راحت اندوری روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے - راحت اندوری

کاشفی

محفلین
غزل
(راحت اندوری)
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے

اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

اُس کی یاد آئی، سانسوں ذرا آہستہ چلو
دھڑکوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
 
آخری تدوین:
غزل
(راحت اندوری)
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے

ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے

اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

اُس کی یاد آئی، سانسوں ذرا آہستہ چلو
دھڑکوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
 
احباب: السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
فیس بک پر دیکھ کر اس غزل کی تلاش کی تو اس فورم پر آ پہنچا جسے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی غزل پر ایک شعر موزوں ہو گیا ہے جو آپ سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ ممبرشپ لی اور بڑی مشکل سے تبصرے والے مقام تک پہنچ پایا ہوں۔ بہر طور شعر درج ذیل ہے:
ضبط کی تو حد کر دی ہم نے لیکن
جانے کب اشک آنکھوں سے نکل پڑتا ہے
شکریہ
محمد اختر ملک
 
Top