سخن آباد۔۔ منظور ہاشمی

الف عین

لائبریرین
بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں
جنوں کی بھولی ہوئی رسم کا اعادہ کریں

تمام اگلے زمانوں کو یہ اجازت ہے
ہمارے عہدِ گذشتہ سے استفادہ کریں

انہیں اگر مری وحشت کو آزمانا ہے
زمیں کو سخت کریں دشت کو کشادہ کریں

چلو لہو بھی چراغوں کی نذر کردیں گے
یہ شرط ہے کہ وہ پھر روشنی زیادہ کریں

سنا ہے سچی ہو نیّت تو راہ کھلتی ہے
چلو سفر نہ کریں کم سے کم ارادہ کریں


***
 

الف عین

لائبریرین
کوئی پوچھے تو نہ کہنا کہ ابھی زندہ ہوں
وقت کی کوکھ میں اک لمحۂ آئندہ ہوں

زندگی کتنی حسیں کتنی بڑی نعمت ہے
آہ! میں ہوں کہ اسے پاکے بھی شرمندہ ہوں

اجنبی جان کے ہر شخص گزر جاتا ہے
اور صدیوں سے اسی شہر کا باشندہ ہوں

زندگی تو جو سنے گی تو ہنسی آئے گی
لوگ کہتے ہیں کہ میں تیرا نمائندہ ہوں

آئی حصّے میں مرے ڈوبتے سورج کی کرن
اس وراثت سے مگر آج بھی تابندہ ہوں

تیز رفتار ہوائیں مجھے دہراتی ہیں
حرفِ آخر ہوں میں اک نغمۂ پائندہ ہوں

***
 

الف عین

لائبریرین
سحر کی پہلی کرن کو سہارا کرتے ہیں
پھر اپنے اپنے دکھوں پر گزارا کرتے ہیں

فراق بچھڑی ہوئی خوشبوؤں کا سہہ نہ سکیں
تو پھول اپنا بدن پارا پارا کرتے ہیں

سیاہ رات نے یہ بھی ہنر سکھایا ہے
کہ جگنوؤں کو بھی کیسے ستارا کرتے ہیں

بہت دنوں سے تو وہ یاد بھی نہیں آیا
تو پھر یہ نیند میں کس کو پکارا کرتے ہیں؟

نہا کے پنکھ سکھاتی ہے دھوپ میں تتلی
تو رنگ اپنی نظر خود اتارا کرتے ہیں

کبھی گلاب کبھی چاندنی کبھی خوشبو
ہے ایک شخص جسے استعارا کرتے ہیں

***
 

الف عین

لائبریرین
نئی زمیں نہ کوئی آسمان مانگتے ہیں
بس ایک گوشۂ امن وامان مانگتے ہیں

کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے
درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں

ہمیں بھی آپ سے اک بات عرض کرنا ہے
پر اپنی جان کی پہلے امان مانگتے ہیں

قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ
مرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں

ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف
مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں

نئی فضا کے پرندے ہیں کتنے متوالے
کہ بال وپر سے بھی پہلے اڑان مانگتے ہیں

***
 

الف عین

لائبریرین
آسماں کے آنگن میں بدلیاں نکلتی ہیں
یا خلا کے جنگل کی ہرنیاں نکلتی ہیں؟

چاندنی کے پردے میں چھپ کے رات کو اکثر
روشنی کے مندر کی دیویاں نکلتی ہیں

خوشبوؤں کو حاصل ہے اعتماد پھولوں کا
رنگ کی سفارش پر تتلیاں نکلتی ہیں

فتح کرکے آنا ہے رات کے سمندر کو
خواب کے جزیروں سے کشتیاں نکلتی ہیں

آس بھی ہو سینے میں راس آئے موسم بھی
تب اداس شاخوں پر پتیاں نکلتی ہیں

جانے پچھلے موسم میں کیسے بیج بوئے تھے؟
اب ہری زمینوں سے سرخیاں نکلتی ہیں

***
 

الف عین

لائبریرین
کبھی تو یوں ہو کہ دونوں کا کام چل جائے
ہَوا بھی چلتی رہے اور دیا بھی جل جائے

