سوات ڈیل مبارک ہو

مہوش علی

لائبریرین
کیا قوم کو اس سترہ سالہ بچی کی چیخٰیں سنائی دے رہی ہیں

http://www.youtube.com/index?ytsess...sMCEicLHcIVQ5A-N6sxIJoJ2oQDzy0qzHymmHMD__SMXV



اگر ویڈیو یہاں پر نظر نہ آئے تو گارجین اخبار کے اس لنک پر ملاحظہ کیجئے گا۔

میری تو بس دعا ہے کہ قوم اتنی بے حس اور مردہ نہ ہوئی ہو کہ رک کر ایک لمحۃ بھی سوچنے کی زحمت اسے گوارا نہ ہو کہ اسلام کے نام پر یہ کون سا ظلم و خون کا طوفان برپا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مکمل خبر بھی اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

اس ظلم سے پہلے کوئی قانونی کاروائی نہیں‌ ہوئی ہے، کوئی صفائی کا موقع نہیں دیا گیا ہے اور صرف ایک پڑوسی کے شک کی بنیاد پر کوڑے لگائے گئے ہیں اور جب اس بچی کو کوڑے لگ رہے ہیں تو وہ چیخ رہی ہے کہ کوڑے نہ مارو بلکہ اس سے بہتر ہے کہ قتل کر دو۔

پوری رپورٹ پڑھیے یہ فضل اللہ وہی ہے جس نے محسود کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے اور افغانی اچھی والی طالبان کا وفد آیا تھا جس نے ان مختلف دھڑوں‌ کو ایک کمانڈ تلے جمع کرنے کی کوشش کی تھی بجائے محسود کا گلا کاٹنے کے۔
 

عسکری

معطل
یہ ظلم کی انتہا اور شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے پوری قوم کے لیے یہ بھی کسی کی بہن بیٹی ہے کل یہ سب کچھ ان تماشہ دیکھنے والوں کی بہن بیٹیوں کے ساتھ بھی ہو گا۔ان نا مرد طالبان کو انسان نہیں کہا جا سکتا کوئی انسان اتنا سنگدل نہیں کہ معصوم لڑکی چیخ رہی ہے اور وہ طالم اسے مار رہے ہیں۔اب بھی وقت ہے آنکھیں کھول لیں ورنہ کل اس سے بھیانک ترین بھی ہو سکتا ہے اللہ نا کرے۔یہ اسلام ہے تو کفر کا قانون بھلا۔
 

قمراحمد

محفلین
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ویڈیو دیکھتے دیکھتے صرف ایک لمحے کے لئے اگر یہ تصور کریں کے اِس بچی کی جگہہ اگر ہماری اپنی بیٹی، بہن ، ماں یا بیوی ہو تو روح کانپ جاتی ہے۔۔۔۔۔

پاکستان اِس طرح کے اسلام اور شریعت کی راہ نہیں دیکھ رہا ہے اللہ تعالی اِن ظالموں سے سب کو محفوظ رکھے۔۔۔۔ آمین۔۔۔
 

قمراحمد

محفلین
ایک اور ویڈیو میری طرف سے بھی۔۔۔
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود


[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=bm8A2q2m-tg[/youtube]

کیا اسلام ہے کیا شریعت ہے۔۔۔۔ اللہ اِن ظالموں کا خود سخت سے سخت حساب لے۔۔۔۔ آمین
 

فخرنوید

محفلین
لڑکی کو کوڑوں کی سزا: سوات

1100594748-1.gif
 
کچھ نہیں کہنا ۔ صرف دو آنسو ۔ اور بس ۔ اس سے زیادہ شاید کچھ بھی فائدہ نہ ہو ۔ ظالمان اپنی کرتوتوں میں بڑھتے جائیں گے ۔ ضررداری اسے مقامی مسئلہ کہ کر خاموش اور ہم اور آپ چار صفحے کالے کرکے خاموشی سے سو جائیں گے ۔

شاید ہم من حیث القوم نزع کے عالم میں ہیں ۔ اور یہ ظالمان وہ مرض جو قوم کو دین کے پردے میں لمبی لمبی داڑھیاں رکھے ۔ ٹخنوں سے اونچی شلوار کیئے حشیش کے نشے میں دھت کیئے جا رہا ہے وہ حشیش جسے ہم دین پسندی سمجھتے ہوئے ان کے خلاف بات نہیں کرتے لیکن ظلم کے خلاف نہ بولنا بھی ظلم ہے ۔
 
