سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
یہ جو منظر ہیں اگر آنکھوں میں بس جائیں گے
آئینے عکس کی صورت کو ترس جائیں گے

سیرِ دنیا کا ہمیں شوق تو تھا وقت نہ تھا
بس یہی ہوتا رہا اگلے برس اگلے برس جائیں گے

یہ ہوا تشنگیٔ شوق کو بھڑکائے گی
اور بادل بھی کہیں اور برس جائیں گے

جب پلٹتے ہیں ہمیں اجنبی گردانتا ہے
اب یہ سوچا ہے اسی کوچے میں بس جائیں گے

عشق کی راہ میں اک یہ بھی سفر لکھا ہے
چار و نا چار سبھی شہر ہوس جائیں گے


***
 

الف عین

لائبریرین
یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے
پھر اس زمین پہ مرا آسمان ٹوٹتا ہے

خطا تو اور زمینیں بھی کرتی رہتی ہیں
تو صرف ہم پہ ہی کیوں آسمان ٹوٹتا ہے؟

پھر ایک دوسری دیوار درمیاں آئی
پھر ایک سلسلہِ جسم و جان ٹوٹتا ہے

ہوائیں تیز ہیں پھر بھی سفر تو کرنا ہے
تو ٹوٹ جائے اگر بادبان ٹوٹتا ہے

بتانے والا ہی ہوتا ہے جب کوئی تعبیر
ہمارا خواب اسی درمیان ٹوٹتا ہے


**
 

الف عین

لائبریرین
اپنا احساس چھوڑ جاتا ہے
میری خلوت میں کون آتا ہے؟

لمحہ لمحہ تری رفاقت کا
سالہا سال کام آتا ہے

جب بھی میرا چراغ جلتا ہے
اور کچھ روشنی بڑھاتا ہے

جم کے پیڑوں پہ برف کا موسم
دھوپ میں سردیاں مناتا ہے

اس کی آہٹ سے گھر کا سارا بدن
ریل کے پُل سا تھر تھراتا ہے

دیکھ کر دکھ مری زمینوں کا
آسماں بھی تو کانپ جاتا ہے


***
 

الف عین

لائبریرین
کبھی تو اتنا بڑھایا وفورِ تنہائی
کہ اس کو کھینچ بلایا حضورِ تنہائی

خیال و خواب کی دنیا کو جگمگاتا ہے
نئے جہان دکھاتا ہے نورِ تنہائی

یہ بے جہات کا عالم کہاں ہے سب کے لئے
کسی کسی کو ملا ہے شعورِ تنہائی

کئی ہیں اور بھی کیف ونشاط کے عالم
الگ ہے اپنے نشے میں سرورِ تنہائی

جسے بھی دیکھئے بدنام کرتا رہتا ہے
مگر بتاتا نہیں ہے قصورِ تنہائی

اُدھر بھی کُھلتے گئے شور وغل کے دروازے
اِدھر بھی بڑھتا گیا اور زورِ تنہائی

***
 

الف عین

لائبریرین
کسی بہانے سہی دل لہو تو ہونا ہے
اس امتحاں میں مگر سرخرو تو ہونا ہے

ہمارے پاس بشارت ہے سبز موسم کی
یقیں کی فصل لگائیں نمو تو ہونا ہے

میں اس کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا ہوں
کہ ایک روز اسے رو برو تو ہونا ہے

لہو لہان رہیں ہم کہ شاد کام رہیں
شریک قافلۂ رنگ و بو تو ہونا ہے

کوئی کہانی کوئی روشنی کوئی صورت
طلوع میرے افق سے کبھو تو ہونا ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے
دکھ لیکن اب کے بھاری تھے ڈوبے تو پار نہیں اترے

سنسان افق تکتے تکتے اب آنکھیں ہمت ہار گئیں
جس صبح کا ہم سے وعدہ تھا اس کے آثار نہیں اترے

ہر صبح چمکتے سورج کی تھالی میں بھر کر آتے ہیں
اب تک ان خالی شاخوں پر کرنوں کے ہار نہیں اترے

