سوات: عارضی بندوبست، طالبان کی تنظیم نو
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/05/090505_taliban_swat_rh.shtml
عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
سوات معاہدہ ایک عارضی بندوبست ہے: صدر زرداری
اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی طاقت اور مذاکرات کو شدت پسندی کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے نہیں بلکہ ایک قلیل المیعاد سیاسی اور عسکری حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
سولہ فروری کو سوات میں تشدد روکنے کے لیے جب امن معاہدہ ہوا اور امریکہ نے معاہدے پر شدید تنقید شروع کردی تو صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پاکستان اور افغانستان کے لیے صدر اوبامہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک سے کہا تھا کہ ’سوات معاہدہ ایک عارضی بندوبست ہے‘۔
یہ کہہ کر سربراہِ مملکت نے اسی روز ہی سوات معاہدے کی پائیداری کے ساتھ جڑی ہوئی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ سوات میں نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کے باوجود گزشتہ چند روز سے طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپوں نے ان کی بات درست ثابت کردی۔
حکومت کی اس ’عارضی بندوبست‘ سے خود حکومت نے نہیں بلکہ طالبان نے بھرپور انداز میں استفادہ کیا۔ ان ڈھائی مہینوں میں طالبان نے خود کو اتنا منظم کردیا ہے کہ اس بار مبصرین کے بقول چھڑنے والی جنگ ماضی کے مقابلے میں شدید ہوسکتی ہے۔
مذاکرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے چار سطحوں پر خود کو منظم کرتے ہوئے اپنی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔ان میں مسلح تنظیم نو، توسیع پسندانہ اقدامات، بھرتی اور تربیت، لاجسٹک ،ٹرانسپورٹیشن اور عسکری تیاریاں شامل ہیں۔
مسلح تنظیم نو
مذاکرات سے قبل سوات میں طالبان کی تنظیمی ساخت ڈھیلی ڈھالی تھی جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حالت جنگ میں تھے اور اتنا موقع میسر نہیں آتا کہ وہ تنظیمی ساخت کو مضبوط کرتے۔ جنگ کی وجہ سے ان کے بعض ذمہ دار ساتھی یا تو ہلاک ہوئے تھے یا گرفتار، اور باقی روپوش ہوگئے تھے۔ انہیں آپس میں مشاورت کرنے کاموقع کم ہی میسر آتا۔
لیکن مذاکرات کے بعد جب فوج اپنی بیرکوں میں واپس چلی گئی تو طالبان نے تنظیمی ساخت کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے پہلی بار یونٹ، گاؤں، یونین، تحصیل اور ضلع کی سطح پر اپنی تنظیم نو کی اور کمانڈر اور نائب کمانڈر اور اسی ترتیب سے نیچے تک مختلف افراد کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
محلے کی سطح پر ان کے جاسوسی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا
اس کے علاوہ انہوں نے کاموں کو بھی تقسیم کیا اور سبھی شعبوں کو علیحدہ علیحدہ کرتے ہوئے ذمہ داران کو مقرر کردیا گیا۔ مثلاً شرعی عدالتوں، جاسوسی کرنے، معاملات نمٹانے، شعبہ عروسات( میرج بیورو) وغیرہ کو مزید وسیع کرتے ہوئے انہیں مضبوط کیا۔
بھرتی اور تربیت
سوات میں یونٹ کی سطح پر طالبانائزیشن کے منتقل ہونے سے مقامی لوگوں کے مطابق طالبان کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچا۔ محلے کی سطح پر ان کے جاسوسی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پہلے جب کبھی لوگ نجی محافل میں طالبان کو ہدف تنقید بناتے بھی تو انہیں ڈر نہیں لگتا تھا لیکن اب لوگ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انتہائی محتاط ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بات کرنے سے اجتناب ہی کرے۔
