سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
گزرے ہوئے تمام مناظر نظر میں ہیں
گھر میں بھی اس طرح ہیں کہ جیسے سفر میں ہیں

پتھراؤ کرنے والے بہت دور بین ہیں
کچھ پھل ضرور اب بھی ہمارے شجر میں ہیں

یا تنگ ہو گئی ہیں فضاؤں کی سرحدیں
یا وسعتیں تمام مرے بال و پر میں ہیں

تھا کس کا انتظار کہ اُجڑے مکان میں
آنکھیں سی اب بھی چپکی ہوئی بام و در میں ہیں

منظورؔ سب ہمیں ہیں ترے شہر کے عذاب
محسوس تو کریں کہ ہم اپنے ہی گھر میں ہیں



***
 

الف عین

لائبریرین
اگر نہیں ہےمری پیاس کے مقدر میں
تو خاک ڈال دے جاکر کوئی سمندر میں

پہاڑ کاٹ کے نہریں نکالنے والے
اُگا کے فصل دکھائیں ہمارے بنجر میں

تمام رات اندھیرے سے جنگ کرنا ہے
اور اک چراغ ہی باقی بچا ہے لشکر میں

اسی لئے تو وہاں دل زیادہ لگتا ہے
علاوہ کام کے کچھ اور بھی ہے دفتر میں

کبھی کُلاہ کبھی تیغ ڈھونڈھتی ہے اسے
عجب کشش ہے ہمارے اٹھے ہوئے سر میں

انہیں بھی مژدہ سنائے کبھی تو صبحِ نشاط
جو سو گئے ہیں لپٹ کر دکھوں کی چادر میں


***
 

الف عین

لائبریرین
اداس لمحے کبھی اتنے خوف زاد نہ آئیں
کہ ہاتھ اٹھائیں دعا کو تو حرف یاد نہ آئیں

سروں پہ اس کا بھی سایا بہت غنیمت ہے
وہ شاخِ خشک کہ جس میں گلِ مراد نہ آئیں

سخن سرائے میں بس سرخ روشنائی ہے
سمجھ کے سہل ادھر اب قلم نہاد نہ آئیں

نظر سے دور سہی دل میں جاگزیں تو رہیں
یہ کیا کہ ہجر زدہ ہوں تو گھر کو یاد نہ آئیں

یہ خاک و خون کا قصّہ تمام ہو ہم پر
ہمارے بچوں پہ یہ دکھ ہمارے بعد نہ آئیں


***
 

الف عین

لائبریرین
دشت میں رہ کر چمن کی گفتگو کرتے رہے
کس قدر دیوانہ پن کی گفتگو کرتے رہے

دیکھ کر پھولوں کو صحرا میں بہت جی خوش ہوا
دیر تک ہم باغ و بن کی گفتگو کرتے رہے

تھا بیاں ایسا کہ لفظوں سے لہو بہنے لگا
جانے کس کے بانکپن کی گفتگو کرتے رہے

تھا کمالِ رنگ و بو کیف و طرف کا تذکرہ
اور سب اس کے بدن کی گفتگو کرتے رہے

ایک ہم ہی تھے کہ جو عریانیوں کے شہر میں
احترامِ پیرہن کی گفتگو کرتے رہے

/**
 

الف عین

لائبریرین
کھلے تھے ایسے کبھی موسمِ شباب کے پھول
کہ سوکھ کر بھی مہکتے ہیں وہ گلاب کے پھول

زمیں نہال ہوئی اب کے ایسی بارش میں
کہ فرشِ خاک پہ کھلنے لگے حباب کے پھول

مکالمہ تو چلے پھر تو مل ہی جائیں گے
کبھی سوال کے پتھر کبھی جواب کے پھول

اگر ان آنکھوں کو روشن چراغ ٹھہرائیں
تو اس کے عارض و لب کو کہیں گلاب کے پھول

بدل کے دھارے کا رخ بھی کہاں بٹا پانی
کہ ملتے رہتے ہیں راویؔ میں بھی چناب ؔ کے پھول

لکھا ہوا تھا جہاں میرے گلبدن کا نام
تمام حرف بنے تھے وہاں کتاب کے پھول

***
 

الف عین

لائبریرین
خطوط پتوں پہ لکھے ہوئے بھی آئے ہیں
ہوا نے اور بھی پیغام کچھ سنائے ہیں

ہوا سے سن کے بہت جھومنے لگیں شاخیں
بلند پیڑوں نے خوش ہوکے سر ہلائے ہیں

فضائے دشت کو ذوقِ نمو نے سمجھا کر
اسی زمیں میں خزانے بہت اگائے ہیں

کِھلی تو کون بچائے گا دشتِ گلچیں سے؟
کلی کے سامنے یہ مرحلے بھی آئے ہیں

ترا خیال تری یاد تیرا ذکر کیا
تو رنگ ونور کی برسات میں نہائے ہیں

****
 

الف عین

لائبریرین
اس طرح نگاہوں پہ نہ چھا جائے کوئی اور
آئینہ بھی دیکھیں تو نظر آئے کوئی اور