اب آنکھ کی سوکھی جھیلوں پر گزرے وقتوں کے نوحہ گر
آنسو کے غول نہیں آئے اشکوں کے ڈار نہیں اترے

اب کوئی نہ ایسا موسم ہو جب نخل سخن کی شاخوں پر
معنی کے پھول نہیں آئیں حرفوں کی بہار نہیں اترے

اک اچھی ساعت آئے گی پھر تیز ہوا بتلائے گی
پانی زنجیر بنا کیسے ہم کیسے پار نہیں اترے؟

***
 

الف عین

لائبریرین
وہ آس پاس نہیں پھر یہ سلسلہ کیسا؟
اجاڑ دشت میں خوشبو کا قافلہ کیسا؟

غبار ہو تو گئے ہم مگر یہ سچ کہنا
ہوا کے ساتھ رہا تھا مقابلہ کیسا؟

کسی کے بارے میں دن رات سوچتے رہنا
ہمارے ہاتھ بھی آیا ہے مشغلہ کیسا؟

جو زیرِ اب کہیں کوئی کشمکش ہی نہ تھی
تو سطحِ اب پہ پھوٹا تھا بلبلہ کیسا؟

ہمارے کام بگڑتے سنورتے رہتے تھے
مگر ہوا ہے یہ اب کے معاملہ کیسا؟



***
 

الف عین

لائبریرین
دلوں کی ساری کدورت کو صاف کرنے کو
وہ آئے گا میرا سینہ شگاف کرنے کو

یہ راستہ تو اسی شہر کو پلٹ آیا
ادھر تو آئے تھے ہم انحراف کرنے کو

اٹھے وہ آنکھ تو کھل جائیں بند دروازے
کھلیں وہ لب تو کوئی انکشاف کرنے کو

اگر حساب میں کچھ اور ماجرا نکلا
تو کون کس سے کہے گا معاف کرنے کو؟

***
 

الف عین

لائبریرین
ہوائے تازہ چلی ہے اِدھر بھی آئے گی
کُھلے رہیں گے دریچے تو گھر بھی آئے گی

دلوں میں اونچی اڑانوں کا خواب زندہ رہے
تو فصلِ حوصلۂ بال و پر بھی آئے گی

کبھی اِدھر تو کبھی اس طرف ملیں گے ہم
سفر بھی ہوتا رہے گا خبر بھی آئے گی

سکون ملتا ہے یہ بار بار کہنے سے
کہ رات ہے تو یقینا سحر بھی آئے گی

گزر کے دشتِ جنوں سے مری قبائے شوق
کبھی سفید کبھی خوں میں تر بھی آئے گی

***
 

الف عین

لائبریرین
لفظوں کی تصویریں اور صدا کے رنگ بکھرتے ہیں
اکثر میں اور تنہائی جب اس کی باتیں کرتے ہیں

اک آہٹ سی اک سایا سا جلتے بجھتے کچھ جگنو
ساری رات مرے آنگن میں کھیل تماشے کرتے ہیں

دل کیسا ویران کھنڈر ہے ارمانوں کا اب بھی جہاں
روتے رہتے ہیں سناٹے سائے آہیں بھرتے ہیں

اور پروں کو مل جاتا ہے تیز اڑانوں کا ورثہ
بال وپر اڑنے والوں کے جتنی بار کترتے ہیں

صبح زمینِ دل پہ کچھ قدموں کے نشاں تو ملتے ہیں
لیکن آخر کون ہیں جو دل کی بستی سے گزرتے ہیں؟

موجوں کی یلغار سے اکثر کشتی ڈوب بھی جاتی ہے
اور جزیرے کھوئے ہوئے بھی ان موجوں سے ابھرتے ہیں



***
 

الف عین

لائبریرین
دکھوں کے جتنے ہیں منظر اگر شمار سکو
تو تم بھی میری طرح روز و شب گزار سکو

