سوات ڈیل مبارک ہو

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نہیں دینا انہیں اب کوئی بھی پرچہ بر محفل
وہ ظالم ہوں تو ظالم کو برا کیسے کہیں ساقی
جب بات دلائل کی کرے کوئی یہاں پر
کہتے ہیں یہ امریکہ پہ لعنت ہو خدا کی
جب ان سے کہو ظلم و ستم کو کہو بد ہے
کہتے ہیں نہیں ہم میں کوئی بات ملاکی


فتنہ کو فتنہ تسلیم کر لیتے تو یہ حالات نہ ہوتے ۔ بہن شگفتہ یہ دھاگہ جسے سوات کی ایک لڑکی پر ظلم کی بنیاد پر احتجاج اور رائے کے اظہار کے لیئے بنایا گیا تھا ۔ ظالمان کے حق پرست ساتھیوں نے اسے آہستہ آہستہ اغوا کر لیا ہے ۔ پہلے بات کا رخ شخصیات کی طرف موڑا گیا ۔ پھر امریکہ کی طرف موڑا گیا ۔ پھر اسے ایم کیو ایم کی مدح سرائی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اور اب جب بات گھوم پھر کر واپس آتی ہے وہیں کہ جی اس نظام عدل کے متعلق کچھ سوالات کی وضاحت درکار ہے تو فرار اختیار کیا جاتا ہے ۔ دوسری طرف وہ ملا مسلم خاں (ملا بھی ہوا ۔ مسلم بھی ہوا ۔ اور خان بھی ہوا) یہ دعویٰ کرتا ہے کہ شریعت کے مالاکنڈ میں نفاذ کے بعد اب انکا اگلا نشانہ بقیہ پاکستان ہے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں وہ یہ کہتا ہے کہ وہ ہتھیار ضرور رکھ دیں گے لیکن اس حکومت کے سامنے جو سپریم لاء شریعت کو مانتی ہو ۔ یہ شریعت کی تعریف نہیں کی گئی ۔ کہ کس منہج پر یہ شریعت کا نفاذ کریں گے ۔ بونیر ۔ پشاور ۔ اور دیگر علاقوں میں اولیاء اللہ کے مزارات کو بند کر کے یہ کون سی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔

واللہ اعلم بالثواب

آپ ناحق ہی سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہی ہیں ۔ اسی تھریڈ پر اگر گنتی کریں تو شاید ایک بھی سوال ایسا نہ ملے جس کا جواب دیا گیا ہو ماسوائے اس کے کہ ظالمان کی مدح سرائی ۔ مذمت ۔امریکہ دشمن ۔ ایم کیو ایم دشمن ۔ شخصیات پر اعتراضات ۔ اور بلے بلے ہا ہا کار ۔ فضول میں اپنا دماغ اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہی ہیں آپ بھی ۔

دوسروں کو کہنے والے ہم مسلمان اپنی اپنی سوچوں میں بت بنا بیٹھے ہیں ۔ وہ شخصیات کے ہوں ۔ نظریات کے ہوں یا پھر واقعات کے ہوں یہ بت ہم کسی صورت نہیں چھیڑنا چاہتے ۔ لگتا ہے کہ اسلام ایک کھمبے کا نام ہے جس کے اردگرد ایک دائرہ لگا ہوا ہے اور ہم مسلمان اس دائرے کے اندر کھڑے ہیں جس سے ہمیں اختلاف ہوا اسے دھکا دے کر اس دائرہ سے باہر پھینک دیا ۔ بدعت کو بدعت کا الزام دینے کی بدعت بھی بدعت نے خود کی ہے۔ اسی طرح ظالمان کی اندھی مخالفت یا حمایت بھی کسی مقام تک نہیں پہنچائے گی ۔ جو لوگ ظلم کو ظلم کہتے گھبراتے ہوں وہ بھلا قیادت ملک و ملت کیا کریں گے ۔ جو خود کو مینیج نہ کر سکے وہ بھلا قوم کو مینیج کیا کرے گا ۔ مشکل صرف اتنی سی ہے ۔

کھینچ لائے ہو مجھے پھر سے یہاں محفل میں
بات کرنا ہے تو کر مانند اصنام نہ بن



شکریہ فیصل بھائی

آپ محترم ہیں اور آپ کی بات بھی محترم ہے میرے لیے ۔

رہنمائی کے لیے ایک بار پھر شکریہ کہنا چاہوں گی ۔

 

فرخ

محفلین
فرخ مسئلہ دراصل آپ کے ساتھ ہے کہ آپ ذکی الحسی سے باہر نہیں نکل پا رہے ۔ اس کیفیت سے باہر آنے کی کوشش کریں ۔

یہ تو اب الزام تراشی نہیں ہو رہی :confused:

اور میں نے پہلے بھی کہا تھا، کہ ذکی الحسن صاحب سے اب میرا کوئی تعلق نہیں۔:tongue:
 

