زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
ابھی معلوم ہوا ہے کہ افغانستان کی صحافتی فارسی زبان میں میں 'ٹاس' کو 'قرعہ' جبکہ 'بلے بازی' کو 'توپ زنی' کہا جاتا ہے۔

"افغانستان قُرْعَه را بُرد و برای توپ‌زنی واردِ میدان شد."
ترجمہ: "افغانستان قرعہ جیت کر بلے بازی کے لیے میدان میں داخل ہو گیا۔"

جب افغان 'قرعہ' استعمال کر سکتے ہیں، تو ہم بھی آسانی سے اپنی زبان میں انگریزی لفظ 'ٹاس' کی بجائے 'قرعہ' استعمال کر سکتے ہیں۔

پس نوشت: فارسی میں گیند کو 'توپ' کہتے ہیں۔:)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایک چھوٹا سا سوال حضور سے کرنا چاہتا ہوں۔ غالباً جامیؔ کی ایک رباعی ہے جو کچھ یوں سنی گئی ہے:
شیخے بہ زنے فاحشہ گفتا مستی
کز خیر گسستی و بہ شر پیوستی
زن گفت چنانکہ می نمایم ہستم
تو نیز چنانکہ می نمائی ہستی؟
اس رباعی کے مصرعِ اولیٰ کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا ہے؟ نیز "گفتا" کیا بلا ہے؟ کیا اس میں الف زائد ہے؟ اگر ہاں تو اس کا مقصد وزن پورا کرنے کے علاوہ بھی کوئی ہے؟ گرامر میں اس کا جواز کیا ہے؟ اگر یوں نہیں ہے تو بھی واضح فرمائیے۔
یہ رباعی عبدالرحمٰن جامی کی نہیں ہے، بلکہ اسے عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
مصرعِ اول کا لفظ بہ لفظ ترجمہ یہ ہے: کسی شیخ نے کسی فاحشہ عورت سے کہا 'تم مست ہو'
جی، گفتا میں الف زائد ہے اور یہ یہاں صرف وزن کی برقراری کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس الف کا یہاں کوئی معنائی افادہ نہیں ہے۔
الف زايد: الفى است كه در فعل "گفتن" به صيغه سوم شخص مفرد ماضى، الحاق شود و بيشتر در وقتى كه اين صيغه در مورد پاسخ و برابر پرسش ادا شود، "الف" الحاق گردد:
گفتم که خطا کردی و تدبیر نه این بود
گفتا چه توان كرد كه تقدير چنين بود
ماخذ
ترجمہ: الفِ زائد وہ الف ہے جو فعلِ 'گفتن' کے صیغۂ شخصِ سومِ مفردِ ماضی سے ملحق کیا جاتا ہے اور زیادہ تر اس 'الف' کا الحاق اُس وقت ہوتا ہے جب یہ صیغہ جواب کے طور پر اور سوال کے مقابل ادا ہوتا ہے۔
گفتم که خطا کردی و تدبیر نه این بود
گفتا چه توان کرد که تقدیر چنین بود
ایک اور شعر دیکھیے:
گفتم که عدم گشت وجودم ز غمِ تو
گفتا که کِرا غم ز وجود و عدمِ تو
(عبدالقادر خواجه سودا بخارایی)
میں نے کہا کہ تمہارے غم کے باعث میرا وجود عدم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اُس نے (بے رخی سے) کہا کہ تمہارے وجود و عدم کا کس کو غم ہے؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ رباعی عبدالرحمٰن جامی کی نہیں ہے، بلکہ اسے عمر خیام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
مصرعِ اول کا لفظ بہ لفظ ترجمہ یہ ہے: کسی شیخ نے کسی فاحشہ عورت سے کہا 'تم مست ہو'
جی، گفتا میں الف زائد ہے اور یہ یہاں صرف وزن کی برقراری کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس الف کا یہاں کوئی معنائی افادہ نہیں ہے۔

