سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
نہ منزلوں کے رہے ہم نہ گھر کے کام کے تھے
وہی سفر کے بھی نکلے جو دن قیام کے تھے

چراغ جلتے تھے الفاظ پھول بنتے تھے
سنا ہے ایسے کرشمے ترے کلام کے تھے

لکیریں کھینچی تھیں کاغذ پہ بے خیالی میں
پڑھا جب ان کو تو سب حرف اس کے نام کے تھے

انہیں کی یاد سے روشن ہے آج کی منزل
جو کل سفر میں مرے دوست چند گام کے تھے

الجھ کے رہ گئے سمتوں کے جال میں ورنہ
کہاں کہاں کے ارادے خیال خام کے تھے

کہاں سے ڈھونڈھ کے لاؤں ہرے بھرے وہ دن
جو میٹھے پانی کے چشمے تھے باغ آم کے تھے

***
 

الف عین

لائبریرین
کاٹتے بھی ہیں اسی فصل کو بونے والے
ڈوب بھی جاتے ہیں اک روز ڈبونے والے

لاش ابھری توکئی نام لکھے تھے اس پر
کتنے حیران ہوئے مجھ کو ڈبونے والے

کچھ تو اس سادہ مزاجی کا صلہ دے ان کو
کس قدر جلد بہل جاتے ہیں رونے والے

زندگی لاکھ انہیں بارِ گراں لگتی ہے
خوش تو رہتے ہیں مگر بوجھ یہ ڈھونے والے

داغ مٹ جائیں مگر میرے لہو کی خوشبو
تیرے دامن سے کہاں جائے گی؟دھونے والے


***
 

الف عین

لائبریرین
وہ جو دنیا تھی مرے خواب میں زندہ ہے ابھی
وقت یادوں کے قفس ہی کا پرندہ ہے ابھی

صرف ایک جست میں جنگل کو پلٹ جاتا ہے
دوسرے لمحے میں انسان درندہ ہے ابھی

خانۂ جاں میں جو کہرام مچائے ہوئے ہے
کچھ نہ کچھ مدفنِ احساس میں زندہ ہے ابھی

موسمِ گل کی امانت کی طرح شاخوں پر
ایک پتہ ہے ہرا ایک پرندہ ہے ابھی

خیمۂ شب میں یہی آس لئے جاگتے ہیں
دُور کتنا ہی سہی نور تو زندہ ہے ابھی




***
 

الف عین

لائبریرین
سنو کہ اب بھی سمندر انہیں بلاتے ہیں
سفر کے بعد جو سب کشتیاں جلاتے ہیں

مرا خیال ہی سچّا ہے اپنے بارے میں
وہ جھوٹ ہوگا جو یہ آئینے بتاتے ہیں

خراج دیتے ہیں اک ایک سانس کا اپنی
جو قرض ہم پہ نہ تھا عمر بھر چکاتے ہیں

اسے خبر بھی نہیں اس قدر تعلق کی
وہ دھوپ میں ہے پسینے میں ہم نہاتے ہیں

اسی امید پہ برسیں گزار دیں ہم نے
وہ کہہ گیا تھا کہ موسم پلٹ کے آتے ہیں

ہمارے سادہ مزاجی عذاب ہے کتنی
تکلّفات کو سچّائی مان جاتے ہیں


***
 

الف عین

لائبریرین
فوج کی آخری صف ہو جاؤں
اور پھر اس کی طرف ہو جاؤں

تیر کوئی ہو کماں کوئی ہو
چاہتے ہیں کہ ہَدف ہو جاؤں

ہاتھ اٹھتا ہی ہے کہاں ہے اس پر
لاکھ میں تیغ بکف ہو جاؤں

اک زمانہ ہے ہواؤں کی طرف
میں چراغوں کی طرف ہو جاؤں

اشک اس آنکھ میں آئے نہ کبھی
اور ٹپکے تو صدف ہو جاؤں

عہدِ نو کا نہ سہی گزراں کا
باعثِ عز و شرف ہو جاؤں
 

الف عین

لائبریرین
جب قصہ یاد کیا ہم نے اپنی پہلی نادانی کا
احوال بہت نکلا اس میں پاگل پن کا حیرانی کا