پہلے نجی محافل میں طالبان پر ہونے والی تنقید میں ان نوجوانوں کو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آجاتا جو یا تو طالبان سے متاثر تھے یا پھر ایسی ذہنی کیفیت سے گز رہے تھے کہ وہ کسی بھی وقت ان کی صفوں میں شامل ہوسکتے تھے۔ لیکن اب نجی محفلوں میں اس سلسلے کے رک جانے سے تھوڑی بہت ’زبانی مزاحمت‘ بھی دم توڑ گئی اس لیے طالبان کو نوجوانوں کے بھرتی کرنےمیں آسانی ہوئی۔
یونٹ کی سطح پر تنظیم نو سے طالبان کو یہ فائدہ بھی پہنچا کہ انہوں نے نوجوان طبقے کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگی ترانے اور دیگر عسکری مواد پر مشتمل سی ڈی فلمیں تقسیم کیں۔ اس کا ایک اثر تو یہی ہوا کہ طالبان معاشرے خصوصاً نوجوان طبقے میں ’آئیڈیالائز‘ ہوگئے۔ مینگورہ اور سیدو شریف میں بچوں کا یہ جنگی ترانہ گنگنانا اس کی ایک اچھی مثال ہے کہ ’جنگ د یوویشتمی صدئی طالب گٹلئی دئی‘ (اکیسویں صدی کی جنگ طالبان نے جیت لی ہے)۔
یونٹ کی سطح پر تنظیم نو اور طالبان کا فوج کو شکست دینے نے انہیں معاشرے میں جب آڈیالائیز کیا تو پورے سوات میں بڑے پیمانے پر سولہ سے پچیس سال کے درمیان عمر کی نوجوانوں کی بھرتی اور تربیت کا عمل شروع ہوگیا۔ مختلف ذرائع سے جمع کی جانے والی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق ان ڈھائی مہینوں کے دوران طالبان نے پانچ ہزار کے قریب نوجوان بھرتی کئے ہیں جنہیں تربیت دینے کے لیے اب تربیت گاہوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔
لاجسٹک، ٹرانسپورٹیشن اور عسکری تیاریاں
ان ڈھائی ماہ کے دوران طالبان نے اپنے استعمال کے لیے بڑی تعداد میں گاڑیاں حاصل کی ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر لوئر دیر اور بونیر میں طالبان کی جانب سے این جی اوز اور حکومتی اہلکاروں سے قبضہ میں لی گئی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے سوات کے زیادہ تر علاقوں میں سرکاری سڑکوں کے علاوہ اپنی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے نئی نئی کچی سڑکیں بھی تعمیر کی ہیں۔
سرکاری سڑکوں کے علاوہ اپنی نقل و حرکت کو کے لیے نئی کچی سڑکیں بھی تعمیر کی ہیں
اس کے ساتھ انہوں نے مستقبل میں فوجی کارروائی کے شروع ہونے اور سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مختلف علاقوں جیسے مینگورہ کالام، مینگورہ مٹہ، مینگورہ شاہ ڈھیرئی اور مینگورہ مالم جبہ سڑکوں کے کنارے بارودی سرنگیں بھی بچھائی ہیں۔
توسیع پسندانہ اقدامات
حکومت کو امن معاہدے پر مجبور کرنے اور ڈیڑھ سالہ لڑائی میں سکیورٹی فورسز کو بظاہر شکست دینے نے طالبان کے مورال اور احساس تفاخر کو اتنا قوی کردیا کہ انہوں نے پہلی بار اپنی سرگرمیوں میں بین لاقوامی اہداف کا اظہار کرتے ہوئے القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی بات کی۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا لیکن اس قسم کی خواہش رکھنے کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔
مذاکرات کے بعد طالبان اپر سوات یعنی تحصیل مٹہ، کبل اور چہار باغ سے اپنی کنٹرول کو وسعت دیتے ہوئے سوات کے ایسے علاقوں میں اپنی مکمل رٹ قائم کردی جہاں پر پہلے ان کی عملداری نہیں تھی۔ ان علاقوں میں جامبیل، کوکارئی اورمرغزارشامل ہیں۔ سوات کے ان علاقوں کی سرحدیں ضلع بونیر سے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بونیر کی جانب پیشدمی میں آسانی ہوئی۔اس کے علاوہ ان کی سرگرمیاں لوئر دیر تک بھی پہنچ گئی ہیں۔