئی آزادی اور خود فیصلے کا کوئی موقع نہیں ہے۔
لیکن یہ طرز فکر درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محیط علم، کامل قدرت اور ہمہ گیر اقتدار کے باوجود ہم انسانوں کو علم و عمل کی آزادی دی ہے۔ انسانوں کا یہ دور زندگی آزمایش کا دور ہے۔ یہ آزمایش مکمل ہونے پر کامیاب ابدی انعام کے مستحق ہوں گے اور ناکاموں کو ہمیشہ کی سزا ملنے والی ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے اور اللہ تعالیٰ سراپا عدل ہیں کہ انسانوں کے فیصلوں اور عمل پر کوئی قدغن نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو اسی اصول پر استوار کیا ہے۔
اگر مقدر کا لفظ ہی بولا جائے تو قرآن مجید کے مطابق انسانوں کی سب سے بڑی تقدیر یہ ہے کہ وہ ایک آزمایش میں ڈالے گئے ہیں اور اس میں انھیں پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے حق قبول کریں چاہے ناحق، چاہے نیکی کریں اور چاہے برائی۔ چنانچہ یہ تصور ہی درست نہیں ہے کہ کوئی برائی کسی کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو قرآن مجید کی ساری دعوت اپنے معنی کھو دیتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ رزق اور تقدیر
Talib Mohsin

سوال: انسانی زندگی کے وہ معاملات جو معاش اور دوسری سہولتوں سے متعلق ہیں، ان میں تقدیر کا حصہ کتنا ہے؟ (خالد عزیز چودھری)

جواب: اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن و قبح کا ہے اور اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے، اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گا اور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی، لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔ مثلاً موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے: ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں، ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں، لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجاے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ مرفوع احادیث میں شرک، تین طلاقوں، ہدہد اور نملہ کی وضاحت

سوال: استمداد اور قربانی و نذر اور پکار (لغیر اللہ استغاثہ) ، (ایک وقت میں) تین طلاقوں کا تین ہونا، ہدہد اور نملہ کے لیے مرفوع صحیح احادیث بیان کریں۔ (پرویز قادر)

جواب: شرک کی شناعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار بیان کی ہے، پھر خود قرآن مجید میں بھی یہ موضوع بار بار زیر بحث آیا ہے۔ تینوں چیزیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر غیر اللہ کے لیے ہوں تو شرک ہیں۔ احادیث میں ان کا ذکر کر کے ان کی شناعت بیان کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی، اس لیے کہ یہ بات خود قرآن مجید میں کئی اسالیب میں بیان کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے کسی روایت میں تصریح کے ساتھ ان کی نفی کی گئی ہو ، لیکن معروف روایات میں شرک ہی کی تردید یا شناعت بیان ہوئی ہے۔
اسی طرح ہدہد اور نملہ کے بارے میں بعض صحابہ کے اقوال تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔ سردست مجھے کوئی مرفوع حدیث نہیں ملی۔
تین طلاقوں کا ایک طلاق ہونا ایک فقہی بحث ہے، اس میں استدلال کا مدار کن روایات پر ہے، اس کا خلاصہ ابن رشد نے اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں بخوبی کیا ہے۔ میں اسے آپ کے لیے نقل کر دیتا ہوں:

’’ان کے استدلال کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث پر بھی ہے، جس کی تخریج امام مسلم (رقم ۱۴۷۲) اور امام بخاری نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، حضرت ابوبکر کے دور میں اور خلافت عمر کے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی قرار دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر نے تینوں کو نافذ کر دیا"۔ ان حضرات کے استدلال کی بنیاد ابن اسحاق کی روایت پر بھی ہے جو انھوں نے عکرمہ سے بواسطۂ ابن عباس بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں اور اس پر انھیں شدید قلق ہوا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے طلاق کس طرح دی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ تو ایک طلاق ہے۔ تم اس سے رجوع کر لو۔ (ابوداؤد ،رقم۲۲۰۶۔ابن ماجہ،رقم ۲۰۵۱)


جمہور کی راے (تین ایک وقت میں تین) کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حدیث ابن عباس کی روایت ان کے اصحاب میں سے طاؤس نے کی ہے، جبکہ ان کے بیش تر اصحاب نے جن میں سعید بن جبیر، مجاہد ، عطا اور عمرو بن دینار ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہو جانے کا قول نقل کیا ہے اور ابن اسحاق کی حدیث وہم ہے۔ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو حتمی طلاق دی تھی۔ اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں۔‘‘ (۲/ ۴۶)

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ قبر کو نمایاں صورت میں بنانا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا ہمارے لیے اپنے عزیزوں کی قبریں نمایاں بنانی جائز ہیں یا وہ سادہ ہی بننی چاہییں؟ (محمد شاکر)

جواب: قبروں کو نمایاں صورت میں بنانا درست نہیں ہے، اس کی کوئی حقیقی ضرورت تو ہوتی نہیں اور دین میں اس طرح کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ یہ بس انسان کا اپنا شوق ہی ہوتا ہے اور اس میں خطرے کا یہ پہلو بھی موجود ہے کہ یہ چیز بعض لوگوں کے ہاں قبر پرستی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ قبرستان کے گرد دیوار
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا قبرستان کے ارد گرد دیوار تعمیر کی جاسکتی ہے؟ (فاروق عالم صدیقی)

جواب: اگر کسی جگہ اس حد بندی کی ضرورت ہو تو بالکل ایسا کیا جا سکتاہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
❓ مزار پر دعا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: ہمیں بزرگوں کے مزاروں پر جا کر کیا کہنا چاہیے اور کس طرح سے دعا کرنی چاہیے؟ (قاسم چٹھہ)

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی بزرگ کے مزار پر کسی مشرکانہ عقیدے کے ساتھ ہرگز نہیں جانا چاہیے، ورنہ ہم اپنے عقیدے ہی کی خرابی کی بنا پر خدا کے ہاں سخت سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ مشرکانہ عقیدے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی کسی قبر والے بزرگ کے بارے میں کوئی ایسا خیال رکھے جس کی بنیاد قرآن و سنت میں موجود نہ ہو۔ مثلاً، یہ کہ ان سے دعا مانگی جاسکتی ہے، یہ حاجتیں پوری کرتے ہیں ، یہ بگڑی بنا دیتے ہیں، ان سے مدد لی جا سکتی ہے، یہ ہمارے حالات سے واقف ہو جاتے ہیں، ہم جہاں کہیں سے انھیں پکاریں، یہ ہماری پکار سن لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ بزرگوں کی قبر پر جا کر خدا سے ان کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔

____________
 
Top