مہوش علی

لائبریرین
نہیں دینا انہیں اب کوئی بھی پرچہ بر محفل
وہ ظالم ہوں تو ظالم کو برا کیسے کہیں ساقی
جب بات دلائل کی کرے کوئی یہاں پر
کہتے ہیں یہ امریکہ پہ لعنت ہو خدا کی
جب ان سے کہو ظلم و ستم کو کہو بد ہے
کہتے ہیں نہیں ہم میں کوئی بات ملاکی


فتنہ کو فتنہ تسلیم کر لیتے تو یہ حالات نہ ہوتے ۔ بہن شگفتہ یہ دھاگہ جسے سوات کی ایک لڑکی پر ظلم کی بنیاد پر احتجاج اور رائے کے اظہار کے لیئے بنایا گیا تھا ۔ ظالمان کے حق پرست ساتھیوں نے اسے آہستہ آہستہ اغوا کر لیا ہے ۔ پہلے بات کا رخ شخصیات کی طرف موڑا گیا ۔ پھر امریکہ کی طرف موڑا گیا ۔ پھر اسے ایم کیو ایم کی مدح سرائی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اور اب جب بات گھوم پھر کر واپس آتی ہے وہیں کہ جی اس نظام عدل کے متعلق کچھ سوالات کی وضاحت درکار ہے تو فرار اختیار کیا جاتا ہے ۔ دوسری طرف وہ ملا مسلم خاں (ملا بھی ہوا ۔ مسلم بھی ہوا ۔ اور خان بھی ہوا) یہ دعویٰ کرتا ہے کہ شریعت کے مالاکنڈ میں نفاذ کے بعد اب انکا اگلا نشانہ بقیہ پاکستان ہے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں وہ یہ کہتا ہے کہ وہ ہتھیار ضرور رکھ دیں گے لیکن اس حکومت کے سامنے جو سپریم لاء شریعت کو مانتی ہو ۔ یہ شریعت کی تعریف نہیں کی گئی ۔ کہ کس منہج پر یہ شریعت کا نفاذ کریں گے ۔ بونیر ۔ پشاور ۔ اور دیگر علاقوں میں اولیاء اللہ کے مزارات کو بند کر کے یہ کون سی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔

واللہ اعلم بالثواب

آپ ناحق ہی سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہی ہیں ۔ اسی تھریڈ پر اگر گنتی کریں تو شاید ایک بھی سوال ایسا نہ ملے جس کا جواب دیا گیا ہو ماسوائے اس کے کہ ظالمان کی مدح سرائی ۔ مذمت ۔امریکہ دشمن ۔ ایم کیو ایم دشمن ۔ شخصیات پر اعتراضات ۔ اور بلے بلے ہا ہا کار ۔ فضول میں اپنا دماغ اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہی ہیں آپ بھی ۔

دوسروں کو کہنے والے ہم مسلمان اپنی اپنی سوچوں میں بت بنا بیٹھے ہیں ۔ وہ شخصیات کے ہوں ۔ نظریات کے ہوں یا پھر واقعات کے ہوں یہ بت ہم کسی صورت نہیں چھیڑنا چاہتے ۔ لگتا ہے کہ اسلام ایک کھمبے کا نام ہے جس کے اردگرد ایک دائرہ لگا ہوا ہے اور ہم مسلمان اس دائرے کے اندر کھڑے ہیں جس سے ہمیں اختلاف ہوا اسے دھکا دے کر اس دائرہ سے باہر پھینک دیا ۔ بدعت کو بدعت کا الزام دینے کی بدعت بھی بدعت نے خود کی ہے۔ اسی طرح ظالمان کی اندھی مخالفت یا حمایت بھی کسی مقام تک نہیں پہنچائے گی ۔ جو لوگ ظلم کو ظلم کہتے گھبراتے ہوں وہ بھلا قیادت ملک و ملت کیا کریں گے ۔ جو خود کو مینیج نہ کر سکے وہ بھلا قوم کو مینیج کیا کرے گا ۔ مشکل صرف اتنی سی ہے ۔

کھینچ لائے ہو مجھے پھر سے یہاں محفل میں
بات کرنا ہے تو کر مانند اصنام نہ بن
سی آئی ایجنٹوں کی شریعت
فیصل بھائی،
آپ کو یاد ہے جب پاکستان میں طالبان ہزاروں بے گناہوں کو قتل کر رہی تھی تو یہی یہان پر بیٹھے اور میڈیا میں بیٹھے ہوئی مذہبی جنونیوں کی پیروکار طالبان کو بچانے کے لیے کیا کہنے لگے تھے؟
جی، سب سے پہلے انہوں نے بہانہ ڈھونڈا کہ افغان طالبان اچھی طالبان ہے اور پاکستانی طالبان بری طالبان ہے۔
پھر مجھے یاد ہے کہ ہر ہر خود کش حملے کے بعد کہتے تھے کہ یہ امریکی ایجنٹ کروا رہے ہیں۔ اور جب پاکستانی طالبان کھل کر ان خود کش حملوں میں مارے جانے والے معصوموں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتی تھی تو اس بری والی پاکستانی طالبان کو پھر انہی لوگوں نے امریکی ایجنٹ قرار دے کر امریکہ کے خلاف بیان بازی شروع ہو جاتی تھی۔

