تاسف سابق ناظم کراچی نعمت اللّٰہ خان ایڈووکیٹ انتقال کر گئے

سابق ناظم کراچی نعمت اللّٰہ خان ایڈووکیٹ انتقال کر گئے، جماعتِ اسلامی کے ترجمان نے نعمت اللّٰہ خان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔
نعمت اللّٰہ خان 2001ء سے 2005ء کے دوران کراچی کے ناظم رہے، وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور طویل عرصے سے علیل تھے۔
738182_6554926_naimat-ullah_updates.jpg

نعمت اللّٰہ خان 1930ء میں اجمیر شریف میں پیدا ہوئے، انتقال کے وقت ان کی عمر 89 برس تھی۔
مرحوم نعمت اللّٰہ خان ایڈووکیٹ نے الخدمت فاؤنڈیشن کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

انا للہ و انا الیہ راجعون
خدمت کا استعارہ چلا گیا۔
 
سابق ناظم کراچی نعمت اللّٰہ خان ایڈووکیٹ انتقال کر گئے، وہ طویل عرصے سے علیل تھے، انتقال کے وقت ان کی عمر 89 برس تھی۔
نعمت اللّٰہ خان 2001ء سے 2005ء کے دوران کراچی کے ناظم رہے،وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور الخدمت فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی رہے۔
نعمت اللّٰہ خان 1930ء میں اجمیر شریف میں پیدا ہوئے، پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی،جبکہ کراچی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
نعمت اللّٰہ خان ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی رہے، جبکہ جماعت اسلامی پاکستان کی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔
انہوں نے شاہ فیصل کالونی سے کورنگی انڈسٹریل ایریا تک ملیر ندی پر فلائی اوور جیسا منصوبہ ان کے دورِ نظامت میں تعمیر کیا گیا۔
نعمت اللّٰہ خان ایڈووکیٹ مرحوم نے بحیثیت چیئرمین الخدمت فاؤنڈیشن صحرائے تھر کے رہنے والوں کو پانی اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے۔
لنک
 
انا للہ و انا الیہ راجعون
ہماری پسندیدہ شخصیات میں شامل تھے ۔کراچی کے لیے بے لوث کئی خدمات انجام دیں ہیں۔
االلہ کریم ان کی دائمی مغفرت فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔آمین
 

رانا

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مرحوم کا نام پہلی مرتبہ اس وقت ہی سنا تھا جب کراچی کے ناظم بنے تھے۔ اور پھر یاد رہ جانے والی وجہ بھی ان کا کراچی میں کیا گیا کام ہی تھا۔ اپنی نظامت کے دور میں واقعی انہوں نے بہترین رنگ میں کام کیا اور ایسا کیا کہ عام آدمی کو بھی نظر آتا تھا کہ کراچی میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ اس کے بعد مصطفیٰ کمال صاحب نے بھی بہت زبردست کام کیا کراچی میں، جب وہ نعمت اللہ صاحب کے بعد اگلی مدت کے لئے کراچی کے ناظم بنے۔ لیکن خاکسار کا ذاتی خیال تھا کہ اسکی وجہ بھی غالباً نعمت اللہ صاحب کا جی جان سے کیا گیا کام تھا کہ ایم کیو ایم کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ اب وہ نعمت اللہ صاحب سے بڑھ کر کام کرکے دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے۔
 

عدنان عمر

محفلین
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرتِ کاملہ فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ربِ کریم ان کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے، آمین۔
 