نوعمر لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا

صوبہ سرحد کے ضلع سوات سے پہلی مرتبہ ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں حلیے سے طالبان معلوم ہونے والے افراد ایک لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا دے رہے ہیں۔تاہم حکومت اور طالبان نے اس خاص واقعہ کی تردید کی ہے تاہم اس بات کی تصدیق کی کہ ماضی میں خواتین کو کوڑوں کی سزائیں دینے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

موبائل فون سے بنائی گئی یہ دو منٹ کی ویڈیو اب سرعام دستیاب ہے۔ ویڈیو میں سرخ جوڑے میں ملبوس ایک جوان سال لڑکی کو دکھایا گیا ہے جسے زمین پر الٹا لِٹاکر کوڑے مارے جارہے ہیں۔

ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ طالبان کے حُلیے میں ایک شخص لڑکی کو پشت پر کوڑے برسارہا ہے جبکہ ایک شخص اس کے پیروں اور دوسرے نے جسم کے اوپر کے حصے کو دبوچا ہوا ہے۔ اس موقع پر درجنوں افراد دائرے میں کھڑے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔

سزا دینے والے افراد آپس میں پشتو زبان میں بات کرتے ہیں اور لڑکی چیختی چلاتی پشتو میں فریاد کرتی ہے کہ ’میرے باپ کا توبہ ، میرے دادا کا توبہ آئندہ ایسا نہیں کرونگی۔‘ وہ شدت درد سے بار بار التجا کرتی ہے کہ ’خدا کے لیے کچھ صبر کرو‘ مگر مارنے والا شخص کہتا ہے کہ ’تم نے کہا تھا مجھے ماردو مگر اب تو میرے پاس چھری بھی نہیں ہے۔‘

پندرہ سے زائد کوڑے مارنے کے بعد وہ لوگ لڑکی کو چھوڑ دیتے ہیں اور اٹھتے ہی لڑکی شٹل کاک برقعہ میں ملبوس نظر آتی ہے۔ اس وقت ان میں سے بڑی داڑھی والا ایک شخص اس سے قریب واقع ایک کمرے میں لے جاتا ہے۔ چیخ و پکار اور باتوں سے وہ تقریباً بارہ سے سترہ سال کے درمیان کی عمر کی معلوم ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں دس کے قریب مقامی لوگوں سے رابطہ کیا گیا تو کافی مشکلات کے بعد انہوں نے صرف واقعہ کی تصدیق کی اور کہا کہ واقعہ سوات کی تحصیل کبل کے کالا کلی میں پیش آیا ہے۔ مقامی لوگ بظاہر خوف کی وجہ سے مزید معلومات دینے سے انکار کررہے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ لڑکی کون ہے اور انہیں کس بات پر سزا دی جارہی ہے۔

طالبان ترجمان مسلم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ خواتین کو کوڑے مارنے کی سزا کا واقعہ حالیہ دنوں میں پیش نہیں آیا ہے۔ انہوں نے اس خاص واقعہ سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا البتہ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ امن معاہدے سے قبل مولانا فضل اللہ کے حکم پر خواتین کو سزائیں دی جاتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں خواتین کو سرعام سزائیں نہیں دی گئیں بلکہ مولانا فضل اللہ نے حکم دیا تھا کہ خواتین کو جب بھی سزا دینی ہو تو انہیں کمرے کے اندر کوڑے مارے جائیں۔ مسلم خان کے بقول انہوں نے ماضی میں ایسی خواتین کو سزائیں دی ہے جو بقول ان کے گھر سے بھاگ گئی تھیں یا پھر انہیں مبینہ طور پر ' غیر اخلاقی حرکات' میں ملوث پایا گیا تھا۔

ملاکنڈ ڈویژن کے کمشنر سید محمد جاوید سے بھی جب اس بابت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس طالبان ترجمان مسلم خان کے مؤقف کی تائید کی اور کہا ممکن ہےماضی میں خواتین کو ایسی سزائیں دی گئی ہوں۔ان کے بقول امن معاہدے کے بعد طالبان نے اپنی نجی عدالتیں ختم کردی ہیں۔