اور اتنی بے غیرتی ہے کہ آج انہی امریکی ایجنٹوں کی شریعت کے نفاذ پر خوشیاں منا رہے ہیں، آج اس بوگس امن ڈیل پر ناچ رہے ہیں کہ جس کے بعد قوم کو انہی امریکی ایجنٹوں کے رحم و کرم پر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ رحم کھا کر خود ہی اپنے ہتھیار ڈال دیں تو ڈال دیں ورنہ کوئی قید نہیں ہے۔

آج انہیں امریکی ایجنٹوں کو امن ڈیل کے نام پر قانون سے بالکل بالاتر کر دیا گیا ہے۔ ان امریکی ایجنٹوں نے جو ہزاروں معصوموں کا قتل کیا ہے اس پر ان امریکی ایجنٹوں کا کوئی محاسبہ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ کتنے دوغلے لوگ ہیں یہ کہ جنہیں امریکی ایجنٹ کہتے تھے آج انہیں کے قانون سے بالاتر ہونے اور ہزاروں معصوموں کے خون ضائع جانے پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔

ان امریکی ایجنٹوں کی شریعت، ان امریکی ایجنتوں سے امن ڈیل اور ان امریکی ایجنٹوں کے تحت چلنے والا نظام عدل، ان امریکی ایجنٹوں کے تحت ہونے دیگر علاقوں کی مساجد میں ہونے والی نئی بھرتیاں،، ان امریکی ایجنٹوں کا اگلے علاقوں میں حملے کر کے مزید معصوموں کا قتل میڈیا اور یہاں پر بیٹھے مذہبی جنونیوں کے حمایتیوں کو مبارک۔
لعنت اللہ علی القوم الظالمین۔
 
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

یہ شعر ویسے ہی میرے دماغ میں اچھل کر آگیا ۔ لیکن حقیقت ہے کہ ہم سب بحیثیت مجموعی ابھی تک یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ قوم کا مفہوم کیا ہے ۔ اتحاد کسے کہتے ہیں اور ہمیں نظام کون سا چاہیئے ۔ کبھی ہم پناہ لیتے ہیں جمہوری نظام (لولے لنگڑے) میں تو کبھی ڈکٹیٹر شپ ہی حل نظر آتی ہے ۔ کبھی ہمیں اسلامی سوشلزم کا لالی پاپ دیا جاتا ہے ۔ تو کبھی امیر المومنین ضیاء الحق زندہ باد ۔ کبھی میاں صاحب تو کبھی متحدہ مجلس عمل ۔ کبھی بی بی تو کبھی ضررداری اب جب بندوق بردار یک فرقہ ظالمانی شریعت مملکت خداداد پاکستان کو فتح کرنے نکل پڑے ہیں تو حیرت کیسی ۔
قائد اعظم کو ہم نے مار دیا
لیاقت علی خان کو ہم نے قتل کیا
ایوب کو ہم نے کتا کتا کہا
یحییٰ کو ہم نے اتارا ۔
بھٹو کو ہم نے ٹانگا ۔
بی بی کو ہم نے مارا۔
میاں کو ہم نے نکالا ۔
پیجے کو ہم نے مانا ۔
ضرر داری کو ہم نے چوما چاٹا ۔
اب ظالمان بھی بظاہر ہی سہی انسان تو ہیں نا ۔ تو ان کو اس چوک میں رکھے گوشت کے اس ٹکڑے پر جسے پاکستان کہتے ہیں منہ ماری کا حق کیوں نہیں ۔ ہم اور آپ شروع دن سے چیختے آرہے ہیں اور شاید قبر تک چیختے ہوئے ہی چلے جائیں گے کیونکہ ہم اس معاشرے کو ایک پر امن ۔ روادار ۔ اور اسلامی اصولوں پر عمل پیرا معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کے تمام اصول یہاں ہم آزادی سے اپنے اپنے مسلک کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی اپنی زندگیوں پر خود لاگو کریں نہ کہ چار چھے ہزار بندوق بردار ملا پرست ظالمان جو یک چشم گل ایسی شریعت نامی چیز جو علاقائی رسوم اور کچھ اسلامی باتوں کا ملغوبہ ہوں ڈنڈے کے زور پر چوکوں میں کھمبوں پر لاشیں لٹکا کر نافذ کریں ۔ ہم نہیں چاہتے کہ پردہ کرنے والیوں کو برا سمجھا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار خواتین کو خود ہو ان کے دل میں اسلام اس طرح سے رچ بس جائے کہ انہیں کہنے کی ضرورت ہی نہ ہو ۔ معاشرہ اس بات کی عملی مثال ہو کہ دین پر کوئی جبر نہیں لیکن ظالمان نامی فتنہ یہ نہیں سمجھتا انکے نقطہ نظر سے دین جبر مجسم ہے شاید اور دوسرے مذاہب والے یا تو اپنے کندھوں پر نشانیاں لگا کر یہاں رہیں یا پھر گیٹ آؤٹ ۔ہو جائیں ۔ داڑھی رکھنا واجب ہے لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ڈنڈے سے لوگوں کو داڑھیاں رکھنے پر مجبور کرے ۔ موسیقی کی اجازت ہونا نہ ہونا الگ مسئلہ ہے لیکن معاشرے میں موسیقی کی دکانوں پر حملوں کا کوئی جواز نہیں ۔ زنا کے متعلق بھی یہاں تک کہ چار گواہوں کی شرط رکھی گئی ہے جنہوں نے یہ عمل اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھاہو اور انہوں نے ایک شاہد کی تمام شرائط پوری کی ہوں تو ہی ان کی گواہی قابل قبول ہے وگرنہ ان پر تہمت کی حد قائم کی جائے کی شرط کیا یہ نہیں بتاتی کہ جب تک کسی برائی کا کھلم کھلا اظہار نہ ہو معاشرے میں فساد پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ۔ کیا کسی کے گھر میں جھانکنے کی سزا کے طور پر آنکھ پھوڑ دینے کا حکم نہیں ہے ۔۔؟ چادر اور چار دیواری کا تحفظ ۔ کوئی اپنے گھر میں کیا کرتا ہے اسکی اپنی ذمہ داری ہے لیکن یہ ظالمان کونسا دین لا رہے ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
 