یہ کہتے رہتے ہو کتنا برا زمانہ ہے
تو پھر سدھار لو اس کو اگر سدھار سکو

وفورِ شوق کی دیوانگی میں ممکن ہے
کہ اپنی جان سی شے بھی کسی پہ وار سکو

عجیب موڑ پہ آکر رکی ہے یہ بازی
کہ جس کو جیتنا ممکن نہ جس کو ہار سکو

***
 

الف عین

لائبریرین
ہریالی کی آس جگادی جنگل میں
برف رتوں نے آگ لگادی جنگل میں

اچھی سی اک خبر اڑادی جنگل میں
اسی بہانے دھوم مچادی جنگل میں

شہروں کی وحشت کا رخ اس جانب تھا
پیڑوں نے دیوار اٹھادی جنگل میں

شاخ پہ یا تو سرخ کلی ہے یا اپنا
گھونگھٹ کاڑھے ہے شہزادی جنگل میں

اپنا رنگ اور اپنی مستی مانگتے ہیں
وحشی خواہش اور آزادی جنگل میں

سب آوازیں سنّاٹے میں ڈوب گئیں
آج ہوئی پھر کوئی منادی جنگل میں؟


***
 

الف عین

لائبریرین
اگر سچّا سخنور ہے بولتا ہے
تو لفظوں کا پیمبر بولتا ہے

مری تخئیل کے پہلو میں اکثر
نہ جانے کس کا شہپر بولتا ہے؟

دھوئیں کی ہیں بہت لمبی زبانیں
پسِ منظر سے منظر بولتا ہے

کبھی کلیوں کو کِھلتے وقت سنیے
کوئی لہجہ بدل کر بولتا ہے

میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں
جو میرے دل کے اندر بولتا ہے

عجب جادو ہے اس کی گفتگو میں
مخاطب ہو تو پتھر بولتا ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
وہی پرانا نئے میں ڈھل کر آجاتا ہے
ایک ہی منظر بھیس بدل کر آجاتا ہے

جب وہ چہرہ خواب میں چل کر آجاتا ہے
کوئی چراغ سا رات میں جل کر آجاتا ہے

رنگ دکھائے گا وحشی اس کوچے میں بھی
ابھی تلک تو صرف ٹہل کر آجاتا ہے

سنّاٹے میں خوف کی آہٹ سنتے ہی بس
منھ میں سارا خون اچھل کر آجاتا ہے

آنے والا آندھی بارش کہرے میں بھی
دھیرے دھیرے سنبھل سنبھل کر آجاتا ہے


***
 

الف عین

لائبریرین
سراغ اس کا اب ایسے لگاکے دیکھوں گا
میں اک چراغ ہَوا میں جلاکے دیکھوں گا

پسِ خیال یہ کیا ہے؟ جو جھلملاتا ہے
میں اس خیال کا پردہ اٹھاکے دیکھوں گا

لہو ضرور دکھائے گا اپنا رنگ کبھی
تو بار بار نیا زخم کھاکے دیکھوں گا

کچھ اور آئینہ ماضی کا صاف ہو جائے
تو اپنے حال سے آگے بھی جاکے دیکھوں گا

بنا تو کیسے بنے گا وہ آرزو کا محل؟
خیال ہی میں مرقع بناکے دیکھوں گا

چھپائے رہتے ہیں اس کو حواس کے پردے
تو اپنا ہوش بھی اب کے گنواکے دیکھوں گا


***
 

الف عین

لائبریرین
اثر دعا کا کبھی یوں بھی آشکار کیا
کہ اس نے دھوپ کی چادر کو سایہ دار کیا

یقین میں بھی نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟
چراغ نے بھی ہواؤں کا اعتبار کیا