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ واقعہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے سے پہلے یا بعد میں پیش آیا ہے لیکن یہ اس لحاظ بہت ہی سنگین واقعہ ہے کہ سوات میں ایک خاتون کو سرعام کوڑوں کی سزادی جارہی ہے۔اس سے قبل طالبان نے کئی دفعہ ان مرد حضرات کو لوگوں کے سامنے کوڑوں کی سزائیں دی تھیں جن پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے گئے تھے
بشکریہ بی بی سی اردو
 

مغزل

محفلین
میں نے یہ خبر ایکسپریس میں پڑھی تو ویڈیو کی تلاش میں لگ گیا تھا۔
یہ لیجے یہ ویڈیو اب طالبان کے حامی کیا فرمائیں گے ۔ انتظار ہے مجھے

 

مغزل

محفلین
یہ کون سا اسلام ہے ؟
یہ کون سا اسلام ہے ؟یہ کون سا اسلام ہے ؟
یہ کون سا اسلام ہے ؟یہ کون سا اسلام ہے ؟یہ کون سا اسلام ہے ؟
یہ کون سا اسلام ہے ؟یہ کون سا اسلام ہے ؟
یہ کون سا اسلام ہے ؟​
 

فرقان مغل

محفلین
ظلم اور جہالت کی ایسی مثال کم ہی کہیں ملے گی جب دین کےمُنہ بولے ٹھیکیدار ایک نابالغ بچی کو سرِعام کوڑے ماریں اور پھر اس جہالت کی نمائش کریں۔رنج ایسے کاجل گھر کا نام ہے جس کی دھیمی دھیمی آگ سلگتی تو دل میں ہے مگر اس کی سیاسی سے اِردگرد کاسارا ماحول کالا پڑجاتا ہے اور مظلوم کی آہ وہ طوفان ہے جس کے مدوجزر میں ہر ناؤ نقصان اُٹھاتی ہے۔آج ہماری سوسائٹی میں اگر کو ئی عمل سب سے زیادہ معروف ہے تو وہ بحث ومباحثہ ہے،اول تو ہر شخص اپنے نظریات کی گٹھڑی اُٹھائے گھوم رہا ہے یامنطق اور بڑائی کے زیرِاثر اپنا نقظہ نظر منوانے کاقائل ہے۔کسی عقل مند نے کبھی اُس ماں سے نہیں پوچھا جس کے بیٹے نے ساری عمر کسی کو تم کہہ کر نہیں پکارا اور اُس بیٹے کی لاش بھی اُس ماں کودیکھنی نصیب نہیں ہوتی کیونکہ کسی دین کے رکھوالے نے اُسے جہاد کرتےہوئے خود کش حملے میں مار دیا ہے، اُس بہن کا رونا کسی کو نہیں سنتا جس کا بھائی ساری عمر کے لئے معذور کر دیا گیا ہے،اپنی بیٹیوں کو ہم اُن سکولوں میں پڑھاتے ہیں جن کی ایک مضمون کی فیس اُس غریب کے گھر کا مہینے کا خرچ ہے جس کے سکول جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