ایک اور شعر دیکھیے:
گفتم که عدم گشت وجودم ز غمِ تو
گفتا که کِرا غم ز وجود و عدمِ تو
(عبدالقادر خواجه سودا بخارایی)
میں نے کہا کہ تمہارے غم کے باعث میرا وجود عدم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اُس نے (بے رخی سے) کہا کہ تمہارے وجود و عدم کا کس کو غم ہے؟
اور امیر خسرو کا وہ شاہکار کہ :

گفتم کہ روشن از قمر ،گفتا کہ رخسارِ منست
گفتم کہ شیرین از شکر ،گفتا کہ گفتارِ منست
۔۔۔الخ۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
فِرقه
فارسی زبان میں یہ لفظ 'سیاسی جماعت' کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ایران میں فعال اور سرگرم رہنے والی ایک تُرک قوم پرست اور اشتراکی جماعت کا نام 'فرقۂ دموکراتِ آذربائجان' تھا۔
اب معیاری فارسی میں سیاسی جماعت کے لیے 'حِزب' کی اصطلاح رائج ہے۔
برائے مثال: پاکستان پیپلز پارٹی = حزبِ مردمِ پاکستان
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ماضیِ مطلق

غائب:
واحد:
اُس نے بھیجا - فِرِستاد
جمع: اُنہوں نے بھیجا - فرستادند
حاضر:
واحد:
تم نے بھیجا - فرستادی
جمع: آپ نے بھیجا - فرستادید
متکلم:
واحد:
میں نے بھیجا - فرستادم
جمع: ہم نے بھیجا - فرستادیم

ماضیِ مطلق: وہ فعل جس سے صرف گذرا ہوا زمانہ سمجھا جائے۔ اُس میں پاس اور دُور کی کوئی قید نہ ہو مثلاً فرستاد (اس نے بھیجا) یعنی یہ معلوم نہیں کہ کب بھیجا۔
قائدہ: اُردو میں مصدر سے ماضیِ مطلق بنانے کا عام طریقہ یہ ہے کہ مصدر کا 'ن' گرا دیتے ہیں۔ مثلاً دیکھنا کا ماضی دیکھا۔ بھیجنا کا ماضی بھیجا۔ فارسی میں ہر مصدر کا ماضی مصدر کے 'ن' کو گرا دینے سے بن جاتا ہے۔ مثلاً دیدن کا ماضی دید، فرستادن کا ماضی فرستاد۔ لہٰذا فرستاد، ماضیِ مطلق کا صیغۂ واحد غائب بن گیا۔ باقی پانچ صیغوں میں ضمیر کی علامتیں ند - ی - ید - م - یم بڑھانے سے بن جائیں گے جیسا کہ اوپر کی مثالوں میں پہلے صیغے کے بعد یہ علامتیں بڑھائی گئی ہیں۔

ماخذ: فارسی اردو بول چال، مخدوم صابری
 

حسان خان

لائبریرین
بال‌گَرد/چَرخ‌بال
ہیلی کاپٹر کے لیے فارسی زبان میں 'بال گرد' اور 'چرخ بال' کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔
ان دونوں اصطلاحوں کے تینوں فارسی گو ممالک کی مطبوعات میں استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں، لیکن ایران میں 'بال گرد' جبکہ افغانستان اور تاجکستان میں 'چرخ بال' زیادہ رائج ہے۔
فارسی زبان میں 'بال' پرندے کے پر کو کہتے ہیں، لہٰذا 'بال گرد' کا لفظی مفہوم'بال و پر کی گردش کرنے والا' بنتا ہے۔

