داغ داغ اُس بزم میں مہمان کہاں جاتا ہے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

داغ اُس بزم میں مہمان کہاں جاتا ہے
تیرا اللہ نگہبان ، کہاں جاتا ہے

غیر کا شکوہ بھی ہوتا ہے تو کس لطف کے ساتھ
اُن سے تعریف کا عنوان کہاں جاتا ہے

وہ بھی دن یاد ہیں یہ کہہ کے مناتے تھے مجھے
آ اِدھر میں ترے قربان، کہاں جاتا ہے

باغ فردوس میں حوروں نے بھی دل لوٹ لیا
جو ہے تقدیر کا نقصان کہاں جاتا ہے

پاؤں سے میرے بیابان کہاں چھٹتا ہے
ہاتھ سے میرے گریبان کہاں جاتا ہے

غیر جاتا تھا وہاں میں نے یہ کہہ کر روکا
تجھ سے کچھ جان نہ پہچان کہاں جاتا ہے

درِ فردوس سے ممکن ہے کہ دربان ٹل جائے
اُس کے دروازے سے دربان کہاں جاتا ہے

ہجر کے دن کی مصیبت تو گزر جائے گی
وصل کی رات کا احسان کہاں جاتا ہے

روٹھ کر بزم سے اُٹھا تو نہ روکا مجھ کو
نہ کہا اُس نے، کہا مان ، کہاں جاتا ہے

بند کرتے ہو جو ہاتھوں سے تم آنکھیں میری
کیا کہوں میں کہ مِرا دھیان کہاں جاتا ہے

بزم سے آنکھ چرا کر جو چلا میں تو کہا
ٹھہر ، او چور، بد اوسان، کہاں جاتا ہے

آرزو وصل کی ہوتی ہے سَوا بعد وصال
جان جاتی ہے یہ ارمان کہاں جاتا ہے

داغ تم نے تو بڑی دھوم سے کی تیاری
آج یہ عید کا سامان کہاں جاتا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! کیا ہی خوبصورت غزل ہے۔ ایک ایک شعر پر گھنٹوں داد دی جا سکتی ہے۔ بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ اس غزل میں آپ نے سَوا کو سِوا لکھا ہے جبکہ لفظ سَوا ہے۔ جیسے محاورہ ہے "سیر کو سَوا سیر" یعنی سیر سے کچھ اوپر ۔ میں بھی بہت عرصے تک اسے سِوا ہی سمجھتا رہا لیکن یہ سَوا ہی ہے۔
 

کاشفی

محفلین
واہ واہ! کیا ہی خوبصورت غزل ہے۔ ایک ایک شعر پر گھنٹوں داد دی جا سکتی ہے۔ بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ اس غزل میں آپ نے سَوا کو سِوا لکھا ہے جبکہ لفظ سَوا ہے۔ جیسے محاورہ ہے "سیر کو سَوا سیر" یعنی سیر سے کچھ اوپر ۔ میں بھی بہت عرصے تک اسے سِوا ہی سمجھتا رہا لیکن یہ سَوا ہی ہے۔

شکریہ بہت بہت سخنور صاحب!
 
Top