اک کنج تھا ٹھنڈے سائے کا اک چشمہ میٹھے پانی کا
جب پھول میں خوشبو اتری تھی وہ باغ تھا اک خوبانی کا

وہ راتیں خوابوں والی تھیں وہ باتیں جادو والی تھیں
وہ دن تھے کیف ومستی کے تھا عالم عین جوانی کا

وہ شہر گلستانوں کے تھے وہ لوگ پرستانوں کے تھے
کردار وہ افسانوں کے تھے عنواں ہیں جو رام کہانی کا

ہونٹوں کے گلاب مہکتے تھے آنکھوں کے چراغ چمکتے تھے
جب موسم چہرہ بُنتا تھا اک پردیسی سیلانی کا

خوشبو کی نہر نکلتی تھی رنگوں کی دھار برستی تھی
اس کوچے کا جو منظر تھا وہ منظر تھا حیرانی کا

جب تیز ہوا دھمکاتی ہے اور دھوپ کی آگ جلاتی ہے
تب بھی تو ساتھ نبھاتا ہے اک چشمہ میٹھے پانی کا

***
 

الف عین

لائبریرین
یہ بات مان گئے آج آپ سے مل کے
کہ اک نگاہ میں ہوتے ہیں فیصلے دل کے

بہت ہیں بجھتی ہوئی روشنی کے پروانے
جلائے رکھتے ہیں سارے چراغ محفل کے

اٹوٹ رشتہ ہے اس سے کہ ہم اس کی طرح
بنے ہوئے ہیں اسی آب سے اسی گل سے

ترے خلاف کوئی معتبر گواہ تو تھا
دہانِ زخم بھی خاموش ہوگیا سل کے

روانہ ہوتے ہی آنکھوں سے چھین لیں نیندیں
کہ لوگ دیکھنے لگتے تھے خواب ساحل کے

کچھ اب کے رنج جدائی کا یوں زیادہ ہے
کہ جاتے وقت بھی ہم سے نہیں گیا مل کے

***
 

الف عین

لائبریرین
الفاظ سے سجا کے دلہن کرکے دیکھ لیں
آؤ تمہیں شریکِ سخن کرکے دیکھ لیں

یہ زندگی ہے کھیل تماشا تو یوں کریں
اس کھیل کو حیات کا فن کرکے دیکھ لیں

چشمے نکال لیں گے اسی ریگزار سے
پہلے تو دشتِ شوق وطن کرکے دیکھ لیں

بادِ صبا کا مستی ودیوانگی کا رقص
گل کی مہک کو مشکِ ختن کرکے دیکھ لیں

تتلی کے رنگ اوڑھ کے پھولوں کے گھر چلیں
حیران برگ وبارِ چمن کرکے دیکھ لیں




***
 

الف عین

لائبریرین
جھوم رہی تھی خوشبو رقصاں پھول گلاب کے تھے
کیا وہ منظر خواب کا تھا وہ باغ سراب کے تھے؟