مہوش علی

لائبریرین
نظام عدل کی اصلیت
editorial_n3.jpg
 

ساجد

محفلین


بہت شکریہ ساجد بھائی ۔

آپ نے شرط کی رخصت کی بات کی ہے اگر ہم توجہ کریں تو عمومی رائے اجتماع پر اثر پذیری رکھتی ہے اور افراد قارئین اس کا اثر قبول کرتے ہیں اور یہ اثر ماحول میں رد عمل کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے ۔ نظام عدل ایک نہایت سنجیدہ اور اہم موضوع ہے اور اس امر کا متقاضی کہ اسے سنجیدگی سے اس کا مطالعہ کیا جائے اور اسے سمجھا جائے نہ کہ محض مخالفت یا حمایت میں الجھ کر رہ جائیں سب ۔ صرف واہ واہ کر دینا یا صرف مخالفت کر دینا ہماری اجتماعی و مذہبی ذمہ داری کی انجام دہی سے ہمیں مبرا نہیں کردیتا کہ اس سے انسانوں کی زندگیوں کے فیصلے مربوط ہیں ۔ بعض باتیں اور سوالات تلخ ضرور ہو سکتے ہیں لیکن کیا صرف لاعلمی کی بنا پر ہم لاتعلق قوم بن جانے کا حق حاصل کر لیتے ہیں اور کیا اس کے بعد ہمین یہ حق بھی حاصل ہے کہ بو اب اسی لاعلمی ہی میں رہنا ہے اور تلاش و جستجو بھی نہیں کرنے کی ضروت ، کیا ہماری ذمہ داریاں اتنی آسانی سے ساقط ہو جاتی ہیں ؟؟
شگفتہ بہن ، بات یہ ہے کہ سیاست ہے ہی اس چیز کا نام کہ عوامی رائے کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں ہموار کر کے اپنی بات یا ایجنڈے کا نفاذ کیا جا سکے۔ آپ دیکھ رہی ہیں کہ ہمارے چند ساتھی طالبان کی حمایت میں کمر بستہ ہیں تو کچح احباب امریکہ کے دفاع میں من کی بازی لگائے ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں اطراف ہی اعتدال سے ہٹ گئی ہیں۔ ایسا سب ہونے میں اسی پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ دخل ہے جو دن رات میڈیا پہ کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پہ کل کی ہی ایک خبر لے لیں جس میں ایک افغان لڑکی اور اس کے ساتھی کو مقامی جرگے کے فیصلے کے مطابق گولی مار دی گئی لیکن برطانیہ کے خبر رسانوں نے اسے صرف طالبان کی کارروائی قرار دیا اور ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ وہاں افغان حکومت کی رسائی نہیں ہے ۔ شگفتہ بہن ، اس خبر پہ میرا تبصرہ تو آپ متعلقہ دھاگے میں پڑھ چکی ہوں گی کہ کس طرح سے میڈیا حقائق کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ جو آدمی افغانستان کے ماحول اور وہاں موجود قدامت پرستی کے بارے میں ذرا سا علم بھی رکھتا ہو وہ کبھی ایسی غیر ذمہ دارانہ بات نہ لکھتا کہ جو مذکورہ خبر مین کہی گئی۔ خدائے بزرگ سبھی کی عزتیں سلامت رکھے میں کہتا ہوں کہ خدا نخواستہ کرزئی یا اس کی حکومت کے کسی ہلکے پھلکے سےکارندے کی بیٹی بھی اپنے آشنا کے ساتھ ایسے بھاگتی
