کاشفی

محفلین
غزل
(لُطف الرحمن)
سطح سے بےتابیء دریا کا اندازہ نہ کر
میرا چہرہ دیکھنے والے مرے دل میں اُتر

یوں تو ہر الزام آیا تیرگی کے نام پر
جگمگاتی روشنی میں کھوگئی میری سحر

جانے والا ایک لمحہ پھر نہ آیا لوٹ کر
منتظر ہوں آج تک میں وقت کی دہلیز پر

کتنی صدیوں سے کھڑی ہے سر پہ تیکھی دوپہر
کون سایہ دے گا، عریاں ہوگیا ہے ہر شجر

سنگ ہی بنیاد کا رکھا گیا تھا کج بہت
اب عمارت گر رہی ہے تو بہت حیرت نہ کر
 
Top