سوات ڈیل مبارک ہو

لیکن اب تو اس نظام کو ہی کافرانہ قرار دیا جا رہا ہے جس پر مسلمان علماء کا بھی اتفاق ہے ۔ اس دستور کو ہی غلط قرار دیا جا رہا ہے ۔ اور اس ملک کو ہی دار الحرب قرار دیا جا رہا ہے جس کی گود میں یہ لوگ پل کر جوان ہوئے ہیں ۔ اسلام کے نقطہ نظر کو یہ لوگ دیکھ کر گزر جاتے ہیں شاید منہ پھیر لیتے ہوں ۔ ان کے لیئے ان کے ملا ہی اسلام کے ٹھیکے دار ہیں ۔ اور کسی کو اسلام کا کیا پتہ۔

ہم سچ میں حالت جنگ میں ہیں اور ہمیں اس کی طرف دھکیلنے والے اور کوئی نہیں یہ ظالمان ہی ہیں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکہ پاکستان کو جو امداد دیتا رہا ہے، یہ اب کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں‌رہی کہ وہ کن مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ اور زیادہ تر وہ فوجی مقاصد ہی ہے، نہ کہ ہماری معشیت کو سہار ا دینے کی کوشش۔


سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد محض کوئ افسانوی داستان نہيں بلکہ ايک حقيقت ہے جس کے نتيجے ميں روزانہ پاکستان کے عوام کی حالت زندگی ميں بہتری لانے کے کئ مواقع پيدا ہوتے ہيں۔

آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امريکی امداد کی فراہمی کا طريقہ کار محض چند افراد کے ذاتی اکاؤنٹس تک رقم کی منتقلی تک محدود ہے جنھيں بعد ميں کٹھ پتليوں کے طور پر استعمال کر کے امريکہ علاقے ميں اپنا اثر ورسوخ بڑھاتا ہے۔

يہ مفروضہ حقآئق کے منافی ہے۔

ايسے بے شمار سرکاری اور غير سرکاری ادارے، تنظيميں اور ان سے منسلک افراد اور ماہرين ہيں جو ايسے درجنوں منصوبوں پر مسلسل کام کر رہے ہيں جو دونوں ممالک کے مابين تعلقات کی مضبوطی کا سبب بن رہے ہيں۔ ميں نے امريکی امداد کی فراہمی کے حوالے سے جو بے شمار اعداد وشمار اس فورم پر پوسٹ کيے ہيں، ان کا مطلب يہ ہرگز نہيں ہے کہ يہ رقم براہراست کچھ افراد کے ذاتی اکاؤنٹس ميں منتقل کی جاتی ہے۔ يہ رقم دراصل جاری منصوبوں پر لگائے جانے والے تخمينے کی عکاسی کرتی ہے۔

ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔

اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں آپ کو کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں جن ميں آپ اس وقت فاٹا ميں جاری سڑکوں کی تعمير کے حوالے سے منصوبوں کی تفصيل ديکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح تعليم، صاف پانی کی فراہمی، ادويات اور بہت سے زرعی منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔

http://img501.imageshack.us/my.php?image=clipimage002ky4.jpg

http://img501.imageshack.us/my.php?image=clipimage003tx6.jpg

http://img102.imageshack.us/my.php?image=clipimage004mk9.jpg

http://img102.imageshack.us/my.php?image=clipimage005gs5.jpg

http://img380.imageshack.us/my.php?image=clipimage006ip8.jpg

http://img380.imageshack.us/my.php?image=clipimage007co4.jpg

http://img397.imageshack.us/my.php?image=clipimage008bp0.jpg

http://img374.imageshack.us/my.php?image=clipimage009nb9.jpg

http://img374.imageshack.us/my.php?image=clipimage010nv8.jpg

http://img397.imageshack.us/my.php?image=clipimage13ex9.jpg

http://img389.imageshack.us/my.php?image=clipimage16ti3.jpg


آپ ديکھ سکتے ہيں کہ مہمند اور باجوڑ ايجنسيوں کے گرد کن سڑکوں پر کام ہو رہا ہے۔ پشاور تا تورخم جی ٹی روڈ اور کالا ڈھکہ کو بسی کھيل کے ذريعے ايکہ زئ اور حسن زئ سے ملانے کے ليے جی – او – پی روڈ کا منصوبہ اس علاقے کے لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے بہت سے مواقع فراہم کرے گا۔