چند مثالیں دیکھیے:
ایرانی مثال:
گروه طالبان مدعی شد، بر اثر سقوط یک بالگرد نظامی امریکا در شهرستان «مارجه» استان هلمند واقع در جنوب افغانستان، بیش از ۱۰ تن از نظامیان این کشور کشته شدند.
ترجمہ: گروہِ طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی افغانستان میں واقع ہلمند صوبے کے ضلع 'مارجہ' میں ایک امریکی بال گرد کے گرنے کے نتیجے میں دس سے زائد امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔
در پی این سانحهٔ هوایی، سه نفر از سرنشینان این چرخ‌بال به شهادت رسیدند.
ترجمہ: اِس ہوائی سانحے کے نتیجے میں اِس بال گرد کے تین مسافر شہید ہو گئے۔
افغان مثال:
عبدالغیور احدزاده، سفیر افغانستان در مسکو گفته است که افغانستان سخت به چرخ‌بال‌های جنگی نیاز دارد و برای خریداری سه چرخ‌بال جنگی از روسیه، گفتگوها ادامه دارد.
ترجمہ: ماسکو میں افغانستان کے سفیر عبدالغیور احدزادہ نے کہا ہے کہ افغانستان کو جنگی بال گردوں کی سخت ضرورت ہے اور روس سے تین جنگی بال گردوں کی خریداری کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
تاجک مثال:
آذربایجان می‌گوید، یک چرخ‌بال نیروهای نظامی قراباغ را سقوط داده‌است.
ترجمہ: آذربائجان کا کہنا ہے کہ اُس نے قراباغ کی عسکری قوتوں کے ایک بال گرد کو مار گرایا ہے۔
وزارت دفاع تاجیکستان خبر می‌دهد که بال‌گرد سقوط‌کرده در زابل افغانستان متعلق به این وزارت بوده‌است.
ترجمہ: تاجکستان کی وزارتِ دفاع نے خبر دی ہے کہ افغانستان کے شہر زابل میں سقوط کرنے والا بال گرد اِس وزارت سے تعلق رکھتا تھا۔

فارسی اخبارات کامیابی سے اور کسی مسئلے کے بغیر 'ہیلی کاپٹر' کی بجائے فارسی اصطلاح کا استعمال کر رہے ہیں، لیکن اگر ہم بھی انگریزی لفظ کی جگہ پر اپنے لسانی سرمائے کی مدد سے وضع کردہ کسی اصطلاح کے استعمال کی کوشش یا مطالبہ کریں تو فوراً معترضوں کی صدائے شور و شغب بلند ہو جائے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میں شخصاً فارسی کو اردو پر اب اس لیے ترجیح دیتا ہوں کیونکہ فارسی زبان اُن دو، اور میری نظر میں قے آور اور ثقافتی لحاظ سے بیگانہ، چیزوں سے پاک ہے جن سے غالب و اقبال وغیرہم کی عجمی روح کی حامل زبانِ اردوئے معلّیٰ بھی پاک تھی لیکن جنہوں نے موجودہ دور میں میری اردو زبان پر یورش کر کے اِسے نہایت بدنما و بدریخت بنا دیا ہے۔ اور وہ دو چیزیں ہیں: فرنگیت اور بھارتیت۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے اب عصرِ حاضر کی 'اردو' کتابیں، مطبوعات اور اخبارات پڑھنا عموماً ترک کر دیے ہیں، کیونکہ جس زبان سے میں ثقافتی و احساساتی وابستگی محسوس نہ کر سکوں، اور جس کی پست شکل کو دیکھ کر ہی قے آتی ہو، اُسے پڑھ پانے اور محظوظ ہونے سے میں قاصر ہوں۔ میرے لیے زبانِ اردو وہی ہے جو ۱۹۷۰ء کے عشرے تک کتابوں میں نظر آیا کرتی تھی، اور اُسی زمانۂ گذشتہ کی اردو زبان کو میں 'اپنی' زبان مانتا ہوں۔ فی زمانہ جو 'اردو' کے نام سے رطب و یابس منتشر ہو رہا ہے، اُسے میں 'اپنی' زبان نہیں مانتا اور نہ اُس سے کوئی وابستگی محسوس کرتا ہوں۔
میں اردو کے عالی ترین شاعروں اور ادیبوں کی طرح فارسیت کا عاشقِ والہ ہوں۔ جب مجھے معاصر اردو تحریروں میں فارسیت کی بجائے فرنگیت نظر آ رہی ہو تو میرے پاس اس کے بجز کوئی چارہ نہیں بچتا کہ میں کاملاً فارسی کی جانب رخ موڑ لوں کہ پھر فارسی ہی میرے شخصی مزاج اور ثقافتی نقطۂ نظر سے نزدیک رہ جاتی ہے۔
اردو سے زیادہ تو اب مجھے انگریزی زبان میں پڑھنے میں مزہ آتا ہے، کیونکہ انگریزی کتابوں میں تا حال انگریزی زبان اپنی کامل تمدنی و ثقافتی شان و شوکت اور زیبائی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے اور یہ چیز مجھے بہت لطف دیتی ہے، جبکہ دوسری جانب اردو مطبوعات میں ایک ایسی پُرآلائش، فرومایہ اور عامیانہ زبان نظروں سے ٹکراتی ہے جسے کم از کم میں تو قطعاً کتابوں کے درخور اور عالی ثقافت کا ذریعہ نہیں مان سکتا۔
یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کے باعث میں معاصر اردو سے احساساتی طور پر منقطع ہو کر فارسی زبان کو لسانی و ثقافتی لحاظ سے حبل المتین اور عروۃ الوثقیٰ مانتے ہوئے اِس کے دامن میں اپنے تمام احساسات اور آرزوؤں کے ساتھ پناہ گزیں ہو گیا ہوں۔ لیکن میری کہنہ زبانِ اردوئے معلّیٰ سے محبت بدستور جاری ہے، اور میں فارسی کی مدد سے اپنی مادری زبان کو دوبارہ اورنگِ علو پر متمکن اور بلند مقام پر نائل دیکھنا چاہتا ہوں، لہٰذا بقدرِ توانائی، اور خواہ منفعت ہو یا نہ ہو، فارسی زبان کی ترویج کی معیت میں اپنی اردو زبان کی تطہیر کرنے کی بھی انفرادی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
فارسی زندہ باد! فارسی کی ثقافتی دختر اردوئے معلّیٰ زندہ باد!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اردو زبان تو ہمیشہ سے بھارتی ہے
اردو کے عالی ترین شاعر مرزا غالب کے اردو دیوان کی اولین غزل ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدّعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا
غالب کی اس غزل میں کوئی بھارتی ثقافتی عنصر کہاں ہے؟