نقاب ہی نہیں الٹی کلی کے چہرے کی
صبا نے پیرہنِ گل بھی تار تار کیا

اُدھر پہنچ کے تو حیران رہ گئے ہم بھی
کہ وہ تو سرخ سمندر تھا جس کو پار کیا

وہ جان دے کے بھی زندہ رہا کہ اس کا نام
تمام اہلِ قبیلہ نے اختیار کیا

ہمارے کام کی نکلیں تو ہم نے آنکھوں کو
کبھی خوشی میں کبھی غم میں اشکبار کیا

***
 

الف عین

لائبریرین
کہیں شہرِ سبا آباد ہو جائے
تو ہر بندہ سلیماں زاد ہو جائے

کہاں شیریں کہاں مٹّی کی چاہت
یہ جس کا نام لے فرہاد ہو جائے

مقابل سے مخاطب ہوکے دیکھیں
کبھی تو عکس بھی ہم زاد ہو جائے

کچھ ایسا ہو اڑانوں کا تصوّر
پروں کی قید سے آزاد ہو جائے


بہ مجبوری یہ احساسِ تشکّر
لبوں تک آئے تو فریاد ہو جائے

پرانے زخم پھر بھرنے لگے ہیں
کوئی تازہ ستم ایجاد ہو جائے

میں اس کو اتنا پڑھنا چاہتا ہوں
کہ وہ مجھ کو زبانی یاد ہو جائے
***
 

الف عین

لائبریرین
اسعدؔ ! یہ نظم تمہارے لئے

سخن کی مجلسِ ماتم میں کس کا ذکر ہوتا ہے؟
کہ سب حرف وبیاں کالی ردا میں منھ چھپائے ہیں
کہ نطق ولب کا بھی رشتہ شکستہ ہوگیا ہے
تکلّم ساکت وجامد پڑا ہے!!
خموشی بین کرتی ہے!

کوئی جھونکا ہَوا کا یا صدا کا یا دعا کا
دکھا دیتا ہے ان لفظوں کا چہرہ
تو وہ ہے اس قدر نمناک ونمدیدہ
فسردہ اور رنجیدہ
جسے رنج والم کی زرد بارش تر بتر کردے
بدن کو چشمِ تر کردے!!
نہیں کھلتا کہ پانی ہے کہ آنسو ہیں؟
کہ خونِ دل کے قطرے ہیں؟
جو ان بھیگے ہوئے لفظوں کی نس نس سے ٹپکتے ہیں!
وہی نخلِ سخن خوش رنگ خوشبو دار جس میں پھول کھلتے تھے
معانی کی نئی سرسبز روشن نہر جن سے پھوٹتی تھی
سخن کی وادیوں میں فکر تازہ گونجتی تھی
اچانک دھوپ کی شدت سے خاکستر ہوا ہے
وہ رنگ وروپ پھیکا پڑگیا ہے
غبارِ وقت بن کر اڑ گیا ہے!!
بلانے والے سب الفاظ گونگے اور بہرے ہو چکے ہیں
سماعت کے چمن میں ایک لمبی چپ کا ڈیرہ ہے
کوئی آہٹ نہ دستک صرف سناٹے کا پہرہ ہے!!

کسی دن حرفِ غم ہی بند دروازے کو کھولے گا
طلسمِ خامشی ٹوٹے گا اک اک حرف بولے گا
بیاں قربان ہوگا منفرد لہجے کی ندرت پر
رہے گا وقت بھی حیران اس کے فن کی عظمت پر
کرے گا آسماں شبنم فشانی اس کی تربت پر
زمینِ شوق کا سارا علاقہ سلطنت اس کی
یہاں اس کی حکومت قائم ودائم رہے گی!
 

الف عین

لائبریرین
ایک غزل اسعدؔ کے نام

نہیں تھا کوئی ستار ترے برابر بھی
ہوا غروب ترے ساتھ تیرا منظر بھی

پگھلتے دیکھ رہے تھے زمیں پہ شعلے کو
رواں تھا آنکھ سے اشکوں کا ایک سمندر بھی

کہیں وہ لفظ میں زندہ کہیں وہ یادوں میں
وہ بجھ چکا ہے مگر ہے ابھی منور بھی

عجب گھلاوٹیں شہد ونمک کی نطق میں تھی
وہی سخن کہ تھا مرہم بھی اور نشتر بھی

منافقوں کی بڑی فوج اس سے ڈرتی تھی
اور اس کے پاس نہ تھا کوئی لاؤ لشکر بھی
 
Top