يہ منصوبے اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ امريکی حکومت مسائل کے حل کے ليے محض فوجی کاروائ پر يقين نہيں رکھتی۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

موجودہ دور ميں جبکہ ساری دنيا ايک "گلوبل وليج" کی شکل اختيار کر چکی ہے پاکستان جيسے نوزائيدہ ملک کے ليے امداد کا انکار کسی بھی طرح عوام کی بہتری کا سبب نہيں بن سکتا۔ يہ بھی ياد رہے کہ يہ بھی باہمی امداد کے پروگرامز کا ہی نتيجہ ہے پاکستانی طالب علم اور کاروباری حضرات امريکہ سميت ديگر ممالک کا سفر کرتے ہيں اور وہاں سے تجربہ حاصل کر کے پاکستانی معاشرے کی بہتری کا موجب بنتے ہيں۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال ضرور کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن ان مسائل کو بنياد بنا کر ان منصوبوں کو يکسر ختم کر دينے کی بجائے انکےحل کی کوششيں کرنی چاہيے۔

اس ضمن ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت ميں آڈيٹيرز اور انسپکثرز پر مشتمل احتساب کا ايک موثر نظام موجود ہے جو اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ امريکی امداد سے براہ راست عام عوام کو فائدہ پہنچے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

عسکری

معطل
بجا فرمایا فواد بھائی لوگ امریکہ کو بھی شااید پاکستان سمجھتے ہیں ورنہ کرپشن امریکہ میں عشر عشیر نہیں ہماری نسبت ۔فوجی ہو یا سول امداد میں فائدہ پاکستان کا ہے اور امداد لے کر لعن طعن کرنے الے ہم ہی ہیں بجائے شکریہ کے ہم باتوں کو مکس کر دیتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
بات یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت جو عوام کے نام پر ترلے منتیں کر کے امداد لیتی ہے اس کا بیشتر حصہ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
بات یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت جو عوام کے نام پر ترلے منتیں کر کے امداد لیتی ہے اس کا بیشتر حصہ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے۔

امداد بھی تو حکمران اپنے لیے لیتے ہیں نا۔ اگر عوام کیلئے کام کرنا ہوتا تو امداد لیتے ہی کیوں؟ ملک میں وسائل کی کمی ہے کیا؟
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن لیتے تو عوام کے نام پر ہیں ناں۔ اور آج یہ حالت ہے کہ پاکستان کا ہر فرد، ہر شہری غیر ملکی قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ اور حکمران بڑے بڑے محلوں میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں چین کی نیند سو رہے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
لیکن لیتے تو عوام کے نام پر ہیں ناں۔ اور آج یہ حالت ہے کہ پاکستان کا ہر فرد، ہر شہری غیر ملکی قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ اور حکمران بڑے بڑے محلوں میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں چین کی نیند سو رہے ہیں۔

عوام کا قصور ہے لیکن سب سے پہلے محمد بن قاسم کا:)
 

عسکری

معطل
وہ کیسے بھائی ذرا سمجھا دو مجھے؟؟؟؟؟؟؟؟// اس میں محمد بن قاسم کا کیا قصور ۔اس میں مجھے کولمبس کا قصور لگتا ہے نا وہ امریکہ ایجاد کرتا نا یہ دن دیکھنا پڑتے خود تو ایجاد کر کے مر گیا بھگتنا اب ہمیں پڑ رہا ہے:grin:
 

arifkarim

معطل
وہ کیسے بھائی ذرا سمجھا دو مجھے؟؟؟؟؟؟؟؟// اس میں محمد بن قاسم کا کیا قصور ۔اس میں مجھے کولمبس کا قصور لگتا ہے نا وہ امریکہ ایجاد کرتا نا یہ دن دیکھنا پڑتے خود تو ایجاد کر کے مر گیا بھگتنا اب ہمیں پڑ رہا ہے:grin:

