عبداللہ محمد
محفلین
اوہ ہاں ایک بات جو مجھے بہت اچھی اور دلچسپ لگی وہ دونوں میاں بیوی کی آپس میں اُلفت تھی- خصوصاً بابا جی کا رویہ کہ عموماً ہمارے ہاں اس عمر کے جوڑوں میں ایسا رویہ کم ہی دیکھنے کو ملتا- بابا جی انتہائی تحمل و سکون سے انکو سہارا دیا- انتہائی نرم لہجہ میں دریافت کرتے اب کیسا محسوس کر رہی ہو- "پیڑ بوہتی تے نہیں" وغیرہ وغیعہ
آج میں ڈیرے سے واپس آ رہا تھا کہ دو بچوں (10-11سالہ) نے ہاتھ کا اشارہ کیا- میں رُکا تو کہنے لگے بھائی فلاں مٹھائی والی دکان پر اتار دینا- میں نے کہا بیٹھ جاؤ- وہ بیٹھے ہی رہے تھے کہ پیچھے بیٹھے ایک مائی اور بابا (50 کی دہائی میں) نظر آئے- اماں جی کو پیٹ میں درد تھا- جسکی وجہ سے دوہری ہو رہی تھیں- میں نے پوچھا چاچا جی کیا ہوا کہنے لگے اسکا بی پی لو ہو گیا ہے فلاں جگہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے- رکشے کا انتظار کر رہے- اماں جی کی حالت دیکھ کر میں نے بچوں کو اتارا کہ کسی اور کے ساتھ چلے جانا- اور بابا جی سے کہا جلدی آؤ بیٹھو، رکشہ جانے کب آئے میں چھوڑ دیتا ہوں-
اماں مشکل سے موٹرسائیکل پر بیٹھیں، باباجی پیچھء انکو پکڑ کر بیٹھ گئے- میں نے کہا وہاں کیوں جانا (چونکہ وہ کمپوڈر نما ڈاکٹر تھا)- بابا جی کہنے لگے پرسوں بھی بی پی لو ہو گیا تھا تو اس نے بوتل لگائی تو ٹھیک ہوگیا- میں نے کہا چاچا سرکاری پستال چلتے ہیں وہاں سے مفت اور اچھا علاج ہو گا- انشاءاللہ امں ٹھیک ہو جائیں گی آپ فکر نہ کریں- کہنے لگے نہیں پہلے بھی اسی سے لیتے ہیں تم وہیں لے چلو- میں نے کہا چلو مرضی ہے- لیکن جب سرکاری ہسپتال کے سامنے سے گزرے تو ایک دفعہ پھر کہا کہ چاچا چلتے ہیں- چاچے نے کہا "چنگا پُتر توں کہنا اے چلنے آں"-
میرا ایک دوست ادھر جاب کرتا تو میں نے اس سے پوچھ ایمرجنسی میں کوئی ہے تو اسنے بتایا کہ لیڈی ڈاکٹر بیٹھی ہیں ادھر لے جاؤ- اماں جی سے چلنا تو کیا کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا- چاچے نے انکو سہارا دیے رکھا اور آہستہ آہستہ ڈاکٹر کے پاس لے گیا انہوں نے تفصیل سے سارا مسئلہ پوچھا-پُرانی دوائیاں بھی دیکھیں اور پھر نرس سے بلڈپریشر اور بخار چیک کرنے کو- اس نے دیکھا تو بلڈ پریشر تیز تھا، لو ہونے کی بجائے- انہوں نے فوراً گولی دی اور انجکیشن لگوائے اور کہا بستر پر لیٹ جاؤ وارڈ میں آدھے گھنٹے بعد پھر دکھانا- نرس دوائی دینے لگی تو میں نے چاچے سے اجازت چاہی- و ہ کہنے لگا ٹھیک اے پُتر جا- میں نکلنے ہی لگا تھا کہ بارش برسنے لگی- میں رُک گیا کہ کچھ آہستہ ہو توجاتا ہوں- جب تک بارش تھمی تو انجکیشن اپنا اثر دکھا رہے تھے بالآخر اماں بغیر سہارے کے بیڈ پر بیٹھ گئی اور اُٹھ کر ڈاکٹر کے پاس گئی دوبارہ معائنہ کروایا- ڈاکٹر صاحبہ نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے- میں ابھی تک ادھر ہی تھا تو سوچا چلو ٹیسٹ بھی کروا دیتا ہوں لیکن شام کا وقت تھا تو لیب بندہو چُکی تھی- میں نے کہا چلو پرسوں آ جانا میں کروا دوں گا میرا نمبر لے لیں-
اماں اور بابے کے چہرے پر اطمینان تھا ایک تو درد سے نجات کا- اور دوسرا شاید پیسے بچ جانے گا- میں نے کہا اماں آپ اطمینان سے ایدھر آ جایا کریں جب بھی کوئی مسئلہ ہو ہر وقت یہاں ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے- اور دوائی مفت ہوتی ہے- انہوں نے ٹھیک اے پُتر سانوں تے آرام نال غرض اے ہن ایتھے اے آواں کراں گے-
واضح رہے کہ میں ایک قصبہ میں رہتا ہوں -پہلے یہاں صرف کوے بولا کرتے تھے تاہم پچھلے 10 سالوں میں یہاں واضح فرق آیا ہے- اب ہمہ وقت ڈاکٹر موجود ہوتا ادویات بھی زیادہ تر وہاں دستیاب ہوتی ہیں- البتہ ایمرجنسی صرف 5 ہی بیڈ کی ہے اور جنرل وارڈ 10 بیڈ کی -تاہم مناسب اور بہتر سہولیات ملتی ہیں- ایک ایمبولینس بھی موجود ہے جو زیادہ سیرئس کیسز کو فوراً ڈی ایچ کیو پہنچا دینی-میرے ذاتی خیال میں یہ فرق پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں آیا ہے- پہلے میری بھی یہی ترجیح ہوتی تھی کہ سرکاری نہ جایا جائے تاہم اب میری یہی کوشش ہوتی کہ سرکاری ہسپتال جایا جائے اور آپ سے بھی التماس ہے فرق خود ملاحظہ کریں- شکریہ
یہ مراسلہ غیر سیاسی ہے-