سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
لکھی نہ ہو تو زبانی بچا کے رکھنا ہے
پر اپنی اپنی کہانی بچا کے رکھنا ہے

سنا ہے آگے کڑے کوس کی مسافت ہے
تو ایک شام سہانی بچا کے رکھنا ہے

جو سیپ میں ہوں وہ قطرے گہر بھی بنتے ہیں
تو اپنی آنکھ میں پانی بچا کے رکھنا ہے

نہ جانے کون سی شب پھر دراز ہو جائے؟
کم از کم ایک کہانی بچا کے رکھنا ہے

اثاثہ صرف بھی کرنا ہے اپنے لفظوں کا
اور ان میں رمز و معانی بچا کے رکھنا ہے



***
 

الف عین

لائبریرین
کبھی تو ایسے مل جائیں بام و در سارے
کہ اک چراغ سے روشن ہوں اپنے گھر سارے

بس اب تو اس کی رفاقت کی آزمائش ہے
کہ ہم کو چھوڑ گئے اور ہمسفر سارے

نہال ایسے ہوئے ابرِ تر کی آمد سے
کہ سبز پوش ہوئے دشت کے شجر سارے

یہ آسمان پہ تارے ہیں یا جلے ہیں چراغ؟
دلِ شکستہ کی قبروں پہ آن کر سارے؟

کوئی امید ہے جس کی نہ کوئی وعدہ ہے
اک ایسی بات کے بیٹھے ہیں منتظر سارے

غبارِ راہ میں یا خواب کے دھندھلکے میں
کہیں تو گم ہیں مری عمر کے سفر سارے


***
 

الف عین

لائبریرین
کرتے رہتے تھے خوب دیدِ بدن
آخرش ہو گئے شہیدِ بدن

ایسے کھلتے کہاں تھے بھید اس کے
ایک شب مل گئی کلیدِ بدن

جام و صہبا تو اک وسیلہ ہیں
ورنہ ہر نشہ ہے کشیدِ بدن

اس کے در پر روا جبیں سائی
پیر و مرشد بھی ہیں مریدِ بدن

دوستی کا مزا خوشی کا ملن
ہر بدن ہے برائے عیدِ بدن

جنسِ نایاب ہے سرِ بازار
کوئی بیچے کوئی خریدے بدن

***
 

الف عین

لائبریرین
آؤ دیارِ شوق میں وہ ہاؤہو کریں
برسوں تلک یہ لوگ یہی گفتگو کریں

خوشبو کی بات میں ہوں حوالے گلاب کے
ہو حسن کا بیاں تو اسے رو برو کریں

شبنم میں مل گیا ہے مزا پھر شراب کا
پھر پھول اپنے آپ کو جام و سبو کریں

اظہار کی گرفت میں کب ہے جمالِ دوست
ممکن نہیں بیان اسے موبمو کریں

دستِ خیال ہی سے چھویں پھر وہی بدن
ہاتھوں کی انگلیوں کو بھی پھر مشکبو کریں

***
 

الف عین

لائبریرین
لکھ رہا تھا میں داستاں اس کی
ہاتھ میرے تھے انگلیاں اس کی

اپنا قصّہ بیان کرنا تھا
اور نکلا وہ داستاں اس کی

بس گیا کون میری آنکھوں میں؟
آئینے میں بھی جھلکیاں اس کی

مُلکِ جاں ہو کہ قریۂ دل ہو
حکمرانی نہیں کہاں اس کی

میرے تنکوں سے جنگ کرتے ہوئے
تھک بھی جاتی ہیں آندھیاں اس کی

ہم نے اپنے لہو کے دریا سے
پار کردی ہیں کشتیاں اس کی

اب تو سچ کا سکوت بولتا ہے
اور کاٹے کوئی زباں اس کی

***
 

الف عین

لائبریرین
بجھ چکی آگ مگر راکھ میں گرمی ہے ابھی
یاد آجائے تو بجلی سی چمکتی ہے ابھی