عثمانیوں کا قصور ہے۔ اگر وہ قسطنطیہ پر قبضہ نہ کرتے تو کولمبس شاید اسوقت تیسری دنیا کا رخ نہ کرتا۔
 

عسکری

معطل
پر ابھی تو آپ نے کہا بھائی جی محمد بن قاسم کا قصور تھا اب عثمانیوں کا بات کلئیر کرو یار اصل قصور کس کا تھا:grin:
 

شمشاد

لائبریرین
ارے بھائی محمد بن قاسم سے پہلے عثمانی پھر ان سے پیچھے چلے جاؤ، پھر ان سے پیچھے ۔۔۔۔ اسی طرح کرتے کرتے بات چودہ سو سال پیچھے چلی جائے گی۔ سمجھ گئے ناں۔
 

عسکری

معطل
پر محمد بن قاسم پہلے تھے عثمانی بعد میں اور کرسٹوفر کولمبس ان کے بعد اس ظرح بات آگے جائے گی ویسے آپ مردم شناس ہیں جلدی عارف کے ارادے بھانپ گئے
 

arifkarim

معطل
عارف یہ دوسری مرتبہ ہے کہ میں آپ کو اسلامی شخصیات کے متعلق گفتگو میں احتیاط کا مشورہ دے رہا ہوں ۔ براہ کرم اپنی گفتگو میں احتیاط کیا کیجئے ۔

شکریہ

محمد بن قاسم کوئی اسلامی شخصیت نہیں بلکہ صرف ایک نو عمر مسلم جرنیل تھا۔ جسنے کمال حسن و کمال و اخلاق سے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کروایا۔ وہ بیچارا تو ہمیں‌روشنی دےکر قید خانے میں مر گیا لیکن ہم ابھی تک اس چراغ کو گُل کرنے کیلئے پھونکیں مار رہے ہیں- یہ سوات ڈیل بھی ایک "بڑی پھونک " ہے۔ :(
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سوات کی صورت حال کے حوالے سے مولوی صوفی محمد کے خيالات خود انھی کی زبانی نہايت اہمیت کے حامل ہيں جو انھوں نے گزشتہ چند دنوں ميں پاکستانی ميڈيا پر ديے گئے انٹرويوز ميں عوام کے سامنے پيش کيے ہیں۔

http://www.friendskorner.com/forum/...mmad-special-interview-3rd-may-2009-a-110128/

http://pkpolitics.com/2009/05/03/off-the-record-3-may-2009/

يہ بالکل واضح ہے کہ وہ مذہب کو ايک جذباتی بحث کے ليے استعمال کر رہے ہيں۔ زمينی حقیقت يہ ہے کہ يہ گروہ سياسی طاقت کے حصول اور خطے میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ بصورت ديگر اس بات کی کيا منطق ہے کہ وہ پاکستان کی تمام سياسی اور مذہبی گروہوں اور جماعتوں کے خيالات، انکی پاليسيوں اور منشور کو کلی طور پر مسترد کر ديتے ہيں۔ صرف يہی نہيں بلکہ وہ پاکستان کی پارليمنٹ، ہائ کورٹس، سپريم کورٹس، منتخب حکومتوں اور يہاں تک کہ پاکستان کے آئين کو بھی مکمل طور پر مسترد کرتے ہيں۔

ميں نے جب ابتدا ميں سوات معاہدے کے حوالے سے رائے کا اظہار کيا تھا تو ميرے اوپر سب سے زيادہ تنقيد اس توجيہہ کے ساتھ کی گئ تھی کہ امريکہ خطے ميں امن نہيں چاہتا۔ ميرا شروع دن سے يہی موقف ہے کہ سوات معاہدے کا امن سے کوئ تعلق نہيں تھا۔ يہ دہشت گردوں کی جانب سے اس علاقے ميں اپنی رٹ اور مرضی مسلط کرنے کی کوششوں کا ايک تسلسل تھا۔ يہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کے باوجود طالبان نے کس بھی موقع پر نہ ہی ہتھيار ڈالے اور نہ معاہدے کی پاسداری کی۔ بلکہ اس کے برعکس وہ بنير ميں داخل ہو گئے اور اسلام آباد پر قبضے کی خواہش کا برملا اظہار کرنے لگے۔