یہی لگے کہ حقیقت میں کچھ ہوا ہی نہ تھا
جو سانحہ تھا کسی خواب میں بدل جائے

ڈرو کہ وقت کے ہاتھوں میں ساری بازی ہے
نہ جانے کون سی کس وقت چال چل جائے

نشانیاں بھی ملیں گی پرانے موسم کی
ذرا ہوا تو رکے برف تو پگھل جائے

تمام باغ کو حیرت میں ڈال دے کوئی
خزاں کے دور میں میرا درخت پھل جائے

اترتے رہتے ہیں بیڑے اُدھر کنارے پر
کبھی ہماری طرف کی ہَوا بھی چل جائے


***
 

الف عین

لائبریرین
کوئے سخن میں لفظ تو جادو بن کر رہتے ہیں
اور معانی پھول کی خوشبو بن کر رہتے ہیں

نیند کی ساری پونجی کرکے تعبیروں کے نام
خواب ہماری آنکھ میں آنسو بن کر رہتے ہیں

ذہن کے باغیچے میں رقصاں شعر وسخن کے پیکر
دن کو تتلی رات کو جگنو بن کر رہتے ہیں

دل کے کچھ ارمانوں کو یہ بھی معلوم نہیں
جانے کس کے جوگ میں سادھو بن کر رہتے ہیں

لطف و کرم کی آس میں اکثر اس کے دیوانے
دشتِ طلب میں گھائل آہو بن کر رہتے ہیں



***
 

الف عین

لائبریرین
سر پہ تھی کڑی دھوپ بس اتنا ہی نہیں تھا
اُس شہر کے پیڑوں میں تو سایا ہی نہیں تھا

پانی میں ذرا دیر کو ہلچل تو ہوئی تھی
پھر یوں تھا کہ جیسے کوئی ڈوبا ہی نہیں تھا

لکھے تھے سفر پاؤں میں کس طرح ٹھہرتے
اور یہ بھی کہ تم نے تو پکارا ہی نہیں تھا

اپنی ہی نگاہوں پہ بھروسہ نہ رہے گا
تم اتنا بدل جاؤگے سوچا ہی نہیں تھا

کندہ تھے مرے ذہن پہ کیوں اس کے خد و خال
چہرہ جو مری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں تھا

***
 

الف عین

لائبریرین
جس شاخ کی فصل پک رہی ہے
کٹنے کو وہ خود لچک رہی ہے

اچھی ہے یہ زندگی کہ سر پر
تلوار سی اک لٹک رہی ہے

یا آج وہ لب کشا ہوا ہے؟
یا کوئی کلی چٹک رہی ہے؟

یا اور چراغ جل اٹھے ہیں؟
یا آخری لَو بھڑک رہی ہے؟


یا آسمان ہی پھٹ پڑا ہے؟
یا آنکھ مری چھلک رہی ہے؟

اک بات چبھی تھی دل میں ایسی
سینے میں ابھی کھٹک رہی ہے

اک پھول کھلا تھا اور اب تک
یادوں کی گلی مہک رہی ہے

***
 

الف عین

لائبریرین
عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا
شجر خود اپنے ہی سائے کے انتظار میں تھا