موسمِ شوق میں کیا پھول کھلے تھے پہلے
شاخ وہ سوکھ گئی پھر بھی مہکتی ہے ابھی

کوئی شے مدفنِ احساس میں زندہ ہوگی
دل بھی دُکھتا ہے بہت چوٹ بھی لگتی ہے ابھی

راکھ ہوتے ہوئے گھر دیکھا تھا جن آنکھوں نے
ان میں اس روز سے اک آگ سی جلتی ہے ابھی

بات جو اس نے کبھی کی تھی عجب لہجے میں
پھانس کی طرح مرے دل میں کھٹکتی ہے ابھی




***
 

الف عین

لائبریرین
مٹی مٹی سی سہی کچھ نشانیاں تو ہیں
ہمارے بعد ہماری کہانیاں تو ہیں

تعلقات پہ یہ وقت ہے کڑا کہ اُسے
شکایتیں نہ سہی بد گمانیاں تو ہیں

ہمارے چہرے بھی دل کی عجب کتابیں ہیں
بیاں نہیں ہے مگر ترجمانیاں تو ہیں

نکل کے کچھ تو ملا بام و در کی سرحد سے
مکاں نہیں ہے مگر لا مکانیاں تو ہیں

***
 

الف عین

لائبریرین
اک ایسی بات کرنا چاہتا ہوں
جسے دن رات کرنا چاہتا ہوں

بنایا ہے خیالوں میں جو چہرہ
اب اس سے بات کرنا چاہتا ہوں

بنا کر آئینے میں عکس اس کو
شریکِ ذات کرنا چاہتا ہوں

میں اک بارش کو اس کے ساتھ مل کر
بھری برسات کرنا چاہتا ہوں


ضرورت ہو جسے آواز دینا
میں دل خیرات کرنا چاہتا ہوں

ہنر جس نے سکھایا جیتنے کا
اسی کو مات کرنا چاہتا ہوں

سفر میں کام آئیں گی تمہارے
دعائیں ساتھ کرنا چاہتا ہوں

***
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اور مزا آتا اس طول بیانی میں
اک باب ہمارا بھی ہوتا تو کہانی میں

پھر اور کوئی صورت آنکھوں میں نہیں ٹھہری
چہرہ کوئی دیکھا تھا بہتے ہوئے پانی میں

سیراب کیا کس کو غرقاب کیا کس کو؟
کچھ بھی تو نہیں دیکھا دریا نے روانی میں

اب بھی یہ دلِ وحشی کہتا ہے گلِ نو سے
ہم کاش ملے ہوتے ایّامِ جوانی میں

پامال ہوئے لیکن پیوستہ رہے اس سے
کچھ بات ہی ایسی ہے اُس دشمنِ جانی میں

کچھ پھول بھی چنتے ہیں الفاظ کی شاخوں سے
کچھ رنگ بھی بھرتے ہیں تصویرِ معانی میں


***
 

الف عین

لائبریرین
سمجھ رہے تھے کہ ہے سر کا امتحاں دیوار
لہو کے رنگ سے چمکی مگر کہاں دیوار؟