تحریر: ڈاکٹر فیاض عالم
٭
1992 سے 2020 تک ایک طویل عرصہ ہے جس میں نعمت اللہ خان صاحب کی شفقت و محبت راقم کو حاصل رہی- میڈیا کے کئی دوستوں کے فون آئے جو ان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں-
مکمل معلومات تو کراچی جماعت اسلامی کے دفتر ( شعبہ نشرواشاعت) سے مل سکیں گی لیکن راقم کے پاس جو معلومات ہیں وہ شیئر کررہا ہوں-
نام: نعمت اللہ خان
والد کا نام: عبدالشکور خان
والدہ کا نام: بسم اللہ بیگم ( شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک اسکول میں بچوں کو پڑھایا، گویا اس دور میں ایک ورکنگ ویمن تھیں)
پیدائش: یکم اکتوبر 1930 کو اجمیر میں پیدا ہوئے- لیکن آبائ وطن شاہ جہاں پور تھا
والد ریلوے میل سروس میں کلرک تھے- نعمت اللہ خان صاحب کے دو بھائ اور تین بہنیں تھیں-
والد کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب وہ ساتویں کلاس کے طالب علم تھے-
انہوں نے میٹرک کا امتحان 19946 میں پاس کیا-
16 سال کی عمر میں اجمیر میں تحریک پاکستان میں بھرپور انداز میں حصہ لیا- جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرتے اور نعرے لگاتے اور مسلم لیگ کے ترانے پڑھتے-
16 سال کی عمر میں مسلم لیگ اجمیر کے نیشنل گارڈ کے صدر بنائے گئے-
28 اگست 1947 کو تنہا پاکستان آئے اور کراچی میں پہلی رات فٹ پاتھ پر سوکر گذاری-
کچھ عرصے کے بعد چھوٹے بھائ بھی کراچی آگئے اور نعمت اللہ صاحب ان کے ساتھ ایک کچے کمرے میں لیاری میں رہنے لگے-
والدہ اور بہنوں کی کراچی آمد کے بعد مزار قائد کے قریب ایک جھگی میں رہائش اختیار کی جہاں پانی دور سے بھر کر لانا پڑتا تھا-
نعمت اللہ خان صاحب نے طویل عرصے تک ایک کل وقتی ملازمت اور دو پارٹ ٹائم نوکریاں کیں-
کراچی میں حبیب بینک، برٹش الومینیئم کمپنی، سندھ پرچیزنگ بورڈ، اور منسٹری آف ڈیفنس سمیت مختلف اداروں میں ملازمت کی-
1949 میں انٹر کیا پھر بی اے اور ایم اے کیا-
ایم اے اسلامیہ کالج سے کیا-
اس دوران ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا اور ملازمتیں بھی کرتے رہے-
جامعہ کراچی سے صحافت میں ڈپلومہ کیا لیکن عملی صحافت میں قدم نہ رکھ سکے- پروفیسر شریف المجاہد ان کے استاد تھے-
1958 میں انکم ٹیکس کے شعبے میں وکالت کی پریکٹس شروع کی - دفتر بنانے کے لئے ایک دوست سے 5000 روپے بطور قرض لئے-
1960 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے- اہلیہ کا نام طاہرہ خان تھا-
1967 میں نارتھ ناظم آباد کے بلاک ایف میں 19000 روپے میں پلاٹ خریدا جس پر مکان بناکر ان کی فیملی ساری زندگی رہتی رہی-کچھ عرصہ قبل مکان فروخت کرکے بچوں اور بچیوں میں وراثت تقسیم کردی-
نعمت اللہ خان صاحب کو اللہ نے سات بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں-
نارتھ ناظم آباد میں جماعت اسلامی کے حلقے سے وابستہ ہوئے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر غریب بچیوں کے لئے جہیز کا بندوبست کرتے رہے-
جماعت اسلامی میں خدمت خلق کے ذریعہ داخل ہوئے اور ساری زندگی خدمت انسانیت کو اپنا شعار بنائے رکھا-
1974 میں خانہ حرم مکی اور اس کے بعد مدینہ منورہ میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھایا- یہ حلف پروفیسر غفور احمد نے لیا تھا-
1985 میں غیر جماعتی الیکشن میں صوبائ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے-
اسمبلی میں کراچی کے حقوق کے لئے مسلسل آواز بلند کرتے رہے-
متین علی خان صاحب کے بعد جماعت اسلامی ضلع وسطی کے امیر کی ذمہ داری پر فائز ہوئے-
اس دوران شعبہ خدمت خلق سے مسلسل وابستہ رہے-
دسمبر 1991 سے جولائ 2001 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے- اور الخدمت ویلفیئر سوسائیٹی کے صدر اور سرپرست بھی رہے-
اگست 2001 سے اگست 2005 تک کراچی کے پہلے سٹی ناظم رہے اور شہر کے لئے بے مثال ترقیاتی کام کئے-
اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے انہین الخدمت فاونڈیشن کا مرکزی صدر مقرر کیا-
نعمت اللہ خان صاحب جماعت 1997-98 میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے نائب امیر بھی مقرر کئے گئے - اس زمہ داری پر رہتے ہوئے انہوں نے ٹھٹھہ اور تھرپارکر میں دعوتی اور فلاحی کاموں کونظم کیا-
نعمت اللہ خان صاحب بلند فشار خون اور زیابیطس جیسی بیماریوں میں طویل عرصے سے مبتلا تھے لیکن انہوں نے اپنی بیماریوں اور بڑھاپے کو کبھی کام کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیا-
وہ سرتاپا جماعت اسلامی تھے
اقامت دین کے سچے اور مخلص کارکن
وہ مولانا مودودی کا چلتا پھرتا لٹریچر تھے
کراچی ان کا محسن تھا اور وہ کراچی کے محسن تھے
میرے لئے وہ کیا تھے؟
اس پر تو شائد ایک کتاب بھی کم پڑجائے
نعمت اللہ خان جیسے لوگ مرتے نہیں ہیں
وہ اپنے لاکھوں عقیدت مندوں کے دلوں اور ان کی یادوں میں زندہ رہتے ہیں!
ڈاکٹر فیاض عالم
 