نہ جانے کون سے موسم میں پھول کھلتے ہیں؟
یہی سوال خزاں میں یہی بہار میں تھا

ہر ایک سمت سے لشکر ہوا کے آئے تھے
اور اک چراغ ہی میدانِ کار زار میں تھا

کھنچی ہوئی تھی مرے گرد واہموں کی لکیر
میں قید اپنے بنائے ہوئے حصار میں تھا

کوئی مکیں تھا نہ مہمان آنے والا تھا
تو پھر کواڑ کھلا کس کے انتظار میں تھا؟

مرے شجر پہ مگر پھول پھل نہیں آئے
وہ یوں تو پھلتے درختوں ہی کی قطار میں تھا

***
 

الف عین

لائبریرین
جانے کس کس کو مددگار بنا دیتا ہے؟
وہ تو تنکے کو بھی پتوار بنا دیتا ہے

ایک اک اینٹ گراتا ہوں میں دن بھر لیکن
رات میں پھر کوئی دیوار بنا دیتا ہے

وہ کچھ ایسا ہے گزرتا ہے اِدھر سے جب بھی
شہر کو مصر کا بازار بنا دیتا ہے

لفظ ان ہونٹوں پہ پھولوں کی طرح کھلتے ہیں
بات کرتا ہے تو گلزار بنا دیتا ہے

مسئلہ ایسا نہیں ہے مرا ہمدرد مگر
کچھ اسے اور بھی دشوار بنا دیتا ہے

جنگ ہو جائے ہواؤں سے تو ہر ایک شجر
نرم شاخوں کو بھی تلوار بنا دیتا ہے


***
 

الف عین

لائبریرین
ہر اک پتہ اگر پنکھا جھلے گا
شجر بھی دھوپ میں پھولے پھلے گا

کوئی لمحہ مری انگلی پکڑ کر
سنہرے وقت کے گھر لے چلے گا

انہیں کی روشنی زندہ رہے گی
لہو بھی جن چراغوں میں جلے گا

ہمارے ساتھ بھی چلتا ہے رستہ
ہمارے بعد بھی رستہ چلے گا

ہمیں کندن کرے یا راکھ کردے
تبھی شاید یہ سورج بھی ڈھلے گا؟

وہ موسم برکتوں والا تو آئے
ہمارا باغ بھی پھولے پھلے گا

**
 

الف عین

لائبریرین
وہ تیر چھوڑا ہوا تو اسی کمان کا تھا
اگرچہ ہاتھ کسی اور مہربان کا تھا

گزر رہا تھا وہ لمحہ جو درمیان کا تھا
مگر یہ وقت بڑے سخت امتحان کا تھا

پتہ نہیں کہ جدا ہوکے کیسے زندہ ہیں
ہمارا اس کا تعلق تو جسم وجان کا تھا

وہی کہانی کبھی جھوٹ تھی کبھی سچ تھی
ذراسا فرق اگر تھا تو بس بیان کا تھا

قدم قدم پہ نئے منظروں کی حیرت تھی
تِری گلی کا سفر تھا کہ اک جہان کا تھا؟

ہم اپنے نام کے حصّے کو ڈھونڈھتے بھی کہاں؟
زمیں کے پاس تو جو کچھ تھا آسمان کا تھا


***
 

الف عین

لائبریرین
جلا دیا ہے چراغ ایسا کہ لوگ جس کی مثال دیں گے
بری نظر سے ہوا نے دیکھا تو اس کی آنکھیں نکال دیں گے

سنا ہے پتھر کو موم کرنے کا بس وہی ایک راستہ ہے
حرارتیں خونِ آرزو کی بھی اب کے اشکوں میں ڈال دیں گے

سنا ہے سینے کی دھڑکنیں اس کی آہٹوں سے جڑی ہوئی ہیں
تو ہم سماعت کو شوق کے آئینے میں اس بار ڈھال دیں گے

سنا ہے منزل تلک نہیں ہے بنا بنایا سا کوئی رستہ
چلو تو اب کے سفر میں اچھاسا راستہ بھی نکال دیں گے

سنا ہے راہِ طلب کے راہی سے نقد جاں مانگنے لگے ہیں
سوال ہم سے کیا کسی نے تو ہم تو سن کے بھی ٹال دیں گے


سنا ہے اس رات کے سفر میں اگر چلیں گے وہ نام لے کر
تو اتنا چمکیں گے حرف اس کے کہ راستوں کو اجال دیں گے

سنا ہے پچھلی حکایتوں میں بھی نام اس کے بدل گئے تھے
تو عصرِ نو کی کہانیوں سے بھی کیسے اس کو نکال دیں گے

سنا ہے طرزِ ستمگری میں ہوا ہے اب کے نیا اضافہ
کہ زخم کھانے کے بعد سب کو وہ مرہمِ اندمال دیں گے

سنا ہے دورِ قبولیت کا پھر آرہا ہے کریم موسم
تو اب کے ہم کاسۂ دعا میں تمام دکھ درد ڈال دیں گے

***
 

الف عین

لائبریرین
آج تو فرطِ شوق میں ایسا کمال ہوگیا
جنبشِ لب نہ ہو سکی اور سوال ہوگیا

نرم ہوا کے لمس نے جیسے کھلا دیا گلاب
چہرہ نگاہِ شوق سے اس کا بھی لال ہوگیا

یہ بھی ہوا کہ رات جب تیز ہوا کا زور تھا
برگِ شجر بھی ٹوٹ کر شاملِ حال ہوگیا

عدل وپناہ کی رِدا پہلے تو سر پہ ڈال دی
پھر یوں ہوا کہ میرا خوں اس پہ حلال ہوگیا

راہِ طلب میں بس مرا ایک قدم غلط اٹھا
پھر تو تمام راستہ راہِ ملال ہوگیا

وقت عجیب پڑگیا اہلِ دل ونگاہ پر
اور تو کیا کہیں کہ اب عشق محال ہوگیا
 

الف عین

لائبریرین
خیال وشوق کو جب ہم تری تصویر کرتے ہیں
تو دل کو آئینہ اور آنکھ کو تنویر کرتے ہیں