سفر کا کوئی بھی موسم ہو مل ہی جاتی ہے
کبھی غبار کبھی دُھند میں نہاں دیوار

یہ کہہ دیا تھا کہ اس کے بھی کان ہوتے ہیں
تو بن گئی ہے اسی دن سے رازداں دیوار

کُھلی فضاؤں میں جو ساتھ ساتھ رہتے تھے
کہاں سے آگئی ان کے بھی درمیاں دیوار؟

میں آسماں کی بلندی پہ ہنسنے والا تھا
کہ آگری مرے ہی سر پہ ناگہاں دیوار



***
 

الف عین

لائبریرین
وہ کم سخن جو کسی بات پر بگڑ جائے
زمیں تو چیز ہے کیا آسماں سے لڑ جائے

کسی یقین پے چلتے رہے ہیں ہم اب تک
بڑے بڑوں کا وگرنہ قدم اکھڑ جائے

اُسی نظر سے رفو کا بھی کام لینا ہے
کہ جس سے بخیہ ہر اک زخم کا ادھڑ جائے

ترا خیال کبھی اس طرح مجسم ہو
اگر میں ہاتھ لگاؤں تو جان پڑ جائے

میں اپنے باغ کی دن رات خیر مانگتا ہوں
یہ سچ نہ ہو تو مرا آشیاں اُجڑ جائے

بہت عجیب سی خواہش سفر میں رہتی ہے
کہ راستے میں کہیں اپنا گھر بھی پڑ جائے


***
 

الف عین

لائبریرین
کِھلا بھی دیتے ہیں کلیاں مَسل بھی دیتے ہیں
ہَوا کے ہاتھ ارادہ بدل بھی دیتے ہیں

دل ایسی چیز کہ پلکوں سے چن لیا جائے
سنا ہے لوگ تو اس کو کچل بھی دیتے ہیں

یقین کی آخری سرحد پہ رہنے والے لوگ
کبھی کبھی تو لکھے کو بدل بھی دیتے ہیں

ہمارے گھر میں بزرگوں سے کتنی برکت ہے
گھنے درخت کا سایا بھی پھل بھی دیتے ہیں

سمندروں سے کہو ان کا احترام کریں
قدیم دریا کبھی رخ بدل بھی دیتے ہیں

ذرا سا صبر ذرا سا یقین تو رکھیں
سوال دیتے ہیں مشکل تو حل بھی دیتے ہیں


***
 

الف عین

لائبریرین
جانتا ہوں کہ مرے ہاتھ تو جل جائیں گے
راکھ میں دفن جو شعلے ہیں نکل جائیں گے

یہ جو اک تم سے تعلق ہے اسے توڑنا مت
ورنہ اس لفظ کے معنی ہی بدل جائیں گے

کوئی آواز اسی سمت سے پھر آئے گی
ہم بھی پھر اس کے تعاقب میں نکل جائیں گے

پھر کوئی چہرہ اندھیرے میں کرن کی صورت
پھیلتا جائے گا اور دیپ سے جل جائیں گے

ڈوبنے والوں سے دریا نے کہا تھا ’’آؤ‘‘
میرے پانی سے سبھی پار نکل جائیں گے

چند قطرے بھی سمندر میں اگر زندہ ہیں
بڑھتے بڑھتے وہی طوفان میں ڈھل جائیں گے


***
 

الف عین

لائبریرین
لٹا دیے تھے کبھی جو خزانے ڈھونڈھتے ہیں
نئے زمانے میں کچھ دن پرانے ڈھونڈھتے ہیں

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے میں وہ لمحہ ہوں
کہ اک زمانے سے جس کو زمانے ڈھونڈھتے ہیں

کچھ احتیاط بھی اب کے طلب میں رکھنا پڑی
سو اس کو اور کسی کے بہانے ڈھونڈھتے ہیں

لپک کے آتے ہیں سینے کی سمت تیر ایسے
پرند شاخ پہ جیسے ٹھکانے ڈھونڈھتے ہیں

ہماری سادہ مزاجی بھی کیا قیامت ہے
کہ اب قفس ہی میں ہم آشیانے ڈھونڈھتے ہیں



***
 

الف عین

لائبریرین
آتشِ شوق سے بیتاب تھی دیوانی ہوا
کل پسینے میں شرابور تھی برفانی ہوا

جانے کس وقت بدل جائے یہ سارا منظر؟
جانے کس سمت نکل جائے یہ سیلانی ہوا؟

آخرِ شب کے چراغوں سے ذرا بچ کے چلے
لاکھ سمجھایا مگر ایک نہیں مانی ہوا

کھیت کھلیان سے پنگھٹ سے بھی منھ موڑ لیا
اب تو شہروں میں اڑی پھرتی ہے دہقانی ہوا

سخت لہجہ میں کبھی اور کبھی سر گوشی میں
کچھ تو کہتی ہے در و بام سے ہیجانی ہوا

بس ذرا دور چلی ساتھ سفر میں میرے
تھک کے پھر بیٹھ گئی راہ میں بیگانی ہوا


***
 

الف عین

لائبریرین
کبھی کبھی جو من و تو کی قید ہٹ گئی تھی
تو زندگی انہی لمحات میں سمٹ گئی تھی