اب شہر میں انصاف کی یہ رسم چلی ہے
ہو جرم کسی کا تو سزا پائے کوئی اور؟

اتنی تو ملے داد ہمیں لغزشِ پا کی
گِر جائیں اگر ہم تو سنبھل جائے کوئی اور

یہ آخری پردہ بھی اٹھانے تو چلے ہو
ایسا نہ ہو پردے میں نکل آئے کوئی اور؟

سچا ہے تعلق تو کبھی یوں بھی تو ہو جائے
ہو درد ہمارے تو تڑپ جائے کوئی اور

جب یہ کسی صورت بھی ہماری نہیں سنتا
کیسے دلِ بیتاب کو سمجھائے کوئی اور


***
 

الف عین

لائبریرین
یوں تو دیوار و دَر بھی کہتے ہیں
ہیں ہمارے تو گھر بھی کہتے ہیں

آسماں بھر اڑان رکھتا ہے
وہ جسے مشتِ پر بھی کہتے ہیں

ہاں کہا تھا یہ ہم نے پہلے بھی
اور بارِ دگر بھی کہتے ہیں

اوس سے ڈبڈبائی نرگس کو
پھول کی چشم تر بھی کہتے ہیں

زندگی کے طویل عرصے کو
وقفۂ مختصر بھی کہتے ہیں

گھر میں کرتے ہیں سیر دنیا کی
اور اس کو سفر بھی کہتے ہیں


***
 

الف عین

لائبریرین
اگر یہ منظر سراب ہوتا
تو آنکھ ہوتی نہ خواب ہوتا

سوال کرکے تو دیکھنا تھا
ہوا کرے جو جواب ہوتا

کبھی کبھی کتنا چاہتے ہیں
یہ واقعہ کاش خواب ہوتا

ہماری آنکھیں چراغ ہوتیں
اور اس کا چہرہ کتاب ہوتا

کہیں مرا نام لکھ تو دیتا
بھلے سرِ موجِ آب ہوتا

ہزار پردوں میں ہے یہ عالم
وہ حسن اگر بے نقاب ہوتا

***
 

الف عین

لائبریرین
یہ سوچ کر بھی دل کو تسلّی ملی تو ہے
جیسی بُری بھلی ہے مگر زندگی تو ہے

تتلی کے واسطے نہ سہی اپنے بوجھ سے
شاخِ گلاب شوق سے نیچے جھکی تو ہے

یہ تو نشانیاں ہیں اسی شہسوار کی
صحرائے جاں میں خاک سنہری اڑی تو ہے

جلنے کی ٹھان لی ہے کہ بجھنا قبول ہے؟
اکثر ہَوا چراغ سے یہ پوچھتی تو ہے

کھل تو رہے ہیں ہاشمیؔ باغِ سخن میں پھول
حرف و نوا کی شاخ ابھی تک ہری تو ہے




***
 

الف عین

لائبریرین
آباد نہیں ایسا کوئی شہر گماں اور
اٹھ جائیں یہاں سے بھی تو جائیں گے کہاں اور

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہے آخری پردہ
اٹھتا ہے تو کھلتا ہے کہ ہے کوئی نہاں اور

گزرے ہوئے موسم کی نشانی کی طرح ہیں
رکھتے ہی نہیں اس کے سوا نام ونشاں اور

بوسیدہ حویلی کی الگ شان ہے اپنی
ہونے کو تو بستی میں نئے بھی ہیں مکاں اور

کِھل جائیں کبھی زخم کبھی پھول چمن میں
یوں ہو تو نہیں آئے کوئی دورِ خزاں اور

کیا کیجئے خواہش کا کہ سیراب بھی ہوکر
بڑھ جاتی ہے آگ اور غبار اور دھواں اور


***
 

الف عین

لائبریرین
انہی پتوں پہ مٹی مل رہی ہے
ہَوا جن کی بدولت چل رہی ہے

عجب شے ہے یہ شمعِ زندگی بھی
کہ بجھنے کے لیے ہی جل رہی ہے

یہی تو پھیلتی ہے بستیوں میں
وہی جو آگ دل میں جل رہی ہے

کوئی ڈوبا تو گہرے پانیوں میں
ذرا سی دیر تو ہلچل رہی ہے

خبر بھی ہے تری شہرت کے پیچھے
کہانی دوسری ہی چل رہی ہے

اسے بھی دفن کرنا چاہتے ہیں
ابھی تک سانس جس کی چل رہی ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
جب دھوپ کے صید ہو گئے ہیں
سب رنگ سفید ہو گئے ہیں