ہم کیسے لوگ ہیں جو خطابات سنتے ہیں تقریریں سنتے ہیں کالم اور تجزئیے پڑھتے ہیں اور اُن لوگوں کو دین کا مجاہد سمجھتے ہیں جو عدل کی سُرخی دے کر ظلم کی تاریخ لکھ رہے ہیں، ہماری سوچ میں وہ بغاوت پیدا ہی نہیں ہوتی جو اس ظلم کو دیکھ کر ہونی چاہیے اول تو ہم دل مردہ کر کے سب کچھ دیکھتے اور دوسروں میں بانٹتے ہیں دوسرا ہم جان بوجھ کر حقائق کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں یا بات کو ایک مذہبی رنگ دے کر اپنا اور دوسروں کا منہ بند کر لیتے ہیں ایک شخص جو کسی کی بہن بیٹی کی عزت کو پامال کرتا ہے چاہے وہ اس طرح کوڑے مارنے کا ظلم ہو یا کہ اُس کےکردار پر کوئی دھبہ لگانا ہو نہ تو وہ خود حق پر ہو سکتا ہے نہ وہ کسی اور کو حق دلا سکتا ہے، کو ئی ظالم کیسے اُس دین کی اشاعت کا حصہ بن سکتا ہے جس کی بنیاد ہی رحمت ہو صلہ رحمی ہو،عقیدہ کے لحاظ سے پختہ ہو نہ ہو،نماز کا پابند ہو نہ ہوکیونکہ عمل ریاضت کی پیداوار ہے اور کردار سوچ کی،ایک کلمہ گو مسلمان کو باکردار ہونا ضروری ہے،جن لوگوں نے ہمارے معاشرے کا یہ حال کر رکھا ہے اُن میں اکثریت علمی اعتبار سے جاہل لوگوں کی ہے،مگر ہم پڑھے لکھوں نے اپنے نظریاتی انتشار سے ایک ایسی ڈھیل اِن جاہلوں کو دے رکھی ہے کہ یہ ہر تیسرے انسان کو دین اور عدل کا لیبل دکھا کر اپنی صف میں شامل کر لیتے ہیں۔ خاص کر آج کے نوجوان ،لڑکے اور لڑکیاں دونوں،جو اگر ایک دوسرے کی زندگیا ں برباد کرنے کے بجائے اُس علم کی شمع کے پروانے بنیں جو اقبال کے نظریات کا تخم ہے تو کوئی راستہ نکل سکتا ہے ورنہ اگر ہم چوراہے پر کھڑے روتے رہے اور یہی سوچتے رہے کہ کس کا رستہ اپنائیں۔طالبان کا جودین کے نام پر اپنے بھائی بہنوں کو مارنے کی دعوت دے رہا ہے یاپھر اُس امریکی نظام کی طرف جو مجھے میری غیرت کا گلہ گھونٹنے پر مجبور کر رہا ہے۔ایک اچھا نقطہ نظر ایک اچھا معاشرہ اور پھر اُس معاشرے کا دفاع،اسی میں کامیابی بھی ہے اور اشاعت بھی۔

،آجکل ظاہری اعتدال پسند اکثر ہیومن رائٹس اور ویمن رائٹس کی بات کرتے ہیں اِنہیں بھی چاہیے کہ رائٹس سے زیادہ کانٹریبیوشن کی طرف دیکھیں۔ہر شخص اپنی جگہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے،کسی نہ کسی سطح پر وہ معاشرے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے، ایک بُری سوچ رکھنے والا کہیں نہ کہیں دوسرا ذہن ضرور گندہ کر رہا ہے اِسی طرح ایک اچھی سوچ کا مالک کسی کو بہتری کا رستہ دکھا رہا ہے اور اِس سے زیادہ استطاعت رکھنے والا اس سے بہتر سطح پر اپنا کردار نا چاہتے ہوئے بھی نبھا رہا ہے۔ہمیں بھی چاہیے کے اپنی سوچ کو ایسی کم ظرفی کی طرف نہ لے جائیں کہ حق تلفی کو حق پرستی جاننا شروع کر دیں اور نہ اتنی بدگھمانی میں پڑیں کے اپنے ہی ضمیر کا گلا کاٹنا پڑجائے۔بُرے لوگوں میں کوئی اچھا ہے تو اُس کو اچھا ضرور گردانیں مگر اچھوں میں کوئی بُرا ہے تو اُ س پر نظر ثانی ضرور فرمایئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اسلام ہے کیا شریعت ہے۔۔۔۔ اللہ اِن ظالموں کا خود سخت سے سخت حساب لے۔۔۔۔ آمین[/

بھائی مجھے تو لگتا ہے کہ اللہ ان ظالموں سے زیادہ اان لوگوں‌کا حساب لے گا جو یہ سب تماشے خاموشی سے کھڑے دیکھتے رہتے ہیں‌ بلکہ پس پردہ اس پر خوش ہیں اور ہر جائز و ناجائز بہانے بنا کر اس غآرت گردی کا دفاع کرتے ہین
 