فاخر رضا

محفلین
سچ مچ بہت افسوس ہوا
جماعت اسلامی ان کے دور میں خدمت کا استعارہ تھی. کھلے ذہن والے مذہبی یہیں ملتے تھے. قاضی صاحب تک. معاملہ زبردست تھا. پروفیسر غفور، نعمت اللہ وغیرہ بہترین لوگ تھے.
خدا رحمت کرے مرحوم پر اور مغفرت فرمائے
 

وجی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

ابوظہبی میں تھا جب ایک تقریب میں ان کو سنا لا إله إلا الله محمد رسول الله کا مطلب و مفہوم بیان کیا ۔
کہ دین اور سیاست کوئی الگ چیز نہیں بلکہ سیاست (اللہ کے حکم و قانون کو نافظ کرنا ) دین کا ہی ایک حصہ ہے ۔

اللہ انکی مغفرت و بخشش فرمائے آمین ثم آمین۔
 

فرقان احمد

محفلین
اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ بہت عزت سمیٹی۔ خلقِ خدا کے مسائل حل کرنے کی بساط بھر کوشش کی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
 
تحریر: شعیب ہاشمی، ترجمان الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان
٭
نعمت اللہ خان ۔ ۔ ۔ جھونپڑی سے تخت کراچی تک کا سفر ۔ ۔ ۔

