سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
سخن آباد



منظور ہاشمی



فضائیں نغمہ پرور، خلوتِ جاں شاد کرتے ہیں
ہم اپنے خانۂ دل میں، سخن آباد کرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ترتیب وانتخاب : راحت حسن

٭ مصنّف : منظور ہاشمی.17 بدر باغ، علی گڑھ 202002
فون نمبر : 2701425 -0571
 

الف عین

لائبریرین
انتساب

اپنے والدین اور ان کے چمن کی چوتھی فصل

سمیر نتاشا
نبیل عنبرین
سہیم اور اور
عامر ریم
امروز
فواذ
کے نام
 

الف عین

لائبریرین
نعت پاک​

اک گھرانہ پھول والا، ایک گھر خوشبو کا ہے
بس اسی کے فیض سے، سارا نگر خوشبو کا ہے
سبز گنبد چومتے رہتے ہیں، جتنے بھی پرند
ان کے لب خوشبو کے ہیں، اک ایک پَر خوشبو کا ہے
مدتیں گزریں کہ گزرا تھا، کوئی مشکیں بدن
آج تک ان راستوں ہی میں، گزر خوشبو کا ہے
باغِ جنّت کا چراغاں کیا، کہ شہرِ شوق میں
ہر علاقہ نور کا ہے، ہر شجر خوشبو کا ہے
یوں ہی اٹھلا کے نہیں چلتی، وہاں بادِ نسیم
ایک اک جھونکا ہَوا کا، نامہ برخوشبو کا ہے
ہرطرف پھولوں کا موسم ہے، سرِ راہِ خیال
جیسے ان کو سوچتے رہنا، سفر خوشبو کا ہے
 

الف عین

لائبریرین
نعت شریف

نذر، میرے نبیؐ کے جب، ہوجائیں
لفظ اور شعر، باادب ہوجائیں
اپنی آنکھوں سے سوچ کر دیکھوں
وہ مری دیدبان اب ہوجائیں
اور یوں ہو، بدن کے سب اعضاء
ذکر میں ان کے، نطق و لب ہوجائیں
میرا دل، میری آنکھیں، میری جان
ان پہ قربان، سب کے سب ہوجائیں
اپنے دکھ درد پہ، میں واری جاؤں
مرحمت کا اگر، سبب ہوجائیں
کاش گن لیں، غلام زادوں میں
ہم بھی پھر، صاحبِ نسب ہوجائیں
 

الف عین

لائبریرین
شرارِ جاں سے دہک رہے ہیں چراغ اور میں
سیاہ شب میں چمک رہے ہیں چراغ اور میں

بصارتیں بھی، وہاں وہاں بانٹ دی گئی ہیں
جہاں جہاں، دیر تک رہے ہیں،چراغ اور میں

گلاب رت کی بشارتیں ہم سے مل رہی ہیں
کہ جلتے جلتے مہک رہے ہیں،چراغ اور میں

کبھی تو بستی میں روشنی کی بھی قدر ہوگی
ابھی تو در در بھٹک رہے ہیں چراغ اور میں

نئی سحر نے بھی دھند میں منھ چھپا لیا ہے
دھویں سے سر اپنا ڈھک رہے ہیں چراغ اور میں