سناٹے کے مرقد میں ہیں روشن صرف سوال
کس عالم روپوش ہوئے جو حرف جواب کے تھے؟

چوم کے موجیں ان کو ڈوبیں ایسے مستی میں
جیسے نقش نہ تھے پیروں کے جام شراب کے تھے؟

شاخیں بھی ساون کی رُت میں رقص دکھاتی تھیں
بارش کے سرگم سے کھلتے پھول حباب کے تھے

اس کی گلی سے آگے جاکر باقی سب رستے
یا تو پچھتاوے کے تھے یا دشت عذاب کے تھے

ان کو پڑھ کر دریا کی آنکھیں بھی بھر آئیں
موجوں نے جو قصے لکھے آب و سراب کے تھے


***
 

الف عین

لائبریرین
گرمیِ شوق ہے کہ سینے میں
آگ جلتی ہے آبگینے میں

اس کڑی دھوپ سے نجات کہ اب
خون آنے لگا پسینے میں

پھر چھتوں نے بھی دیکھی جلوہ گری
سامنا ہوگیا تھا زینے میں

عمر گزری رفوگری میں مگر
بڑھ گئے اور زخم سینے میں

جتنے اس کے فراق میں گزرے
دن وہ شامل کہاں ہیں جینے میں

تیس چالیس دن تو کاٹ دیے
اور کتنے ہیں اس مہینے میں؟


***
 

الف عین

لائبریرین
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے

سفر میں اب کے یہ تم تھےکہ خوش گمانی تھی؟
یہی لگا کہ کوئی ساتھ ساتھ چلتا ہے

غلافِ گل میں کبھی چاندنی کے پردے میں
سنا ہے بھیس بدل کر بھی وہ نکلتا ہے

لکھوں وہ نام تو کاغذ پہ پھول کھلتے ہیں
کروں خیال تو پیکر کسی کا ڈھلتا ہے

رواں دواں ہے ادھر ہی تمام خلقِ خدا
وہ خوش خرام جدھر سیر کو نکلتا ہے

امید و یاس کی رُت آتی جاتی رہتی ہے
مگر یقین کا موسم نہیں بدلتا ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
طلب میں اب کے نادانی بہت ہے
جنوں کم ہے تن آسانی بہت ہے