سفر کے بعد بھی باندھے رہی وہی زنجیر
جو چلتے وقت مرے پاؤں سے لپٹ گئی تھی

نہ جانے سر پہ مسائل کا بوجھ تھا کتنا؟
کہ میرے قدموں کے نیچے زمین پھٹ گئی تھی

تماشا دیکھا مرے ڈوبنے کا تھوڑی دیر
اور اس کے بعد کنارے کی بھیڑ چھٹ گئی تھی

بس ایک لمحے کو اس شب لگی تھی آنکھ مری
اس ایک لمحے میں لیکن بساط الٹ گئی تھی


***
 

الف عین

لائبریرین
کچھ تو تعمیر بھی پرانی ہے
کچھ ہوا کی بھی مہربانی ہے

خود بھی حیران رہ نہ جاؤں کہیں
جانے کیا اب کے جی میں ٹھانی ہے؟

دوسرے نام سے ہے ذکر مرا
کچھ الگ سی مری کہانی ہے

اب تو یہ اعتبار بھی نہ رہا
جسم میں خون ہے کہ پانی ہے؟

بات پوری ہو کس طرح میری
کچھ بتانا ہے کچھ چھپانی ہے



***
 

الف عین

لائبریرین
خیال و وہم و گماں سے بھی ماورا ہو جائے
کہ ڈوبتے ہوں تو پانی میں راستہ ہو جائے

میں اگلے پچھلے زمانوں کی سیر بھی کر لوں
مرا خیال ذرا اور آئینہ ہو جائے

دیارِ جاں میں جو ہلچل مچائے رکھتا ہے
جب اس کو ڈھونڈھنے نکلوں تو لاپتہ ہو جائے

خدا کرے کہ وہی معجزے کی ساعت ہو
ہمارے درد کا ہر حرف جب دعا ہو جائے

تو روشنی کی گواہی میں کون نکلے گا؟
کہ خود چراغ اجالے سے جب خفا ہو جائے

نیا ہے شہر مگر دل کی خواہشیں ہیں عجب
کہ چلتے پھرتے کہیں اس کا سامنا ہو جائے


***
 

الف عین

لائبریرین
غضب تو یہ تھا کہ وہ ترجمان اس کی تھی
ہمارے مُنھ میں بھی گویا زبان اس کی تھی

سفر کی سمت مقید تھی اس کی مٹّھی میں
کہ بال و پر تھے ہمارے اڑان اس کی تھی

اس انکشاف سے کچھ اور زخم گہرے ہوئے
کسی کے تیر ہوں لیکن کمان اس کی تھی

کوئی بھی چیز وہاں قیمتی نہیں تھی مگر
تمام شہر میں اونچی دکان اس کی تھی

اسی پہ خوش تھا کہ میرے بھی کچھ حوالے تھے
وگرنہ زیست کی ہر داستان اس کی تھی


***
 

الف عین

لائبریرین
ہر ایک قطرہ پشیمان سا نکلتا ہے
پھر اس کی آنکھ سے آنسو مرا نکلتا ہے

لہو تو لہجہ بدل کر بھی بولتا ہے کہ اب
نئے پھلوں سے وہی ذائقہ نکلتا ہے

کبھی تو لفظ بہت پیچھے چھوٹ جاتے ہیں
پسِ سکوت ہی تب مدعا نکلتا ہے

نہ جانے اس کی کہانی میں کتنے پہلو ہیں
کہ جب سنو تو نیا واقعہ نکلتا ہے

کبھی کبھی تو کسی اجنبی کے ملنے پر
بہت پرانا کوئی سلسلہ نکلتا ہے


***
 
Top