رقص کیا کبھی شور مچایا پہلی پہلی بارش میں: خالد معین

محمد امین

لائبریرین
آج کراچی میں شاید سال نو کی پہلی بارش ہوئی، اسلیے مناسب سمجھا کہ خالد معین کی وہ غزل جو ہر بارش میں مجھے یاد آجاتی ہے وہ آپ لوگوں کی نذر کروں۔


رقص کیا کبھی شور مچایا پہلی پہلی بارش میں،
میں تھا میرا پاگل پن تھا پہلی پہلی بارش میں،

ایک اکیلا میں ہی گھر میں خوفزدہ سا بیٹھا تھا،
ورنہ شہر تو بھیگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں،

آنے والے سبز دنوں کی سب شادابی اس سے ہے،
آنکھوں نے جو منظر دیکھا پہلی پہلی بارش میں،

شام پڑے سوجانے والا دیپ بجھا کر یادوں کے،
رات گئے تک جاگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں،

جانے کیا کیا خواب بنے تھے پہلے ساون میں، میں نے،
جانے اس پر کیا کیا لکھا پہلی پہلی بارش میں۔


خالد معین
 

مغزل

محفلین
آج کراچی میں شاید سال نو کی پہلی بارش ہوئی، اسلیے مناسب سمجھا کہ خالد معین کی وہ غزل جو ہر بارش میں مجھے یاد آجاتی ہے وہ آپ لوگوں کی نذر کروں۔


رقص کیا کبھی شور مچایا پہلی پہلی بارش میں،
میں تھا میرا پاگل پن تھا پہلی پہلی بارش میں،

ایک اکیلا میں ہی گھر میں خوفزدہ سا بیٹھا تھا،
ورنہ شہر تو بھیگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں،

آنے والے سبز دنوں کی سب شادابی اس سے ہے،
آنکھوں نے جو منظر دیکھا پہلی پہلی بارش میں،

شام پڑے سوجانے والا دیپ بجھا کر یادوں کے،
رات گئے تک جاگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں،

جانے کیا کیا خواب بنے تھے پہلے ساون میں، میں نے،
جانے اس پر کیا کیا لکھا پہلی پہلی بارش میں۔


خالد معین

بہت بہت شکریہ امین ۔سدا سلامت رہو ۔
دو دن قبل ( منگل کو) آرٹس کونسل ‌میں خالد معین سے ایک نشست میں ملاقات ہوئی میں نے بھی یہی غزل فرمائش کی تھی۔
فاتح الدین بشیر صاحب کو بھی دعوت دی تھی مگر علالت کی وجہ کر نہیں آئے ۔ بہر حال یہ کلام یہاں‌پیش کرنے پر مبارکباد۔
والسلام
 

محمد امین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ امین ۔سدا سلامت رہو ۔
دو دن قبل ( منگل کو) آرٹس کونسل ‌میں خالد معین سے ایک نشست میں ملاقات ہوئی میں نے بھی یہی غزل فرمائش کی تھی۔
فاتح الدین بشیر صاحب کو بھی دعوت دی تھی مگر علالت کی وجہ کر نہیں آئے ۔ بہر حال یہ کلام یہاں‌پیش کرنے پر مبارکباد۔
والسلام

شکریے کا شکریہ بھائیوں :laughing:

شام پڑے سوجانے والا دیپ بجھا کر یادوں کے،
رات گئے تک جاگ رہا تھا پہلی پہلی بارش میں۔۔۔

اس شعر میں مجھے دو اعتراضات ہیں اپنی تمام تر ناقص العقلی کے باوجود، در اصل مقصد حصولِ علم ہے۔۔:

1- شام پڑے کی بجائے شام ڈھلے مستعمل ہے، شام پڑے میں نے اس غزل کے علاوہ نہ پڑھا نہ سنا۔
2- جب یادوں کے دیپ بجھا دیے تو وہ جاگ کیوں رہا تھا؟ دیپ جلا کر یادوں کے کہا جاتا تو شاید معنوی حسن بھی آجاتا۔کیوں کہ یہ جاگنا تو پھر بے مقصد ہوا نا؟

یہ اعتراضات خدانخواستہ محترم شاعر کے علم و ہنر پر اعتراضات نہیں، فقط اپنی ناقص العقلی دور کرنے کو کیے ہیں، امید ہے مجھے تشفی بخش جواب ملے گا :happy:
 

محمد امین

لائبریرین
وارث بھائی یہ اچھی بات نہیں ہے، شکریہ ادا فرما کر چلے گئے آپ ،میرے اعتراضات پر کوئی جواب نہیں دیا آپ نے۔۔۔؟
 

محمد نعمان

محفلین
بہت سکریہ امین بھائی۔
اچھا نکتہ اٹھایا ہے آپ نے۔۔۔
ویسے آجکل وارث بھائی آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
امین میاں ، اب جبکہ تم یہاں فعال نہیں ہو بہر حال ، شام پڑنا محاورتاً باندھا گیا، ۔ دوسری نہیں بتاؤں گا ، کہ شعر کہنے اور سمجھنے میں بڑا فرق ہے ۔ اب اگر محسوس کرنے کی بجائے قیمہ کرنے بیٹھو گے تو شعر کیا شعر کی ش بھی ’’ پلے ّ نہیں پڑے گی ‘‘÷÷ آج یوں ہی بدبداتا ہوں بارش کے بعد یہ لڑی دیکھنے چلا آیا۔ بہرحال ایک بار پھر شکریہ خوش رہو ، خوب غزل پیش کی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
’شام پڑے‘ ہندی محاورہ ہے، وہ تو درست ہے۔ البتہ یہ شاعر کی مرضی کہ وہ دیپ بجھا کر سونا چاہتا ہے یا دیپ جلا کر!!
 
Top