تو شاید جرگے کا بھی تکلف نہ کیا جاتا اور ان کو پار کر دیا جاتا کہ یہی روایت ہے وہاں کی۔ لیکن کیا کریں کہ میڈیا اپنے ان داتاؤں کی خوشامد اور اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے تاریخ و روایات اور زمینی حقائق سے متصادم بھی ہو جاتا ہے۔
محفل پہ ایک رکن یا چند اراکین کی رائے ان کی ذاتی رائے ہوتی ہے یہ رائے ممکن ہے کہ کسی پہ اثر انداز بھی ہوتی ہو لیکن محفل نہ تو ایک خبر رساں ادارہ ہے اور نہ ہی یہاں کے اراکین مستند صحافی۔ زیادہ تر بحث کرنے والے اسی میڈیا کے زیر اثر ہوتے ہیں کہ جو سچ جانتے ہوئے بھی واقعات کو اپنی مرضی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق جو میں بیان کر چکا ہوں کم و بیش ہر روز ان کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ہمیں چپ لگی رہتی ہے تا وقتیکہ کوئی ایسا معاملہ ہماری نظروں سے نہ گزرے جس سے ہمارے خیالات کی دیوی پہ حرف نہ آتا ہو۔ جی ہاں وہی خیالات جو میڈیا ہمیں دیتا ہے۔ اب یہ کسی لڑکی کو سرعام کوڑے مارنے کا معاملہ ہو یا پھر قبائلی علاقوں میں امریکی بر بریت کا مظاہرہ۔
بس پھر کیا ہے کہ جذبات بھڑکتے ہیں ، الفاظ جھڑتے ہیں ، لہجے بدلتے ہیں اور آخر کار ثبوتوں اور ذمہ داریوں کا لحاظ کئیے بغیر الزام تراشیاں ہوتی ہیں۔ اپنے من پسند دیوتاؤں کے گن گائے جاتے ہیں تو کہیں نمک حلالی کی جاتی ہے۔ ضد میں پڑ کر جانتے بوجھتے ہوئے بھی غلطی کا اقرار نہیں کیا جاتا ۔ تبھی پھر آپ جیسی مشفق و متوازن خیالات کی حامل شخصیت اس معاملے میں پڑ کر یہاں کے خارزار سیاست میں اخلاق ، زمہ داری اور ژبوتوں کی بات کرتی ہے تو ایک عجیب صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔
آپ نے سوال اٹھائے تو کچھ احباب جواب نہیں دیں گے اور اگر مخالف دیوتا کے پیرو کاروں نے کچھ سوال اٹھا دئیے تو آپ سے جواب نہیں بن پڑے گا کیوں کہ یہ ادب نہیں سیاست ہے۔ یہاں حقیقت کئی پردوں میں لپٹی ہوتی ہے۔ طالبانی نظام یہاں بھی نافذ ہے کہ شخصیت بے حجاب نہیں ہوتی اور سچ کو پوتر سمجھ کر اس کو چھپایا جاتا ہے۔۔
یہی وجوہات تھیں جب میں نے کہا کہ پابندیاں نرم رکھنی چاہئیں ۔ یہ پاکستانی قوم ظلم ، تشدد ، بربریت اور سازشوں کے جس جال میں جکڑ دی گئی ہے کم از کم محفل تو ان کو اپنا غبار نکالنے سے نہ روکے۔
آپ کی تخاطبت کا بہت شکریہ ورنہ کہان میں کہ آپ جیسی ہستی سے بحث کر سکوں۔
 

تیشہ

محفلین
یہ بات نہایت تعجب کی حامل ہے کہ اراکین نظام عدل کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے تو ملاتے نظر آتے ہیں تاہم نظام عدل کے بارے میں سوال کے حوالے سے گھبرا جاتے ہیں ؟؟؟