یہ وہ اسلام ہے جو ظلم و جبر سے عبارت ہے ۔ یہ وہ اسلام ہے جس میں خودکشیاں جائز ہیں ۔ یہ وہ اسلام ہے جس میں ایسے لوگوں کو جو آپ سے اختلاف رکھتے ہوں نشان عبرت بنانے کا حکم ہے ، یہ وہ اسلام ہے جو قتل مسلم کی اجازت دیتا ہے ، یہ وہ اسلام ہے جو ملک کے اندر بغاوت کو جائز قرار دیتا ہے ، یہ وہ اسلام ہے جو فتنہ کو جہاد اور جہاد کو ظلم و ستم کا نام دیتا ہے ، یہ وہ اسلام ہے جو مہمانوں کو اغوا کر کے انکو ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے ، یہ وہی اسلام ہے جو عورتوں کو سرعام سزائیں دینے کے نام پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کو جائز قرار دیتا ہے ، یہ وہ اسلام ہے جس میں خواتین گھروں میں قید انسانیت سے بھی کم تر درجے پر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ، یہ وہ اسلام ہے جو زندہ افراد کے کان کاٹنے کو جائز قرار دیتا ہے ، یہ وہ اسلام ہے جو عورتوں کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ کر سکیں ۔ یہ وہ اسلام ہے جو بچوں کو بموں کے طور استعمال کرنے کو جائز قرار دیتا ہے ، یہ وہی اسلام ہے جو قبروں سے لاشوں کو نکال کر کھمبوں پر لٹکانے کو جائز قرار دیتا ہے ، یہ وہی اسلام ہے جو جنازوں پر حملہ کر کے ان لوگوں کی جانیں لیتا ہے جو ان کے مخالف کے جنازے میں شامل ہوں ۔


اگر یہ اسلام ہے تو کہاں ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لایا ہوا اسلام جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر قائم ہے کیا اسے بھی اسلام ہی کہتے ہیں
 

مغزل

محفلین
مالک و مولی تو ہی مدد فرما ۔ تو رحمان ہے تو قہار بھی توہے ان اور ان ایسے ظالموں پر قہر نازل فرما
مالک و مولی ہم تیرے محبوب کے امتی ہیں مگر ان ایسا کردار ہمارا نہیں کہ ہم ان کیلیے دعا کریں
مالک و مولی تو ہی رحم فرما ۔
اٰمین
 

مغزل

محفلین
روشن خیال بھی بنیں اور اسلام گزار بھی :
اِس سترہ سالہ بچی کا قصور صرف اتنا تھا کے اپنے گھر سے ایک ایسے آدمی کے ساتھ باہر آئی جو کے اِس کا شوہر نہیں تھا۔۔ اِس کے لئے 37 کوڑوں کی سزا تجویز کی گئ تھی۔۔۔ اس ظلم سے پہلے کوئی قانونی کاروائی نہیں‌ ہوئی ،کوئی صفائی کا موقع نہیں دیا گیا ہے اور صرف ایک پڑوسی کے شک کی بنیاد پر کوڑے لگائے گئے ہیں اور جب اس بچی کو کوڑے لگ رہے ہیں تو وہ چیخ رہی ہے کہ کوڑے نہ مارو بلکہ اس سے بہتر ہے کہ قتل کر دو۔
 

مغزل

محفلین
ہمارے دوست انجم رشید فرماتے ہیں کہ :

اللہ بچائے ہمیں ایسی شریعت سے اسلام تو امن کا درس دیتا ہے اسلام میں تو شریعت کا اور معفوم ہے یہ تو ظلم ہے اللہ وہ بچی تو میری بھی نہیں ہے لیکن واللہ بہت دکھ ہوا ہمیں ایسا قانون پاکستان میں نہیں چاہیے اللہ ہمیں ان درندوں سے بچائے کیا پڑوسی فرشتہ تھا کیا مارنے والا فرشتے تھے کیا پڑوسی کا اس بے سے بیر نہیں ہو سکتا مجھے ایک بات یاد آرہی ہے کہ جب کیسی کو سنسار کیا جائے تو پہلا پتھر وہ آدمی مارے جس نے زندگی میں کبھی گناہ نہ کیا ہو کیا مارنے والے اتنے ہی مومن تھے انہوں نے تو یہ بھی خیال نہیں کیا کہ اگر گھر کی عزت کو سرے بازار نیلام کر دیں اس بچی کا بھی نہ سوچا جس کو سرے بازار لٹا کر مارا گیا عیسی کا قول ہے کہ کیسی کی آنکھ کا تنکہ دیکھنے سے پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھیں واللہ بہت دکھ ہوا اب اس بچی اور اس کے والدین سے بھی کوئی پوچھے کہ ان پر کیا گزری اللہ ہمیں ان درندوں سے بچائے آمین ثم آمین
 
Top