البتہ مندرجۂ ذیل چند مصرعے ضرور بھارتیت سے آلودہ ہیں:
"من بالک ہے، پہلے پیار کا سُندر سپنا بھول گیا"
"بالک، یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے"
"ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا"

بھارتیت اور فارسیت/ایرانیت سے میری مراد یہی تھی۔
اردو زبان و ادب کا عہدِ طلائی 'بھارتیت' سے پاک ہے اور زبانِ اردو ثقافتی و ادبی لحاظ سے اُسی طرح 'عجمی' اور 'فارسی پرست' تھی جس طرح کلاسیکی تُرکی تھی۔ مثال کے طور پر فضولی کی یہ ترکی غزل دیکھیے۔
بہ ہر حال، یہ تو میرے شخصی ذوق کی بات ہے کہ میں لسانی و ثقافتی لحاظ سے فارسیت کا عاشق ہوں جبکہ اردو میں فرنگیت اور بھارتیت سے مجھے قے آتی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو یا کسی شخصِ دیگر کو یہی چیزیں پسند ہوں جو مجھے ناپسند ہیں، یا ہو سکتا ہے کوئی فرد میرے برعکس فارسیت سے کراہت رکھتا ہو۔ اس میں بحث و جدل کی کیا بات ہے؟
 