کیا یہ واقعی ڈسکشن کا فورم ہے یا پھر محض واہ واہ کرنا مقصود ہے ؟




zzzbbbbnnnn-1.gif


(
شگفتہ اس تھریڈ میں آپ کی باتوں سوالوں نے مجھے بہت ہنسایا ہے ابھی ۔۔ :battingeyelashes: اور آج کی خبر میں سارہ کا جواب مزہ دے گیا :party:
چائے پیتے ہوئے یہ سب پڑھکر میں بہت انجوائے کررہی ہوں ۔
zzzbbbbnnnn-1.gif
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس ميں کوئ حيرت کی بات نہيں کہ اس وقت طالبان اردو کے قريب تمام اردو فورمز اور بلاگز پر موضوع بحث ہيں۔ اس ضمن ميں بہت سی مختلف آراء پڑھی ہيں اور کچھ سوالات کے جواب بھی ديے ہيں۔ اس وقت ميڈيا خاص طور پر ٹی وی اور اخبارات ميں ہر قسم کے ماہر طالبان کے مقاصد، ان کے اہداف اور خطے ميں ان کے حقیقی يا محض عمومی تاثر بر مبنی اثر ورسوخ کے حوالے سے بڑے تفصيلی تبصرے اور تجزيے کر رہے ہيں۔

ان تبصروں ميں جن نقاط پر سب سے زيادہ زور ديا جا رہا ہے ان کی بنياد يہ تاثر ہے کہ طالبان کا افغانستان کی سرحدوں سے آگے کوئ عالمی ايجنڈا نہيں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تبصرہ نگار ايسے بھی ہيں جو طالبان اور دہشت گردی کو محض عالمی پروپيگنڈہ قرار ديتے ہيں جس کا واحد مقصد پاکستان کو غير مستحکم کرنا ہے۔

يہ وہ عمومی دلائل ہيں جو آپ کو ميڈيا کے قريب تمام فورمز پر مليں گے۔ قريب تمام تجزيہ نگار انھی خيالات کے حق يا مخالفت ميں دلائل ديتے دکھائ ديں گے۔ ميں نے بھی اس موضوع پر کئ بار رائے دی ہے۔ ليکن ميرا خيال ہے کہ طالبان کی فکر اور سوچ کی وضاحت کے لیے اس شحض کی رائے کو بھی اہميت دينی چاہيے جو اس سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ ميرا اشارہ طالبان کے معروف ليڈر ملا نذير کی جانب ہے۔ ظاہر ہے طالبان کے بارے ميں اظہار رائے کے ليے بہترين چوائس ايک طالبان ليڈر ہی ہو سکتا ہے۔

يہ مغربی ميڈيا کی جانب سے طالبان کو بدنام کرنے کی کوئ کوشش نہيں ہے۔ بلکہ يہ انٹرويو القائدہ کے ميڈيا پروڈکشن ہاؤس السحاب نے حال ہی ميں ريليز کيا ہے۔ يہ امر ان دوستوں کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گا جن کے نزديک القائدہ اور طالبان دو مختلف حقيقتيں ہيں اور ان کے مقاصد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔

مولوی نذير احمد نے اس انٹرويو ميں يہ واضح کر ديا ہے کہ وہ ايک منتخب حکومت پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ يہ بات ان لوگوں کے ليے شايد ايک نئ خبر ہو جو اس بات پر بضد ہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امريکہ کی ہے اور پاکستان کو اس سے کوئ سروکار نہيں ہونا چاہيے۔

طالبان ليڈر نے واشگاف الفاظ ميں کہا کہ وہ جمہوريت پر يقين نہيں رکھتے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہيں۔ ان کا ايجنڈا اور مقصد پورے پاکستان پر اپنا مخصوص نظام کا نفاذ ہے۔ انھوں نے يہ بھی کہا کہ وہ اپنی "جدوجہد" کو محض اس خطے تک محدود نہيں رکھيں گے بلکہ پوری دنيا پر اپنے اثرو رسوخ کے لیے کوشش جاری رکھيں گے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ اس سوچ سے مقابلہ کرنے کا بہترين طريقہ يہی ہے کہ انھيں محفوظ مقامات ديے جائيں اور اس خطرے کو نظرانداز کر ديا جائے؟

ملا نذير نے القائدہ کی ليڈرشپ کو بھی تسليم کيا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے يہ واضح کيا کہ افغانستان اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپ ايک "امير" اسامہ بن لادن کی قيادت ميں متحد ہيں۔

انھوں نے اس حقيقت کو صيغہ راز ميں رکھنا ضروری نہيں سمجھا کہ وہ پاکستان آرمی اور پاکستان کی سيکورٹی فورسز پر براہراست حملوں ميں ملوث ہيں۔ يہی نہيں بلکہ انھوں نے سرحد پار افغانستان ميں اپنے "بھائيوں" کی مدد کی ضرورت پر بھی زور ديا تاکہ وہ بھی اسی طرح کی کاروائياں جاری رکھ سکيں۔

يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ کچھ افراد طالبان کے مقاصد پر تند وتيز تقريريں اور بحث ومباحثہ کر رہے ہيں مگر دوسری جانب طالبان بذات خود اپنے الفاظ اور اپنے اعمال سے اپنے مقاصد صاف الفاظ ميں واضح کر چکے ہيں۔