جو لوگ اب بھی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ گروہ پاکستانيوں کی زندگيوں ميں بہتری لا سکتے ہيں، انھيں مولوی صوفی محمد کے خواتين کے حقوق کے حوالے سے خيالات ضرور سننے چاہيے۔

"خواتين کو صرف اس صورت ميں گھر سے باہر نکلنا چاہيے جب وہ حج پر جا رہی ہوں"۔

کيا پاکستان کا يہ مستقبل کسی کے ليے بھی قابل قبول ہو سکتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
میں نے سوات ڈیل کے متعلق اسی ڈورے میں بالکل ابتدا میں ہی یہ خدشات ظاہر کیے تھے کہ طالبان کی فطرت تبدیل نہیں کی جا سکتی اور ان سے کسی بھی قسم کے مذاکرات صرف اور صرف ہمارے لیے تباہی ہی لانے کا باعث ہوں گے۔
میں نے لکھا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ طالبان سوات ڈیل کی آڑ میں اتنا وقت حاصل کر لیں گے کہ پھر سے ری گروپ اور ری آرگنائز ہو کر مزید اگلے علاقوں تک اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کو بڑھا دیں۔
افسوس کہ میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔
میرا تمام غم و غصہ میڈیا میں موجود ان رائیٹ ونگ مذہبی جنونیوں اور انکے حمایتیوں پر ہے کہ اتنے بار طالبان سے ڈسے جانے کے باوجود یہ قوم کو باور کروانے میں کامیاب ہو گئے کہ یہ ڈیل امن کا پیغام ہے اور دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اسی رائیٹ ونگ میڈیا نے اتنا دباؤ ڈالا کہ ہر کسی نے اس دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اس دباؤ کے تحت معاہدہ کر لیا۔ ذرا دیکھئے اب ذیل میں کہ یہ سوات ڈیل کتنے فتنے و فساد کو اپنے دامن میں لیے ہوئے تھی۔

سوات: عارضی بندوبست، طالبان کی تنظیم نو
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/05/090505_taliban_swat_rh.shtml
عبدالحئی کاکڑ

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

سوات معاہدہ ایک عارضی بندوبست ہے: صدر زرداری

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی طاقت اور مذاکرات کو شدت پسندی کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے نہیں بلکہ ایک قلیل المیعاد سیاسی اور عسکری حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

سولہ فروری کو سوات میں تشدد روکنے کے لیے جب امن معاہدہ ہوا اور امریکہ نے معاہدے پر شدید تنقید شروع کردی تو صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پاکستان اور افغانستان کے لیے صدر اوبامہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک سے کہا تھا کہ ’سوات معاہدہ ایک عارضی بندوبست ہے‘۔

یہ کہہ کر سربراہِ مملکت نے اسی روز ہی سوات معاہدے کی پائیداری کے ساتھ جڑی ہوئی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ سوات میں نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کے باوجود گزشتہ چند روز سے طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں نے ان کی بات درست ثابت کردی۔

حکومت کی اس ’عارضی بندوبست‘ سے خود حکومت نے نہیں بلکہ طالبان نے بھرپور انداز میں استفادہ کیا۔ ان ڈھائی مہینوں میں طالبان نے خود کو اتنا منظم کردیا ہے کہ اس بار مبصرین کے بقول چھڑنے والی جنگ ماضی کے مقابلے میں شدید ہوسکتی ہے۔

مذاکرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے چار سطحوں پر خود کو منظم کرتے ہوئے اپنی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔ان میں مسلح تنظیم نو، توسیع پسندانہ اقدامات، بھرتی اور تربیت، لاجسٹک ،ٹرانسپورٹیشن اور عسکری تیاریاں شامل ہیں۔
مسلح تنظیم نو

مذاکرات سے قبل سوات میں طالبان کی تنظیمی ساخت ڈھیلی ڈھالی تھی جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حالت جنگ میں تھے اور اتنا موقع میسر نہیں آتا کہ وہ تنظیمی ساخت کو مضبوط کرتے۔ جنگ کی وجہ سے ان کے بعض ذمہ دار ساتھی یا تو ہلاک ہوئے تھے یا گرفتار، اور باقی روپوش ہوگئے تھے۔ انہیں آپس میں مشاورت کرنے کاموقع کم ہی میسر آتا۔

لیکن مذاکرات کے بعد جب فوج اپنی بیرکوں میں واپس چلی گئی تو طالبان نے تنظیمی ساخت کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے پہلی بار یونٹ، گاؤں، یونین، تحصیل اور ضلع کی سطح پر اپنی تنظیم نو کی اور کمانڈر اور نائب کمانڈر اور اسی ترتیب سے نیچے تک مختلف افراد کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

محلے کی سطح پر ان کے جاسوسی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا

اس کے علاوہ انہوں نے کاموں کو بھی تقسیم کیا اور سبھی شعبوں کو علیحدہ علیحدہ کرتے ہوئے ذمہ داران کو مقرر کردیا گیا۔ مثلاً شرعی عدالتوں، جاسوسی کرنے، معاملات نمٹانے، شعبہ عروسات( میرج بیورو) وغیرہ کو مزید وسیع کرتے ہوئے انہیں مضبوط کیا۔
بھرتی اور تربیت

سوات میں یونٹ کی سطح پر طالبانائزیشن کے منتقل ہونے سے مقامی لوگوں کے مطابق طالبان کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچا۔ محلے کی سطح پر ان کے جاسوسی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پہلے جب کبھی لوگ نجی محافل میں طالبان کو ہدف تنقید بناتے بھی تو انہیں ڈر نہیں لگتا تھا لیکن اب لوگ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انتہائی محتاط ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بات کرنے سے اجتناب ہی کرے۔

پہلے نجی محافل میں طالبان پر ہونے والی تنقید میں ان نوجوانوں کو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آجاتا جو یا تو طالبان سے متاثر تھے یا پھر ایسی ذہنی کیفیت سے گز رہے تھے کہ وہ کسی بھی وقت ان کی صفوں میں شامل ہوسکتے تھے۔ لیکن اب نجی محفلوں میں اس سلسلے کے رک جانے سے تھوڑی بہت ’زبانی مزاحمت‘ بھی دم توڑ گئی اس لیے طالبان کو نوجوانوں کے بھرتی کرنےمیں آسانی ہوئی۔

یونٹ کی سطح پر تنظیم نو سے طالبان کو یہ فائدہ بھی پہنچا کہ انہوں نے نوجوان طبقے کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگی ترانے اور دیگر عسکری مواد پر مشتمل سی ڈی فلمیں تقسیم کیں۔ اس کا ایک اثر تو یہی ہوا کہ طالبان معاشرے خصوصاً نوجوان طبقے میں ’آئیڈیالائز‘ ہوگئے۔ مینگورہ اور سیدو شریف میں بچوں کا یہ جنگی ترانہ گنگنانا اس کی ایک اچھی مثال ہے کہ ’جنگ د یوویشتمی صدئی طالب گٹلئی دئی‘ (اکیسویں صدی کی جنگ طالبان نے جیت لی ہے)۔

یونٹ کی سطح پر تنظیم نو اور طالبان کا فوج کو شکست دینے نے انہیں معاشرے میں جب آڈیالائیز کیا تو پورے سوات میں بڑے پیمانے پر سولہ سے پچیس سال کے درمیان عمر کی نوجوانوں کی بھرتی اور تربیت کا عمل شروع ہوگیا۔ مختلف ذرائع سے جمع کی جانے والی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق ان ڈھائی مہینوں کے دوران طالبان نے پانچ ہزار کے قریب نوجوان بھرتی کئے ہیں جنہیں تربیت دینے کے لیے اب تربیت گاہوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔
لاجسٹک، ٹرانسپورٹیشن اور عسکری تیاریاں