آخری تدوین:
اردو کے عالی ترین شاعر مرزا غالب کے اردو دیوان کی اولین غزل ہے:
؎

اردو زبان و ادب کا عہدِ طلائی 'بھارتیت' سے پاک ہے اور زبانِ اردو ثقافتی و ادبی لحاظ سے اُسی طرح 'عجمی' اور 'فارسی پرست' تھی جس طرح کلاسیکی تُرکی تھی۔ مثال کے طور پر فضولی کی یہ ترکی غزل دیکھیے۔
؟
فضولی کے اس مندرجہ بالا ترکی غزل کو پڑھتے ہوئے ابتداء میں تو یہ فارسی غزل لگی۔ یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی پر فارسی کس قدر غالب تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
فضولی کے اس مندرجہ بالا ترکی غزل کو پڑھتے ہوئے ابتداء میں تو یہ فارسی غزل لگی۔ یہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی پر فارسی کس قدر غالب تھی۔
کلاسیکی ترکی، کلاسیکی اردو سے بھی زیادہ فارسی سے زیادہ متاثر تھی۔ کلاسیکی ترکی ادب فارسی ادب ہی کی ترکی شکل ہے، یعنی زبان و ادبیاتِ فارسی کے دانندہ قاریوں کو کلاسیکی ترکی ادب پڑھتے وقت قطعاً محسوس نہیں ہوتا کہ وہ فارسی زبان و ادب و تمدن کے دائرے سے باہر کی کوئی شے پڑھ رہے ہیں۔ بعض اوقات تو ترکی اور فارسی کے درمیان فرق بھی دھندلانے لگتا ہے۔ مثلاً فضولی کی اُسی ترکی غزل کا شعر: 'من غریبِ ملک و راهِ وصل پُرتشویش و مکر / من حریفِ ساده‌لوح و دهر پُرنقش و فسون' بیک وقت فارسی اور ترکی دونوں زبانوں کا شعر ہے۔ اسی چیز نے میری توجہ کلاسیکی ترکی کی جانب جلب کی تھی۔

سہ لسانی آذربائجانی/عثمانی شاعر محمد فضولی بغدادی کا ایک اور ترکی شعر آپ کی خدمت میں پیش ہے:
بیابان‌گرد مجنون‌دان غم و دردیم سؤال ائتمه
نه بیلسین بحر حالین اول که منزل‌گاهی ساحل‌دیر؟

ترجمہ:بیابان گرد مجنوں سے میرا غم و درد مت پوچھو۔۔۔ وہ شخص بحر کا حال کیا جانے جس کی منزل گاہ ساحل ہے؟
اس شعر میں حافظ شیرازی کے اِس مصرعے کا اثر دیکھا جا سکتا ہے:
کجا دانند حالِ ما سبک‌بارانِ ساحل‌ها

آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ محمد فضولی بغدادی مشرقِ وسطیٰ اور مسلم دنیا کی تین برترین اور متمدن زبانوں ترکی، فارسی اور عربی کے مسلّم الثبوت ادیب اور اِن تینوں زبانوں کے صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ترکی زبان کا تو اُنہیں عالی ترین شاعر مانا ہی جاتا ہے، لیکن فارسی اور عربی میں بھی ادب داں محققین اُن کی استادی کے معترف ہیں۔ میں لسانی و ادبی و ثقافتی لحاظ سے اُنہیں اپنا مقتدا اور الگو مانتا ہوں اور اسی لیے، اور اُن کو خراجِ تحسین پیش کرنے لیے، میں نے اُن کی خیالی تصویر کو اپنی نمائندہ تصویر بنایا ہوا ہے۔ میں بھی اُن کی طرح اِن تین زبانوں میں مہارتِ تام حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
× اُلگُو = role model
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی کے ان الفاظ میں کیا فرق ہے؟
فرود آمدن
فراز آمدن
فرو آمدن
فرا آمدن
'فرودآمدن' اور 'فروآمدن' دونوں کا بنیادی مفہوم 'نیچے آنا' ہے۔
'فراآمدن' اور 'فرازآمدن' بھی تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معانی 'نزدیک آنا، سامنے آنا، پہنچنا یا اوپر آنا وغیرہ' ہیں۔
 