امريکی ميڈيا ميں شائع ہونی والی رپورٹوں کو غير ملکی پروپيگنڈہ قرار دے کر نظرانداز کيا جا سکتا ہے ليکن آپ ان مسلح دہشت گردوں کے الفاظ کو کيسے نظرانداز کريں گے جو اسلام آباد سے محض 100 کلوميٹر کے فاصلے پر موجود ہيں اور برملا يہ کہہ رہے ہیں کہ

"ہم اسلام آباد پر قبضہ کر ليں گے"۔







فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

خرم

محفلین
فواد یہ انٹرویو تو ملا نذیر نے دیا ہی نہیں۔ ان کی جگہ غالباَ کوئی امریکی ہوگا یا پھر کمپیوٹر کی مدد سے آواز ڈب کر لی گئی ہے یا پھر کوئی اور چکر ہوگا۔ طالبان کا آنا بہت اچھا ہے بلکہ وہ تو پوری قوم کے نجات دہندہ ہیں۔ یہ سب یہودی لابی کی سازش ہے کہ دین کے ان مجاہدوں کو بدنام کیا جائے۔ دیکھئے ماشاء اللہ جس جس جگہ طالبان کا عمل دخل قائم ہے وہاں شریعت کیسے پھل پھول رہی ہے؟ بس یہی چیز اغیار کو کھٹکتی ہے۔ کبھی کوڑوں کی جعلی ویڈیو جس کا طالبان کبھی مروت میں اقرار کرتے ہیں اور کبھی سچ کا اظہار کرنے کے لئے انکار، کبھی سرعام انسانوں کو ذبح کرنے کی تصاویر۔ بھئی اب اگر لوگوں کو سزائیں نہ دیں تو شریعت کیسے نافذ کریں؟ لڑکیوں کو سکول بھیجیں تو پھر خود سر ہوجاتی ہیں۔ اپنی اوقات بھول جاتی ہیں۔ اور جمہوریت تو ہے ہی فتنہ۔ بھلا جو لوگ کبھی مدرسے ہی نہ گئے انہیں قانون سازی کا حق کیونکر دے دیں؟ عوام کی اکثریت کو دین کا علم ہی نہیں۔ انہیں دین سکھانا اور اس پر عمل کروانا طالبان کی ذمہ داری ہے۔ بجائے ان بیچاروں کے ساتھ ہمدردی کی جائے، لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ اتنی تندہی کے ساتھ اس تقریباَ کافر قوم کو "مسلمان" کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب دیکھئے داڑھی جیسا اسلامی فرض چھوڑ دینا رواج بن گیا ہے توبہ توبہ۔ سوطالبان اگر زبردستی نہ کریں تو لوگ پابند شریعت کیسے ہوں؟ پھر یہ کفار کی تعلیم؟ یہ سب تو حرام ہیں دین میں۔ دین میں تو صرف فقہ کا اور وہ بھی صرف ہماری فقہ کا جس کی ابتداء کوئی چارسو برس قبل ہوئی اس کا علم حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔ دین میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو مجبور کرے نماز پڑھنے پر، امیر کے سامنے نہ بولنے پر اور جو کچھ تشریح وہ کریں دین کی اسے قبول کرنے پر کہ اولوالامر کی اطاعت کا حکم ہے قرآن میں۔ یہ یہودی نہیں چاہتے کہ ہم دین پر عمل پیرا ہوں اور اس کی برکات سے مستفید ہوں اس لئے بھولے بھالے طالبان کی جعلی خبریں شائع کرواتے رہتے ہیں۔ طالبان تو اس ملک کے نجات دہندہ ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
KOHAT: Local Taliban executed a man and a woman on charges of having illicit relations in Hangu district near the border of Orakzai Agency a few days back.

The footage, made available to Dawn on Friday, shows the Taliban shooting the man aged around 40 and a woman, about 45 years, at an open space in the presence of their relatives.

The woman is heard appealing to the Taliban, ‘Have mercy on me, please have mercy; the charges against me are false and no man has ever touched her’.

The Taliban first shoot the woman by firing two bullets in her chest and later open a burst of Kalashnikov fire at both the woman and the man. But the woman is still seen breathing, and the Taliban start yelling that she is alive and issuing orders to ‘kill her, kill her’.

Sources said that the Taliban had asked the relatives of the woman and the man to present the two before them for questioning at a specified place. The relatives brought both of them to the Taliban, who killed them in cold blood.