ان ڈھائی ماہ کے دوران طالبان نے اپنے استعمال کے لیے بڑی تعداد میں گاڑیاں حاصل کی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر لوئر دیر اور بونیر میں طالبان کی جانب سے این جی اوز اور حکومتی اہلکاروں سے قبضہ میں لی گئی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے سوات کے زیادہ تر علاقوں میں سرکاری سڑکوں کے علاوہ اپنی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے نئی نئی کچی سڑکیں بھی تعمیر کی ہیں۔

سرکاری سڑکوں کے علاوہ اپنی نقل و حرکت کو کے لیے نئی کچی سڑکیں بھی تعمیر کی ہیں

اس کے ساتھ انہوں نے مستقبل میں فوجی کارروائی کے شروع ہونے اور سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مختلف علاقوں جیسے مینگورہ کالام، مینگورہ مٹہ، مینگورہ شاہ ڈھیرئی اور مینگورہ مالم جبہ سڑکوں کے کنارے بارودی سرنگیں بھی بچھائی ہیں۔
توسیع پسندانہ اقدامات

حکومت کو امن معاہدے پر مجبور کرنے اور ڈیڑھ سالہ لڑائی میں سکیورٹی فورسز کو بظاہر شکست دینے نے طالبان کے مورال اور احساس تفاخر کو اتنا قوی کردیا کہ انہوں نے پہلی بار اپنی سرگرمیوں میں بین لاقوامی اہداف کا اظہار کرتے ہوئے القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی بات کی۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا لیکن اس قسم کی خواہش رکھنے کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔

مذاکرات کے بعد طالبان اپر سوات یعنی تحصیل مٹہ، کبل اور چہار باغ سے اپنی کنٹرول کو وسعت دیتے ہوئے سوات کے ایسے علاقوں میں اپنی مکمل رٹ قائم کردی جہاں پر پہلے ان کی عملداری نہیں تھی۔ ان علاقوں میں جامبیل، کوکارئی اورمرغزارشامل ہیں۔ سوات کے ان علاقوں کی سرحدیں ضلع بونیر سے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بونیر کی جانب پیشدمی میں آسانی ہوئی۔اس کے علاوہ ان کی سرگرمیاں لوئر دیر تک بھی پہنچ گئی ہیں۔

اس سوات ڈیل کے نتیجے میں بے تحاشہ معصوم اور خون کا نشانہ بن گئے، اور اب سوات پر طالبان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ انہیں پسپا کرتے کرتے پتا نہیں کتنے معصوم پاکستانی شہری اور مارے جائیں گے۔
ان تمام معصوموں کے خون کا ذمہ دار طالبان سے کہیں زیادہ یہ رائیٹ ونگ میڈیا ہے۔
 
سب سے زیادہ امریکی حکومت ہے جس کی بلاوجہ جارحیت سے تحریک پاکستان طالبان پیدا ہوئی اور مشرف پر ہے جس کی بلاوجہ جارحیت سے تحریک طالبان زور پکڑئے ہوئے ہے اور پھر پاکستانی ایجنیسوں پر ہے جو پاکستان کو بچانے کے لیے طالبان کی ڈھال استعمال کرتی ہیں۔

حیرت ہے بخار کو دیکھتی ہیں‌اور جو وجہ سوائن وائرس ہے اس پر نظر نہیں۔
 
"خواتين کو صرف اس صورت ميں گھر سے باہر نکلنا چاہيے جب وہ حج پر جا رہی ہوں"۔

کيا پاکستان کا يہ مستقبل کسی کے ليے بھی قابل قبول ہو سکتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

پاکستان کا مسقبل تو وہی ہے جو اپکے ملک کو قابل قبول ہو؟
 
Top