محترم نعمت اللہ خان بھی داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

نعمت اللہ خان کا تعلق بھی عہد کے اُن عظیم لوگوں میں سے تھا جنہوں نے پاکستان کے لیے ہجرت کی، اپنا گھر بار قربان کیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بے سرو سامانی کے عالم میں کراچی آن بسے۔ نعمت اللہ خان کا جھونپڑی سے تخت کراچی تک کا سفر بھی سبق آموز داستان ہے۔ مجھے یاد ہے لاہور میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کتنے کٹھن حالات میں اُنہوں نے اجمیر شریف سے کراچی ہجرت کی اور کیسے کراچی کے کیمپ میں جھونپڑی بارش کے پانی سے بھر گئی اور بھوکے پیاسے رات جاگ کر بسر کی اور کتنے ہی دن ایسے ہی حالات رہے اور اُن مصائب میں کیسے اُن کی والدہ اُن کی ہمت بندھاتی اور یہ بتاتے ہوئے خود نعمت اللہ خان صاحب کی آنکھیں نم تھیں۔
نعمت اللہ خان نے قانون کی ڈگری لی اور کراچی میں ٹیکس کے چوٹی کے وکیل بنے۔ صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے تو اپوزیشن نے متفقہ طور پر اپوزیشن لیڈر کے لیے نامزد کیا۔ َ
نعمت اللہ خان 2001 سے 2005 تک کراچی کے میئر رہے اور کئی دہائیوں سے تاریکیوں میں ڈوبے شہر کو روشنیوں کی طرف لوٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کی کراچی اور اہل کراچی کے لیے محبت اور خدمات کے تو اُن کے نظریاتی مخالف بھی قائل اور گواہ ہیں۔
نعمت اللہ خان نے کراچی کا میئر بننے اور الخدمت فاؤنڈیشن کا صدر بننے کے پہلے سے تھرپارکر میں خدمات کا آغاز کیا اور 1998 میں پہلے بد ترین قحط کے دوران، جب وہاں نا سڑک تھی اور نا کوئی جیپ، اونٹوں پر دور دراز گوٹھوں تک پہنچے اور وہاں خواراک، صاف پانی، تعلیم اور روزگار فراہمی کے لیے کاوشیں کیں اور خدمت کی جو پنیری نعمت اللہ خان صاحب نے اُس وقت لگائی وہ آج بھی اعجاز اللہ خان، ڈاکٹر فیاض عالم اور ڈاکٹر تبسم جعمفری کی کاوشوں کی صورت میں پھل پھول رہی ہے۔
نعمت اللہ خان مئی 2005 میں مئیر شپ سے فارغ ہوئے اور 08 اکتوبر کو آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار کی حیثیت سے بے مثال خدمات سر انجام دیں۔ آپ الخدمت فاؤنڈیشن کے مرکزی صدر بھی رہے۔
الخدمت کی مرکزی صدارت کے دوران مجھے 2009 سے 2011 قریباََ 3 سال نعمت اللہ خان صاحب کے ہمراہ کام کرنے کا موقع ملا۔ اِس دوران 2009 میں مالاکنڈ میں بد امنی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے آئی ڈی پیز کے زخموں پر مرہم ہو یا 2010 میں آئے ملک گیر سیلاب میں لاکھوں افراد کے لئے خدمات۔ نعمت اللہ خان صاحب کی سربراہی میں الخدمت قوم کے لیے ایک مسیحا ثابت ہوئی۔
کراچی کے عوام کی خدمات اور الخدمت فاؤنڈیشن کے مرکزی صدر کی حیثیت سے نعمت اللہ خان کی خدمات کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی سراہا گیا اور نعمت اللہ خان بابائے کراچی اور بابائے خدمت کہلائے۔ تین سال پہلے الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبد الشکور نے نعمت اللہ خان کی انہی کاوشوں اور خدمات کے اعتراف میں "نعمت اللہ خان لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ" کا اجراء بھی کیا۔

مجھے بھی نعمت اللہ خان صاحب کے ہمراہ ڈیزاسٹرز اور مختلف پروگرامات کے سلسلے میں بیسووں سفر کرنے کا موقع ملا۔ ڈھیروں باتیں ہوتیں۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا. دوران سفر وہ مناظر بہت ہی خوبصورت ہوتے جب ائیر پورٹ، ہوٹلز، چوکوں چوراہوں پر ہر طبقہ سے لوگ آ آ کر نعمت اللہ خان کو کراچی اور انسانیت کی خدمت پر دعائیں دیتے، شکرگزار ہوتے۔ آنکھیں بھیگ جاتی تھیں ۔ ۔ ۔ ایک بہت ہی پیارا شخص چلا گیا۔ آج بھی آنکھیں بھیگی ہیں۔

آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
 
Top