آخری تدوین:
برادرم حسان خان کتاب "محوَ مرکب" کے اس متن کا ترجمہ چاہیے گو کہ کچھ حد تک سمجھ آگئی ہے بایں ہمہ مکمل سمجھنے کے لئے ترجمے کی گزارش ہے:
چنانکہ مصطلح است از عالمِ فنا بعالمِ بقا شتافت ہر چند تا آنجائے کہ بر دوستان و محارمش آشکار بود چندان اشتیاقے ہم باین مسافرت و تغییر ماءوا نداشت۔در حقش گفتند کہ بندائے مستطاب ارجعی الی ربک لبیک اجابت گفت اما تا جائے کہ بر اطرافیانش مشہود بود اساسا اجل مہلت نداد کہ حتی کلمہء لبیک را بر زبان جاری سازد
 

حسان خان

لائبریرین
برادرم حسان خان کتاب "محوَ مرکب" کے اس متن کا ترجمہ چاہیے گو کہ کچھ حد تک سمجھ آگئی ہے بایں ہمہ مکمل سمجھنے کے لئے ترجمے کی گزارش ہے:
چنانکہ مصطلح است از عالمِ فنا بعالمِ بقا شتافت ہر چند تا آنجائے کہ بر دوستان و محارمش آشکار بود چندان اشتیاقے ہم باین مسافرت و تغییر ماءوا نداشت۔در حقش گفتند کہ بندائے مستطاب ارجعی الی ربک لبیک اجابت گفت اما تا جائے کہ بر اطرافیانش مشہود بود اساسا اجل مہلت نداد کہ حتی کلمہء لبیک را بر زبان جاری سازد
اِس طنزیہ داستان کا نام 'مرکّبِ محو' ہے اور یہاں مرکّب 'قلم کی سیاہی' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

"چنانکه مصطلح است از عالمِ فنا به عالمِ بقا شتافت هرچند تا آنجایی که بر دوستان و محارمش آشکار بود چندان اشتیاقی هم به این مسافرت و تغییرِ مأوا نداشت. در حقش گفتند که به ندای مستطابِ ارجعی الی ربک لبیکِ اجابت گفت اما تا جایی که بر اطرافیانش مشهود بود اساساً اجل مهلت نداد که حتی کلمهٔ لبیک را بر زبان جاری سازد."
"جیسا کہ زباں زد ہے وہ عالمِ فنا سے عالمِ بقا کی جانب روانہ ہو گیا اگرچہ جہاں تک اُس کے دوستوں اور محرموں پر آشکار تھا وہ اِس مسافرت اور نقلِ مکان کا اتنا زیادہ اشتیاق بھی نہ رکھتا تھا۔ اُس کے بارے میں کہا گیا کہ اُس نے 'ارجعی الی ربک' کی ندائے مستطاب کو لبیکِ اجابت کہہ دیا لیکن جہاں تک اُس کے اطراف میں موجود لوگوں پر مشہود تھا اساساً اجل نے مہلت ہی نہ دی تھی کہ وہ حتیٰ کلمۂ لبیک کو زبان پر جاری کر سکے۔"
× اِرْ‌جِعِي إِلَىٰ رَ‌بِّكِ = اپنے رب کی جانب لوٹ جاؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں ماضیِ مطلق کا صیغۂ واحد غائب بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مصدر کا نون گرا دیتے ہیں اور کسی حرف کا اضافہ نہیں کرتے مثلاً دیدن سے دید۔ لیکن فارسی ادب کے قدیم خراسانی عہد میں فعلِ ماضی کا یہ صیغہ آخر میں فاعلی 'شین' کے اضافے کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ 'شین' زائد ہے کیونکہ اس کے اضافے سے معنی میں کوئی افزائش نہیں ہوتی۔ فردوسی نے شاہنامے میں اِس شینِ فاعلی یا شینِ زائد کا مکرر استعمال کیا ہے۔ ایک مثال دیکھیے:
درآمد به زین چو کُهِ بیستون
گرفتش یکی نیزهٔ چون ستون
ترجمہ: وہ (یعنی سہراب) زِین پر کوہِ بیستون کی طرح ظاہر ہوا اور اُس نے ایک ستون جیسا نیزہ ہاتھ میں لیا۔
یہاں گرفتش کا شین فاعلی اور زائد ہے۔