مجھے بھی زود رنجی تھی زیادہ
اسے بھی اب پشیمانی بہت ہے

جو منظر بھی بدلنا جانتی ہیں
انہیں آنکھوں میں حیرانی بہت ہے

نہ جانے رنگ بھی لائے گا بہہ کر
ابھی تو خون میں پانی بہت ہے

چلی ہیں کشتیاں کاغذ کی جب سے
سمندر کو بھی حیرانی بہت ہے




***
 

الف عین

لائبریرین
کب کسی اور کو گردانتے ہیں
ہم تو بس دل کا کہا مانتے ہیں

خود سے بھی کھل کے نہیں ملتے ہم
آپ کیا خاک ہمیں جانتے ہیں

رنگ ہو نور ہو خوشبو ہو کہ پھول
اس کو ہر شکل میں پہچانتے ہیں

جو بہت دور سے پہچانتے تھے
اب بڑی دیر میں پہچانتے ہیں؟

کس کی بستی ہے جہاں سناٹے
کوئی بولے تو بُرا مانتے ہیں

کیا بدل جاتا ہے ایسا کہ ہمیں
آئینے بھی نہیں پہچانتے ہیں





***
 

الف عین

لائبریرین
دھواں اٹھنے لگا جب دشتِ جاں سے
نہ جانے آگئے بادل کہاں سے؟

پرندے اڑ گئے شاخِ صدا کے
معانی گم ہوئے لفظ وبیاں سے

نہ جانے کیوں اچانک بڑھ گیا ہے؟
زمیں کا فاصلہ اب آسماں سے ؟

سبھی انصار غائب ہو گئے ہیں
ہماری ہجرتوں کے درمیاں سے


یقیں کی بستیاں بھی مل گئی ہیں
گزر جب بھی ہوا دشتِ گماں سے

کہیں حیران آنکھیں کھو نہ جائیں
اٹھا پردے نہ اتنے درمیاں سے

جہاں پر ختم ہوتی ہے کہانی
نکلتا ہے نیا قصّہ وہاں سے

***
 

الف عین

لائبریرین
سرور وکیف کا سیلاب سا ڈبونے لگا
عجب مہک تھی بدن کی کہ نشّا ہونے لگا

بھڑکتی آگ کے شعلوں میں بھی نہاتے رہے
دھویں کا ابر بھی پھر جسم و جاں بھگونے لگا

ستارے کھلنے لگے شامِ شوق آتے ہی
عجیب نور سا دشتِ طلب میں ہونے لگا

دیار جاں میں کِھلے جب سے اس کی یاد کے پھول
تو خوشبوؤں کا گزر صبح وشام ہونے لگا

سفر کا شوق بھی نایاب کی تلاش بھی تھی
تو جان بوجھ کے ہر راستے میں کھونے لگا

***
 

الف عین

لائبریرین
دکھوں کے موڑ پہ اکثر مجھے ملا وہ شخص
مگر یہ راز ہے اب تک کہ کون تھا وہ شخص؟

کھلا تو دیکھ کے حیران رہ گیا میں
کچھ اس طرح مرے اندر چھپا رہا وہ شخص

ہر ایک لمحے پہ لکھا ہوا تھا جس کا نام
کہاں گیا وہ زمانہ کدھر گیا وہ شخص؟

کبھی گلاب کبھی چاندنی کبھی خوشبو
کسی زمانے میں کیا کیا بنا رہا وہ شخص

مری زمین پہ آیا تھا روشنی لے کر
کسی ستارے پہ واپس چلا گیا وہ شخص

ہوا کرے جو زمانے کی رائے ہے منظور
مجھے پسند ہے ہوگا برا بھلا وہ شخص

***
 

الف عین

لائبریرین
پرشور سمندر میں سرِ آب بھی میں تھا
اور قطرۂ ناچیز میں غرقاب بھی میں تھا

کرتا بھی تھا روشن مری راتوں کا مقدر
جو ٹوٹ بھی جاتا تھا وہی خواب بھی میں تھا

ہر رنگ میں پنہاں تھی گواہی مری لیکن
اُس منظرِ خوش رنگ میں کمیاب بھی میں تھا

تھی کتنے ہی دریاؤں کی دیوار مرے گرد
اور ایک اشارے ہی میں پایاب بھی میں تھا

موسم کی نوازش بھی رہی دشتِ سفر میں
پیاسا بھی رہا اور کبھی سیراب بھی میں تھا


***
 

الف عین

لائبریرین
حیات بٹنے لگی ہے فنا کے ہاتھوں سے
مرے چراغ جلے ہیں ہوا کے ہاتھوں سے

یہ بات پیرہنِ گل کے تار کس سے کہیں؟
کہ تار تار ہوئے ہیں صبا کے ہاتھوں سے

بعید یہ بھی نہیں ہے کہ غم کے مارے ہوئے
ہلا کے رکھ دیں فلک بھی دعا کے ہاتھوں سے

یہ چاہتے ہیں ہماری وفا کا کوئی صلہ
اگر ملے تو اسی بے وفا کے ہاتھوں سے

کبھی کبھی تو اسے دیکھ کر یہ لگتا ہے
کہ بس وہی تو بنا ہے خدا کے ہاتھوں سے

***
 

الف عین

لائبریرین
رسم ہی نیند کی آنکھوں سے اٹھا دی گئی کیا؟
یا مرے خواب کی تعبیر بتا دی گئی کیا؟

آسماں آج ستاروں سے بھی خالی کیوں ہے؟
دولتِ گریہِ جاں رات لٹا دی گئی کیا؟

وہ جو دیوار تھی اک عشق و ہوس کے مابین
موسمِ شوق میں اس بار گرا دی گئی کیا؟

اب تو اس کھیل میں کچھ اور مزا آنے لگا
جان بھی داؤ پہ اس بار لگا دی گئی کیا؟

آج دیوانے کے لہجے کی کھنک روشن ہے
اس کی آواز میں آواز ملا دی گئی کیا؟

آج بیمار کے چہرے پہ بہت رونق ہے
پھر مسیحائی کی افواہ اڑا دی گئی کیا؟

***
 
Top