نظر کے سامنے جتنا علاقہ ہے وہ دل کا ہے
تو اس کی بے دلی کے نام یہ جاگیر کرتے ہیں

ہَوا مِسمار بھی کردے اگر شہرِ تمنّا کو
پھر اس ملبے سے قصرِ آرزو تعمیر کرتے ہیں

ہوائیں پڑھ کے اپنے نام کے خط جھوم جاتی ہیں
محبت سے جو پتّوں پر شجر تحریر کرتے ہیں

ہمارے لفظ آئندہ زمانوں سے عبارت ہیں
پڑھا جائے گا کل جو آج وہ تحریر کرتے ہیں





***
 

الف عین

لائبریرین
پتہ نشان تو اس نے نہیں بتایا تھا
مگر وہ رات مرے خواب میں تو آیا تھا

زمین سبز پری کی طرح سنور گئی تھی
اور آسمان بھی جوڑا بدل کے آیا تھا

نہا دیا تھا پرانے دنوں کی خوشبو میں
کل اس کے شہر سے جھونکا ہوا کا آیا تھا

اب اس کے پھولوں سے خوشبو کی نہر پھوٹتی ہے
زمینِ شوق میں اک نخل جو لگایا تھا


تو روشنی کو بھی اس بات پہ تھا ناز بہت
کہ اپنے ہاتھ سے اس نے دیا جلا یا تھا

دیارِ جاں کے علاقے میں نور کیسا ہے؟
وہ آرہا ہے کہ اس کا خیال آیا تھا

مہکتے پھول سی یادیں چمکتے چاند سے لوگ
بس عمر بھر میں خزانہ یہی کمایا تھا
///
 

الف عین

لائبریرین
آنکھوں سے ہوکے میری بہا ہی کچھ اور تھا
اب کے تو آنسوؤں کا مزا ہی کچھ اور تھا

زخموں کا رنگ دیکھ کے شرما گئے گلاب
اس بار تو یہ باغ کھلا ہی کچھ اور تھا

میں تو سمجھ رہا تھا کہ دل ہوگیا دھواں
لیکن دیارِ جاں میں جلا ہی کچھ اور تھا

یا تو جواب عرضِ تمنا ہی کچھ نہ تھا
یا یہ ہوا کہ میں نے سنا ہی کچھ اور تھا

سنگِ گراں بھی ہوتے گئے راستے کے دھول
پہلے پہل سفر کا نشہ ہی کچھ اور تھا




***
 

الف عین

لائبریرین
نہ سنتی ہے نہ کہنا چاہتی ہے
ہَوا اک راز رہنا چاہتی ہے

نہ جانے کیا سمائی ہےکہ اب کی
ندی ہر سمت بہنا چاہتی ہے

سلگتی راہ بھی وحشت نے چن لی
سفر بھی پا برہنہ چاہتی ہے

تعلق کی عجب دیوانگی ہے
اب اس کے دکھ بھی سہنا چاہتی ہے

اجالے کی دعاؤں کی چمک بھی
چراغِ شب میں رہنا چاہتی ہے

بھنور میں آندھیوں میں بادباں میں
ہَوا مصروف رہنا چاہتی ہے


***
 

الف عین

لائبریرین
کٹی پھٹی ہوئی تحریر لے کے آیا تھا
عجب نوشتۂ تقدیر لے کے آیا تھا

تھکن سے چور پرندہ نہ جانے کس کے لئے؟
لہو میں ڈوبا ہوا تیر لے کے آیا تھا

بلا کی کاٹ تھی اک ایک لفظ میں اس کے
نیام نطق میں شمشیر لے کے آیا تھا

تمام شہر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا
عجیب جذبۂ تعمیر لے کے آیا تھا

بدن کی چٹکی ہوئی چاندنی کی آنچ نہ پوچھ
کہ برف آگ کی تاثیرلے کے آیا تھا

اِدھر سے کھلتی اُدھر سے لپٹتی جاتی تھی
میں اک عجیب سی زنجیرلے کے آیا تھا

***
 
Top