عموماً افعال کے آخر میں 'شین' مفعولی ضمیر ہی کے طور پر استعمال ہوتا ہے:
دیدمش = میں نے اُسے دیکھا
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
حسان خان ۔ یہی شین متصل مفعولی حالت میں بھی استعمال ہوتا نظر آتا ہے ۔ ڈاکٹر اقبال نے اور شایداوروں نے بھی بکثرت کیا ہو گا۔
ڈاکٹر صاحب ( اگر مجھے صحیح یاد ہو تو مولانا سے مخطب ہوتے ہوئے استفسار کیا ہے)۔
"گفتمش موجود و نا موجود چیست "۔ بمعنی میں نے اس سے پوچھا ۔
اسی طرح اضافت میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را۔
مجھے کوئی بیس سال قبل کی بات یاد آتی ہے کہ میرے انجینئرنگ کے ایرانی دوست گفتکو میں بش گفتم کہا کرتے تھے۔
شاید یہ جدید لہجہ ہوگا۔اور وہ قدیم یا شاعرانہ
 

حسان خان

لائبریرین
حسان خان ۔ یہی شین متصل مفعولی حالت میں بھی استعمال ہوتا نظر آتا ہے ۔ ڈاکٹر اقبال نے اور شایداوروں نے بھی بکثرت کیا ہو گا۔
ڈاکٹر صاحب ( اگر مجھے صحیح یاد ہو تو مولانا سے مخطب ہوتے ہوئے استفسار کیا ہے)۔
"گفتمش موجود و نا موجود چیست "۔ بمعنی میں نے اس سے پوچھا ۔
جی، میں نے اوپر لکھا ہے کہ افعال کے آخر میں شین عموماً مفعولی حالت ہی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا قدیم فارسی ادب میں فاعلی حالت میں استعمال ہونا استثناء ہے۔
ایرانی گفتاری فارسی میں متصل مفعولی ضمائر کا استعمال بہت عام ہے۔
نمی‌خوام ببینمش = میں اُسے دیکھنا نہیں چاہتا
وقتی نمی‌دیدمش می‌گفتم: خدایا فقط یه لحظه ببینمش = جب میں اُسے دیکھا نہیں کرتا تھا، میں کہتا تھا: خدایا! صرف ایک لحظہ اُسے دیکھ لوں۔۔۔

مجھے کوئی بیس سال قبل کی بات یاد آتی ہے کہ میرے انجینئرنگ کے ایرانی دوست گفتکو میں بش گفتم کہا کرتے تھے۔
شاید یہ جدید لہجہ ہوگا۔اور وہ قدیم یا شاعرانہ
جی، جیسا کہ آپ نے بتایا، ایرانی گفتاری فارسی میں حرفِ جر 'بہ' کے ساتھ بھی مفعولی ضمائر متصل کیے جاتے ہیں۔ علاوہ بریں، ادبی فارسی اور گفتاری فارسی میں 'از' کے ساتھ بھی مفعولی ضمائر متصل کیے جا سکتے ہیں:
ازش پرسیدم = میں نے اُس سے پوچھا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ترسا
فارسی ادب میں مسیحی کے لیے 'ترسا' کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ در اصل عربی کے لفظ 'راہب' کا لفظی ترجمہ ہے کیونکہ لفظِ راہب 'ر ہ ب' جذر سے مشتق رہبۃ (=خوف) کا اسمِ فاعل ہے اور اس کا لفظی مطلب بھی 'ترسندہ' یا 'خائف' ہے۔ راہب کو خداترسی کی وجہ سے راہب کہا گیا ہے۔
لفظی طور پر تو ترسا 'راہب' کا ہم معنی ہے، لیکن اس کا اطلاق تمام مسیحیوں پر ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top