http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-c...n-in+hangu--szh
 

زین

لائبریرین
نظامِ عدل ریگولیشن کا متن

دستورِ پاکستان

Enjoy

اسلام آباد(ثناء نیوز )صوبہ سرحد کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نافذکیے گئے’شرعی ریگولیشن 2009‘ کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بینچ بھی متعلقہ علاقوں میں قائم ہوں گے اور تمام عدالتوں میں تعیناتی پاکستان کے آئین کے تحت ہوگی۔گزشتہ روز منظور کیے جانے والے سولہ صفحات پر مشتمل شرعی ریگولیشن کے مطابق شرعی عدالتوں کے احکامات پر تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سروس آف پاکستان کے حکام عمل کرانے کے پابند ہوں گے۔ اس شرعی ضابطے کا اطلاق مانسہرہ سے ملحقہ قبائلی علاقہ جات اور سابقہ ریاست امب کے علاقوں کے علاوہ جو بھی صوبائی قبائلی علاقے ہیں وہاں پر ہوگا۔ متعلقہ علاقہ جات میں قائم عدالتوں کے زیر سماعت مقدمات کے فیصلے بھی شرعی قانون کے مطابق ہوں گے۔ شرعی عدالتوں میں جو فریق جس فقہ سے تعلق رکھتا ہوگا اس پر سنت نبوی کی وہی تشریح لاگو ہوگی جس فقہ سے ان کا تعلق ہوگا۔ غیر مسلموں کے خلاف شرعی قوانین کے تحت فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ ان کے مروجہ قوانین، متعلقہ روایات اور اصولوں کے تحت فیصلے ہوں گے۔ ان عدالتوں کی تمام کارروائی اردو، پشتو یا انگریزی زبانوں میں ہوگی۔اس ضابطے کے تحت شرعی قوانین میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بینچ بھی متعلقہ علاقوں میں قائم ہوں گے۔ سپریم کورٹ کا نام ’دارل۔دارلاقضا‘ جبکہ ہائی کورٹ کا نام ’دارلاقضا‘ ہوگا۔ ان کے ججوں کو قاضی کہا جائے گا۔ ڈسٹرک اینڈ سیشن جج ضلع قاضی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج اضافی ضلع قاضی، سینیئر سول جج اعلٰی علاقہ قاضی اور سول جج/ مجسٹریٹ علاقہ قاضی کہلائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو میجسٹریٹ کی عدالت بھی قائم ہوگی۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی بینچوں پر تعیناتی پاکستان کے آئین کے مطابق ہوگی۔ ماتحت عدلیہ میں صوبائی حکومت قابل جوڈیشل افسر تعینات کرے گی اور حکومت کے تسلیم شدہ تعلیمی اداروں سے شرعی کورس کرنے والے افراد کو ترجیح دی جائیگی۔ تمام جوڈیشل افسران کا کردار اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ ہر ضلع میں حکومت ضلع مجسٹریٹ، ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ، سب ڈویزنل اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ تعینات کرے گی۔ لیکن وہ تمام امور شریعت کے مطابق سرانجام دیں گے۔ مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری، خصوصی یا علاقائی قوانین کے تحت ایسے معاملات جس میں سزائیں تین سال تک ہیں ان کی سماعت کرسکیں گے۔ کسی تھانے پر مقدمہ درج ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر پولیس افسر متعلقہ قاضی یا مجسٹریٹ کو اطلاع دینے کا پابند ہوگا۔ دوران تفتیش پولیس افسر پیش رفت کے متعلق بھی مجاز حکام کو معلومات فراہم کریگا۔ پولیس افسر ہر مقدمے کا جوڈیشل فائل تیار کرنے کے علاوہ اس کی تین کاپیاں بھی جمع کرانے کا پابند ہوگا۔سول یا دیوانی معاملات میں مدعا علیہ سات روز کے اندر جواب دینے کا پابند ہوگا، بصورت دیگر عدالت دفاع کا حق ختم سمجھتے ہوئے فیصلہ کرسکتی ہے۔ لیکن اگر عدالت ضروری سمجھے تو سات روز کا مزید وقت بھی دیا جاسکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت گواہی مکمل ہونے پر فریقین کو زبانی یا تحریری طور پر دلائل کا ایک بار پھر موقع دے گی اور مقررہ تاریخ سے زیادہ معاملے کو طول دیے بغیر فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی۔ فوجداری اور سول مقدمات میں اگر عدالت سے کوئی فریق تاریخ مانگے تو اس کے اضافی اخراجات جو کم از کم دو ہزار روپے ہوں گے وہ متعلقہ فریق ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ شرعی قانون کے تحت سول کیس کا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اور فوجداری مقدمے کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک فیصلہ کرنا لازم ہوگا۔قاضی کے خلاف اگر کوئی شکایت ہے تو ضلع قاضی انہیں ناپسندیدگی کا خط لکھے گا اور اگر کسی قاضی کو ایک سال میں تین ایسے خط ملیں گے تو اس کا اندراج سروس ریکارڈ میں بھی ہوگا۔ اگر کسی ضلع قاضی یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں زیر التویٰ مقدمات کی تعداد ڈیڑھ سو اور اعلٰی علاقہ قاضی کی عدالت میں زیر التویٰ مقدمات کی تعداد دو سو ہوجائے گی تو حکومت ایک اور متعلقہ عدالت قائم کرنے کی پابند ہوگی

بشکریہ ثناء نیوز
 
Top