دیارِ ظلمت میں، پرچمِ نور کیوں اٹھایا؟
اسی لیے اب کھٹک رہے ہیںچراغ اور میں

تمام شب کا خمار ٹوٹے، تو نور پھوٹے
ابھی تو پلکیں جَھپک رہے ہیں چراغ اور میں
 

الف عین

لائبریرین
وفورِ شوق میں، جب بھی کلام کرتے ہیں
تو حرف حرف کو حُسنِ تمام کرتے ہیں

گَھنے درختوں کے سائے کی عمر، لمبی ہو
کہ ان کے نیچے، مسافر قیام کرتے ہیں

اُسے پسند نہیں، خواب کا حوالہ بھی
تو ہم بھی آنکھ پہ نیندیں، حرام کرتے ہیں

نہ خوشبوؤں کو پتہ ہے، نہ رنگ جانتے ہیں
پرند پھولوں سے، کیسے کلام کرتے ہیں؟


رواں دواں ہیں، ہوا پر، سواریاں کیسی؟
جنھیں درخت بھی، جھک کر سلام کرتے ہیں

چمن میں جب سے اسے، سیر کرتے دیکھ لیا
اُسی ادا سے غزالاں، خرام کرتے ہیں

اب اس کو یاد نہ ہوگا، ہمارا چہرہ بھی
تمام شاعری، ہم جس کے نام کرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
دھوپ بن میں، پگھل رہا ہوں میں
لیکن آہن میں، ڈھل رہا ہوں میں

راستہ، دوسرا نکالا ہے
اب تو پانی پہ چل رہا ہوں میں

یہ تراش و خراش، راس آئی
کٹ رہا ہوں، تو پھل رہا ہوں میں

اب کڑے فیصلوں کی باری ہے
کشمکش سے، نکل رہا ہوں میں

راستہ تو بدل کے دیکھ لیا
اب کے منزل بدل رہا ہوں میں

اُس شجر کو ہرا بھرا رکھوں؟
جس کے سائے میں جل رہا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
جو کھلی چمن میں نئی کلی، تو وہ جشنِ صوت و صدا ہوا
کہیں بلبلیں ہوئیں نغمہ زن، کہیں رقصِ بادِ صبا ہوا

کوئی پھول، خوشبو سے چور سا،کوئی رنگ حلقۂ نور سا
کوئی حسن غیرتِ حور سا،ترے نام سارا لکھا ہوا

وہ بچھڑ گیا، تو پتہ چلا، کہ تھا سخت کتنا یہ حادثہ
گیا نور جیسے چراغ کا، کہ بدن سے عکس جدا ہوا

جو سوار راہِ زیاں کے تھے، کہیں نام اب کے نہ کر سکے
نہ جنوں میں سرخ ہوئی زمیں، نہ سکوں میں دشت ہرا ہوا

مری جنگ، میرے ہی ساتھ تھی، کہ حریف بھی تھا، حلیف بھی
کبھی دوستوں میں گھرا ہوا، کبھی دشمنوں سے ملا ہوا

وہ ہَوا چلی، کہ مرے چمن، ہوئے راکھ اور دھویں کے بن
کہ ہرے شجر بھی سلگ اٹھے، یہ بھری بہار میں کیا ہوا؟

***
 

الف عین

لائبریرین
بہت گمان تھا، موسم شناس ہونے کا
وہی بہانہ بنا ہے، اداس ہونے کا

بدن کو کاڑھ لیا، زخم کے گلابوں سے
تو شوق پورا کیا، خوش لباس ہونے کا

فضا مہکنے لگے، روشنی جھلکنے لگے
تو یہ نشاں ہے، ترے آس پاس ہونے کا

گلوں کے بیچ، وہ چہرہ کھلا، تو ہر تتلی
تماشا کرنے لگی، بدحواس ہونے کا


اُسے بھی شوق تھا، بے وجہ دل دکھانے کا
سو ہم نے کھیل رچایا، اداس ہونے کا

نئے سفر،پہ روانہ تو ہم بھی ہوجاتے
بس انتظار تھا موسم کے راس ہونے کا

نظر میں خاک ہوئے، گلرخاں بھی جب سے ہمیں
شرف ملا ہے، ترے روشناس ہونے کا

***
 

الف عین

لائبریرین
خوشبو نے جب وجد میں آکر رقص کیا
غنچہ و گل نے ہاتھ ملا کر رقص کیا

مٹی بھی پہلی بارش سے مست ہوئی
پانی کے دو گھونٹ چڑھا کر رقص کیا

صحنِ چمن میں رنگوں کا آنچل لہرایا
تتلی نے جب پَر پھیلا کر رقص کیا

صبر و ضبط کی سب زنجیریں ٹوٹ گئیں
زنداں کی خوشخبری پاکر رقص کیا

اس میں مرنے والے جب شہداء کہلائے
ہم نے اس کوچے میں جاکر رقص کیا

وحشت کی شدّت کو سرد کیا یوں بھی
انگاروں کا فرش بچھا کر رقص کیا

گویائی کا فن آنکھوں نے سیکھ لیا
خاموشی کو نطق بنا کر رقص کیا

***
 

الف عین

لائبریرین
شدید گرمی میں پہلے ان کو ندی میں نہلا دیا گیا ہے
ہَوا میں پھر گیلے بادلوں کو جھٹک کے پھیلا دیا گیا ہے