زنجیر تو کٹ چکی ہے لیکن
جھنکار میں قید ہو گئے ہیں

جنگل سے وفا نہ کرنے والے
شہروں میں بھی قید ہو گئے ہیں

چاہت کی نظر سے اس کے عارض
کیا سرخ وسپید ہو گئے ہیں

بس ہم ہی نہیں شکار اس کے
کچھ اور بھی صید ہو گئے ہیں


***
 

الف عین

لائبریرین
کچھ خیالِ دلِ ناشاد تو کرلینا تھا
وہ نہیں تھا تو اسے یاد تو کرلینا تھا

کچھ اڑانوں کے لئے اپنے پروں کو پہلے
جنبش وجست سےٓزاد تو کر لینا تھا

پھر ذرا دیکھتے تاثیر کسے کہتے ہیں
دل کو بھی شاملِ فریاد تو کرلینا تھا

کوئی تعمیر کی صورت بھی نکل ہی آتی
پہلے اس شہر کو برباد تو کرلینا تھا

قیس کے بعد غزالاں کی تسلّی کے لئے
ہاشمیؔ دشت کو آباد تو کرلینا تھا

***
 

الف عین

لائبریرین
جیب میں درہم و دینار ہوا کرتے تھے
ساتھ کچھ حاشیہ بردار ہوا کرتے تھے

یہ جو بازار میں بکنے کے لئے بیٹھے ہیں
کل یہ لوگ خریدار ہوا کرتے تھے

کیا ہوا صرف چراغوں پہ ہی اب راضی ہیں
جو ستاروں کے طلبگار ہوا کرتے تھے؟

اک یقیں منزلیں آسان کیا کرتا تھا
راستے پہلے بھی دشوار ہوا کرتے تھے

سوکھتے پتوں سے یہ سن کے بہت رنج ہوا
’’وہ کبھی زینتِ گلزار ہوا کرتے تھے‘‘

اُن دنوں کیسا امنگوں کا نشہ رہتا تھا
صرف بارش سے ہی سرشار ہوا کرتے تھے

ہو گئے ساتھ زمانے کے وگرنہ پہلے
ہم بھی غالبؔ کے طرفدار ہوا کرتے تھے

***
 

الف عین

لائبریرین
خوشبوئیں جس کا گھر بساتی ہیں
تتلیاں بھی وہیں سے آتی ہیں

شب کو کنجِ چمن کے بستر پر
پھول کو رنگ سے ملاتی ہیں

دن کو تقریبِ رونمائی میں
بلبلیں زمزمے سناتی ہیں

رنگ و بو چھپ کے دیکھتے ہیں انہیں
چشمۂ گل میں جب نہاتی ہیں

وہ جو باتیں ہیں کچھ رقیبوں کی
پھول کے کان میں سناتی ہیں


پھول سے مَے کشید کرتی ہیں
باغ کو میکدہ بناتی ہیں

لمس کا نقش جگمگاتا ہے
ہاتھ میں رنگ چھوڑ جاتی ہیں

حسن پر جاں نثار کرتی ہیں
عشق کو چاہنا سکھاتی ہیں

**/
 

الف عین

لائبریرین
یہاں وہاں مجھے حیران کرتی رہتی ہے
ہے اک صدا جو پریشان کرتی رہتی ہے

خطا تو اپنی جگہ ہے کبھی کبھی لیکن
اک اور بات پشیمان کرتی رہتی ہے

ہماری آنکھ بھی نکلی کرامتوں والی
کہ ایک قطرے کو طوفان کرتی رہتی ہے

رُخ اس بَلاکا ہوا میرے شہر کی جانب
جو بستیوں کو بیابان کرتی رہتی ہے

ہمارے زخم بھی کچھ اور ہی طرح کے ہیں
کچھ اس کی آنکھ بھی احسان کرتی رہتی ہے


***
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو بس اک شعلہ نکلتے ہوئے دیکھا
پھر شہر کو اس آگ میں جلتے ہوئے دیکھا

اُس پار جدھر سے کوئی امید نہیں تھی
کل ایک ستارہ بھی نکلتے ہوئے دیکھا

تفریق نہ کی جس نے کبھی کھوٹے کھرے کی
سکّہ بھی اسی شخص کا چلتے ہوئے دیکھا

رہتی ہے جہاں تیز ہواؤں کی حکومت
دم تھا تو چراغوں کو بھی جلتے ہوئے دیکھا

پانی کا کبھی نام بھی جس نے نہ سنا تھا
اس دشت سے چشمہ بھی اُبلتے ہوئے دیکھا


***
 

الف عین

لائبریرین
وفا کے نام پہ یہ امتحان بھی دے دوں
اگر کہو تو میں قدموں پہ جان بھی دے دوں

ہو اختیار مرا اور وہ اگر مانگے
تو یہ زمیں ہی نہیں آسمان بھی دے دوں

چکاؤں کتنی میں اک اعتبار کی قیمت
یقین تو ٹوٹ چکا ہے گمان بھی دے دوں؟

اگر حریف مجھی سے توقع رکھتا ہے
تو اس کے ہاتھ میں تیر وکمان بھی دے دوں

کبھی جو نطق کو اظہار کی ملے جرأت
تو حرفِ شوق کو اپنی زبان بھی دے دوں



***
 
Top