گزرنے والی ہے اپنے تختِ رواں پہ صرصر کی شاہزادی
تمام شہروں میں جنگلوں میں ہوا سے کہلا دیا گیا ہے

گرجتے بادل کڑکتی بجلی مچلتی موجوں کی منھ زبانی
جو ہونے والا ہے اس کا احوال پہلے بتلا دیا گیا ہے

سخی کے دولت کدے پہ جاری ہے کھیل اب بھی نوازشوں کا
کہ صرف وعدوں کی بھیک سے سائلوں کو بہلا دیا گیا ہے

وہی پرانے دکھوں کے منظر نئی رتوں کے نصاب میں ہیں
ذرا سا خاکہ بدل کے پچھلے سبق کو دُہرا دیا گیا ہے

کِھلا دئے پھول روشنی کے فلک پہ تاروں کی انجمن میں
گلاب زادوں کی کہکشاں کا زمیں کو تحفہ دیا گیا ہے





***
 

الف عین

لائبریرین
کمالِ حسن و جمال اگر دیکھنے کی خواہش ہے زندگی میں
تو دیکھ لینا کسی دن اس کو ہمارے لفظوں کی روشنی میں

یہ تتلیاں دیوداسیاں ہیں کِھلے ہوئے پھول مندروں کی
نثار کرتی ہیں عمر ان کے طواف میں رقصِ بندگی میں

گلاب کی اشکبار آنکھوں سے کیا ٹپکنے لگا لہوسا؟
یہ حال کیا کرلیا گیا ہے؟ ہمارے زخموں کی دوستی میں

سفید اجلے پرند اڑ کر چلے تو ہیں آسماں کی جانب
مری دعا کے سفیر جاتے ہوں جیسے دربارِ خُسروی میں


وہ اسم پھر ذہن و دل کے میرے قریب چمکا کچھ اس طرح سے
چراغ جیسے جلا دیا ہو کسی نے زنداں کی تیرگی میں

بجھے ہوئے سیکڑوں چراغوں کی راکھ آنکھوں میں بھر گئی ہے
مگر اضافہ بھی کر گئی آنسوؤں کی بہتی ہوئی ندی میں

بیان کیا ہے مراد کیا ہے کسے وسیلہ بنا رہے ہو
نہ جانے کیا گل کِھلا رہے ہو تم اب کے میدانِ شاعری میں









***
 

الف عین

لائبریرین
بجھی آنکھوں کو بھی پُرآب رکھنا چاہتے ہیں
کہ ہم صحرا کو بھی شاداب رکھنا چاہتے ہیں

ہمیں مٹّی کی یہ پوشاک پیاری ہے تو اس کو
حریفِ اطلس و کمخواب رکھنا چاہتے ہیں

شفق کے پاس ہو خونِ تمنا کا ٹھکانہ
وہاں اک منظرِ نایاب رکھنا چاہتے ہیں

تمنا رنگ لائے گی کسی بھی دن تو ہم بھی
رگوں میں خون کو بیتاب رکھنا چاہتے ہیں

جو اپنی نیند کی پونجی بھی کب کی کھو چکی ہیں
انہیں آنکھوں میں ہم اک خواب رکھنا چاہتے ہیں

ہماری آنکھ میں اک بوند تو باقی ہے اب بھی
اسی قطرے میں اک سیلاب رکھنا چاہتے ہیں


***
 

الف عین

لائبریرین
بہت گمان اسے اپنے سرخ رو کا تھا
مگر یہ رنگ کسی اور کے لہو کا تھا

میں اس میں ڈوب گیا ہوں تو کیا تعجب ہے
کہ ہر طرف مرے سیلاب رنگ و بو کا تھا

تمام حرف ونوا خرچ کرکے بیٹھ گئے
ہمیں بھی شوق بہت اس سے گفتگو کا تھا

اِس آسمان سے میں ہار مان تو جاتا
مگر سوال زمیں کی بھی آبرو کا تھا

ہر ایک بوند کا دینا پڑا حساب مجھے
کہ جاں پہ قرض تھا جتنا وہ سب لہو کا تھا





***
 

الف عین

لائبریرین
پیدا ہونے سے پہلے مر جاتا ہے
میرا کل بھی آج گزر جاتا ہے

لفظوں کی تصویریں بننے لگتی ہیں
اس کا لہجہ جادو سا کر جاتا ہے

آوازوں کی گود میں پلنے والا بھی
سناٹے کی آہٹ سے ڈر جاتا ہے

ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب اپنی
جان بچائے رکھنے میں سر جاتا ہے


پھولوں کا موسم ہے اس کا ہمراہی
سارا رستہ خوشبو سے بھر جاتا ہے

مٹّی کی خوشبو بھی پیچھا کرتی ہے
پہلا گھر بھی باہر کے گھر جاتا ہے

اچھے خاصے سیدھے سادے لوگوں کو
بس اک لمحہ دیوانہ کر جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
سفر منجملۂ اسباب سے آگے بھی ہے
کوئی منزل خیال و خواب سے آگے بھی ہے

چمک اٹھتی ہے کوئی شےافق کے پار جیسے
تحیّر جلوۂ نایاب سے آگے بھی ہے

تعلق کی حدیں بھی دور تک پھیلی ہوئی ہیں
کہ قصّہ عشق کے ابواب سے آگے بھی ہے

دیارِ شب میں روشن ہیں نئے رستے سفر کے
کوئی گھر انجم و مہتاب سے آگے بھی ہے


اشارے کر رہا ہے سرخ کرنوں کا کنارا
کوئی شعلہ اسی برفاب سے آگے بھی ہے

سمندر کا سفر تو اک مسلسل امتحاں ہے
ہَوا کا جال اس گرداب سے آگے بھی ہے

سمندر کی خموشی میں تباہی تہ نشیں ہے
کہ طوفاں ساحلِ پایاب سے آگے بھی ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
کِھلی ہے چاندنی اور شاہزادے کی سواری آنے والی ہے
کنیزانِ چمن آراستہ ہیں آج باری آنے والی ہے

ہَواؤں سے لرزتی کانپتی شاخیں وظیفہ پڑھتی رہتی ہیں
کہ یہ ساعت گزر جائے تو پھر بادِ بہاری آنے والی ہے

تماشا دیکھنے میں اس قدر کھوئے کہ یہ بھی بھول بیٹھے ہیں
کہ اس ناٹک میں اب اپنی بھی باری آنے والی ہے

دیارِ جاں میں لگتا ہے کہ اک آتش فشاں پھر پھٹنے والا ہے
ہمارے بند ہونٹوں تک دلوں کی آہ و زاری آنے والی ہے

مرے لفظوں کے ماتھے پرمعانی کی نئی تحریر روشن ہے
کہ حصے میں مرے اب کے سخن کی شہر یاری آنے والی ہے


***
 

الف عین

لائبریرین
خواب کچھ شاداب شاخوں کے دکھا کر لے گیا
زرد پتوں کو ہر اک جھونکا اڑا کر لے گیا

موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے
جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا

تھک چکا تھا میں مگر ہو شوقِ منزل کا بھلا
راستے بھر اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لے گیا

جس کے پانی کو دعا دیتی رہی پیاسی زمیں
ایک دن فصلیں وہی دریا بہا کر لے گیا

راستے کی چیز تھا میں جس کی نظریں پڑ گئیں
وہ مسافر اپنی مٹھی میں دبا کر لے گیا


***
 
Top